سائنس کیا ہے؟ ایک گھڑی میں سارا جہاں

سائنس کیا ہے؟ ایک گھڑی میں سارا جہاں

سید عبدالوہاب شیرازی

کچھ دن فیس بک پر ایک پوسٹ کی تھی جس میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ سائنس اتنی پروفیکٹ نہیں کہ اس پر ایمان لایا جائے، پروفیکٹ صرف اللہ کی ذات اور اللہ کا کلام وحی ہے، لہذا ایمان صرف اسی پر ہونا چاہیے، چونکہ فیس بک پر ہر قسم کے للو پنجو ہوتے ہیں، ان کے لیے اتنی سادہ سی اور مختصر سی بات کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے،اس لیے  انہوں نے طرح طرح کے کمنٹ کرنا شروع کردیے کہ مولوی نے ٹوپی بھی ایجاد نہیں کی وغیرہ وغیرہ۔

یہ الگ موضوع ہے کہ مولوی نے کیا ایجاد کیا اور کیا ایجاد نہیں کیا، آج کی اس تحریر میں ، اس پوسٹ کو ذرا وضاحت کے ساتھ پیش کروں گا تاکہ آپ کو بات سمجھنے میں آسانی ہو۔ البتہ چلتے چلتے اتنا جان لیں کہ مولوی اور مدرسہ کا موضوع چیزیں ایجاد کرنا نہیں، ان کا موضوع مذہب اور دین ہے اور وہ الحمدللہ اتنی خوبی سے یہ کام سرانجام دے رہے ہیں کہ  دنیا بھر کے سو سے زائد ممالک کے سٹوڈنٹ مذہب اور دین سیکھنے لندن یا امریکا نہیں بلکہ پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ جبکہ جن کا کام سائنس، انجینئرنگ، وغیرہ سکھانا تھا ان کی کسی یونیورسٹی کا نام دنیا کی پہلی پانچ سو یونیورسٹیز میں نہیں آتا اور مجبورا پاکستانی سٹوڈنٹس کوچین، لندن اور امریکا جا کرتعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے۔ جبکہ چین،لندن امریکا کے سٹوڈنٹس دین و مذہب سیکھنے پاکستانی مدرسوں کا رخ کرتے ہیں۔ خیر یہ الگ موضوع ہے اس کو چھوڑیں۔

سائنس کیا ہے اور کتنی پروفیکٹ ہے؟

جس نے گھڑی بنائی اس نے دن اور رات کے وقت کو ظاہر کرنے کے لیے پہلے کچھ قوانین اور اصول بنائے اور ان کو لکھ دیا۔ مثلا فلاں سوئی اتنی رفتار سے چل کر اپنا چکر مکمل کرے اور فلاں سوئی اتنی رفتار سے چل کر اپنا چکر مکمل کرے۔ پھر ان قوانین کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سویاں بنائیں، کچھ گراریاں بنائیں اور ان گراریوں کو چلانے کے لیے  بیٹری کا نظام لگایا۔ اس طرح وقت بتانے کا ایک آلہ تیار ہوگیا۔ پھر پتا چلا اسے مٹی اور پانی سے بچانا ضروری ہے تو فریم اور شیشہ لگادیا گیا۔

آپ یہ تصور کریں کہ کچھ چھوٹے بچوں کو ایک جنگل میں بند کردیا جائے ، اور وہ بچے اسی جنگل میں کئی سال گزار کر بڑے ہو جائیں اور باہر کی دنیا کے بارے انہیں کچھ علم نہ ہو، پھر آپ ایک گھڑی اس جنگل  میں  پھینک دیں، تو وہ نوجوان اس گھڑی کو دیکھ کر بہت حیران ہوں گے کہ آخر یہ چیز ہے کیا؟ وہ اسے روزانہ الٹیں پلٹیں گے، غور و فکر کریں گے، اور کئی مہینے کے غور و فکر کے بعد ان کو اتنی سی بات شاید سمجھ آئے گی کے کہ اس کے پیچھے جو سوراخ بنا ہوا ہےیہ لٹکانے کے لیے ہے، چنانچہ وہ ایک لکڑی لے کر دیوار میں ٹھونکیں گے اور اسے لٹکا دیں گے۔اب گھڑی ان کے سامنے ہوگی اور وہ اسے روزانہ دیکھیں گے اور غور کرتے رہیں گے۔ پھر کئی مہینے کے غور و فکر کے بعد ان کو ایک اور بات سمجھ آئے گی کہ کل ہم نے دیکھا تھا اس کی یہ والی سوئی اس وقت اس جگہ پر تھی ، پرسوں بھی اسی وقت اسی جگہ پر تھی اور آج بھی اسی وقت اسی جگہ پر ہے بلکہ روزانہ اسی وقت اسی جگہ پر ہوتی ہے۔ اس طرح آہستہ آہستہ کئی سالوں کے بعد ان کو اس کا ٹائم سمجھ آجائے گا۔چنانچہ جو مشاہدہ انہوں نے کیا وہ اسے لکھ کر اگلی نسل کے لیے محفوظ کر لیں گے، پھر ان کی اگلی نسل ان کی تحریروں کو پڑھ کر غور کرے گی اور تجربہ کرے گی کہ واقعی ایسا ہی ہے یا نہیں، تو کئی باتیں درست اور کچھ باتیں غلط ثابت ہوں گیں۔پھر یہ نسل اپنی تحقیق کو آگے بڑھائے گی اور اگلی نسلوں تک منتقل کرے گی۔ اس طرح کرتے کرتے ایک وقت ایسا آئے گا کہ وہ گھڑی جن قوانین میں بندھی ہوئی ہے وہ سارے قوانین دریافت ہو جائیں گے۔

