مسلمان اور عملیات کی دنیا
سید عبدالوہاب شیرازی
کسی بھی قوم کا عروج و زوال ان کی زندگیوں پر بہت اثر ڈالتا ہے، جب مسلمان دنیا میں عروج پر تھے، تو ان کام،تہذیب،تمدن،اخلاق،اقدار ہر چیز عروج پر تھی، لیکن خلافت اسلامیہ ختم ہونے کے بعد مسلمان زوال کا شکار ہوئے تو ہر چیز زوال کا شکار ہوگئی۔خاص طور پر ہندوستان پر دوسوسال تک انگریزوں کی حکمرانی نے یہاں کے مسلمانوں کو علم سے کوسوں دورکرکے ذہنی پستی کا شکار کردیا، اور جب کوئی ذہنی پستی کا شکار ہوتا ہے تو اس کے اندر لالچ پیدا ہوجاتی ہے، پھر یہ دنیا اور دنیا کے سامان کی لالچ اس سے ایسے ایسے گھٹیا کام کرواتی ہے جن کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ایک وہ زمانہ بھی تھا جب کاہنوں، نجومیوں اور عملیات کا کام کرنے والوں کولالچی اورمعاشرے کا گھٹیا انسان تصور کیا جاتا تھا، اور ایک زمانہ اب ہے کہ یہی کام مسجد اور مدرسے کی مقدس عمارات کے اندر بیٹھ کرکیا جاتا ہے۔مصیبت زدہ لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو مزید مصائب کا شکار کیا جاتا ہے، ایک شخص یہ دکھڑا لے کر آتا ہے کہ میرا کاروبار نہیں چلتا، میں مقروض ہوگیا ہوں، میرے پاس گھر چلانے کے لیے پیسہ نہیں۔ عاملین اسے ہی کہتے ہیں اتنے اتنے پیسے، بکرا لاو، کستوری، زعفران اور دیگر قیمتی چیزیں لاو، ہم فلاں عمل کریں گے، فلاں تعویذ کریں گے، اور تمہارے پاس پیسے کی ریل پیل ہوگی۔سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اگر ایسی عملیات سے پیسہ ملتا تو سب سے پہلے تو یہ عاملین ہی دنیا کے امیر ترین انسان ہوتے۔چنانچہ بچارہ مصیبت زدہ آدمی وہاں جاکر مزید لٹ جاتا ہے۔ یہ بھی دراصل اللہ کے عذاب ہی کی ایک صورت ہے، کیونکہ ان لٹیروں کے پاس آنے والے نے اگر اللہ سے تعلق قائم کیا ہوتا تو اسے ان کے پاس جانے کی ضرورت ہی پڑتی، کیونکہ اللہ والا ہر حال میں اللہ ہی کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اپنی ہر حالت میں وہی روش اختیار کرتا ہے جو اللہ نے اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، حالات اچھے ہیں تو اللہ کا شکر، حالات خراب ہیں تو صبرکرنا اور اللہ ہی سے مدد مانگنا اور اسی کے سامنے سربسجود ہونا۔
اسلامی تاریخ میں کچھ ادوار ایسے گزرے جن میں مسلمان مسلسل شکست خوردہ اور زوال کا شکار رہے، جیسے منگولوں کے عروج کا دور، جہاں ایک طرف چنگیز خان اور ہلاکو خان نے اسلامی دنیا کو تہہ بالا کرکے رکھ دیا تھا تو دوسری طرف صلیبی اور عیسائی اپنی شیطانی سازشوں میں لگے رہے۔ جب کوئی شخص پسپائی اختیار کرتا ہے تو اسے سب سے بڑی فکر اپنی بقاءکی ہوتی ہے، باقی چیزیں ثانوی حیثیت میں چلی جاتی ہیں۔ چنانچہ اسی بات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صلیبیوں، ٹمپلرز،اور صیہونیوں نے لٹے پٹے مسلمانوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جادو،عملیات کے چکروں میں کچھ مسلمانوں کو ڈال دیا۔ اس سے بڑا ظلم یہ کیا کہ کئی مسلمان جید علماءکی تحریروں اور کتابوں میں خردبرد اور تبدیلیاں کرکے مسلمانوں کے ہاتھوں میں دے دیں۔چنانچہ یہ خرد برد صلیبیوں کے دور میں بھی ہوئی اور ہندوستان میں انگریزوں کے دور میں بھی ہوئی۔کئی ایسی کتابیں آج میں مارکیٹ موجود ہیں جو اسلام کی نامور شخصیات کی طرف منسوب ہیں جب کہ ان کتابوں کو دیکھا جائے تو ان میں ایسی ایسی چیزیں شامل ہیں جن کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ یہ امام غزالی جیسی عظیم شخصیت نے لکھی ہوگی۔
اسلام دشمنوں نے تو اپنا کام کرنا ہے یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں، عجیب اور اس بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم مسلمانوں نے بغیر کسی تحقیق کے عیسائیوں یہودیوں کے تیارکردہ تعویذات کو لکھنا اور استعمال کرنا شروع کردیا۔صرف عام مسلمانوں نے ہی نہیں بلکہ ایسے ایسے لوگوں نے بھی من گھڑت تعویذات کا استعمال شروع کردیا جنہوں نے آٹھ دس سال مدرسے میں لگائے تھے۔ انہوں نے ذرا بھی اس بات کا خیال نہ کیا کہ ہم نے دس سال مدرسے میں جو چیز نہ پڑھی، نہ سیکھی، نہ کسی مستند کتاب میں دیکھی اور نہ ہی ہمیں ان تعویذات میں لکھے گئے حروف کا معنی مطلب پتا ہے اور وہ لکھ لکھ کر دے رہے ہیں اپنے آپ کو پیر کہلاتے ہیں اور لوگوں کا نہ صرف مال لوٹ رہے ہیں بلکہ ان کا ایمان اور عقیدہ بھی خراب کررہے ہیں۔ چنانچہ آج لوگوں کو اللہ کی ذات پر اتنا یقین نہیں جتنا ایک کاغذ کی پرچی پر ہے۔میرے ساتھ بارہا ایسا ہوا کہ جب میں نے کسی کو قرآنی یا مسنون دعا بتائی، اور کہا کہ دو رکعت صلوة حاجت پڑھ کر اللہ سے دعا کریں تو اس پوچھنے والے نے کہا کچھ اور بتائیں تعویذ دیں۔ یعنی ان کا اس بات پر بالکل یقین نہیں کہ حضرت نوح ، حضرت ابراہیم، حضرت موسی، حضرت داود، حضرت سلیمان، حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکلات سے نکلنے کے لیے جو کچھ کیا وہی ہمیں بھی کرنا چاہیے کیونکہ نبی انسانوں کو تعلیم دینے ہی آتے ہیں۔ عاملین نے لوگوں کا یقین من گھڑت تعویذات، بے بنیاد نقوش، کفریہ اور شرکیہ کلمات پر بٹھا دیا ہے۔لوگوں کو صلوة حاجت پر یقین نہیں مگر نمبروں والے تعویذ پر زیادہ یقین ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو؟ عاملین خود لوگوں کو بتاتے ہیں قرآنی حروف کو جب نمبروں میں تبدیل کیا جاتا ہے تو تاثیر زیادہ ہو جاتی ہے، یعنی اللہ کے نازل کردہ حروف میں وہ تاثیر نہیں جو عامل کے لکھے ہوئے ہندسوں میں ہے۔ نعوذبااللہ من ذالک۔
نظربد، ٹیلی پیتھی، مسمریزم، ہیپناٹزم
