کبالا جادو کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہیں۔؟
Black Magic
کبالہ بابل کی تہذیب کا وہ علم ہے جو مخصوص اعداد شمار اور علامات کے ذریعے کیا جاتا تھاجسے مقامی زبان میں کبالہ کہا جاتا تھا، اسے ہم کالا جادو یا بلیک میجک سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس دنیا میں موجود رنگینیاں ہمیں ظاہری طور پر جتنی حسین اور خوبصورت نظر آتی ہیں دراصل اپنے اندر اتنے ہی گھناونے اور پوشیدہ راز سمائے ہوئے ہیں کیونکہ سیاست ہو یا فلم انڈسٹری، میڈیا ہو یا کوئی اور اہم منصب ان پر موجود چمکتے دمکتے چہروں اور جسموں کے پسِ پردہ بدنما اور دہشت ناک کردار موجود ہیں جو کہ شیطانی پیروکار ہیں اور مٹھی بھر ہونے کے باوجود دنیا کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ ایلومیناتی خفیہ تنظیم شیطان کی عبادت کرنے والی خفیہ تنظیم ہے جو کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتی سوائے شیطانی غلامی کے اور اپنے آپ کو تمام قوموں اور لوگوں سے برتر تصور کرتی ہے کیونکہ ان کے مطابق اِن کے پاس ایسا علم موجود ہے جو دنیا کے کسی اور انسان کے پاس موجود نہیں۔ مزید یہ کہ اِن کا تعلق فرعون سے جا ملتا ہے۔ آج انہی باتوں سے پردہ ٹھانے کی کوشش کریں گے کہ اِن کا واقعی فرعون کے ساتھ کوئی تعلق ہے؟ اور آخر ایسا کون سا علم ہے جس کی بناء پہ یہ تنظیم کھلے عام تمام مذاہب کو چیلنج کرتا ہوا دکھائی دیتی ہے ایسا کیا ہے اس علم میں جس کی مدد سے آج یہ مٹھی بھر لوگ تقریبا تقریبا دنیا پہ قابض ہو چکے ہیں اور لوگوں کو اپنی طرف جھکنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
سلیمان علیہ السلام کے دور میں لوگ براہِ راست جنّات اور شیاطین سے بات کیا کرتے تھے۔ جنات اور شیاطین ایک ہی مخلوق ہے جنات نیک بھی ہوتے ہیں اور بد بھی یعنی مسلمان جنات اور کافر جنات۔ مسلمان جنات کو جن ہی کہا جاتا ہے جبکہ کفار جنات کو شیاطین کہا جاتا ہے۔ یہودی لوگ شیاطین سے جادو سیکھتے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد انہوں نے جادو پر مکمل طور پر یقین کر لیا اور اسے روحانی علم کا درجہ دیا، جس ذکر میں اوپر تفصیل اور باحوالہ کر آیا ہوں۔ اور جب حضرت عیسٰی علیہ السلام کو بھیجا گیا تو یہودیوں نے آپ کو ماننے سے انکار کر دیا اور بولے کہ آپ ہمارے مسیحہ نہیں بلکہ ہمارا مسیحہ کوئی اور ہے۔ یہ جس مسیحہ کا انتظار کر رہے تھے وہ دجال تھا کیونکہ ان یہودیوں نے جب کبالہ نامی جادو سیکھا تو وہ اس جادو کے زریعے کسی اور دنیا سے مخاطب ہوتے تھے وہ جس دنیا کی بات کر رہے تھے وہ ابلیس کی دنیا تھی جسے وہ روحانی دنیا کہا کرتے تھے۔ اس طرح وہ شیطانِ اکبر یعنی ابلیس سے براہِ راست ہمکلام ہوتے اسی نے انہیں بتایا کہ تمہارا مسیحہ کوئی اور نہیں دجال ہے۔ یہ لوگ چھوٹے شیاطین سے تو بات کرتے ہی تھے اب شیطانِ اکبر سے بھی باتیں کرنے لگیں جس سے باتیں کرنے کا راستہ انہی چھوٹے شیاطین نے ہموار کیا ہوگا اور یوں یہ لوگ شیطان اور اس کی باتوں پر من و عن سے ایمان لائے۔