بالکل ایسے ہی یہ ساری کائنات کچھ قوانین میں بندھی ہوئی ہے، انسانوں نے ہزاروں سال پہلےغور وفکر کرنا شروع کیاکسی نے آسمانوں میں غوروفکر شروع کیا، کسی نے زمین میں اور کسی نے انسانی جسم میں۔ جس سے تین علوم فزکس ، کیمسٹری، بیالوجی وجود میں آئے۔ ہرمحقق اپنی تحقیق کو لکھ کر چلا جاتا، آنے والے غور کرتے کچھ باتیں درست اور کچھ غلط ثابت ہوتیں۔

سائنس دراصل قوانین الہی کی کھوج لگانے کا نام ہے، جہاں جہاں کھوج مکمل ہوئی اتنی سائنس پروفیکٹ ہو گئی اور جہاں ابھی  کھوج جاری ہے وہ پروفیکٹ نہیں ہے۔جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے بتایا وہ پروفیکٹ ہے اس پر ایمان لانا بھی ضروری ہے، اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ پروفیکٹ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ہوسکتا ہے اگلے چند سال بعد سابقہ تحقیق بدل جائے۔

کھوج اور تحقیق ہزاروں سالوں سے جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔ جو جس شعبے سے تعلق رکھتا ہے وہ اسی شعبے میں اپنی زندگی کی ساری صلاحیت لگا تا ہے۔ کسی نے سر سے اوپر کی کائنات پر غور کیا، تو کسی نے پاوں کے نیچے کی کائنات میں غور کیا۔ کوئی اپنے اندر غور کررہا ہے اور کوئی اپنے ارد گرد غور کررہا ہے۔ یہ غور وفکر کرنا وہ عظیم الشان کام ہے جس کا حکم قرآن میں بار بار دیا گیا ہے، لیکن قرآن اس غور وفکر کرنے کی وجہ بھی بتاتا ہے کہ ہم غوروفکر کرکے اس رب کو پہچانیں جس نے یہ ساری کائنات بنائی، جب ہمیں اس رب کی پہچان ہو جائے تو اس کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے وظیفہ عبدیت بجا لائیں، اور اپنی زندگی کا ہرلمحہ اسی رب کی مرضی کے مطابق گزاریں۔ جب تک ہم اس کائنات میں غور وفکر نہیں کریں گے اس وقت تک ہمیں رب کی کبریائی کا علم نہیں ہوسکتا۔ ہم نے غور وفکر کرتے ہوئے اپنی دونوں آنکھیں کھلی رکھنی ہیں، ظاہر کی آنکھ بھی اور باطن کی آنکھ بھی۔ظاہر کی آنکھ ہمیں ظاہر کی عظمت دکھاتی ہے اور باطن کی آنکھ ہمیں باطن اور پوشیدہ کی عظمت بتاتی ہے۔ آج دنیا میں مسئلہ یہ ہے کہ عظیم سائنسدان صرف ایک آنکھ سے دیکھ رہے ہیں، وہ کائنات کے رازوں سے واقف ہو کر کائنات کی وسعت و عظمت کو دیکھ اور سمجھ رہے ہیں لیکن ان کی دوسری آنکھ بند ہے ، ایک مسلمان سائنسدان کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ اس کی دونوں آنکھیں کھلی ہوتی ہیں اور وہ اللہ کی عظمت کو اتنا بہتر جانتا ہے کہ کوئی عام عالم دین اللہ کی عظمت کو اتنا نہیں جان سکتا۔ کیونکہ عام مسلمان اور عام عالم دین کا ایمان سارا کا سار ا ایمان بالغیب ہوتا ہے، جبکہ مسلمان سائنسدان اللہ کی قدرت اور عظمت کے ان رازوں سے واقف ہوتا ہے جن سے ایک عام مسلمان یا عالم دین واقف نہیں ہوتا۔