نظربد، ٹیلی پیتھی، مسمریزم، ہیپناٹزم یہ تمام چیزیں ملتی جلتی ہیں یعنی ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ان تمام چیزوں کا تعلق قوت خیالیہ سے ہے، قوت خیالیہ کا مطلب ہے انسان کے خیال کی طاقت، انسان کے خیال میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک طاقت رکھی ہے، اور اس طاقت کا مثبت استعمال بھی کیا جاتا ہے اور منفی بھی۔ صوفیہ کے ہاں ایک لفظ بولا جاتا ہے ”توجہ فرمانا“ جیسے کہاجاتا ہے حضرت توجہ دیں، یا فلاں پر حضرت نے اپنی توجہ ڈالی تو یہ ہوگیا وغیرہ۔ یہ دراصل انسان کے خیال کی طاقت ہوتی ہے۔ قوت خیالیہ کبھی تو محنت ریاضت اور کوشش کرکے حاصل کی جاتی ہے اور کبھی خود بخود کسی کو حاصل ہوتی ہے اور اسے اس کا معلوم بھی نہیں ہوتا۔ٹیلی پیتھی، مسمریزم، ہیپناٹزم میں اسی قوت خیالیہ کے ذریعے مختلف کام کیے جاتے ہیں، اور مختلف مشقیں کرکے اپنے خیال کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔چنانچہ جو لوگ اس میں مہارت حاصل کرلیتے ہیں تو پھر وہ مختلف قسم کے شعبدے دکھاکر لوگوں کو متاثر بھی کرتے ہیں اور اپنا فین بھی بناتے ہیں۔مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک شخص اسی قسم کے شعبدے دکھا کر لوگوں کو بیوقوف بناتا تھا، وہ لوگوں کو کہتا تھا میرے تمہارے مرحومین کی روحوں کو حاضر کرسکتا ہوں، چنانچہ جب کوئی اس سے کہتا میرے والد یا والدہ مرحوم کی روح کو حاضر کرو تو وہ اپنا کرتب کچھ اس طرح دکھاتا کہ سامنے رکھی ہوئی میز خود بخود اوپر کی طرف اٹھتی اور فضا میں معلق ہو جاتی۔اس طرح اس نے ہزاروں لوگوں کو بیوقوف بنایا اور اچھا خاصا پیسہ کمایا۔ جب مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ کو اس کا علم ہوا تو وہ بھی اسے دیکھنے گئے اور سارا معاملہ دیکھنے کے بعد انہوں نے اپنے کچھ شاگردوں کو قوت خیالیہ کی مشق کرائی اور پھر اسی طرح اس کے اور لوگوں کے سامنے میز کو خیال کی قوت سے اٹھا کر فضا میں معلق کیا لوگوں کو اس کی حقیقت بتائی کہ یہ تمہارے مرحومین کی روحیں نہیں بلکہ ایک شعبدہ بازی ہے۔
آج کل پاکستان میں بھی اسی طرح کی شعبدہ بازی بہت سارے لوگ کرتے ہیں جن میں سے ایک مشہور کرنٹ لگانے والے پیر صاحب ہیں، جب ان کی مجلس لگتی ہے تو جو بھی پیر صاحب کو ہاتھ ملاتا ہے اسے ایسا کوئی کرنٹ لگتا ہے کہ وہ چھلانگیں اور قلابازیاں لگانا شروع کردیتا ہے۔بلکہ بعض اوقات ہاتھ ملائے بغیر بھی پیرصاحب کسی کی طرف گھور کر دیکھتے ہیں تو وہ بھی پھڑکنا شروع ہو جاتا ہے، اس مقصد کے لیے پیر صاحب نے اپنے دائیں بائیں بھی اسی طرح قوت خیالیہ والے دو چار اور بھی کھڑے کیے ہوتے ہیں جو سارے مل کر پورے مجمے کا اچھل کود پر لگا دیتے ہیں۔یہ بھی قوت خیالیہ ہے۔ انہوں نے اس بات کی مشق کرکے یہ قوت اپنے خیال میں پیدا کرلی ہے اس لیے وہ یہ کام کرسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
قسط نمبر3 موکل، جنات قابو کرنا
قسط نمبر4 جادو کی تاریخ
قسط نمبر5 نائٹ ٹمپلر،فری میسن، ایلومیناتی اورکبالہ جادو
نظربد
