شریک حیات کے انتخاب میں نصیحت

شریک حیات کے انتخاب میں نصیحت

حضرت ابو سعید خدری اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔
من ولدلہ والد فلیحسن اسمہ وادبہ فاذا بلغ فلیز وجہ فان بلغ ولم یزوجہ فاصاب اثماً فانما اثمہ علی ابیہ۔(رواہ بیہقی فی شعب الایمان )
”جس کو اللہ تعالیٰ اولاد دے ، تو چاہئے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اس کو اچھی تربیت دے اور سلیقہ سکھائے ، پھر جب وہ سن بلوغت کو پہنچے تو اس کے نکاح کا بندوبست کرے ۔ اگر (اس نے اس میں کوتاہی کی اور ) اس کی شادی کا بندوست نہیں کیا اور وہ اس وجہ سے حرام میں مبتلاہوگیا تو اس کا باپ اس گناہ کا ذمہ دار ہوگا“
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بچہ جب سن بلوغت کو پہنچے تو اس کا بیاہ کردو۔ تب اس کا ہاتھ پکڑ کر کہو کہ لو بیٹا میں نے تجھے (پالا پوسا اور ) ادب تہذیب سے آراستہ کیا۔ جن چیزوں کی تعلیم لازمی تھی وہ تجھے دلوائی اور اب تیرا نکاح بھی کردیا ۔ اب دنیا میں تیرے فتنہ سے اور آخرت میں تیرے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتاہوں ۔
ان احادیث میں اولاد کے شادی کے قابل ہوجانے پر ان کے نکاح اور شادی کے بندوبست کو بھی باپ کا فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ وہ وقت گزر گئے جب والدین اپنی مرضی سے جہاں چاہااور جس جگہ مناسب سمجھاوہاں لڑکے کی شادی کر دی ۔ کچھ گھرانے ابھی ایسے ہوں گے جہاں اولاد کے لیے شریک زندگی کا انتخاب کلی طور پر والدین کے اختیار میں ہو گا مگر آج نوجوانوں کی اکثریت کی اپنی پسند اور ناپسند کو بہت زیادہ دخل حاصل ہے۔ اس میں چند اں برائی بھی نہیں ۔
شریک حیات کا اگر صحیح چناوٴ ہو جائے تو زندگی بڑے آرام سے گزریگی اور اگر اس معاملہ میں غلطی ہوگئی تو یہی زندگی عذاب ۔ اگر آپ کو ریل یا ہوائی جہاز میں سفر کا اتفاق ہو، ساتھ کی نشست کا مسافر آپ کے خیالات اور ذوق کا حامل ہو گا تو سفر اچھا کٹ جائے گا ۔آ پس میں باہمی دلچسپی کے معاملات اور موضوعات پر گفتگو ہو گی خور دو نوش میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اور عین ممکن ہے کہ سفر کے اختتام پر ایک دوسرے سے تعارفی کا رڈوں کا بھی تبادلہ ہوجائے اور پھر ملنے کی آرزو لے کر ایک دوسرے سے جدا ہوں ۔اگر ساتھی اس کے برعکس ہوتو آپ یہ سوچ کرکہ سفر چند گھنٹوں کا ہے خاموش رہنے میں عافیت جانیں گے ۔ لیکن جہاں معاملہ تمام زندگی شب و روز ایک ساتھ گزارنے کا ہو ، تمام زندگی تو خاموش نہیں رہا جا سکتا ۔اس لیے ضروری ہے کہ شریک حیات کا چناوٴ بہت سوچ سمجھ کر کیا جائے۔ اس کی عمر ، شکل و صورت ، تعلیم ، مشاغل اور اس کے والدین کارہن سہن ، سب مدنظر ہونے چاہئیں ۔
آپ کی شریک حیات کیسی ہو؟ اس میں کن خوبیوں کا ہو نا ضروری ہے ۔ہم آپ کی رہنمائی کے لیے احادیث اور بزرگوں کے اقوال پر مبنی چند باتیں اس امید پر تحریر کررہے ہیں کہ آپ ان سے فائدہ اٹھا کر بہتر ساتھی منتخب کرسکیں ۔

عورت نیک سیرت ، باحیا اور پارساہو

ان خوبیوں کی غیر موجودگی میں عورت اپنے شوہر کے مال میں خیانت کی مرتکب ہو سکتی ہے جس سے شوہر کو تشویش لاحق ہو گی ۔ اگر اس کی حرکات پر خاموش رہے گا اور منع نہ کرے گا تو خود بھی اس کے گناہ میں برابر کا شریک ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:۔ قوا انفسکم واھلیکم نارا
