قسط 2 جنات کی اقسام

002 جنات کی اقسام 1

جنات کی اقسام

ابو ثعلبہ خشی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :

 جنوں کی تین قسمیں ہیں ایک قسم کے پر ہیں اور ہواوں میں اڑتے پھرتے ہیں۔ اور ایک قسم سانپ اور کتے ہیں اور ایک قسم آباد ہونے والے اور کوچ کرنے والے ہیں۔ اس حدیث کو طحاوی نے مشکل الآثار میں ( 4/95) اور طبرانی نے طبرانی کبیر میں ( 22/114 ) روایت کیا ہے اور شیخ البانی صاحب نے مشکاہ (21206 نمبر 4148) میں کہا ہے کہ اسے طحاوی اور ابو الشیخ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے.

نکتہ
نکتہ

علامہ بدرالدین محمد دین احمد عینی بخاری شریف کی شہرہ آفاق شرح عمدة القاری میں جنات کی چند اقسام تحریر کرتے ہیں۔

 1۔غول: یہ سب سے خطرناک اور خبیث جن ہے جو کسی سے مانوس نہیں ہوتا۔ جنگلات میں رہتا ہے مختلف شکلیں بدلتا رہتا ہے اور رات کے وقت دکھائی دیتا ہے اور تنہا سفر کرنے والے مسافر کو عموماً دکھائی دیتا ہے جو اسے اپنے جیسا انسان سمجھ بیٹھتا ہے، یہ اس مسافر کو راستے سے بھٹکاتا ہے۔

2۔سعلاة: یہ بھی جنگلوں میں رہتا ہے جب کسی انسان کو دیکھتا ہے تو اس کے سامنے ناچنا شروع کردیتا ہے اور اس چوہے بلی کا کھیل کھیلتا ہے۔

3۔ غدار: یہ مصر کے اطراف اور یمن میں بھی پایا جاتا ہے اسے دیکھتے ہی انسان بے ہوش ہو کر گر جاتاہے۔

4۔ ولھان: یہ ویران سمندری جزیروں میں رہتا ہے اس کی شکل ایسی ہے جیسے انسان شتر مرغ پر سوار ہوتا ہے جو انسان جزیروں میں جا پڑتے ہیں انہیں کھا لیتا ہے۔ (عمدة القاری ، ج 10، ص 644/جنات کی حکایات ص 10)

قرآن پاک میں ”عفریت “ جن کا ذکر موجود ہے۔عفریت جنات کے ایک قبیلے کا نام ہے اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے جنات کو عفریت کہا جاتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی کابینہ کا اجلاس ہو رہا تھا ، انہوں نے اپنی کابینہ میں کہا کہ ملکہ بلقیس کا تخت کون لے کر آئے گا تو قرآن میں ہے:

قال عفریت من الجن انا اتیک بہ قبل ان تقوم من مقامک(سورہ نمل آیت39)

عفریت نے کہا اے سلیمان میں اس کا تخت آپ کے یہاں سے کھڑا ہونے سے پہلے لاوں گا۔ لیکن اسی کابینہ میں ایک اللہ کا بندہ موجود تھا جس نے کہا:

قال الذی عندہ علم من الکتاب انا آتیک بہ قبل ان یرتد الیک طرفک۔

وہ شخص جس کے پاس کتاب کا علم تھا اس نے کہا اے سلیمان میں اس کا تخت پلک جھپکنے سے پہلے لاوں گا۔ اور پھر وہ لے بھی آیا۔ اس واقعہ سے ایک اہم نکتہ ہمیں یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جنوں سے بھی زیادہ علم اور طاقت عطا کی ہے۔آج کے دور میں انسان کی طاقت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کیونکہ انسان اگرچہ خود جنوں کی طرح تیز رفتار تو نہیں لیکن اس نے ایسے جہاز اور گاڑیاں بنا دی ہیں جو مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرلیتی ہیں۔ انسان ایک ملک میں بیٹھ کر دوسرے ملک میں بیٹھے لوگوں کو نہ صرف دیکھ سکتا ہے بلکہ لائیو ان سے بات کرسکتا ہے اور اپنی آواز ان تک پہنچا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

