نکاح شغار(وٹہ سٹہ )سے بچنے کی نصیحت
شغار کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ تو اگر ہمارا رشتہ لے گا تو ہم تمہارا رشتہ قبول کریں گے یا تم ہمیں اپنا رشتہ دو گے تو تب ہم تمہیں اپنا رشتہ دیں گے۔
اسے ہمارے ہاں ”وٹہ سٹہ “ کہا جاتا ہے اور حدیث کی اصطلاح میں اسے ”نکاح شغار“ کہتے ہیں ۔ لے اور دے کی جو شرط ہے اسے شغار کہتے ہیں اور یہی حرام ہے ۔ چنانچہ بخاری شریف کی حدیث ہے:
(لاشغار فی الاسلام ) اسلام میں شغار یعنی بٹہ سٹہ حرام ہے، اس کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اگر ایک گھر اتفاقی حادثات اور ناچاقیوں کا شکار ہو کر نہ بسے تو دوسرا گھر جہاں کوئی تکلیف اور کوئی پریشانی فریقین میں سے کسی کو نہیں ہوتی تو وہ انتقاماً اجڑ جاتا ہے۔
کیونکہ انہیں یہ شکایت ہوتی ہے کہ جب فریق اول نے ہماری بیٹی کو خوش نہیں رہنے دیا تو ہم ان کی بیٹی کو خوش کیوں رکھیں ؟
اس لئے شریعت نے اس نکاح کو ہی ناجائز قرار دیا ہے چونکہ بٹے کے نکاح میں بلاوجہ اور بلا قصور ایک لڑکی چاہے وہ کتنی نیک، شریف النفس ، شریف الطبع ، وفاشعار ، اطاعت گزار اور سلیقہ شعار کیوں نہ ہوتب بھی وہ انتقامی آگ کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔
یعنی ہر وہ شکل ، ہر وہ صورت جس سے کسی کا گھر برباد ہوسکتا تھا اللہ نے اسے حلال رکھا ہی نہیں ۔
(نوٹ: اگر یہ شرط نہ لگائی جائے بلکہ اتفاقا اس طرح نکاح ہو جائے مثلا ایک نکاح ہوا ہوا تھا کچھ عرصہ کے بعد دوسروں نے رشتہ مانگ لیا اور اس طرح نکاح کیا تو جائز ہے کیونکہ اس میں بٹہ سٹہ کی شرط نہیں لگائی گئی ۔)