سید عبدالوہاب شاہ
جھوٹے نبی اور جادوگری و عملیات
قارئین کرام یہ بات شاید آپ کے لیے حیران کن ہو کہ زیادہ تر نبوت کے جھوٹے دعویدار پہلے جادوگری اور عملیات کا کام ہی کرتے تھے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ بنیادی عقیدہ اور ایمان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول اور نبی ہیں اور قیامت تک اب کوئی نبی یا رسول کسی بھی حیثیت میں نہیں آئے گا۔لیکن دنیا میں نبوت کے جھوٹے دعویدار سر اٹھاتے رہے، یہاں تک کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کردیا تھا۔چونکہ ہمارا موضوع سخن جادونگری و عملیات کی دنیا ہے اس لیے ہم نبوت کے ان جھوٹے دعویداروں کا ذکر یہاں کرنا ضروری سمجھتے ہیں جو پہلے عملیات کا کام کرتے تھے اور اس طرح اپنا ایک حلقہ اثر بنایا اور پھر آہستہ آہستہ نبوت کا دعویٰ کردیا۔
اسود عنسی۔نبوت کا پہلا جھوٹا دعویدار۔سن۱۱ھجری
اسود عنسی سب سے پہلا جھوٹا مدعی نبوت تھا۔ جس کی شعبدہ بازی کے دور دور تک چرچے تھے۔کاہن بھی تھا اور کہانت میں کوئی اس کا ثانی نہ تھا۔ لوگ اس کے شعبدوں کو دیکھ کر اس قدر مانوس ہوچکے تھے کہ جب اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تو بہت سے اس کے پیروکار بن گئے، یہاں تک کہ نجران اور مذجج جیسے قبائل بھی اس کے دھوکے میں آگئے اور اس نے اپنی جھوٹی نبوت کا پرچار یمن کے قبیلوں میں شروع کردیا۔یہ عنس بن قدجح سے منسوب تھا اس کا نام عیلہ تھا۔اسے ” ذوالخمار ” بھی کہتے تھے اور ذوالحمار بھی۔ ذوالخمار کہنے کی وجہ تویہ تھی کہ یہ اپنے منہ پر دوپٹہ ڈالا کرتا تھاجبکہ ذوالحمار کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ کہا کرتا تھا کہ جو شخص مجھ پر ظاہر ہوتا ہے وہ گدھے پر سوار ہو کر آتا ہے۔ بعض روایات سے پتا چلتا ہے اس نے ایک گدھے کو سدھایا ہوا تھا یہ اسے کہتا سجدہ کرو تو وہ سجدہ کرتا اسی طرح کچھ اور کام بھی کرتا، ایسی ہی حرکتوں سے اس نے عام لوگوں کو متاثر کرکے اپنا گرویدہ بنایا تھا۔ ارباب سیر کے نزدیک یہ کاہن تھا اور اس سے عجیب و غریب باتیں ظاہر ہوتی تھیں یہ لوگوں کو اپنی چرب زبانی سے گرویدہ کرلیا کرتا تھا اس کے ساتھ دو ہمزاد شیطان تھے جس طرح کاہنوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔
اس کا قصہ یوں ہے کہ فارس کا ایک باشندہ باذان ، جسے کسرٰی نے یمن کا حاکم بنایا تھا ، نے آخری عمر میں توفیق اسلام پائی اور سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اسے یمن کی حکومت پر برقرار رکھا اس کی وفات کے بعد حکومت یمن کو تقسیم کرکے کچھ اس کے بیٹے شہر بن باذان کو دی اور کچھ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کو اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو مرحمت فرمائی۔ اس علاقے میں اسود عنسی نے خروج کیا اور شہر بن باذان کو قتل کردیا اور مرزبانہ جو کہ شہر کی بیوی تھی اسے کنیز بنالیا، فردہ بن مسیک نے جو کہ وہاں کے عامل تھے اور قبیلہ مراد سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو ایک خط لکھ کر مطلع کیا۔ حضرت معاذ اور ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہما اتفاق رائے سے حضرموت چلے گئے۔جب یہ خبر سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اس جماعت کو لکھا:کہ تم اکٹھے ہوکر جس طرح ممکن ہو اسود عنسی کے شر و فساد کوختم کرو اس پر تمام فرمانبرداران نبوت ایک جگہ جمع ہوئے اور مرزبانہ کو پیغام بھیجا کہ یہ اسود عنسی وہ شخص ہے جس نے تیرے باپ اور شوہر کو قتل کیا ہے اس کے ساتھ تیری زندگی کیسے گزرے گی اس نے کہلوا یا میرے نزدیک یہ شخص مخلوق میں سب سے زیادہ دشمن ہے مسلمانوں نے جواباً پیغام بھیجا کہ جسطرح تمہاری سمجھ میں آئے اور جس طرح بن پڑے اس ملعون کے خاتمہ کی سعی کرو چنانچہ مرزبانہ نے دو اشخاص کو تیار کیا کہ وہ رات کو دیوار میں نقب لگا کر اسود کی خواب گاہ میں داخل ہوکر اسے قتل کردیں ان میں سے ایک کا نام فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ تھا جو مرزبانہ کا چچا زاد اورنجاشی کا بھانجا تھا انہوں نے دسویں سال مدینہ منورہ حاضر ہوکر اسلام قبول کیا تھا رضی اللہ عنہ۔ اور دوسرے شخص کا نام دادویہ تھا بہر حال جب مقررہ رات آئی تو مرزبانہ نے اسود کو خالص شراب کثیر مقدار میں پلادی جس سے وہ مدہوش ہوگیا فیروز دیلمی نے اپنی ایک جماعت کے ساتھ نقب لگائی اور اس بدبخت کی گردن توڑ کر قتل کردیا۔ اس کے قتل کرتے وقت گائے کے چلّانے کی طرح بڑی شدید آواز آئی اس کے دروازے پر ایک ہزار پہرے دار ہوا کرتے تھے وہ آواز سن کر اس طرف لپکے مگر مرزبانہ نے انہیں یہ کہہ کر مطمئن کردیا کہ خاموش رہو تمہارے نبی پر وحی آرہی ہے۔ ادھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنے صحابہ کو مدینہ میں پہلے ہی خبر دے دی تھی کہ آج رات اسود عنسی مارا گیا ہے اور ایک مرد مبارک نے جو کہ اس کے اہلبیت سے ہے اس نے اسے قتل کیا ہے اس کا نام فیروز ہے اور فرمایا ” فاز فیروز ” یعنی فیروز کامیاب ہوا۔ (مدارج ا لنبوة مترجم ج دوم ص ۵۵۴ )۔
مسیلمہ کذاب۔ سن۲۱ھجری
فتح مکہ کے بعد پورے عرب سے مختلف قبائل وفود کی شکل میں حضور صلی اللہ علی وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر رہے تھے۔ انہیں وفود میں سے ایک وفد یمن سے آیا جس میں مسیلمہ کذاب بھی تھا اس وقت اس کی عمر سو سال سے بھی زائد تھی۔ اس نے بھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک پر اسلام قبول کرلیا، اور ساتھ ہی یہ فرمائش بھی کی کہ آپ مجھے اپنا نائب اور خلیفہ بنا لیں۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ بہرحال اس وقت یہ واپس چلا گیا اور اپنے علاقے میں جاکر یہ اعلان کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی نبوت میں شریک کردیا ہے۔