قسط نمبر1 جادونگری جنات و عملیات کی دنیا 

قسط نمبر2 جنات کی اقسام

قسط نمبر3 موکل، جنات قابو کرنا

جب ایک عورت پر عفریت جن حاضر ہوا

عرب کے ایک راقی ہیں ابورقیہ ، انہوں نے ایک عورت پر رقیہ پڑھا تو جن کی حاضری ہوئی، اس نے کہا میں عفریت ہوں، اور میری بڑے شیطان نے یہ ڈیوٹی لگائی ہوئی کہ ہندوستان کے فلاں مزار پر بیٹھ جاو اور لوگ وہاں جو نذرانے چڑھاوے دیتے ہیں ان کو غائب کردیا کرو تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ ہمارا نذرانہ قبول ہوگیاہے۔

اسی طرح ایک شخص کو مرگی کے دورے پڑتے تھے وہ کسی جعلی عامل جادوگر کے پاس گئے اس نے کہا اسے فلاں مزار پر لے جاو وہاں جاڑو دیا کرو یہ ٹھیک ہو جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا تو وہ ٹھیک ہوگیا۔ یہ بھی دراصل انسان کو شرک میں مبتلا کرنے کا شیطانی منصوبہ ہے، چونکہ جادوگر شیطانوں کے ساتھ رابطے میں ہوتا ہے تو ان کے مشورے سے ہی ایسی تجویز دیتا ہے جب کوئی مریض جاتا ہے تو یہ شیطان جو پہلے اسے تنگ کرتے اور مرگی کے دورے لگاتے تھے اب چھوڑ دیتے ہیں تاکہ اس کا یہ یقین بن جائے کہ قبر والے نے مجھے ٹھیک کیا ہے۔

اسی طرح جنات کی ایک قسم قرین بھی ہے۔ قرین کا معنی ساتھی اور ہمنشین ہے۔ حدیث میں ہے کہ: ما منکم من احد الا وقد وکل بہ قرینہ من الجن قالوا وایاک یا رسول اللہ قال وایای الا ان اللہ اعاننی علی فاسلم فلا یامرنی الا بخیر( صحیح مسلم 1/107 باب الوسوسہ۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (تم میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے مگر اسکے ساتھ ایک جنوں میں سے ہم نشین لگایا گیا ہے تو صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول کیا آپ کے ساتھ بھی؟ تو آپ نے فرمایا میرے ساتھ بھی لیکن اللہ تعالی نے اس پر میری مدد کی ہے تو وہ فرمانبردار ہوگیا ہے اور مجھے سے صرف نیکی کی بات ہی کرتا ہے۔

عن عبداللہ بن مسعود قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان للشیطان لمۃ بابن آدم وللملک لمۃ فاما لمۃ الشیطان فایعاد باالشر وتکذیب باالحق، وما لمۃ الملک فایعاد باالخیر وتصدیق باالحق (سنن ترمذی)۔

ہر آدمی کے ساتھ ایک فرشتہ اور ایک شیطان پیدا ہوتا ہے۔فرشتہ اس کو خیر کا مشورہ دیتا ہے اور شیطان شر کا حکم کرتا ہے“۔ اسی کو عوام الناس ”ہمزاد“ کہتے ہیں۔ ہمزاد انسان کے مرنے کے بعد بھی بہت عرصے تک زندہ رہتا ہے، کیونکہ جنات کی عمریں عام طور پر لمبی ہوتی ہیں۔ بعض حضرات کا یہ کہنا ہے کہ ہمزاد انسان کے مرنے کے بعد اس کی قبر پر ہی ڈیرہ ڈال دیتا ہے، اور کبھی باقی جنوں کے گروہوں کے ساتھ جا کر شامل ہو جاتا ہے۔ سورہ ق میں ”قرین“ کے لفظ سے انہیں تعبیر کیا گیا ہے، اور قیامت کا ایک خوفناک منظر بیان کیا گیا ہے،جب انسان کو قبر سے اٹھا کر اللہ کے سامنے پیش کیا جائے گا تو قرین فرشتہ اور قرین شیطان کیا کہے گا، ان آیات کا سورہ ق میں ضرور مطالعہ کریں۔