”اپنی جانوں کو اور اپنے گھروالوں کو آگ سے بچاوٴ “
اس آیت کے بموجب ناشائستہ حرکات سے منع کرنا ضروری ہے ورنہ حکم عدولی ہوگی اور اگر منع کرے گا تو بات بڑھے گی اور گھر کا سکون برباد ہوگا۔اگر عورت اپنے جسم میں خیانت کرے اور مرد کو خاموش رہنا پڑے تو اس کی غیرت کو دھکا لگے گا اور دین الگ تباہ ہوگا۔ روسیاہی ، جگ ہنسائی اور خجالت اس پر مستزاد ۔ اگر خاموش نہ رہ سکے اور یقینا نہ رہ سکے گا تو اس کا آرام و سکون برباد ہوگا۔ طلاق دینا شائد اس لیے مشکل ہو کہ ممکن ہے اس عورت کی کج ادائیوں کے باوجود وہ دل کی گہراہیوں سے اس پر فریفتہ ہو اور اس کی جدائی کا رنج برداشت کرنا اس کے لیے محال ہو۔ ناپارسا عورت اگر خوبصورت اور حسین ہو تو ایک آفت وبلا سے کم نہیں کہ عادات قابل نفرت لیکن صورت دلفریب ۔ اگر کوئی شخص ایسی صورت حال سے دوچار ہو تو اس کے لیے بہتریہی ہے کہ اس دلفریب فتنے سے جان چھڑالے ۔ طلاق دے کر اسے من مانی کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دے اور خود اس کے افعال سے بری الذمہ ہوجائے ۔ لیکن اگر اس پر دل و جان سے فریفتہ ہو چکاہے تو مجبوری ہے کیونکہ اس صورت میں اگر طلاق دے گا تواس کے بعد خود بھی فساد میں مبتلا ہوجائے گا۔
حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص کسی عورت کے ساتھ محض اس کے حسن و جمال یا مال و دولت کی غرض سے نکاح کرنا چاہتا ہے وہ بالآخر ان ہردوسے محروم رہتا ہے اور جو دین کی متابعت کی نیت سے نکاح کرتا ہے اسے مال و جمال دونوں حاصل ہو جاتے ہیں۔ (بہ روایت انس رضی اللہ عنہ، طبرانی )
نیز ارشاد فرمایا کہ عورت سے اس کی خوبصورتی کی وجہ سے مت نکاح کرو۔ شائد اس کی خوبصورتی اس کو تباہ کردے اور نہ مال کے لحاظ سے اس کے ساتھ نکاح کرنا چاہیے ، شاید اس کا مال اس کو سرکش کردے بلکہ عورت سے نکاح اس کی دیانت اور پارسائی کے لحاظ سے کرنا چاہیے ۔ وہ دین کی مددگار ثابت ہوگی ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن کے ہاں رشتہ ہو رہا ہے وہ لوگ آپ کے لیے اجنبی ہیں تو یہ کیونکر معلوم ہو گا کہ لڑکی باحیا اور پارسا ہے۔ اس کا حسب نسب تو معلوم ہو سکتا ہے اگر لڑکی کا تعلق ایسے خاندان سے ہے جس میں دیانت ، پاکیزگی اور نیک بختی پائی جاتی ہے تو غالباً یہ صفات اس لڑکی میں بھی ہوں گی ۔ اچھے حسب نسب کی حامل لڑکی اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت بھی اچھے طریقے سے کرتی ہے۔ اگر وہ خود مودب نہیں ہوگی تو نہ اس شوہر کے ساتھ تعلقات خوشگوار ہوں گے اور نہ ہی اس سے اولاد کی صحیح تربیت اور تادیب بن پڑے گی ۔ اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ایاکم وخضرء الد من ) ”گھورے اوپر کی سبزی سے علیٰحدہ رہو“۔
لوگوں نے عرض کی خضراء دمن کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خوبصورت عورت جو بری جگہ پیدا ہوئی ہو۔ (دار قطنی درافراد براویت ابو سعید خدری ) نیز فرمایا کہ اپنی اولاد کے حصول کے لیے اچھی عورتیں پسند کرو کیونکہ رگ قرابت اصول کے اخلاق کو اولاد میں کھینچ لاتی ہے۔
خوش خلق ہو