اوپر کی تمہید سے آپ کو یہ بات بخوبی سمجھ آگئی ہو گی کہ قوت خیالیہ کیا چیز ہوتی ہے۔ قارئین کرام! نظربد بھی تقریبا یہی چیز ہے بس فرق اتنا ہے کہ ٹیلی پیتھی، مسمریزم، ہیپناٹزم میں قوت خیالیہ خود حاصل کی جاتی ہے جبکہ نظربد عام طور پر ایک شخص کی خود بخود لگ جاتی ہے جس کی قوت خیالیہ مضبوط ہوتی ہے۔ یہاں نہایت ہی دلچسپ بات یہ ہے اور اسے آپ نے بھی نوٹ کیا ہوگا کہ زیادہ تر اَن پڑھ لوگوں کی ہی نظر لگتی ہے، پڑھا لکھا اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص کی نظر بہت کم لگتی ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ پڑھا لکھا شخص بیک وقت کئی کئی باتیں اپنے دماغ میں سوچ رہا ہوتا ہے اس کے خیال میں قرار نہیں ہوتا ، جبکہ اَن پڑھ شخص زیادہ کچھ نہیں جانتا جس چیز پر خیال جماتا ہے تو کئی کئی منٹ تک صرف وہی خیال اس کے دماغ میں رہتا ہے اور پھر یہ ایک قوت بن کر اس چیز کو متاثر کردیتا ہے۔البتہ بعض لوگو ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے ارادے سے بھی کسی کو نظر لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جبکہ زیادہ تر لوگوں کی نظر بغیر ارادے کے ہی لگتی ہے۔ جب کوئی شخص کسی چیز کی طرف دیکھتا ہے اور وہ چیز اسے اچھی لگتی ہے اور وہ حیرت زدہ ہو جاتا ہے تو چند سیکنڈ تک اپنے خیال کی ساری توانائیاں اس چیز پر مرکوز کردیتا ہے تو یہی نظر لگنا ہوتا ہے، اسی لیے ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب کوئی چیز اچھی لگے تو ہم فورا ”ماشاءاللہ“ کہ دیا کریں۔
ایک مرتبہ ہمارے گاوں میں ہمارے گھر کے باہر ایک آلو بخارے کا درخت لگا ہوا تھا جس کے ساتھ اس سال بہت زیادہ پھل تھا،ایک عورت ہمارے گھر آئی، جاتے ہوئے جب دروازے پر پہنچی اور اس کی نظر اس درخت پر پڑی، تو اس نے فورا کہا” اتنا زیادہ پھل؟“ اس کے یہ بات کہنے کے تقریبا ایک یا ڈیڑ منٹ بعد درخت بلاوجہ ہی جڑوں سے نکل کر زمین پر گرگیا۔ نظر اتنی طاقت ور ہوتی ہے کہ زندہ انسان یا جانور کے کلیجہ پھاڑ دیتی ہے۔
نظربد شریعت کی روشنی میں
نظربدلگنا کوئی آج کی بات نہیں بلکہ قدیم زمانے سے ہی یہ تصور دنیا میں موجود ہے۔ اسلام کے آغاز میں کفار مکہ نے اسلام کی ترقی روکنے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سمیت صحابہ کرام کو نقصاب پہنچانے کے لیے بہت سارے طرح طرح کے حربے آزمائے، انہیں حربوں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ انہوں نے ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کیں جو اپنے ارادے سے نظر لگا سکتے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی ان کے شر سے بھی حفاظت فرمائی۔ ان کی اس شرانگیزی کو قرآن میں اس طرح سے بیان کیا ہے کہ:
وَإِن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌO
اور بے شک کافر لوگ جب قرآن سنتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ آپ کو اپنی (حاسدانہ بد) نظروں سے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے۔
الْقَلَم، 68: 51
اس آیت میں نظرِ بد میں نقصان کی تاثیر ہونے کا اشارہ ہے جو کسی دوسرے انسان کے جسم و جان پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ چنانچہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ:
الْعَيْنُ حَقٌّ وَ نَهَی عَنِ الْوَشْمِ.