ان کے علاوہ بھی بہت ساری اقسام ہیں۔ جس طرح ہم انسانوں کی مختلف اعتبار سے مختلف اقسام ہیں اسی طرح معاملہ جنات کا بھی ہے۔ مثلا ہم انسانوں میں مختلف قومیں قبیلے اور خاندان ہوتے ہیں ایسے ہی جنات میں بھی ہوتے ہیں۔ جیسے ہم انسانوں میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں ایسے ہی جنات مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ جیسے ہم انسانوں میں مختلف نظریات کے حامل انسان ہوتے ہیں ایسے ہی جنات میں مختلف نظریات کے حامل مسلمان، کافر، عیسائی، یہودی، ہندو، دیوبندی، بریلوی، وغیرہ وغیرہ نظریات کے جنات ہوتے ہیں۔

جیسے انسان کے ساتھ ایک ہمزاد ہے، اسی طرح انسان کے ساتھ کچھ فرشتے بھی ہوتے ہیں، ایک فرشتہ تو وہ ہے جس کا ذکر ابھی گزرا کہ وہ انسان کو خیر اور حق کی تلقین کرتا ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ دو فرشتے اور بھی ہیں جنہیں قرآن میں کراما کاتبین سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی ایک انسان کی نیکیاں لکھتا ہے اور ایک انسان کے گناہ لکھتا ہے۔ بعض روایات سے پتا چلتا ہے کہ ان تین فرشتوں کے علاوہ بھی مزید فرشتے انسان کے ساتھ ہوتے ہیں جو انسان کی سیکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ اس کائنات میں بے شمار ایسی ایسی مخلوقات ہیں جو انسان کو لمحوں میں ملیامیٹ کرسکتی ہیں، یہ فرشتے اس وقت تک انسان کی حفاظت کرتے رہتے ہیں جب تک اللہ چاہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں بارہا ایسا دیکھتے ہیں کہ فلاں آدمی چھت سے گرنے ہی والا تھا کہ بال بال بچ گیا، یا فلاں آدمی گاڑی کے نیچے آنے ہی والا تھا کہ بال بال بچ گیا، یہ دراصل فرشتے اس کی حفاظت کرتے اور اسے بچا لیتے ہیں۔ لیکن جب اللہ کو حادثہ منظور ہوتا ہے تو فرشتے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور حادثہ رونما ہو جاتا ہے۔

اسی طرح کچھ فرشتے تو ہر وقت انسان کے ساتھ رہتے ہیں اور کچھ فرشتے ایسے بھی ہیں جو عندالطلب یعنی انسان کے طلب کرنے پر آجاتے ہیں، مثلااگر آپ چاہتے ہیں کہ جب آپ رات کو سوئیں تو ایک فرشتہ صبح تک آپ کے سرہانے کھڑا رہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ آیة الکرسی پڑھ لیں جونہی آپ آیة الکرسی پڑھیں گے ایک فرشتہ آکر کھڑا ہو جائے گا اور صبح تک آپ کی حفاظت کرتا رہے گا۔

 ایک حدیث میں ہے:

اذا اویتَ الی فراشکَ فاقرا آیة الکرسی، فانہ لن یزالَ معک من اللہ تعالیٰ حافظ، ولا یقربک شیطان حتی تصبح۔(بخاری)

ترجمہ: بخاری شریف میں ہے کہ جب تو بستر پہ آئے اور آیہ الکرسی پڑھے تو اللہ تعالی کی طرف سے ایک محافظ مقرر کر دیا جاتا ہے اور صبح تک شیطان تمہارے قریب نہیں آسکتا۔