جو شخص فارغ البا ل رہنے کا طالب اور دین پر مدد کا خواہاں ہو اس کے لیے خوش خلق عورت کا ہونا بڑی غنیمت ہے۔ بد خو عورت ناشکر گزار اور زبان دراز ہوتی ہے اور بے جا تحکم کی عادی بھی ۔ ایسی عورت دنیوی عیش و سکون کو تباہ کرنے کے علاوہ دین کی خرابی کا باعث بھی ہوتی ہے۔
کہتے ہیں کہ سیاح ازدی نے اپنی سیاحت میں حضرت الیاس علیہ السلام کی زیارت کی آپ نے ازدی کو نکاح کے لیے ارشاد فرمایا اور مجرد رہنے سے ممانعت کی ۔ نیز فرمایا کہ چار قسم کی عورتوں سے نکاح مت کرنا ۔ اول طالب خلع کہ ہر گھڑی بلاسبب خلع کی درخواست کرتی رہے ۔ دوسری عورتوں پر دنیا کے لوازم سے فخر کرے ۔ تیسری فاسقہ جو خفیہ آشنا رکھتی ہے اور اس بات کی شہرت عام ہو۔ ایسی ہی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے۔
(ولامتخذات اخدان ) ”اور نہ در پردہ آشنارکھنے والی “ چوتھی زبردست کہ خاوند پر قول و فعل میں بڑھ چڑھ کر رہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو عادتیں مردوں میں بری ہیں وہ عورتوں میں اچھی ہوتی ہیں اور وہ بخل ، تکبر اور بزدلی ہیں ۔ عورت اگر بخیل ہوگی تو اپنا مال اور شوہر کا مال بچائے گی ۔ اگر متکبر ہوگی تو ہر شخص سے نرم اور فریفتہ کرنے والے کلام سے نفرت کرے گی اور اگر بزدل ہو گی تو ہر چیز سے ڈرے گی ۔اپنے گھر سے نہ نکلنے اور شوہر کے خوف سے تہمت کی جگہوں سے اجتناب کرے گی ۔ یہ حکائتیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ نکاح میں کون سے اخلاق مطلوب ہوتے ہیں۔
خوبصورت ہو
اگر بیوی حسین و جمیل ہوگی تو شوہر کی نظریں ادھر ادھر نہیں بھٹکیں گی اور وہ زنا سے محفوظ رہے گا۔ اگر عورت بد صورت ہوگی دوسری خوبصور ت عورتوں کو حریص نگاہوں سے دیکھے گا۔ انسان کی سرشت میں ہے کہ خوبصورتی سے متاثر ہوتا ہے اور بدصورتی سے کراہت کرتا ہے۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صورت و سیرت کا اچھا ہو نا لازم و ملزوم ہے۔ جس کی صورت اچھی ہوگی غالباً سیرت بھی اچھی ہوگی ۔
ہم نے عورت کی اولین خوبی کے تحت لکھا ہے کہ عورت سے نکاح اس کی خوبصورتی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی پارسائی کی وجہ سے کرنا چاہیے۔ اس کایہ مطلب نہیں کہ خوبصورتی کا لحاظ بالکل ممنوع ہے بلکہ یہ غرض ہے کہ اگر عورت پارسا نہیں تو صرف اس کی خوبصورتی پر فریفتہ ہو کر نکاح نہ کرنا چاہیے ۔ خوبصورت ہونا نکاح کی ترغیب ضرور دیتا ہے مگر دین کے امر میں کمزور کردیتا ہے۔
اچھی صورت و سیرت زن و شومیں الفت و محبت کا باعث ہوتی ہے۔ شریعت بھی اس امر کی خواہاں ہے کہ میاں بیوی میں محبت و دلبستگی کا رشتہ استوار ہو۔ اسی وجہ سے نکاح سے قبل عورت کو دیکھ لینا مستحب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس وقت اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کے دل میں عورت سے نکاح کرنے کا خیا ل ڈال دے تو چاہیے کہ اس کو دیکھ لے۔ دیکھ لینا الفت طرفین کے لیے شایاں تر ہے اور ایسے زن و شومالوف رہیں گے۔
سلف کے کچھ پرہیز گار ایسے تھے جو شریف زادیوں سے بھی نکاح سے قبل ان کو دیکھ لیا کرتے تھے تاکہ دھوکے سے محفوظ رہیں ۔ایک نظر دیکھ لینے سے سیرت اور پارسائی تو معلوم نہیں ہوتی صرف ظاہری جمال ہی پہچانا جاتا ہے ۔ اس سے معلوم ہو ا کہ جمال کا لحاظ بھی شریعت کے عین مطابق ہے۔