نظر کا لگ جانا حقیقت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گودنے سے منع فرمایا۔
- بخاري، الصحيح، 5: 2167، رقم: 5408، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة
- مسلم، الصحيح، 4: 1719، رقم: 2187، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
- أحمد بن حنبل، المسند، 2: 319، رقم: 8228، مصر: مؤسسة قرطبة
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
الْعَيْنُ حَقٌّ وَلَوْ کَانَ شَيْئٌ سَابَقَ الْقَدَرَ سَبَقَتْهُ الْعَيْنُ وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا.
نظر حق ہے اگر کوئی چیز تقدیر کو کاٹ سکتی ہے تو نظر ہے اور جب تم سے (نظر کے علاج کے لیے) غسل کرنے کے لیے کہا جائے تو غسل کر لو۔
- مسلم، الصحيح، 4: 1719، رقم: 2188
- ابن حبان، الصحيح، 13: 473، رقم: 6107، بيروت: مؤسسة الرسالة
نظر بد کے برے اثرات ہوتے ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نظر بد سے بچاؤ کے لئے جھاڑ پھونک یعنی دم درود کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دم کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
رُخِّصَ فِي الْحُمَةِ وَالنَّمْلَةِ وَالْعَيْنِ.
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین چیزوں کیلیٔے جھاڑ پھونک کی اجازت دی:
- نظر بد،
- بچھو وغیرہ کے کاٹے پر،
- پھوڑے پھنسی کے لئے۔
- مسلم، الصحيح، 4: 1725، رقم: 2196
- أحمد بن حنبل، المسند، 3: 118، رقم: 12194
- ترمذي، السنن، 4: 393، رقم: 2056، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا:
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ أَمَرَنِي رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَوْ أَمَرَ أَنْ يُسْتَرْقَی مِنَ الْعَيْنِ.
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ مجھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا یا حکم دیا کہ نظر بد لگنے کا دم کیا کرو۔
- بخاري، الصحيح، 5: 2166، رقم: 5406
- مسلم، الصحيح، 4: 1725، رقم: 2195
ایک حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم رَأَی فِي بَيْتِهَا جَارِيَةً فِي وَجْهِهَا سَفْعَةٌ فَقَالَ اسْتَرْقُوا لَهَا فَإِنَّ بِهَا النَّظْرَةَ.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے گھر کے اندر ایک لڑکی دیکھی جس کے چہرے پر نشانات تھے۔ ارشاد فرمایا کہ اس پر کچھ پڑھ کر دم کرو کیونکہ اس کو نظر لگ گئی ہے۔
- بخاري، الصحيح، 5: 2167، رقم: 5407
- مسلم، الصحيح، 4: 1725، رقم: 2197
نظر بد سے علاج کے لئے معوذتین پڑھ کر دم کیا جائے اور یہ دعا بھی کی جائے جو حدیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ زوجہ مطہرہ نبی کریم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب نبی بیمار ہوتے تو جبرئیل علیہ السلام آکر آپ کو دم کرتے اور یہ کلمات کہتے:
بِاسْمِ اﷲِ يُبْرِيکَ وَمِنْ کُلِّ دَائٍ يَشْفِيکَ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ وَشَرِّ کُلِّ ذِي عَيْنٍ.