پیشے کے لحاظ سے یہ بھی جادوگر ہی تھا ساری زندگی جادوگری، کہانت اور عملیات کا کام کرتا رہا۔اور ایسے شخص کے پاس ظاہر ہے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے، اور اپنا اچھا خاصا حلقہ اثر بھی رکھتے ہیں، اسی چیز سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے نبوت کا دعویٰ کردیا اور پھر کچھ عرصہ کے بعد اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خط لکھا:
”مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کے نام ۔معلوم ہو کہ میں امر نبوت میں آپ کا شریک کار ہوں۔ عرب کی سرزمین نصف آپ کی ہے اور نصف میری لیکن قریش کی قوم زیادتی اور ناانصافی کررہی ہے“۔
یہ خط دو قاصدوں کے ہاتھ جب حضور نبی کریم خاتم الانبیاءحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچایا گیا تو آپ نے ان قاصدوں سے پوچھا تمہارا مسیلمہ کے بارے میں کیا عقیدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھی وہ ہی کہتے ہیں جو ہمارا سچا نبی کہتا ہے۔ اس پر آنحضرت نے فرمایا کہ ”اگر قاصد کا قتل جائز ہوتا تو میں تم دونوں کو قتل کرادیتا“۔خاتم المرسلین سید الانبیاءصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں مسیلمہ کو لکھا۔
”بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ منجانب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنام مسیلمہ کذاب۔
سلام اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے، اس کے بعد معلوم ہو کہ زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا مالک بنادیتا ہے اور عاقبت کی کامیابی متقیوں کے لیے ہے“۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں یہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح چلتا رہا مگر آپ ﷺ کے وصال پاتے ہی مسیلمہ کذاب نے لوگوں کو اپنے دین اور جھوٹی نبوت کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک ایسے عامیانہ اور رندانہ مسلک کی بنیاد ڈالی جو عین انسان کے نفس امارہ کی خواہشات کے مطابق تھا، چنانچہ اس نے شراب حلال کردی، زنا کو مباح کردیا، نکاح بغیر گواہوں کے جائز کردیا، ختنہ کرنا حرام قرار پایا، ماہ رمضان کے روزے اڑادیے، فجر اور عشاءکی نماز معاف کردی، قبلہ کی طرف منہ کرنا ضروری نہیں، سنتیں ختم صرف فرض نماز پڑھی جائے۔ان کے علاوہ اور بہت سی خرافات اس نے اپنی خود ساختہ شریعت میں جاری کیں چونکہ یہ سب باتیں انسانی نفس امارہ کے عین مطابق تھیں اس لیے کم عقل لوگ اس پر ایمان لانے لگے اس کا اثر یہ ہوا ہر طرف فواحشات اور عیش کوشی کے شرارے بلند ہونے لگے اور پورا علاقہ فسق وفجور کا گہوارہ بن گیا۔
جھوٹے نبی کے معجزات وکمالات