دھوکا ظاہری شکل و شباہت اور باطنی سیرت دونوں میں ہو سکتا ہے۔ خوبصورتی کا دھوکا تو دیکھ لینے سے دور کرنا مستحب ہے اور اخلاق کا دھوکا وصف سننے سے رفع ہوسکتا ہے ۔ اس لیے ان دونوں باتوں کو نکاح سے قبل پر کھ لینا چاہیے۔ عورت کے اخلاق اور پارسائی کے متعلق ایسے شخص سے دریافت کرنا چاہیے جو عاقل ، راست گو اور عورت کے ظاہر وباطن کے حال سے واقف ہو۔ نہ تو عورت کا طرفد ار ہو کہ اس کی تعریف میں مبالغہ کرے اور نہ اس سے بغض رکھتا ہوکہ گٹا کربیان کرے کیونکہ اب لوگوں کی طبیعتیں نکاحوں سے پیشتر امور میں اور منکوحات کے وصف بیان کرنے میں افراط و تفریط کی طرف مائل ہیں ۔ ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اس باب میں سچ بولتے ہوں بلکہ فریب اور مغالطہ دینے کا رواج بہت ہو رہاہے ۔ اس شخص کے لیے جسے یہ خوف ہو کہ وہ خوبصورت غیر محرم عورتوں کو تاکنے سے باز نہ رہ سکے گا یہ بہت ضروری ہے کہ نکاح سے قبل عورت کو دیکھ لے تاکہ اس کے حسن سے وہ مرعوب ہو جائے اور غیر عورتوں کو دیکھنے سے باز رہے۔ اگر کسی شخص کو ایسی خوبصورت عورت جو خو ش شکل ، سیاہ چشم و سیاہ موبڑی بڑی آنکھوں والی ، گوری رنگت ، خوش خلق اور شوہر دوست کہ اپنی نظر شوہر پر ہی منحصر رکھے ، میسر ہو تو اس کو گویا دنیا میں ہی حور مل گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کی بیویوں کی صفت انہیں صفات کے ساتھ فرمائی ہے۔
مہرکم ہو
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھی بیویاں وہ ہیں جن کی صورتیں اچھی ہوں اور مہر تھوڑے ہوں ۔ (ابن حبان بروایت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا و بروایت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ)”مہر کو حد سے زیادہ بڑھانے سے منع فرمایا “(اصحاب سنن اربعہ موقوفا)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ مہر کو زیادہ مقرر کرنے سے منع کرتے اور فرماتے کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نکاح چار سودرہم سے زیادہ مہر پر کیا اور نہ اپنی بیٹیوں کا نکاح اس مقدار سے زائد پرکیا ۔ اگر مہر کے زیادہ کر دینے میں کچھ بزرگی ہو تی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ضرور مبادرت فرماتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت کا مبارک ہونا یہ ہے کہ جلد نکاح ہو ، جلد اولاد ہو اور مہر کم ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں میں زیادہ برکت والی وہ ہے جس کا مہر سب سے کم ہو۔ (احمد بیہقی )
جس طرح عورت کی جانب سے مہر میں زیادتی کا ہونا مکروہ ہے اسی طرح مرد کی جانب سے عورت کے مال کا حال دریافت کرنا مکروہ ہے۔ مال کی طمع سے عورت کے ساتھ نکاح نہ کرنا چاہیے۔ حضرت سفیان ثوری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی آدمی نکاح کا ارادہ کرے اور یہ پوچھے کہ عورت کے پاس کیا کیا چیز ہے تو جان لو کہ وہ چور ہے۔اگرمرد سسرال میں کچھ تحفے بھیجے تو یہ نیت نہ کرے کہ ان کے ہاں سے اس کے بدلے میں مجھے زیادہ ملے گا اور اسی طرح بیٹی والے شوہر کو کچھ بھیجیں وہ بھی یہ نیت نہ کریں کیونکہ زیادہ طلبی کی نیت خراب ہوتی ہے۔ باقی رہا ہدیہ تو وہ بھیجنا مستحب ہے اور دوستی کا سبب بھی ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