اللہ کے نام سے، وہ آپ کو تندرست کرے گا، اور ہر بیماری سے شفا دے گا اور حسد کرنے والے حاسد کے ہر شر سے اور نظر لگانے والی آنکھ کے ہر شر سے آپ کو اپنی پناہ میں رکھے گا۔
قرآن مجید کی آخری دو سورتوں کو معوذتین کہتے ہیں ان میں بھی پناہ مانگی گئی ہے۔ لہٰذا اُن سے بھی نظربد کا علاج کیا جاتا ہے:
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ کَانَ يَنْفُثُ عَلَی نَفْسِهِ فِي الْمَرَضِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ فَلَمَّا ثَقُلَ کُنْتُ أَنْفِثُ عَلَيْهِ بِهِنَّ وَأَمْسَحُ بِيَدِ نَفْسِهِ لِبَرَکَتِهَا.
حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم اپنے اس مرض کے اندر جس میں آپ کا وصال ہوا معوذات پڑھ کر اپنے اوپر دم کیا کرتے تھے۔ جب آپ کی تکلیف بڑھ گئی تو میں انہیں پڑھ کر آپ پر دم کیا کرتی اور بابرکت ہونے کے باعث آپ کے دستِ اقدس کو آپ کے جسم اطہر پر پھیرا کرتی۔
- بخاري، الصحيح، 5: 2165، رقم: 5403
- مسلم، الصحيح، 4: 1723، رقم: 2192
درج بالا آیات و روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ نظرِ بد کوئی وہمہ یا توہم پرستی نہیں بلکہ حقیقت ہے جس کے اثرات ظاہر ہونے پر دَم کرانا درست ہے۔
علاج کا ایک اور طریقہ
ایک دفعہ سھل بن حنیف رضی اللہ عنہ نہا رہے تھے کہ ان کے پاس سے عامر بن ربیعة رضی اللہ عنہ کا گذر ہوا ، تو انہوں نے سھل رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر کہا کہ میں نے ایسی خوبصورت جِلد آج سے پہلے نہیں دیکھی، یہ تو اپنی چادر میں چھپی ہوئی کسی کنواری کی جلد سے بھی اچھی ہے ۔ سھل رضی اللہ عنہ اسی وقت بے ہوش سے ہو کر زمین پر گِر گئے ، انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں لے جایا گیا ، اور بتایا گیا کہ سھل ہوش نہیں کر رہا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دریافت فرمایا:
مَن تَتُّھِمونَ بِہ
کیا تم لوگ کسی کو اِس (نظر لگانے)کامورد الزام ٹھہراتے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا جی ہاں ، عمار بن ربیعہ کو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا اور اِرشاد فرمایا:
عَلام یَقتُلُ احدکم اخاہُ اذا رای احدکم من اخیہ ما یُعجِبُہُ فَلیدعُ لہ بالبَرَکَةِ۔
کس بات پر تم میں سے کوئی اپنے کسی (مسلمان)بھائی کو قتل کرتا ہے ، (یاد رکھو کہ) اگر تم میں سے کوئی اپنے (کسی مسلمان) بھائی میں کچھ ایسا دیکھے جو اسے پسند آئے تو(دیکھنے والا)اپنے اس بھائی کے لیے برکت کی دعا کرے۔ اور انہیں حکم دِیا کہ اس کے لیے وضوءکرو ، غسل کرو۔ تو عامر رضی اللہ عنہ نے وضوءکیا ، اور اپنے دونوں گھٹنوں اور اپنی کمر سے نیچے کے حصے کو دھویا ، اور اپنے دونوں ٹانگوں کو پہلووں سے دھویا ،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ وہ پانی سھل پر ڈال دِیا جائے۔ یعنی وضوءاور دھلائی میں استعمال کیے جانے والا جوپانی عامر رضی اللہ عنہ کے جسم سے چھو کر نیچے آیا ، اس پانی کو سھل رضی اللہ عنہ کے سر کی پچھلی طرف سے ان پر ڈالا جائے ،تو سھل رضی اللہ عنہ لوگوں کے ساتھ اس طرح واپس گئے جیسے کہ انہیں کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