ایک مرتبہ ایک شخص کے باغات کی شادابی کی دعا کی تو درخت بالکل سوکھ گئے۔کنوو ¿ں کا پانی بڑھانے کے لیے مسیلمہ نے اپنا آب دہن ڈالا تو کنویں کا پانی اور نیچے چلاگیا اور کنواں سوکھ گیا۔بچوں کے سر پر برکت کے لیے ہاتھ پھیرا تو بچے گنجے ہوگئے۔ایک آشوب چشم پر اپنا لعاب دہن لگایا تو وہ بالکل اندھا ہوگیا۔بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا تو اس کا سارا دودھ خشک ہوگیا اور تھن سکڑ گئے۔
بہرحال خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں اس کی سرکوبی کے لیے مختلف لشکر بھیجے ایک آدھ بار ناکامی بھی ہوئی بالاخر حضرت خالد بن ولید اور دیگر کئی صحابہ اور مسلمانوں کے تیرہ ہزار کے لشکر نے مسیلمہ کذاب کے چالیس ہزار کے لشکر کا مقابلہ کیا اور شکست دی، حضرت وحشی رضی اللہ عنہ نے اپنے نیزے سے نشانہ لگاکر مسیلمہ کا قصہ تمام کیا۔ اس جنگ میں دیگر بہت سارے صحابہ سمیت حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے بھائی زید بن خطاب بھی شہید ہوئے۔تقریبا چھ سو مسلمان شہید اور اکیس ہزار کافرقتل ہوئے۔
سجاح بنت حارث
یہ عورت اپنے زمانے کی مشہور کاہنہ تھی اور عملیات کا کام کرتی تھی۔ نہایت فصیحہ وبلیغہ اور بلند حوصلہ عورت تھی۔ مذہباً عیسائی تھی۔ ایک دن اس نے سوچا مسیلمہ کذاب جیسا 100سالہ بوڑھا نبوت کا دعویٰ کرکے بااقتدار بن گیا ہے تو مجھے بھی اپنی خوبیوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ جیسے ہی اس نے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کی خبر سنی تو دعویٰ نبوت کردیا۔ چونکہ جناتی طاقت اور تحریر وتقریر کے فن پر اس کو عبور حاصل تھا۔ لہٰذا اس نے بہت جلد بنی تغلب اور بنی تمیم کے بڑے بڑے سرداروں کو اپنا ہم نوا بنالیا۔
جب سجاح کی طاقت بڑھ گئی تو اس نے ایک رات تمام معتقدین سرداروں کو بلاکر یمن پر حملے کی تیاری کا حکم دیا، جب سجاح کا لشکر یمن کی طرف روانہ ہوا جہاں مسیلمہ کذاب پہلے سے اپنی جھوٹی نبوت کی دکان کھولے بیٹھا تھا۔ ادھر مسیلمہ کذاب کو جب سجاح کے حملے کی خبر ملی تو وہ سخت پریشان ہوا کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ سجاح بہت ہوشیار اور حوصلہ مند عورت ہے۔ اس لیے اس نے کمال مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی قیمتی تحائف کے ساتھ راستے میں ہی سجاح بنت حارث سے ملاقات کی اور اسے اپنے جال میں پھانس لیا اور دونوں نے 3دن تک مسیلمہ کذاب کے خیمے میں اپنی اپنی نبوت پر بحث ومباحث کے دوران داد وعیش کے دور گزارنے کے بعد نکاح کرلیا۔ جب 3روز بعد سجاح نے اپنے معتقدین کو مسیلمہ کذاب کے نبی برحق ہونے اور نکاح کی خبر سنائی تو بڑے بڑے سردار اس سے ناراض ہوکر الگ ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے سجاح بنت حارث اکیلی رہ گئی اور خاموشی سے اپنے نانہالی قبیلے بنی تغلب میں زندگی گزارنی شروع کردی۔ جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک سال قحط پڑا تو انہوں نے بنی تغلب کو بصرہ میں آباد کرلیا، سجاح بن حارث بھی ان کے ساتھ یہاں آباد ہوگئی اور توبہ استغفار کرکے دوبارہ مسلمان ہوگئیں۔ انتہائی دینداری، پرہیز گاری اور ایمانی کیفیت میں ان کا انتقال ہوا، بصرہ کے حاکم اور صحابی رسول سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔
حارث کذاب دمشقی
جو شخص بھوکا رہے، کم سوئے، کم بولے اور نفس کشی اختیار کرلے اس سے بعض دفعہ ایسے افعال صادر ہوجاتے ہیں جو دوسروں سے نہیں ہوسکتے۔ ایسے لوگ اہل اللہ میں سے ہوں تو ان کے ایسے فعل کو کرامت کہتے ہیں اور اگر اہل کفر یا گمراہ ہوں تو ان کے ایسے فعل کو استدراج کہتے ہیں۔ حارث کذاب بھی اپنی ریاضت ومجاہدات اور نفس کشی کی بدولت ایسے افعال کرتا تھا، مثلاً یہ لوگوں کو کہتا کہ آو میں تمہیں دمشق سے فرشتوں کو جاتے ہوئے دکھاوں چنانچہ حاضرین محسوس کرتے کہ نہایت حسین وجمیل فرشتے بصورت انسان گھوڑوں پر سوار جارہے ہیں۔ یہ لوگوں کو موسم سرما میں گرمیوں کے اور گرمیوں میں موسم سرما کے پھل کھلاتا۔ اس کے گمراہ کن افعال اور شعبدوں کی شہرت آس پاس پھیل گئی اور اس بدبخت نے بھی نبی ہونے کا دعویٰ کردیا۔ خلق خدا کو گمراہ ہوتے دیکھ کر ایک دمشقی رئیس قاسم بن بخیرہ اس کے پاس آئے اور دریافت کیا کہ تم کس چیز کے دعویدار ہو، حارث بولا میں اللہ کا نبی ہوں۔ اس پر قاسم نے کہا اے دشمن خدا تو بالکل جھوٹا ہے۔ حضرت خاتم المرسلین کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے۔ یہ کہہ کر قاسم سیدھا خلیفہ وقت عبدالمالک بن مروان کے پاس گئے اور سارا ماجرا سنادیا۔
عبدالمالک نے حارث کو گرفتار کرکے دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا لیکن اس دوران وہ بیت المقدس کی جانب فرار ہوچکا تھا اور وہاں پہنچ کر اس نے اعلانیہ اپنی جھوٹی نبوت کا آغاز کردیا۔ بصرہ کے ایک شخص نے اس سے ملاقات کی اور بہت دیر تک تبادلہ خیال کے بعدسمجھ گئے کہ یہ جھوٹا نبی ہے۔ تاہم اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے اس کا اعتماد حاصل کیا اور کچھ عرصے بعد خلیفہ کے دربار میں پہنچ کر سارا قصہ بیان کرنے کے بعد حارث کی گرفتاری کے لیے 20سپاہی لے کر پھر بیت المقدس پہنچ گئے اور موقع ملتے ہی حارث کو زنجیروں میں باندھ لیا۔ بیت المقدس سے بصرہ تک راستے میں حارث نے شیطانی طاقتوں کے ذریعے 3سے زائد بار اپنی زنجیریں کھلوائیں مگر یہ شخص جس نے گرفتار کیا تھا وہ کسی طور مرعوب نہیں ہوئے اور جھوٹے نبی کو خلیفہ کے دربار میں پیش کردیا۔ خلیفہ کے دربار میں بھی حارث نبی ہونے کا دعویدار رہا جس پر خلیفہ نے محافظ کو نیزہ مارنے کا اشارہ کیا لیکن پہلے نیزہ کے وار نے اس کے جسم پر کوئی اثر نہیں کیا جس پر اس کے حواریوں کی بانچھیں کھل گئیں۔ پھر خلیفہ عبدالمالک نے محافظ سے کہا کہ بسم اللہ پڑھ کر نیزہ مارو۔ اس نے بسم اللہ پڑھ کر نیزہ مارا تو وہ حارث کے جسم کے پار ہوگیا اور یوں یہ جھوٹا نبی بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