جس طرح ایک سائنسدان کسی چیز پر تحقیق کرتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ تحقیق کے نتائج میں تبدیلی آتی رہتی ہے، چنانچہ  اس تبدیلی کی تعریف ہی کی جاتی ہے خاص طور پر جب سائنس کا پہلے کسی مسئلے میں ایک موقف ہوتا ہے پھر چند سال بعد پتا چلتا ہے کہ وہ نظریہ غلط تھا اب تحقیق سے پتا چلا کہ یہ بات ایسے نہیں بلکہ ایسے ہے تو ہر ایک اس کی داد سائنس دانوں کو دیتا ہے کہ یہ کبھی بھی بغیر تحقیق کے اور بغیر دلیل کے بات نہیں کرتے۔

ولاکن!  یہی کام بچارا مولوی کرے تو اسے طعنے دیے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر جب اسپیکر ایجاد ہوا تو شروع میں علماء نے یہ فتوی دیا کہ سپیکر میں نماز پڑھانے سے امام اور اس کے قریب کھڑے چند نمازیوں کی نماز تو ہوجاتی ہے لیکن دور کھڑے وہ نماز جن تک امام کی اپنی آواز نہیں پہنچتی بلکہ صرف اسپیکر کی آواز پہنچتی ہے وہ اگر اسپیکر کی آواز پر اوپر نیچے ہوں گے تو ان کی نماز نہیں ہوگی، لہذا نماز میں اسپیکر کو استعمال نہیں کرنا چاہیے ۔

کیونکہ شریعت کا اصولی مسئلہ ہے کہ نمازی اگر نماز سے باہر کسی اور سے لقمہ لے کر حرکت کرے تو اس کی نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ مثلا امام نے کوئی آیت غلط پڑھی تو اگر کسی نمازی نے لقمہ دیا اور امام نے اس کا لقمہ لے کر آیت درست کی تو نماز ہو جاتی ہے لیکن اگر کوئی ایسا شخص لقمہ دے جو نماز میں شریک نہیں بلکہ پیچے ویسے ہی کھڑا یا بیٹھا ہے تو امام اگر اس کے لقمے کو لے گا تو نماز ٹوٹ جائے گی۔ یا مثلا مقتدی امام کے اللہ اکبر کہنے پر اوپر نیچے ہو تو ٹھیک ہے لیکن اگر نماز سے باہر کسی نے اللہ اکبر کہا اور مقتدی اس کی آواز پر اوپر نیچے ہوا تو نماز ٹوٹ جائے گی۔

 چنانچہ آج سے سو ڈیڑھ سو سال پہلے جب اسپیکر ایجاد ہوا اس وقت یہی خیال تھا کہ سپیکر خود بولتا ہے لہذا اسپیکر کی آواز پر کوئی نمازی اوپر نیچے ہوگا تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ لیکن علماء نے تحقیق جاری رکھی اور چند ہی مہینوں بعد پتا چلا کہ اسپیکر خود نہیں بولتا بلکہ امام کی آواز کو اونچا کر دیتا ہے ، جب یہ بات دلیل سے ثابت ہوگئی تو علماء نے بھی اپنا پچھلا فتوی منسوخ کردیااور اسپیکر پر نماز کو جائز قرار دے دیا۔

اب یہ بات ڈیڑھ سو سال پرانی ہے لیکن لبڑل ابھی تک یہی طعنہ دیتے ہیں، اس سے ایک اور بات یہ بھی ثابت ہوتی ہے کہ پچھلے ڈیڑھ سوسال میں یہی ایک مسئلہ ایسا ہے جس پر انگلی اٹھائی جاتی ہے باقی الحمدللہ سب ٹھیک جارہا ہے۔جبکہ سائنس کی تحقیقات روز روز بدلتی ہیں کوئی سائنسدانوں کو طعنہ نہیں دیتا کہ یہ تو وہی ہیں جنہوں نے پہلے یہ کہا تھا اور اب یہ کہا جارہا ہے۔

Leave a ReplyCancel reply

Discover more from Nukta Guidance Articles

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Exit mobile version