(تھادواوتحابوا) (بخاری اور کتاب لمغرورو بیہقی روایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ )
”آپس میں ہدیہ بھیجواور دوستی پیدا کرو“۔
اور زیادہ طلبی اللہ تعالیٰ کے اس قول میں داخل ہے (ولا تمنن تستکثر)یعنی اس نیت سے نہ دو کہ بہت سالو ۔ نکاح میں اس طرح کی صورت مکروہ اور بدعت ہے ۔ تجارت اور قمار کی طرح ہے جو نکاح کے مقصد کے منافی ہے۔
عورت بانجھ نہ ہو
نکاح ایسی عورت سے کرنا چاہیے جس سے اولاد کی توقع ہو۔ اگر اس کا بانجھ ہونا معلوم ہوجائے تو اس سے نکاح نہ کرے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کھجور کی پرانی چٹائی جو گھر کے کسی کونے میں پڑی ہوئی ہو اس عورت سے بہتر ہے جو بچے پیدا نہیں کر سکتی ۔ اگر دوشیزہ ہو اور یہ نہ معلوم ہو کہ اولاد ہوگی یا نہیں تو تندرست اور جوان ہونے کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ اس میں یہ دونوں باتیں ہوں گی تو غالباً اس سے اولاد ہو گی ۔
کنواری ہو
اگر نکاح دوشیزہ سے ہو تو اس سے لامحالہ محبت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ جو عورت پہلے کسی اور کے نکاح میں رہ چکی ہو وہ عموماً اسی پہلے خاوند کے خیال میں کھوئی رہتی ہے اور دل سے اس کی آنکھیں اسی کی متلاشی رہتی ہیں ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ایک ایسی ہی عورت سے نکاح کرلیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہ کسی کنواری سے عقد باندھ لیا کہ وہ تم سے کھیلتی اور تم اس سے کھیلتے ۔
دوشیزہ کے ولی کا فرض
لڑکی کے سرپرست پر واجب ہے کہ جب اس کا رشتہ طے کرنے لگے تو ہونے والے شوہر کی عادات کو دیکھ بھال لے اور اپنی لڑکی پر شفقت کرے ۔ اس کا نکاح ایسے شخص سے نہ کرے جس میں پیدائشی کو ئی نقص ہو یااس کی عادات پسند یدہ نہ ہوں یا دین میں کمزور ہو یا عورت کے حقوق ادا کرنے سے قاصر ہو یا حسب ونسب عورت کے ہم پلہ نہ ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نکاح کرنا عورت کو کنیز کردینا ہے ۔ دیکھ لیا کرو کہ اپنی لڑکی کو کہاں دے رہے ہو۔ عورت کے حق میں احتیاط بہت ضروری ہے کیونکہ نکاح کے بعد وہ ایسی قید میں پڑتی ہے کہ اس سے چھٹکا رہ بہت مشکل بخلاف مرد کے کہ وہ ہر حال میں طلاق دینے پر قادر ہے۔ جب کوئی شخص اپنی بیٹی کا نکاح ظالم یا فاسق یا بدعتی یا شراب خور سے کرے گا تو وہ دین میں بٹہ لگائے گا اور اللہ تعالیٰ کے غصہ کا مستحق ہوگا کہ اس نے حق قرابت کو منقطع کیا اور اس کے لیے شوہر تجویز کیا ۔
ایک شخص نے حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں عرض کیا کہ چند لوگوں نے میری لڑکی کے لیے پیام نسب دیا ہے ۔میں اس کا نکاح کس سے کروں۔ آپ نے فرمایا کہ جو شخص ان میں سے اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتا ہو اس سے شادی کرنا اس لیے کہ اگر وہ تیری لڑکی کو چاہے گا تو اس کی خاطر ومدارات کرے گا اور اگر ناپسند کرے گا تو اس پر ظلم نہ کرے گا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنی لڑکی کو فاسق سے بیاہ دیا اس نے اس کی قرابت قطع کردی ۔