یہ بھی پڑھیں

قسط نمبر11 کاوبار اور رزق کی بندش

قسط نمبر12 رشتہ نہ ملنے کے مسائل

ایک دلچسپ واقعہ

ایک اور رویت میں ایک دلچسپ واقعہ مذکور ہے: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رمضان کی زکوة (صدقہ فطر) کی حفاظت کےلیے مقررفرمایا تو ایک رات کو ایک آنے والا آیا اور اس نے (اپنے کپڑے میں )کھانے والی چیزیں بھڑنا شروع کردیں ،میں نے اسے پکڑلیا اور کہا کہ میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا۔اس نے کہا کہ مجھے چھوڑدو،میں محتاج،عیال دار اور سخت حاجت مند ہوں۔میں نے اسے چھوڑدیا۔صبح ہوئی تو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ !اپنے رات کے قیدی کا حال تو سناو؟“ میں نے عرض کی ،اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جب اس نے کہا کہ وہ سخت حاجت منداور عیال دار ہے تو میں نے رحم کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیا۔آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”اس نے تم سے جھوٹ بولا ہے اور پھرآئے گا۔“اب مجھے یقین ہوگیا کہ وہ واقعی دوبارہ آئے گا،کیونکہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبردے دی تھی کہ وہ دوبارہ آئے گل ،سومیں چوکنا رہا ،چنانچہ وہ آیا اور اس نے (اپنے کپڑے میں )خوراک ڈالنا شروع کردی۔میں نے اسے پکڑلیا اور کہا کہ تجھے ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا۔کہنے لگا مجھے چھوڑدو میں بہت محتاج ہوں اور مجھ پر اہل وعیال کی ذمہ داری کا بوجھ ہے ،اب میں آئندہ نہیں آوں گا۔میں نے رحم کھاتے ہوئے اسے پھر چھوڑدیا۔صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”ابوہریرہ! اپنے قیدی کا حال سناو؟“ میں نے عرض کی ،اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم اس نے سخت حاجت اور اہل وعیال کی ذمہ داری کے بوجھ کا ذکر کیا تو میں نے ترس کھاتے ہوئے اسے پھرچھوڑ دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اس نے تم سے جھوٹ بولا ہے،وہ پھر آئے گا۔“میں نے تیسری بار اس کی گھات لگائی تو وہ پھرآیا اور اس نے (اپنے کپڑے میں )کھانے کی اشیاءا ڈالنا شروع کردیں۔میں نے اسے پکڑلیا اور کہا ،اب میں تجھے ضروررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا۔بس یہ تیسری اور آخری دفعہ ہے ،تو روز کہتا ہے کہ اب نہیں آئے گا لیکن وعدہ کرنے کے باوجود پھر آجاتا ہے۔اس نے کہا مجھے چھوڑ دومیں تمھیں کچھ ایسے کلمات سکھادیتا ہوں جن سے اللہ تعالی تمہیں نفع دے گا۔میں نے کہا وہ کیا کلمات ہیں ؟ کہنے لگا جب بستر پر آو تو آیت الکرسی (اللہ لاالہ الا ہوالحی القیوم)سے لے کرآخر تک پڑھ لیا کرو ساری رات اللہ کی طرف سے ایک محافظ تمہاری حفاظت کرتا رہے گا اور صبح تک کوئی شیطان تمہارے قریت نہ آسکے گا۔میں نے اسے چھوڑ دیا۔

صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”اپنے رات کی قیدی کا حال سناو؟“میں نے عرض کی ،اے اللہ کی رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس نے کہا تھا کہ وہ مجھے کچھ ایسے کلمات سکھائے گا جن سے اللہ تعالی مجھے نفع دے گاتو (یہ سن کر ) میں نے اسے پھرچھوڑ دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”وہ کلمات کیا ہیں ؟“میں نے عرض کی،اس نے مجھ سے کہا کہ جب بستر پر آو تو اول سے آخر تک مکمل آیت الکرسی پڑھ لیا کرو تو اس سے ساری رات اللہ تعالی کی طرف سے ایک محافظ تمہاری حفاظت کرے گا اور صبح تک کوئی شیطان تمہارے قریب نہیں آ سکے گا۔اب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم خیروبھلائی کے سیکھنے کے حددرجہ شائق تھے۔یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اس نے تم سے بات تو سچی کی ہے حالانکہ وہ خود تو جھوٹا ہے،اے ابوہریرہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم تین راتیں کس سے باتیں کرتے رہے ہو؟“میں نے عرض کی :نہیں ، تو رسو ل اللہ نے مجھے بتایا”وہ شیطان تھا۔“(بخاری ،کتاب الوکالة)

جنات کی ایک قسم وہ بھی ہے جو نیند کی حالت میں انسان پر بوجھ ڈالتے ہیں، ہم میں تقریبا ہر آدمی کے ساتھ ایسا ہوا ہوتا ہے کہ رات کو سوتے ہوئے ہم پر بوجھ پڑتا ہے ہم ہلنا چاہیں تو ہل نہیں سکتے لیکن جونہی آیت الکرسی کی ایک آدھ پڑھتے ہیں یہ بوجھ فورا ختم ہو جاتا ہے کیونکہ آیت الکرسی جنات کے لیے موت ہے۔

جنات کی ایک قسم ”خنذب“ بھی ہے جو نماز کی حالت میں وسوسے ڈالتا ہے۔

فہرست پر واپس جائیں

Related posts

Leave a Reply