دراصل یہ کبالہ نامی جادو شیطانیت اور سفلیات سے متعلق ہے جو کیمیائی، جادوئی، برقیاتی لہروں یا ہیپناٹزم کے ذریعے دماغ اور اس کی سوچوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ کبالہ جادو، جادوئی دنیا کا سب سے خطرناک جادو ہے اس کے ذریعے یہ ایلومیناتی جو کہ دنیا کا ایک فیصد ہے شیطان سے براہِ راست ہمکلام ہوتے ہیں اور شیطان انہیں دنیا کو گمراہ کرنے اور اس پر حکمرانی کرنے کے نت نئے حربے سمجھاتا ہے جس کو اپنا کر یہ لوگ دولت شہرت اور حکمرانی کے خواب کو پورا کر چکے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اس کبالہ نامی جادو کی شروعات کب کیسے اور کہاں سے ہوئی۔
کبالہ جادو کی شروعات
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم پر یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ شیطانی طاقتوں اور عملیات پر یقین رکھنے اور ان پر عمل کرنے میں بنی اسرائیل اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھا اور آپ ہی کی نسل کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے جو موجودہ فلسطین میں آباد تھی۔ حضرت یعقوبعلیہ السلام کے بیٹے اور اللہ کے پیغمبر حضرت یوسف علیہ السلام جن کا قصہ یقینا ہر مسلمان جانتا ہوگا کہ کیسے حسد کی بناءپر ان کے سوتیلے بھائیوں نے انہیں کنویں میں ڈال دیا تھا لیکن مصلحتِِ خداوندی سے ایک مصری قافلے کے ذریعے آپ علیہ السلام بچ گئے اور اس قافلے نے آپ علیہ السلام کو اپنے ساتھ مصر پہنچا لیا یہاں اللہ پاک نے آپ کو مصر کی حکمرانی عطا فرمائی، آپ نے اپنے تمام رشتہ داروں یعنی بنی اسرائیل کو فلسطین سے مصر بلوا لیا اور یہ لوگ یہاں آکے آباد ہونے لگیں۔
اس دوران بنی اسرائیل جادو اور کسی سفلی علم سے ناواقف تھی۔ مصر میں ان دنوں جادو میں عروجِ کمال پر تھا یہاں لوگ کبالہ نامی جادو اور سفلیاتی علم کے ذریعے ہر ناممکن اور ناقابلِ یقین کام کو سرانجام دیا کرتے تھے مثال کے طور پر سامری نامی جادوگر جن کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے جو موسٰی علیہ السلام کے دور میں ان کے مقابلے کے لیئے فرعون کے کہنے پہ بلوائے گئے تھے قصہ مشہور ہے کہ فرعون نے حکم جاری کیا کہ پورے مصر میں قابل قابل جادوگروں کو اکھٹا کیا جائے تاکہ موسٰی علیہ السلام کو ہرایا جا سکے۔یہاں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ کبالہ نامی جادو دنیا میں تمام جادووں سے زیادہ خطرناک ہے یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں سامری جیسے جادوگر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے وہ اسی کبالہ جادو کا سہارا لیا کرتے تھے۔
اس دور کے مصری بادشاہوں کو فرعون کا لقب دیا جاتا تھا اس وقت کے جادوگر فرعون کو کبالہ نامی کالے جادو کے ذریعے سے شیطان سے رابطہ کر کے دنیا پر حکمرانی کرنے کے نت نئے حربے سکھاتے اور ایسی ایسی ایجادات کرواتے جن کو ابھی تک سائنس سمیت انسانی عقل حیرت سے تھک رہی ہے انہی ایجادات میں احرامِ مصر بھی شامل ہیں، نمرود کے دور کی چھ عجیب ایجادات کا ذکر میں اوپر کر آیا ہوں۔ ان میں سے اکثر تعمیرات بنی اسرائیل کے قوم سے ہی کروائی جاتی اور ان پر فرعون نے ظلم و ستم کی انتہا کر دی اور ذلیل زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ اپنی قوم یعنی بنی اسرائیل کو لے کر فلسطین کی طرف ہجرت کر جائِیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو سمندر کے راستے نجات دلوا کر مصر سے نکل گئے جہاں فرعون اپنے لشکر سمیت سمندر میں غرق ہوا اور موسٰی علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر دوبارہ سے فلسطین میں آباد ہو گئے۔