جنگلی زیتون
( Rassion Olive )
اس پودے کو اردو میں سینزلہ ، عتمہ ، جنگلی زیتون ، خونہ، تنگ برگہ اور کہو کہتے ہیں جبکہ انگریزی میں Rassion Olive شینا میں گونیر اور بلتی زبان میں سرسینگ کہتے ہیں
اس پودے کا سائنسی نام Elaeagnus angustifolia ہے
یہ سب سے زیادہ پانی برداشت کرنے والہ واحد پودا ہے، جس علاقے میں پانی کی قلت زیادہ ہو وہاں اناب کاشت کریں۔
طبی فوائد
اس پودے کی افادیت بہت زیادہ ہیں، یہ پودا نزلہ زکام بخار کھانسی متلی اسہال اور جوڑوں کی درد کے لئے مفید ہوتے ہیں، یہ ایک اینٹی السر دوا ہے، یہ زخم کو مندل کرتے ہیں، یہ گیسٹرک کو ٹھیک کرتا ہے، یہ قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے، یہ گردے کی پتھری اور تکلیف وغیرہ کو درست کرتا ہے، یہ کچا حالت میں بچوں کی خونی پیچس کو ٹھیک کرتا ہے، اس پودے کا پھول سانس کی تکلیف کو ختم کر تا ہے، اس پودے کا پھل کھا نے سے کینسر نہیں ہو تا ہے، اس پودے کا تیل گردے کی کینسر کو ٹھیک کرتا ہے، اس پودے کے جڑ کا چھلکا ابال کر پینے سے جسم کے اندر سوئی کیل وغیرہ کو ختم کرتے ہیں، اس پودے کا عطر اور شہد بہت مفید اور قیمتی ہیں، اس پودے کی پتے میں نمکیات اور وٹامنز کافی مقدار میں موجود ہیں مال مویشیوں کے لئے بہترین چارہ ہیں، اس پودے کے پتے کا چائے بھی بہت مفید ہے، اس پودے کی لکڑی فنچر بنا نے کے لئے بہترین لکڑی ہیں
اس پودے کے پتوں کی چائے بنتی ہے اگر اس پودے کے پتوں کی چائے پراسیسنگ فیکٹری میں بھوننے کے لئے دی جائے تو گلگت بلتستان کی معیشت اور لوگوں کی صحت بہت بہتری آسکتی ہے۔
جنگلی زتیون کیا ہے؟
جنگلی زیتون کا درخت خونہ کہلاتا ہے، جس کو خیبر پختونخوا کے اکثریتی علاقوں میں خونہ، جنوبی اضلاع میں خن، پنجاب اور کشمیر میں کہو اور بلوچستان میں ہث یا حث کہا جاتا ہے۔
پاکستان کے چاروں صوبوں میں کئی گاؤں اور دیہات ایسے پائے جاتے ہیں جن کے نام ہی کہو کے نام پر ہیں جیسے کہو دی قلعہ، کہو دا بانڈہ ہیں۔ اسی طرح ایبٹ آباد کے علاقے بکوٹ میں مشہور گاؤں کہو شرقی، مری سے اسلام آباد کے راستے پر آباد بہارہ کہو بھی اسی درخت کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ان جگہوں کے یہ نام کہو کے بہت زیادہ درختوں کی وجہ سے رکھے گئے۔ زرعی تحقیقاتی مرکز ترناب فارم پشاور کے تحقیقاتی افسر اور صوبہ خیبر پختونخوا میں زیتون کے پراجیکٹ انچارج احمد سید کے مطابق زتیون کے مختلف اقسام کے درخت ہیں جن میں سے ایک قسم جنگلی زیتون کی ہے۔ جنگلی زیتون پاکستان کا مقامی اور خوردرو درخت ہے۔
یہ ملک کے چاروں صوبوں، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں بڑی تعداد میں پایا جاتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں یہ بکثرت موجود ہے۔ جس کا ہر علاقے میں الگ مقامی نام ہے۔ جنگلی زیتون کی جڑ اور لکڑی بڑی مضبوط ہوتی ہے اور یہ پاکستان کے ماحولیاتی نظام سے مکمل موافقت رکھتا ہے۔
جنگلی زیتون میں اصلی زیتون کی پیوند کاری اور ڈرافٹنگ کی جاتی ہے جس سے اس کا زیادہ پھل حاصل کیا جاتا ہے۔ دیر کے جنگلات میں جنگلی زیتون کے لاکھوں درخت لگے ہوئے ہیں جن کو مقامی لوگوں نے پیوند کاری کے ذریعے کار آمد بنا کر سالانہ دس سے بیس لاکھ کمائی شروع کردی ہے۔
زیتون کے درخت کی عمر لگ بھگ ایک ہزار سال سے زائد بھی ہو سکتی ہے۔ ایک محتاط انداز کے مطابق پاکستان کے مختلف علاقوں میں ایسے درختوں کی تعداد آٹھ کروڑ سے زائد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے وطن کو اللہ نے ایک بہت بڑے خزانے سے نواز دیا ہے لیکن ہماری توجہ اس کی طرف نہیں ہے۔
کہو یا خونہ دراصل جنگلی زیتون ہے، آم کے پودے کی طرح گرافٹنگ یا قلم لگائے بغیر اس سے بھرپور فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا لیکن پاکستان کے مختلف حصوں کے ذہین اور روشن خیال کاشت کاروں نے اس جنگلی زیتون میں زیتون کی اچھی اقسام کی پیوند کاری کر کے حیرت انگیز نتائج حاصل کیے ہیں