ٹک ٹاک TikTok

ٹک ٹاک TikTok کا تعارف

(سید عبدالوہاب شاہ )

ٹک ٹاک TikTok  چند سال پہلے چائنہ سے شروع ہونے والی ایک ایسی ایپ ہے جس نے صرف پانچ سال کے عرصے میں اربوں انسانوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے۔

نکتہ سید عبدالوہاب شیرازی

2022 وہ سال ہے جب ڈیجیٹل دنیا پر راج کرنے والی کمپنیوں جیسے گوگل، یوٹیوب، فیس بک کو بھی ٹک ٹاک سے خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

Contents

ٹک ٹاک کا تعارف

ٹک ٹاک کیا ہے؟. 

ٹک ٹاک کے موضوعات

ٹک ٹاک کا آغاز. 

ٹک ٹاک مارکیٹنگ

ٹک ٹاک کا ذریعہ آمدن

ٹک ٹاک کے منفی اور خطرناک پہلو

ٹک ٹاک اور سیاست

ٹک ٹاک اور امریکا 

ٹک ٹاک TikTok کیا ہے؟

ٹک ٹاک TikTok سوشل میڈیا ایپ ہے جس میں لوگ اپنی پندرہ سیکنڈ کی ویڈیوز بناتے اور شیئر کرتے ہیں،  اس ایپ پر ویڈیو ، ساونڈ، ایفکٹ ایڈیٹنگ سمیت تمام ضروری ٹولز دستیاب ہیں، جنہیں ہر کوئی بڑی آسانی سے استعمال کر سکتا ہے۔ یہ نشہ آور ایپ اس وقت دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

ٹک ٹاک TikTok کو 2016 میں چینی ٹیکنالوجی کمپنی بائٹ ڈانس نے لانچ کیا تھا۔ اس وقت دنیا کے مختلف ممالک خاص طور پر  بیجنگ، لاس اینجلس، ماسکو، ممبئی، سیول اور ٹوکیو میں ٹک ٹاک کے دفاتر ہیں۔ ٹک ٹاک دنیا کی 16 زبانوں میں دستیاب ہے۔

امریکا میں سیاسی دباو اور پابندیوں کے باجود یہ ایپ مسلسل مقبول ہوتی جارہی ہے۔

ٹک ٹاک TikTok کے موضوعات

شروع شروع میں صرف ڈانس، میوزک  اور مزاح کے مقاصد کے لیے اس کا استعمال ہوتا رہا،اور یہی چیزیں  ٹک ٹاک کی شہرت کی وجہ بنیں۔ لیکن اب ٹک ٹاک پر ہر قسم کے موضوعات پر ویڈیوز بن رہی ہیں، مثلا کھانے بنانا، وی لاگ، ٹریولنگ، ٹیکنیکل مہارتیں،معلوماتی اور تعلیمی ، اپنے کاروبار کی تشہیر وغیرہ۔

ٹک ٹاک بہت تیزی کے ساتھ دنیا کے بڑے سوشل میڈیا پلیت فارمز کی لسٹ میں شامل ہو گیا ہے اور اب تک اس کے ماہانہ تین ارب صارفین ہیں۔

ٹک ٹاک مختلف وجوہات کی بنا پر دنیا کے بعض ممالک میں پابندیوں کا شکار بھی رہا، اور اس وقت بھی کئی ممالک میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد ہے۔

ٹک ٹاک TikTok کا آغاز

ستمبر 2016 میں چینی اسٹارٹ اپ کمپنی ByteDance نے ٹک ٹاک کا آغاز کیا، اس وقت اس کا نام Douyin تھا۔ ٹک ٹاک کو عروج سن 2017 میں اس وقت ملا  جب ٹک ٹاک  نے ایک حریف ایپ Musical.ly کو خرید لیا۔ اس وقت ٹک ٹاک کی مالیت ١٥٠ ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔

ٹک ٹاک TikTok مارکیٹنگ

پہلے ٹک ٹاک صرف تفریحی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی تھی، لیکن اب اس کی مقبولیت، اربوں صارفین، اور کثرت استعمال کی وجہ سے مارکیٹنگ ٹول کے طور پر بھی اس کا استعمال شروع ہو چکا ہے۔

 اس پلیٹ فارم کا فارمیٹ تفریحی اور مزاح پر مبنی ہے،  اس لیے یہاں مارکیٹنگ بھی اسی انداز سے کی جاتی ہے۔