اس دوران بنی اسرائیل قوم پہلی جیسی نہیں رہی تھی وہ کہتے ہیں ناں ماحول کا اثر ہوتا ہے بنی اسرائیل فرعونوں میں رہتے ہوئے غرور و تکبر، ماہر جادوگروں کا علم اور دنیا پر حکمرانی کے حربے سیکھ چکی تھی یعنی ان میں ان فرعونوں کی سی تمام درندگی صفات پیدا ہو چکی تھیں۔فلسطین آکر بنی اسرائیل رفتہ رفتہ سرکش اور نافرمان بن گئی اور مصری جادوگروں سے سیکھی گئی عملیات اور جادو کے ذریعے شیطانی عملیات اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کرنے لگیں۔ یہ شیطانی عملیات مخصوص اعداد و شمار اور علامات پر مشتمل ہوتی تھیں جنہیں کبالہ کہا جاتا ہے۔
بنی اسرائیل نے جادو میں مصری جادوگروں سے بھی زیادہ مہارت حاصل کر لی اور اسے اپنے دشمنوں اور مخالفوں کو نقصان پہنچانے کے لیئے استعمال کرنے لگیں یہاں تک کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا دور آیا۔ اللہ نے آپ علیہ السلام کو عظیم الشان سلطنت کے علاوہ جنّات پر حکمرانی بھی عطا فرمائی تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کے یہودیوں نے لوگوں کو ورغلانہ اور بہکانہ شروع کر دیا اور انہیں بتایا کہ نعوذباللہ سلیمان علیہ السلام کے پاس کالے جادو (کبالہ) کی ہی حکمت موجود تھی جس کے ذریعے آپ علیہ السلام جنّات کو کنٹرول کرتے تھے لہٰذا لوگوں نے بنی اسرائیل کے ان یہودیوں کی باتوں میں آکر کبالہ جادو کو” روحانیت“ کے طور پر سیکھنا شروع کر دیا یہاں تک کہ جادو کے ان کتابوں کو مقدس کتابوں کا درجہ دے کر ہیکلِ سلیمانی میں رکھ دیا گیا ۔
مسلسل اللہ کی نافرمانیوں کی وجہ سے اس قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہوا اور ہیکل سلیمانی پر دو مرتبہ حملہ ہوا۔ پہلا حملہ بخت نصر اور دوسرا حملہ ٹائٹس نامی بادشاہ نے کیا اور ہیکل سلیمانی کو مکمل طور پر تباہ کیا گیا اور یہاں موجود بنی اسرائیل کو قتل کیا جانے لگا تقریبا ڈیڑھ لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا بچے کچے یہودی مجبورا ہجرت کر کے پورے کرہ ارض پر پھیل گئے۔ ہیکل سلیمانی پہ حملے کے دوران جادو کی سب کتابیں ہیکل سلیمانی کے ملبے تلے ہی دب کر رہ گئی جن کا حملہ آوروں کو خبر تک نہ تھی کہ کبالہ نامی جادو کیا چیز ہے۔یہاں تک تو بات تھی ہزاروں سال پہلے ان کتابوں کے ملبے تلے دبنے کی۔
کبالہ کی کتابیں کس نے نکالیں
Night Templar
گیارہ سو اٹھائیس عیسوی میں ان بچے کچے یہودیوں نے مل کر ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نام نائٹ ٹمپلر رکھا گیا۔ اس تنظیم کا مقصد بظاہر عیسائی مسافروں کو تحفظ فراہم کرنا تھا یعنی بظاہر یہ ایک سیکورٹی کمپنی بنائی گئی تھی، مگر درحقیقت ان کا مقصد ہیکل سلیمانی کے ملبے تلے موجود جادوئی کتابوں کو تلاش کرنا تھا جن کے یہ لوگ کبھی طالبِ علم رہے تھے اور یہ نہایت شاطرانہ انداز سے اس میں کامیاب بھی ہوگئے۔کیونکہ 1860 عیسوی میں برطانیہ کے دو انجنیئرز نے حرم شریف کے نیچے کھدائی کی تاکہ کچھ سروے کر سکے تو وہاں انہیں سرنگوں کا ایک جال نظر آیا جو اِن ”نائٹ ٹمپلرز“ نے کھودیں تھیں تاکہ ہیکل کے کھنڈرات سے وہ نایاب جادوئی کتابیں ڈھونڈ سکیں۔ وہ یہ نایاب اور جادوئی اثرات والی کتابیں ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے جن میں کالے جادو اور پر اسرار رسومات کا تمام علم تھا۔ اِن سب کتابوں کو حاصل کر کے ان کی غیر معمولی طاقتوں کا فائدہ اٹھا کر دنیا پہ حکمرانی کرنا ان نائٹ ٹیمپلز کا مقصد تھا۔ یہ لوگ عیسائیوں کے ساتھ مل کر صلیبی جنگوں میں بھی شامل ہوتے رہے اور خود کو انہی کا حصہ یعنی عیسائی ظاہر کر کے دنیا پہ حکمرانی کے خواب دیکھتے رہے مگر سلطان صلاح الدّین ایوبی جیسے مسلم حکمران کے ہوتے ہوئے ان کے یہ ناپاک عزائم کامیاب نہ ہو سکے۔
فری میسن اور ایلومیناتی
عیسائی اور یہودی ایک دوسرے کے مذہبی دشمن ہیں کیونکہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ نعوذ باللہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو یہودیوں نے ہی سولی پر لٹکایا تھا چانچہ جب عیسائیوں کو اِن نائٹ ٹیمپلرز کا یہودی ہونے کا پتہ چلا تو انہیں قتل کرنا شروع کر دیا تو مجبور ہو کر یہ (نائٹ ٹیمپلرز) بنی اسرائیل یعنی یہودی سکاٹ لینڈ ہجرت کر گئے اور پھر رفتہ رفتہ وہاں سے اپنا اثر و رسوخ پورے برطانیہ تک پھیلا دیا۔ یہاں سکاٹ لینڈ میں اِن نائٹ ٹیمپلرز کے یہودیوں نے لوگوں کو طاقت اور دولت کے سہانے خواب دکھانے شروع کر دیئے کیونکہ وہ لوگوں پر حکمرانی کرنے اور لوگوں کے نفسیات سے کھیلنے کے تمام تر حربے جان چکے تھے یوں آہستہ آہستہ لوگ دولت اور ان کی سوچ کا شکار ہو کر ان میں شامل ہوتے گئے کیونکہ انسان فطری طور پر دولت اور طاقت ہی چاہتا ہے اور یوں یہ تنظیم تیزی سے پھیلنے لگی یہاں تک کہ اسے 1128 میں مذہبی تنظیم تسلیم کر لیا گیا جس کے نتیجے میں اس نائٹ ٹیمپلر نامی تنظیم کو تمام یورپی قوانین سے استثنٰی حاصل ہو گئی اور یہی چیز ان کے طاقت میں اضافے کا باعث بنی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت جلد ہی یہ لوگ دنیا کے تمام وسائل پر قابض ہونا شروع ہو گئے یہاں تک کہ جائیدادیں، قلعوں، جاگیروں اور دنیا بھر کے وسائل پر قبضہ کرنے لگیں۔
یہ تنظیم دنیا بھر کے تربیت یافتہ اور تجربہ کار لوگوں پر مشتمل ہو گئی اس تنظیم کا سربراہ گرانڈ ماسٹر کہلاتا ہے اور ان کے نائیبین ماسٹر کہلاتے ہیں۔ گرانڈ ماسٹر کا حکم ان کے لیئے خدا کا درجہ رکھتاہے۔ اس زمانے میں لوگ بیرون ممالک سفر کرنے سے گھبراتے تھے کیونکہ راستے میں ڈاکووں کا خدشہ رہتا تھا ان نائٹ ٹیمپلرز نے تھوڑی سی فِیس کے بدلے لوگوں کی نقدی اور رقم ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا شروع کر دیا اور سود لینا شروع کر دیا اسی سسٹم کے ذریعے آگے چل کر بینک کا نظام متعارف کروایا گیا۔ بعد میں یہی یہودی نائٹ ٹیمپلرز یورپ میں پہلے سے موجود ایک تنظیم میسن گِلز میں شامل ہوگئے اور یہاں کبالہ جادو کے رسومات اور علامات متعارف کروانا شروع کر دیئے۔ کچھ عرصہ بعد میں اِن نائٹ ٹیمپلرز یہودیوں نے میسن گلز کے ہی اراکین میں سے اپنے ہم خیالوں کے ساتھ مل کر اپنا نام بدل کرفری میسن رکھ لیا اور یوں فری میسن نامی تنظیم وجود میں آئی جس کا مقصد پوری دنیا میں آذاد خیالی اور دِین سے بیزارگی کو فروغ دینا تھا انسان کے اندر جنس پرستی اور مادی خیالات کو پروان چڑھانا تھا۔