1حارث کی شیطانی کرامات زنجیروں کے کھلنے اور فرشتوں کے نظر آنے سے متعلق علامہ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب” الفرقان بین اولیاءالرحمن واولیاءالشیطان “ میں لکھا ہے کہ حارث کی زنجیریں کھولنے والا اس کا کوئی موکل یا شیطان تھا اور فرشتوں کو جو گھوڑوں پر سوار دکھایا وہ فرشتے نہیں جنات تھے۔
”مغیرہ بن سعید“
یہ شخص خالد بن عبداللہ قمری والی کوفہ کا آزاد کردہ غلام تھا حضرت امام محمد باقر کی رحلت کے بعد پہلے امامت اور پھر نبوت کا دعویٰ کرنے لگا۔ یہ کہتا تھا کہ میں اسم اعظم جانتا ہوں اور اس کی مدد سے مردوں کو زندہ اور فوجوں کو شکست دے سکتا ہوں اگر میں قوم عاد وثمود کے درمیانی عہد کے لوگوں کو بھی چاہوں تو زندہ کرسکتا ہوں۔ اس کو جادو اور سحر میں بھی کامل دستگاہ حاصل تھی اور دوسرے طلسمات وغیرہ بھی جانتا تھا جس سے کام لے کر لوگوں پر اپنی بزرگی اور عقیدت کا سکہ جماتا تھا۔
جب خالد بن عبداللہ قمری کو جو خلیفہ ہشام بن عبدالملک کی طرف سے عراق کا حاکم تھا یہ معلوم ہوا کہ مغیرہ اپنے آپ کو نبی کہتا ہے اور اس نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے تو اس نے 119ہجری میں اس کی گرفتاری کا حکم دیا۔ مغیرہ اپنے مریدوں کے ساتھ گرفتار کرکے خالد کے سامنے پیش کیا گیا۔ خالد نے اس سے پوچھا تو کس چیز کا دعویدار ہے۔ اس نے کہا میں اللہ کا نبی ہوں۔ خالد نے پھر اس کے مریدوں سے پوچھا تم اس کو اللہ کا نبی مانتے ہو سب نے اثبات میں جواب دیا۔ خالد نے مغیرہ کو سرکنڈے کی گھٹے کے ساتھ باندھا اور تیل چھڑک کر زندہ جلادیا۔ خیال رہے کہ خالد نے جوش میں اس کو آگ کی سزا دی ورنہ حدیث شریف میں آگ سے عذاب دینے کی ممانعت کی گئی ہے۔
بیان بن سمعان
یہ شخص اہل ہنود کی طرح تناسخ اور حلول کا قائل تھا اس کا دعویٰ تھا کہ میرے جسم میں خدا کی روح حلول کرگئی ہے۔ یہ بھی کہتا تھا کہ میں اسم اعظم جانتا ہوں اور اس کے پیروکار اس کو اسی طرح خداکا اوتار مانتے تھے جس طرح رام چندرجی اور کرشن جی کو۔یہ قرآن پاک کی ایسی تاویلات کرتا تھا جیسے قادیان کے خود ساختہ نبی نے کی ہیں۔ اس کے ماننے والے کہتے تھے کہ ”ھٰذا بین للناس وھدی وموعظہ للمتقین“ قرآن کی یہ آیت بیان ہی کی شان میں اتری ہے۔اور خود بیان کا بھی یہی خیال تھا۔ بیان نے اپنی خانہ ساز نبوت کی دعوت حضرت امام محمد باقر جیسی جلیل القدر ہستی کو بھی دی تھی اور اپنے ایک خط میں جو اپنے قاصد عمر بن عفیف کے ہاتھ امام موصوف کے پاس بھیجا اس نے لکھا۔
”تم میری نبوت پر ایمان لے آو گے تو سلامتی میں رہو گے اور ترقی کروگے۔ تم نہیں جانتے کہ اللہ کس کو نبی بناتا ہے“۔