( سنن ابن ماجہ /حدیث3638/کتاب الطب/باب32، صحیح ابن حبان /حدیث6105/کتاب الرقی و التمائم، امام الالبانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،موطا مالک/حدیث1714/کتاب العین/ پہلا باب، مسند احمد /حدیث /16402۔
نظر بد اور حسد سے بچنے کی دعائیں
1۔جب کسی چیز کو دیکھیں اور آپ کو پسند آئے یا حیرت زدہ کردے تو یوں کہیں:
مَا شَائَ اللہُ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللہِ
جو اللہ نے چاہا کچھ قوت نہیں مگر اللہ کی مدد سے
2۔پسندیدہ چیز کو دیکھ کر برکت کی دعا یوں دیں۔
بَارَکَ اللہُ فِیہِ
اللہ تمھیں اس میں برکت دے
3۔روزانہ صبح شام معوذات یعنی قرآن کی آخری تین سورتیں تین بار پڑھ کر ہاتھوں پر دم کریں اور پورے جسم پر جہاں تک ہاتھ پہنچتا ہے پھیر دیا کریں۔یہ عادت بچوں کو ڈلوائیں، جو بچے بہت چھوٹے ہیں نہیں پڑھ سکتے آپ خود ان پر دم کرلیا کریں۔
4۔اللہ کے مکمل کلمات کے ذریعے پناہ لینا
اَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّةِ مِن کُلِّ شَیطَانٍ وَہَامَّةٍ وَمِن کُلِّ عَینٍ لَامَّةٍ
میں پناہ لیتا ہوں اللہ کے مکمل کلمات کے ذریعے ہر ایک شیطان سے اور ہر زہریلے جانور سے اور ہر نقصان پہنچانے والی نظر بد سے
5۔نظر بد سے حفاظت کا دم
اِمسَحِ البَاسَ رَبَّ النَّاسِ بِیَدِکَ الشِّفَائُ لَا کَاشِفَ لَہُ اِلَّا اَنتَ
اے لوگوں کے رب! اس تکلیف کو دور فرما، شفا تیرے ہاتھ میں ہے، تیرے علاوہ اسے کوئی دور نہیں کرسکتا
6۔شدید نظر لگ جانے پردعا
اَللّٰہُمَّ اَذہِب عَنہُ حَرَّہَا وَ بَردَہَا وَ وَصَبَہَا
اے اللہ!اس سے اس کی گرمی و سردی اور بیماری و لاغری کودور کر دے
7۔صبح وشام کی دعائیں
بِسمِ اللہِ الَّذِی لَا یَضُرُّ مَعَ امِہِ شَیءفِی الاَرضِ وَلَا فِی السَّمَائِ وَہُوَ السَّمِیعُ العَلِیمُ
اللہ کے نام سے، وہ ذات کہ اس کے نام سے کوئی چیز زمین میں ہو یا آسمان میں، نقصان نہیں دے سکتی اور وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے
8۔ہر طرح کے نقصان سے بچنے کی دعا
اَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ
میں اللہ کے کامل کلمات کی پناہ لیتاہوں ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے
9۔جبرائیل علیہ السلام کا دم
بِسمِ اللہِ اَرقِیکَ مِن کُلِّ شَیئٍ یُذِیکَ مِن حَسَدِ حَاسِدٍ وَکُلِّ عَینٍ وَاسمُ اللہِ یَشفِیکَ
اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ کو دم کرتا ہوں ہر اس چیز سے جو آپ کو اذیت دیتی ہے، ہر حاسد کے حسد سے اور ہر نظر بد سے، اور اللہ کے نام کے ساتھ، (اللہ)آپ کو شفا دے۔
فہرست پر واپس جائیں