چنانچہ ایک چینی ریسٹورینٹ نے اپنی تشہیری مہم میں صارفین کو کوپن دینے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ چھٹی والے دن تیار ہو کر اپنی اپنی تصاویر پوسٹ کریں۔ اس کے جواب میں چار ارب تصاویر پوسٹ کی گئیں۔ اسی طرح کاسمیٹکس سمیت کئی دوسری کمپنیوں نے اسی طرح کی تشہیری مہمات میں بہت کامیابی حاصل کی۔

ٹک ٹاک TikTok کا ذریعہ آمدن

دوسری سوشل میڈیا ایپس کی طرح ٹک ٹاک بھی صارفین سے اندرون ایپ پیسہ کماتی ہے۔  جس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ایپ سکے فروخت کرتی ہے جنہیں لوگ خرید کر اپنے پسندیدہ کرداروں کو ٹپ  دیتے ہیں۔

کمپنی نے 2019 میں 80 ملین ڈالر کمائے۔یہ رقم 2021 میں 2.3 بلین ڈالر کو پہنچ گئی۔ اسی طرح ٹک ٹاک پر ڈسپلے اشتہارات بھی چلتے ہیں جس سے بہت بڑی آمدن ہوتی ہے۔

ٹک ٹاک ایپ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر میں 900 سے زیادہ ایپس اسی طرز کی لانچ کی گئیں، لیکن اتنی کامیابی کسی کو نہیں حاصل ہو سکی۔

ٹک ٹاک کے منفی اور خطرناک پہلو

ٹک ٹاک TikTok صرف تفریحی ایپ نہیں بلکہ اس کے بے شمار ایسی منفی پہلو بھی ہیں، جنہوں نے دنیا کے بھر کے معاشرے میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ ٹک ٹاک  دنیا کی تہذیب و تمدن میں بگاڑ کی وجہ بن رہی ہے۔ یہاں فحاشی عریانی، بیہودگی بہت عام ہے۔

ٹک ٹاک TikTok نے نوجوانوں خاص طور پر صنف نازک اور شرم و حیا کا پیکر عورت کو بے شرم بنا دیا ہے۔

ٹک ٹاک کی خطرناک بات یہ ہے کہ اس کے صارفین میں 45 فیصد لڑکے اور لڑکیاںاٹھارہ  سے چوبیس  سال کے ہیں۔

ٹک ٹاک TikTok کے صارفین میں 56فیصد خواتین ہیں۔

اس کے صارفین ٹک ٹاک پر اوسطا ایک گھنٹہ روزانہ خرچ کرتے ہیں۔

ٹک ٹاک اور سیاست

دوسری سوشل میڈیا ایپس کی طرح ٹک ٹاک کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے بھی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک میں  اس پر پابندی بھی لگتی رہی ہے۔

اسلامی ممالک خاص طور پر پاکستان، بنگلا دیش میں بھی اس ایپ پر فحاشی عریانی، بیہودگی، آوارگی، اور توہین مذہب، توہین اسلام مواد کی وجہ سے پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔

ٹک ٹاک کو امریکا میں بچوں سے ذاتی معلومات اکھٹی کرنے کی وجہ سے ٥.٧ ملین ڈالر کا جرمانہ بھی وصول کیا گیا ہے۔

ٹک ٹاک اور امریکا

ٹرمپ دور حکومت میں ٹک ٹاک کے خلاف سخت موقف اپنائے رکھا اور اسے ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا، چنانچہ اس بات کی کوشش کی جاتی رہی کہ ٹک ٹاک کو خرید کر ایک امریکی کمپنی بنا دیا جائے، لیکن امریکا اس میں کامیاب نہیں ہوسکا۔

یہ سب کچھ اس لیے کیا جارہا تھا کہ  امریکا نہیں چاہتا کسی اور ملک کی کوئی کمپنی اتنی بڑی بن جائے  ، امریکا ہر بڑی چیز کو اپنی ملکیت میں رکھ کر دنیا پر اپنی حکمرانی اور دبار جاری رکھنا چاہتا ہے۔

اسی مقصد کے لیے ٹک ٹاک پر اتنا دباو بڑھایا گیا کہ ٹک ٹاک نے ایک نئی کمپنی ٹک ٹاک گلوبل کی بنیاد رکھی، اس کمپنی کے 80 فیصد شیئر ٹک ٹاک کے پاس ہی ہوں گے اور ٢٠فیصد شیئر امریکی کمپنی اوریکل اور وال مارٹ کے پاس ہوں گے۔ یہ معاہدہ تو طے پایا لیکن ابھی تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔

Related posts

Leave a ReplyCancel reply