شروع شروع میں نائٹ ٹمپلرز نے تجارتی قافلوں کی سیکورٹی کاکام شروع کیا اور معمولی سی اجرت پر وہ تجارتی قافلوں کی رقم بحفاظت ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچاتے تھے، پھر آہستہ آہستہ دنیا کا پہلا بینک وجود میں آیا۔ناظرین سونے چاندی کے سکے ختم کرکے کاغذی نوٹ کیسے وجود میں آئے؟ اور اب ان کاغذی نوٹوں کو ختم کرکے محض نمبر دینے کی کوشش کی جارہی ہے، پھر بینک کیسے بنے وغیرہ وہ موضوعات ہیں جن پر ہم بعد میں بات کریں گے۔
چنانچہ اسی چیز کو آگے بڑھاتے ہوئے اس تنظیم نے یورپ میں جنگوں کو بڑھایا اور سودی کاروبار یعنی بینکِنگ اور عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف وغیرہ بنا کر دنیا کی معیشت کنٹرول کرنے کا طریقہ متعارف کروایا۔ کیونکہ پوری دنیا کو کنٹرول کرنے کا واحد طریقہ اس کی معیشت کو کنٹرول کرنا ہے۔ ان تنظیموں نے ایک تیر سے دو شکار کر کے مغرب میں جنگ کروا کر مذاہب خاص طور پر مسلمانوں پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگا کر مذہبی بیزارگی کو فروغ دیا اور دوسری طرف ان دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیئے اپنے ہتھیار بھیج کر اربوں پتی بن گئے یوں اس تنظیم نے دنیا میں اخلاقی پستی، مذہب سے بیزارگی اور جنسی خواہشات کو فروغ دے کر لوگوں کو گمراہ کرنے اور اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس مقصد کے لیئے یہ تنظیم خود آگے نہیں آتی بلکہ شیطانی معاہدے کے ذریعے اپنے پیروکاروں سے ہر غلط کام کرواتی۔
سترہ سو چھہتر میں اس فری میسن نے مل کر ایک نئی تنظیم ”ایلومیناتی“ قائم کی،ایلومیناتی کے نظریات اور مقاصد فری میسن کے جیسے ہی تھے۔ اس تنظیم کےذریعے دنیا کے بڑے بڑے فری میسنز خصوصا جرمنی کے روتھس چائلڈ نامی خاندان ، کی مدد لے کر دنیا بھر کے مذاہب خاص طور پر اسلام اور عیسائیت کو تباہ کرنے کے لیئے منصوبے تشکیل دیئے گئے۔ اسلام کو چونکہ تباہ کرنا ان کے لیئے آسان نہیں تھا کیونکہ مسلمان پریکٹیلی دِین پر عمل پیرا ہیں اور دِین کے رہنما یعنی علماءکثیر تعداد میں موجود ہیں چونکہ دیگر مذاہب بشمول عیسائیت میں مذہبی علم صرف ان کے راہب ہی حاصل کر سکتے ہیں عام آدمی کو مذہبی علم حاصل کرنے کا حق نہیں اس لیئے باقی مذاہب کے پیروکاروں کو گمراہ کرنا ان تنظیموں کے لیئے قدرِ آسان تھا بمقابل اسلام کے اور یہ بات تو یقینا سب ہی جانتے ہوں گے کہ عیسائی راہب وقتِ اول سے یہ بات جانتے آئے ہیں کہ ایک آخری نبی جس کی یہ یہ نشانیاں ہوں گی آئے گا جو حق پر ہوگا مگر وہ علامات جاننے کے باوجود یہ لوگ پیسے اور عہدوں کی لالچ کی وجہ سے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے، تو ایسے لوگ جو پہلے سے گمراہ ہیں انہیں اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کرنا کون سی بڑی بات تھی جبکہ اسلام میں علم حاصل کرنے کا حق الحمد اللہ سے ہر مسلمان کو ہے یہی وجہ ہے کہ دنیائے اسلام میں علماءبھرے پڑے ہیں جنہوں نے ہر محاذ پر اسلام کا نعرہ بلند کیا ہے چاہے وہ سیاست ہو یا دوسرا کوئی میدان بلکہ سیاسی میدان میں تو ان تنظیموں کوں ہمیشہ مات کھانی پڑی ہے جس کی وجہ سے یہ تنظیمیں اسلام پہ غالب نہ آسکیں۔ لاکھ کوششوں کے باوجود جب یہ تنظیمیں اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہو سکیں تو انیسویں صدی میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ ان کے رہنماوں کو گمراہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ کیوں نا ان کے علماء کو بدنام کیا جائے تاکہ عوام ان سے دور ہو سکیں پھر ان کے عوام کو گمراہ کرنا مشکل نہ ہوگا تب انہی عوام کے ذریعے ان علماء کو سیاست سے بے دخل کر دیا جائے اور علماء کا ایسا نقشہ کھینچ کے پیش کیا جائے جسے دیکھ کر آئندہ آنے والی مائیں اپنے بچوں کو عالم بنانے سے بھی کترائیں۔
یہ بھی پڑھیں
قسط نمبر3 موکل، جنات قابو کرنا
قسط نمبر4 جادو کی تاریخ
قسط نمبر5 نائٹ ٹمپلر،فری میسن، ایلومیناتی اورکبالہ جادو
قسط نمبر6 شیطان کے پجاری”ویکا مذہب
ایلومیناتی
ایلومیناتی کی بنیاد 1776 کو جرمنی میں رکھی گئی ویسے تو فری میسن جو کہ الگ سے ایک خفیہ تنظیم ہے جو سب سے پہلے وجود میں آئی وہ بھی اسی ناپاک عزائم و مقاصد کے لیئے بنائی گئی ہے اس کی بنیاد بھی 1717 بتائی جاتی ہے لیکن اگر ہم قدیم مصری تہذیب پر غور کریں تو اس تنظیم کا نام و کام فرعونوں سے جا ملتا ہے جو کہ آج سے چار سے پانچ ہزار سال پہلے گزرے ہیں۔لفظ الومیناتی کا مطلب ہے علم کی روشنی سے معمور۔ سب الومیناتی خود کو دنیا کے علم سے معمور سمجھتے ہیں۔ ان کے پلانز سب خفیہ رہتے ہیں کیونکہ یہ مانتے ہیں کہ جو علم ان کے پاس ہے وہ عام انسانوں کے پاس نہیں ہونا چاہیئے اسی لیئے ان کا دین ان کا ایمان ان کا جینا مرنا سب ہی الومیناتی ہے۔
بائیبل میں شیطانِ اکبر یعنی ابلیس کا نام لوسیفر بتایا گیا ہے جس کا مطلب ہے روشنی کا علمبردار۔ دراصل شیطان کو لوسیفر تب کی بناء پہ کہا گیا ہے جب وہ اللہ کا فرمانبردار ہوا کرتا تھا کیونکہ کے معنی صبح کا بیٹا ہے۔ یہ تنظیمیں آج بھی شیطان کو اچھا مانتی ہیں اس لیئے وہ شیطان کو لوسیفر ہی کہتے ہیں اور شیطان یعنی لوسیفر کو علم دینے والا اور پرنور مانا جاتا ہے اور ان کا عقیدہ ہے کہ لوسیفر ہر چیز کا منبہ ہے خاص طور پہ ساری روشنی اور سارے علوم کا۔ اِن تنظیموں کا اس بات پر ایمان ہے کہ لوسیفر یعنی شیطان اچھا ہے ۔
البرٹ پائک جوکہ فری میسنری کے فاونڈرز میں سے ایک تھا وہ ایک 33 ڈگری فری میسنری تھا، جیسے ہمارے ہاں درجہ بدرجہ اولیاء اللہ اور تقویٰ کے لحاظ سے بڑی بڑی ہستیاں ہوتی ہیں بالکل اسی طرح ان کے ہاں بھی بتدریج ابلیس کے پجاری ہوتے ہیں جس میں سب سے بڑا درجہ 33 ڈگری کا ہے۔ البرٹ پائک کی کتاب مورلس اینڈ ڈوگما آج بھی فری میسنری کے سٹوڈنٹس کو رہنمائی کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ اس کتاب کے کچھ کلمات آپ سے شیئر کرتا چلوں البرٹ پائک لکھتا ہے
“کوئی شک نہیں یہ لوسیفر ہی ہے جس کے پاس تمام انوار ہیں تمام روشنیاں ہیں۔”