کہتے ہیں کہ حضرت امام محمد باقریہ خط پڑھ کر بہت غضبناک ہوگئے اور قاصد سے فرمایا اس خط کو نگل جاو ¿ قاصد بے تامل نگل گیا اور اس کے فوراً بعد ہی گر کر مرگیا اس کے بعد حضرت امام محمد باقرنے بیان کے حق میں بھی بددعا فرمائی۔خالد بن عبداللہ حاکم کوفہ نے مغیرہ بن سعید کے ساتھ ہی بیان کو بھی گرفتار کرکے دربار میں بلایا تھا جب مغیرہ ہلاک ہوچکا تو خالد نے بیان سے کہا اب تیری باری ہے۔ تیرا دعویٰ ہے کہ تو اسم اعظم جانتا ہے اور اس کے ذریعے فوجوں کو شکست دیتا ہے اب یہ کر کہ مجھے اور میرے عملہ کو جو تیری ہلاکت کے درپے ہیں اسم اعظم کے ذریعے ہلاک کر۔ مگر چونکہ وہ جھوٹا تھا اس لیے کچھ نہ بولا اور خالد نے مغیرہ کی طرح اس کو بھی زندہ جلادیا۔
صالح بن طریف
یہ شخص یہودی تھا اور اندلس میں اس کی نشوونما ہوئی۔ وہاں سے مغرب اقصیٰ کے بربری قبائل میں رہائش اختیار کی۔ یہ قبائل بالکل جاہل اور وحشی تھے صالح نے اپنے جادو کے شعبدے دکھاکر ان سب کو اپنا مطیع کرلیا اور ان پر حکومت کرنے لگا۔۱۲۷ھ میں جب ہشام بن عبدالملک خلیفہ تھے، صالح نے نبوت کا دعویٰ کیا شمالی افریقہ میں اس کی حکومت مستحکم ہوگئی اور اس کو وہ عروج ہوا کہ اس کے کسی ہم عصر حاکم کو اس کا مقابلہ کرنے کی جرات نہ ہوسکی۔ اس شخص کے کئی نام تھے عربی میں مصالح۔ فارسی میں عالم۔ سریانی میں مالک۔ عبرانی میں روبیل اور بربری زبان میں اس کو واریا یعنی خاتم النبین کہتے تھے۔
اسحاق اخرس
ان جھوٹے نبیوں کی فہرست میں شمالی افریقہ کا اسحاق اخرس بھی شامل تھا،135ھ میں جب عباسی خلیفہ کا دور تھا تو یہ بدبخت اصفہان سے ظاہر ہوا، اس نے تمام آسمانی کتابوں کا مطالعہ کیا اور شعبدہ بازی میں مہارت حاصل کرنے کے بعد ایک عربی مدرسہ میں قیام پذیر ہوگیا۔ 10برس تک اس نے گونگا ہونے کا ڈرامہ رچایا۔ یہاں تک کہ اس کا لقب ہی ”اخرس“ یعنی ”گونگا“ پڑگیا۔ 10برس کی صبر آزما مدت کے بعد اس کذاب نے نبوت کا دعویٰ کردیا۔ اس نے ایک نفیس قسم کا روغن تیار کیا جو لگانے سے چہرہ چمک اٹھتا تھا۔ اس کا مقصد لوگوں کو مرعوب کرنا تھا کہ اللہ نے قوت گویائی کے ساتھ ساتھ نورانیت بھی عطا کردی ہے۔ اس کی ان چالبازیوں اور مکاریوں کے اثر سے اس مدرسے کے اساتذہ اور مہتمم بھی محفوظ نہ رہ سکے قاضی وقت سمیت پورا شہر اس کا معتقد ہوگیا۔
جن لوگوں کا دل نور ایمان سے منور تھا اور جن کو ہر عمل شریعت کی کسوٹی پر پرکھنا آتا تھا انہوں نے لوگوں کو بہت سمجھایا کہ اسحاق اخرس کوئی نبی یا ولی نہیں بلکہ جھوٹا۔کذاب۔ شعبدہ باز اور رہزن دین وایمان ہے لیکن عقیدت مندوں کی خوش اعتقادی میں کوئی فرق نہیں آیا۔بالآخر اسحق اخرس کے پاس اتنی قوت اور لوگوں کی تعداد ہوگئی کہ اس کے دل میں ملک گیری کی ہوس پیدا ہونے لگی۔ چنانچہ اس نے ایک بڑی تعداد اپنے عقیدت مندوں کی لے کر بصرہ۔ عمان اور اس کے قرب وجوار کے علاقوں پر دھاوا بول دیا اور عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کے حاکموں کو بصرہ اور عمان وغیرہ سے بے دخل کرکے خود قابض ہوگیا۔خلیفہ جعفر منصور کے لشکر سے اسحاق کے بڑے بڑے معرکے ہوئے آخر کار عساکر خلافت فتح یاب ہوئے اور اسحاق مارا گیا اوریوں وہ خود اور اس کی جھوٹی نبوت خاک میں مل گئی۔
”عبدالعزیز باسندی“