بُری عورت کی خصلتیں
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تبارک وتعالیٰ اس عورت کی طرف نظرِ کرم نہیں فرماتے جو ضرورت مند ہونے کے باوجوداپنے شوہر کا شکرادا نہیں کرتی ۔(نسائی)
اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
دوقسم کے لوگوں کی نماز ان کے سروں سے آگے نہیں بڑھتی ایک وہ غلام جواپنے مالکوں کے پاس سے بھاگ جائے اور دوسری وہ عورت جو اپنے شوہر کی نافرمانی کرے ، یہاں تک کہ وہ اپنی نافرمانی سے توبہ کرلے۔ (طبر انی)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا عورت کی نحوست کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو عورت بانجھ اور بداخلاق ہو۔
دلچسپی کے لیے ہم یہاں اہل عرب سے منقول برُی عورت کی بعض صفات ذکر کرتے ہیں ۔ حضر ت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا! تین چیزیں مصیبت ہیں ایک وہ پڑوسی جو تمہاری اچھائی دیکھ کر چھپائے اور برُائی دیکھ کر پھیلائے اور دوسری وہ عورت جو تمہارے گھر میں آنے کے بعد زبان دراز ہوجائے ، اور تیسرا وہ بادشاہ جس کے ساتھ بھلے طریقے سے رہو تو تمہاری تعریف نہ کرے لیکن اگر اسے برُا بھلاکہہ دوتو تمہیں مروادے ۔
ایک اعرابی نے کسی عورت سے شادی کی ۔عورت نے اسے سخت تکلیفیں پہنچائیں اعرابی نے ایک گدھا او ر جبہ دے کر اس سے جان چھڑائی ۔ ایک دن اعرابی کا چچا زاد بھائی اسے ملنے آیا اور اس نے عورت کے متعلق پوچھا تو اس نے جواب دیا ۔
خطبت الی الشیطان للحین بنتہ فادخلھا من شقوتی فی حبالیا
فا نقذنی منھا حماری و جبتی جزی اللہ خیرا جبتی و حماریا
ترجمہ :میں نے کچھ وقت کے لیے شیطان سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا۔۔۔۔ اس نے میری بدبختی کے لیے اسے میرے عقد میں دے دیا ۔۔۔۔ میرے گدھے اور جبے نے میری جان اس سے چھڑائی ۔۔۔۔ خدا میرے گدھے اور جبے کو جزائے خیر عطافرمائے۔
روح بن زنباع نے نعمان بن بشیر کی بیٹی ام جعفر سے شادی کی اور یہ شادی عبد الملک بن مروان نے یہ کہہ کرکہ یہ خوبصورت لڑکی ہے زبان کی تھوڑی سی تیز ہے تم صبر کرنا ، روح ایک عرصہ تک اس کے ساتھ رہا، آخرکا ر نفرت شدت اختیار کرگئی تو اس نے اشعار کہے جن سے ایک شعر یہ تھا۔
ریح الکرائم معروف لھاارج وریحھاریح کلب مسہ مطر
ترجمہ : شریف و معزز عورتوں کی خوشبوں کی مہک معروف ہے۔۔۔ لیکن اس عورت سے بارش میں بھیگے کتے جیسی بو آتی ہے۔
ایک اعرابی کہتا ہے:
من منزلی قد اخر جتنی زوجتی تھر فی وجھی ھریرالکلب
ترجمہ: میری بیوی نے مجھے میرے گھر سے نکال دیا ہے۔۔۔ وہ میرے سامنے کتیا کی طرح بھونکتی ہے۔
اہل عرب کہتے ہیں:
شادی کرنے والے کو مذکورہ چھ قسم کی عورتوں سے دور رہنا چاہیے ۔
ہر وقت شکوہ کر نے والی ، پریشان رہنے والی، احسان جتلانے والی، لالچی ، شوخ مزاج اور منہ پھٹ عورت سے بچنا چاہیے۔
انانة: وہ عورت ہے جوہر وقت بلاوجہ شکوہ شکایت کرتی رہے ۔
حّنانة: وہ عورت ہے جو کسی دوسرے کی زوجیت میں جانے کا خیا ل رکھتی ہو یا اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے پر راضی نہ ہو بلکہ اپنے شوہر اور دوسرے مردوں کے درمیان موازنہ کرتی رہے۔

مضامین کی فہرست پر واپس جائیں

Related posts

Leave a ReplyCancel reply