اسی لیئے یہ تمام لوگ کو کرنٹ بلٹ سے تشبیہ دیتے ہیں اور اکثر جسم کے مختلف اعضاءپر کرنٹ کے نشان نما نشانات بناتے پھرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے دنیا کی مکمل آبادی میں سے صرف ایک فیصد الومیناتی ہے جو کہ دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں اور یہ تیرہ بلڈ لائنز یعنی خاندان ہیں جو نسل درنسل شیطان کی پوجا کرتی آرہی ہیں۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ ٹرمپ یا اوبامہ الومیناتی ممبر ہے تو غلط ہے کیونکہ یہ لوگ کسی کو بھی اپنی خفیہ تنظیم میں شامل نہیں کرتے ہاں مہرہ بنا کے اپنی انگلیوں پہ ضرور نچوا سکتے ہیں یعنی جو لوگ مشہور ہونا چاہتے ہیں یا پیسہ کمانا چاہتے ہیں وہ شیطان سے سودہ کر کے اسے اپنی روح بیچ دیتے ہیں اور ہمیشہ الومیناتی کے غلام بن کر رہ جاتے ہیں پھر وہ جیسا کرنے کو بولتے ہیں انہیں ویسا کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی ممبر ایلومیناتی کے کسی قانون اور رول کی خلاف ورزی کرے تو اسے عبرتناک طریقے سے مار دیا جاتا ہے۔ فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی اکثر شخصیات ایلومیناتی کی ممبر ہوتی ہیں۔ قندیل بلوچ ایک عام سی اداکارہ تھی جسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا گیا اور پھر کسی رول کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے قتل بھی کردیا گیا۔
یہ مانا جاتا ہے کہ الومیناتی کی تیرہ نسلیں بینک اونرز، ایجوکیشنسٹ، سیاستدان، دنیا کا پوری الیکٹرانک میڈیا ان کے کنٹرول میں ہے۔ اور ان کا مقصد صرف اور صرف دنیا سے تمام مذاہب خاص طور پر اسلام کو ختم کرنا ہے تاکہ سارے بنی نوع انسان ایک پلیٹ فارم پہ جمع ہو کے دجال کو خدا مان لیں جسے ان کی زبان میں نیو ورلڈ آرڈر کہا جاتا ہے۔
الومیناتی کی تیرہ نسلوں میں ایک خاندان ڈیوِڈ فیلپ کا جبکہ ایک خاندان روتھس چائلڈ کا ہے یہ دونوں خاندان پوری دنیا کے فائی نینشل سسٹم اور امریکہ کے فیڈرل ریزرف بینک کے مالک ہیں ، یہ لوگ اسّی سے نوّے فیصد کنٹرول دنیا پہ پا چکے ہیں۔ خیر اسی فیڈرل بینک سے قرضہ لے لے کر امریکہ ان کا غلام بن چکا ہے اور اگر کہا جائے کہ امریکہ کے صدور ان کے ہاں گائے بھینس سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے تو غلط نہ ہوگا۔
یہ تیرہ کے تیرہ خاندان کٹر یہودی ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ یہودی کسی طور مسلم دوست نہیں ہو سکتے ان کی ذہنیت ہمیشہ سے شیطانیت کی رہی ہے شائد یہی وجہ ہے کہ شیطان نے اپنی عبادت کے لیئے ان کا انتخاب کیا۔ یہ لوگ بظاہر اچھے اچھے کام کرتے ہیں انسان کی آسائش اور آسانی کے لیئے طرح طرح کے فلاحی کام کر کے لوگوں کی ہمدردی اور ان کا بھروسہ جیتتے ہیں لیکن پسِ پردہ ان کے مقاصد شیطانیت کو پروموٹ کرنا ہوتا ہے۔ ان کا طریقہ کار یہی ہے کہ پہلے لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتے ہیں، چاہے وہ سیاست کا میدان ہو یا فوموں کی دنیا وغیرہ ہو یہ اپنے اداکاری کے جوہر دکھا دکھا کر لوگوں کے فیورٹ ہیرو اور سیاست دان بن جاتے ہیں لوگ انہیں اپنا مسیحہ اپنا آئیڈیل سمجھ کر ان کے چال چلن کو فالو کرنے لگ جاتے ہیں انہیں سپورٹ کرنے لگتے ہیں اور جب انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ شکار جال میں پھنس چکا ہے تب بہت ہی غیر محسوس انداز میں ان کی مائنڈ پروگرامنگ کر کر کے شیطانیت کو پروموٹ کرنے لگ جاتے ہیں۔
نوٹ:: ترکی ڈرامہ سیریل ”پائے تخت سلطان عبدالحمید“ میں فری میسن،روتھ چلڈ،ایلومیناتی سمیت ان یہودیوں کی شیطانیوں کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