اس شخص نے 332ھ کے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کیا اور ایک پہاڑی مقام کو اپنا مستقر بنایا۔ یہ شخص انتہائی مکار اور شعبدہ باز تھا۔ پانی کے حوض میں ہاتھ ڈال کر جب باہر نکالتا تو اس کی مٹھی سرخ اشرفیوں سے بھری ہوئی ہوتی تھی۔اس قسم کی شعبدہ بازیوں اور نظر بندیوں نے ہزاروں لوگوں کو گمراہی کے راستے پر ڈال دیا۔
علماءکرام اور اہل حق نے لوگوں کو بہت سمجھایا مگر جن کی قسمت میں مرتد ہونا لکھا تھا اس کو کون ٹال سکتا تھا جب باسندی نے دیکھا کہ اہل حق اسکی نبوت میں رکاوٹ ہیں تو اس نے اہل حق کے خلاف ظلم وستم کا بازار گرم کیا۔ ہزاروں مسلمان اس جرم میں اس کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ جب لوگ اس کے ظلم وستم سے تنگ آگئے تو حکومت کو بھی اس کی تحریک سے خطرہ محسوس ہوا چنانچہ وہاں کے حاکم ابو علی بن محمد بن مظفر نے باسندی کی سرکوبی کے لیے ایک لشکر روانہ کیا۔ باسندی ایک بلند پہاڑ پر جاکر قلعہ بند ہوگیا لشکر اسلام نے اس کے گرد محاصرہ ڈال دیا اورکچھ مدت کے بعد جب کھانے پینے کی چیزیں ختم ہونے لگیں تو باسندی کے فوجیوں کی حالت دن بدن خراب ہونے لگی اور جسمانی طاقت بھی جواب دے بیٹھی۔یہ صورت حال دیکھ کر لشکر اسلام نے پہاڑ پر چڑھ کر ایک زبردست حملہ کیا اور مار مار کر دشمن کا حلیہ بگاڑ دیا۔ باسندی کے اکثر فوجی مارے گئے اور خود باسندی بھی جہنم واصل ہوا۔(حوالہ:بائیس(22) جھوٹے نبی۔تالیف۔نثاراحمد خاں فتحی)
یہ چند ایک جادوگر عاملین کا تذکرہ میں نے آپ کے سامنے کیا، ویسے تو تاریخ میں بہت سارے مدعیان نبوت آئے اور گئے،آج ضرورت اس امر کی ہے کہ دین اسلام کے پاک وجود کو بچانے کے لیے ان شیطانوں اور کذابوں کا قلع قمع کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے بلکہ خاتم الانبیاءحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت واحکامات کی پیروی کرتے ہوئے سخت سے سخت فیصلے کیے جانے چاہئیں۔
مرزا قادیانی کا فتنہ کیوں ختم نہیں ہو رہا؟
ایک بڑا اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جتنے بھی مدعیان نبوت آئے ان کے فتنے تھوڑے ہی عرصے میں ختم کردیے گئے لیکن قادیانی فتنہ سو سال سے زیادہ عرصہ ہوا ابھی تک جاری ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ 1924 کو مسلمانوں کی خلافت ختم ہو گئی، اس کے بعد سے اب تک سو سال ہونے کو ہیں کوئی خلیفہ اور خلافت نہیں، اس سے پہلے فتنے اس لیے ختم ہو جائے کرتے تھے کہ مسلمانوں کا ایک خلیفہ ہوتا تھا وہ خود جیسا بھی ہوتا تھا بہرحال اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کے کام کرتا ہی تھا۔ چنانچہ تمام فتنوں کو مسلمانو حکمرانوں نے ریاست کی طاقت استعمال کرکے ختم کیا، جبکہ قادیانیوں کو غیر تو غیر اپنی ریاستیں بھی تحفظ فراہم کررہی ہیں، شاید اسی میں اللہ کی کوئی حکمت ہو، کیونکہ اللہ کا کوئی بھی کام حکمت سے کالی نہیں ہوتا۔