چین کا خلا میں سولر پاور اسٹیشن

چین کا خلا میں سولر پاور اسٹیشن solar power station in space

چین کا خلا میں سولر پاور اسٹیشن

جدید دنیا میں توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات اور ماحولیات پر اس کے اثرات نے ترقی یافتہ اقوام کو متبادل اور پائیدار ذرائع تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ توانائی کے شعبے میں جدت اور سائنس کی مدد سے نئے امکانات پیدا ہو رہے ہیں، جو نہ صرف دنیا کی ضروریات کو پورا کریں گے بلکہ ماحول پر کم سے کم منفی اثر ڈالیں گے۔ اس دوڑ میں چین نے ایک ایسا انقلابی قدم اٹھایا ہے جو انسانی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ خلا میں سولر پاور اسٹیشن بنانے کا منصوبہ نہ صرف ایک تکنیکی معجزہ ہے بلکہ یہ توانائی کی پیداوار کے روایتی ذرائع کو پیچھے چھوڑنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ یہ منصوبہ اس بات کی علامت ہے کہ چین نہ صرف زمینی سطح پر بلکہ خلا میں بھی اپنی برتری قائم کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔

چین کا خلا میں سولر پاور اسٹیشن solar power station in space 2 1
چین کا خلا میں سولر پاور اسٹیشن solar power station in space

اس منفرد تصور کو “خلا کا Manhattan Project” کہا جا رہا ہے، جو اشارہ دیتا ہے کہ یہ منصوبہ اتنا ہی انقلابی اور تاریخی ہوگا جتنا کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران امریکہ کا ایٹم بم بنانے کا خفیہ منصوبہ تھا۔ آئیے، اس شاندار منصوبے کی تفصیلات اور اس کے ممکنہ اثرات پر غور کرتے ہیں۔ چین کا خلا میں سولر پاور اسٹیشن بنانے کا منصوبہ واقعی ایک تاریخی اور محیرالعقول قدم ہے، جو نہ صرف سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک نئی جہت پیش کرے گا بلکہ دنیا کے توانائی کے نظام کو بھی یکسر بدل سکتا ہے۔

اس منصوبے کی نمایاں خصوصیات:

خلائی مقام اور طول و عرض:

یہ سولر پاور اسٹیشن زمین سے 36,000 کلومیٹر کی بلندی پر قائم کیا جائے گا۔ اس کی لمبائی ایک کلومیٹر ہو گی، جو اسے ایک بے مثال انفراسٹرکچر بناتی ہے۔

مسلسل توانائی پیداوار:

اسٹیشن 24 گھنٹے سورج کی توانائی کو جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دن یا رات کی تبدیلیوں سے اس کی کارکردگی متاثر نہیں ہو گی، کیونکہ خلا میں سورج کی روشنی مسلسل دستیاب ہوتی ہے۔

توانائی کی منتقلی:

اسٹیشن میں جمع کی گئی توانائی کو مائیکروویو میں تبدیل کر کے زمین پر منتقل کیا جائے گا۔ یہ عمل توانائی کی ترسیل کو نہایت موثر اور محفوظ بناتا ہے۔

چین کا خلا میں سولر پاور اسٹیشن solar power station in space 3 2
چین کا خلا میں سولر پاور اسٹیشن solar power station in space

پیداوار کی صلاحیت:

اسٹیشن سالانہ 100 بلین KWh بجلی پیدا کرے گا، جو دنیا میں پٹرول اور ڈیزل سے پیدا ہونے والی توانائی کے برابر ہے۔ اس کا موازنہ Three Gorges Dam سے کیا جا رہا ہے، جو 95 TWh بجلی پیدا کرتا ہے اور دنیا کا سب سے بڑا آبی ڈیم ہے۔

تکنیکی خود کفالت:

اس منصوبے کے تمام پرزے چین میں تیار کیے گئے ہیں۔ ان پرزوں کو راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجا جائے گا، جہاں سائنسدان اور ماہرین انہیں ایک اسٹیشن کی شکل میں جوڑیں گے۔

ممکنہ اثرات:

یہ منصوبہ توانائی کے دیگر ذرائع، جیسے آبی ڈیمز، تھرمل پاور پلانٹس، اور ایندھن پر مبنی نظام، کو غیر اہم بنا سکتا ہے۔ ماحول دوست اور مسلسل توانائی کا یہ ذریعہ کاربن کے اخراج کو کم کرنے میں معاون ہو گا۔ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک مثال قائم کرے گا کہ وہ بھی خلا کی وسیع صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں۔

چینی سائنسدانوں کی کامیابی:

چین کے سائنسدانوں نے اس منصوبے کو “خلائی Three Gorges Dam” قرار دیا ہے، جو نہ صرف ان کی تکنیکی مہارت بلکہ ان کے قومی عزم کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی دنیا کو چین کی سائنسی برتری اور توانائی کے شعبے میں ان کے غیر معمولی اقدامات کا اعتراف کرنے پر مجبور کرے گی۔

یہ منصوبہ واضح کرتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی ترجیحات میں توانائی، سائنس، اور ماحولیات کو اولین حیثیت دیتے ہیں۔ یہ انسانی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہو سکتا ہے۔

چین کا خلا میں سولر پاور اسٹیشن solar power station in space 1 3
چین کا خلا میں سولر پاور اسٹیشن solar power station in space
اس پروگرام کا مقصد خلا سے براہ راست شمسی توانائی حاصل کر کے زمین پر منتقل کرنا ہے، تاکہ توانائی کا ایک مستقل اور پائیدار ذریعہ فراہم کیا جا سکے اور عالمی سطح پر صاف توانائی کے حصول میں مدد ملے۔
چائنیز اکیڈمی آف اسپیس ٹیکنالوجی نے اس منصوبے کے لیے ایک مرحلہ وار حکمت عملی مرتب کی ہے۔ اس منصوبے کے تحت 2028 میں ایک سیٹلائٹ کو لو ارتھ آربٹ میں لانچ کیا جائے گا تاکہ ہائی وولٹیج پاور ٹرانسمیشن اور وائرلیس توانائی کی منتقلی کے تجربات کیے جا سکیں۔ 2030 میں جیو اسٹیشنری آربٹ میں ایک سیٹلائٹ بھیجا جائے گا تاکہ ان ٹیکنالوجیز کا مزید مظاہرہ کیا جا سکے۔ 2035 تک ایک میگاواٹ سطح کا خلا میں شمسی توانائی پیدا کرنے والا اسٹیشن تعمیر کیا جائے گا، اور صدی کے وسط تک اس کو گیگاواٹ سطح کی سہولت تک بڑھایا جائے گا۔
اس نظام کے تحت سیٹلائٹس بڑے شمسی پینلز سے لیس ہوں گے، جو شمسی توانائی کو حاصل کر کے مائیکرو ویوز یا لیزرز میں تبدیل کریں گے اور پھر اس توانائی کو زمین پر موجود اسٹیشنز تک منتقل کریں گے۔ یہ طریقہ زمینی شمسی توانائی کے مقابلے میں زیادہ فوائد فراہم کرتا ہے، کیونکہ یہ موسم اور زمین کی گردش سے متاثر ہوئے بغیر مسلسل توانائی پیدا کر سکتا ہے۔
چین کا تیانگونگ اسپیس اسٹیشن اس منصوبے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اسٹیشن کے روبوٹک بازو شمسی توانائی کے ماڈیولز کو خلا میں جوڑنے کی تکنیکوں کی جانچ کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں، جو اس نظام کے لیے ضروری بڑے ڈھانچوں کی تعمیر کو آسان بناتے ہیں۔
یہ منصوبہ چین کی 2030 تک کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور 2060 تک کاربن نیوٹرلٹی کے حصول کی وابستگی کے مطابق ہے۔ SBSP ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے ذریعے چین اپنے مستقبل کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک پائیدار اور صاف توانائی کا ذریعہ حاصل کرنا چاہتا ہے، اور فوسل فیولز پر انحصار کم کرنا چاہتا ہے۔
اگرچہ اس منصوبے میں ابھی بھی کئی چیلنجز موجود ہیں، جیسے خلا میں لانچ کے اخراجات اور توانائی کی منتقلی کی کارکردگی، لیکن چین کی منظم حکمت عملی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ ان رکاوٹوں کو عبور کرنے اور خلا میں شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی کو آگے بڑھانے کے لیے پُرعزم ہے۔

Related posts

Leave a Reply