مختصر سوانح حیات حکیم رحمت علی راحت از قلم حکیم غلام مصطفی
محقق قانون اربعہ طب مفرداعضاء
حالات زندگی
حکیم رحمت علی راحت محقق قانون اربعه طب مفرد اعضاء انڈیا کی تحصیل بٹالہ کے قصبہ کلانور موضوع جرمیاں سنگھاں ضلع گورداسپور میں 1933ء میں حکیم میاں اللہ دتہ کے گھر پیدا ہوۓ ۔
ابتدائی تعلیم
ابتدائی تعلیم پرائمری سکول جرمیاں سنگھاں سے حاصل کی ۔ پاکستان بننے کے بعد آپ کے والد محترم ہجرت کر کے نارووال آ گئے ۔ آپ نے نارووال ایلیمنٹری سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا، میٹرک کرنے کے بعد اپنے والد کے ساتھ شیخو پورہ میں آگئے ۔
عملی زندگی کا آغاز
1953ء میں ڈسپنسر کا کورس پاس کر کے ڈاکٹر سید عباس اولادحسین کے ساتھ کام کرتے رہے۔ آپ کے والد حکیم میاں اللہ وہ بھی ایک نامور طبیب تھے ۔ آپ نے طب کی تعلیم اپنے والدمحترم سے سیکھی۔ آپ کو طب سے بے حد لگاؤ تھا۔ خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہمیشہ سرگرداں رہے۔ ایلوپیتھی کے ساتھ ساتھ طب یونانی ، ہومیو پیتھی اور طب جدید کا بھی مطالعہ کیا۔
نظریہ مفرداعضا سے دلچسپی
ایک دفعہ کسی حکیم صاحب سے ملاقات ہوئی اور ان کے ہاتھ سے ماہنامہ اسرارالحکمت لاہور 1953 ء کا شمارہ لے کر پڑھا۔ اس ماہنامہ میں حکیم انقلاب صابر ملتانی کا ایک مضمون پڑھا جس میں انہوں نے تحقیق الا دو یہ نامی کتاب کا ذکر کیا تھا۔ آپ کو اس کتاب سے دلچسپی ہوگئی اور اس کی تلاش کے سلسلہ میں دفتر ماہنامہ اسرار الحکمت لاہور میں ایڈیٹر حکیم اقبال حسن صاحب سے ملاقات کی ۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کتاب مصنف حکیم صابر ملتانی کے مطب فیض باغ عیسی سٹریٹ نمبر 10 سے ملے گی۔آپ نے اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے حکیم انقلاب صابر ملتانی سے ملاقات کا فیصلہ کر لیا۔
حکیم انقلاب کی شاگردی
1956ء میں صابر ملتانی سے ملاقات ہوئی ۔ پہلی ملاقات ہی میں آپ حکیم انقلاب کے گرویدہ ہو گئے ۔ صابر ملتانی نے بڑی شفقت کی اور پوچھا کہ آپ کہاں سے آۓ ہیں اور کیا کام کرتے ہیں ۔ حکیم رحمت علی راحت نے بتایا کہ میں ایک کوالیفائیڈ ڈسپینسر ہوں اور طب کا علم میں نے اپنے والد صاحب سے سیکھا ہے ۔ صابر ملتانی نے فرمایا کہ آپ کا شوق دیکھ کر لگتا ہے کہ آپ اس فن کے ساتھ بہت لگاؤ رکھتے ہیں۔ آپ میرے پاس آیا کر میں میں آپ کو ایک نیا نظر یہ سکھاؤں گا۔ حکیم صاحب نے ہر ہفتہ کو حکیم انقلاب صابر تائی کے پاس حصول علم کے لیے جانا شروع کر دیا اور تقریبا آٹھ سال تک ہر ہفتہ کولاہور جا کر علم حاصل کرتے رہے۔ پھر حکیم صاحب شیخو پورہ سے گھر ڑیانوالہ منتقل ہو گئے لیکن نظر یہ مفرد اعضا سیکھنے کے لیے حسب معمول صابر ملتانی کے پاس جاتے رہے۔
یہ بھی پڑھیں:قانون اربعہ طب مفرداعضاء اور نبض
صابر ملتانی کے مطب پر حکیم محمد صدیق شاہین سے ملاقات ہوئی چند ہی ملاقاتوں میں حکیم صدیق شاہین تحکیم رحمت علی راحت کے دوست بن گئے۔حکیم صدیق شاہین صابر ملتانی کے تربیت یافتہ شاگرد تھے ۔اس کے بعد زیادہ تر معلومات کا تبادلہ صدیق شاہین کے ساتھ ہی ہوتا ۔ جب استادمحترم مطلب سے فارغ ہو جاتے تو پھر شاگردوں کو نظر یہ سکھاۓ ۔والدمحترم (حکیم رحمت علی ) کے بقول حکیم انقلاب کے ہاتھ میں تین رنگوں نیلا ۔ پیلا اور سرخ رنگ کی انگوٹھیاں ہوتی تھیں ، جن کے ذریعے آپ نظر یہ مفرداعضاء کا آدھے گھنٹے میں تعارف کرادیتے ۔ آپ فرماتے کہ نیلی انگوٹھی سرد ہے اور اعصاب کی نمائندہ ہے ۔ پیلی انگوٹھی گرم ہے اور غدد کی نمائندہ ہے۔ سرخ انگوٹی خشک ہے اور عضلات کی نمائندہ ہے۔ اعصاب غدد اور عضلات جومفرداعضاء میں ان سے مرکب اعضاء اور مرکب اعضاء سے تمام جسم انسان تیار ہوتا ہے ۔ حکیم صاحب کو صابر ملتانی نے ایلو پیتھک میٹیر یا میڈیکا کے افعال و اثرات اپنے نظریہ اعصابی غدی اور عضلاتی کے تحریک کے تحت سکھاتے۔
نظریہ منفرداعضا پر سوالات
آپ کا ذہن شروع سے ہی تحقیق وریسرچ کی طرف مائل تھا۔ تعلیم کے دوران آپ نے استادمحترم صابر ملتانی کی خدمت میں کئی علمی سوالات پیش کیے جن میں سے کچھ سوالات کے تسلی بخش جوابات نہ مل سکے۔ حکیم رحمت علی راحت کے درج ذیل نکات ایسے تھے جن کے جوابات سے آپ قطعی مطمین نہیں تھے اور مزید تحقیق کرنے کی ضرورت محسوس کرتے تھے ۔
1۔ثلاثہ مفرد اعضاء کے تحت کیفیات ، مزاج ، ارکان اور اخلاط کی چار مفرد اعضاء سے صحیح تطبیق نہیں ہو سکتی۔
2- خلط سودا کاتعلق عضلات سے نہیں ہے۔
3- خون تین اخلاط سے نہیں چارا خلاط سے مرکب ہے۔
4۔فعلی یا حیاتی مفرداعضاء تین نہیں چار ہیں۔
5- ہر دوغدد ( غددنا قلہ اور غددجاذبہ ) کا مرکز جگر نہیں ہے ۔
6- مفرداعضاء کا اعصابی عضلاتی اور عضلاتی اعصابی تعلق کیفیاتی ومزاجی اور عضوی طور پر غلط ہے۔
7- مفرداعضاء کے افعال تین نہیں چار ہیں ۔
8- مفرد اعضاء کے افعال میں بہت بڑا سقم ہے مثلا اعصابی تحریک میں دل میں تسکین ( تری ) اور اعصاب میں تحریک (خشکی ) پائی جاتی ہے لیکن عضلاتی تحریک میں دل میں تحریک (ٰخشکی) پائی جاتی ہے لیکن دماغ میں تسکین ( تری ) نہیں بلکہ تحلیل (گرمی) تسلیم کی جاتی ہے ( جو کہ غلط ہے )
9۔ ادویہ کے افعال واثرات بھی تین نہیں بلکہ چار ہیں۔
10- نظریہ مفرداعضاء کے تحت دوران خون کا مسئلہ بھی الٹ گیا ہے۔
حکیم رحمت علی راحت نے نظر یہ مفرد اعضا میں پائے جانے والے جن تضادات کی نشاندہی کی جناب صابر ملتانی نے ان پر غور فرما کر اپنے مضامین میں ان کا حل لکھنا شروع کر دیا جن میں سے چند اہم نکات بطور نمونہ پیش خدمت ہیں ۔افسوس کہ زندگی نے وفا نہ کی اور حضرت صابر ان تضادات کا مکمل حل پیش نہ کر سکے۔
1- فرنگی طب اور ماڈرن میڈیکل سائنس تسلیم کرتی ہے کہ مفرد اعضا ( نشوز ) چار اقسام کے ہوتے ہیں اور طب یونانی بھی چارا خلاط تسلیم کر تی ہے ۔اس سے ثابت ہوا کہ واقعی اخلاط چار ہیں ،اس لیے ان سے چار اقسام کے مفرداعضا( نشوز ) کی پیدائش ہوتی ہے۔ –
2- چونکہ منفرداعضا( نشوز ) چار اقسام کے ہیں جو چار مختلف اخلاط سے پیدا ہوتے ہیں ۔ان کے چار مختلف مزاج اور چار ہی کیفیات ہوتی ہیں۔
3۔یادرکھیں مزاج اخلاط مفرد اعضاء میں تبدیلی ہمیشہ کیفیات کے ذریعے پیدا ۔ کیونکہ کیفیات کا اثر مزاج واخلاط اعضا پر یکساں ہوا کرتا ہے۔
4۔جہاں جہاں پر ان چاروں مفرد اعضاء کے مرکز میں وہاں پر خالص انہی انسجہ ( ٹشوز) سے اعضاء بن گئے ہیں۔جیسے دل دماغ جگر طحال (تلی)
5۔ ۔ انسجہ (مفرداعضا ء) چونکہ چار اقسام کے ثابت ہو چکے ہیں اس لیے اغذ یہ بلکہ ادویہ اور زہر بھی اپنے اندرصرف اقسام کے اثرات رکھتے ہیں جو انہی انسجہ (مفرداعضا) پراثرانداز ہوتے ۔
6۔جوبھی غذا کھاتے وہ چار اقسام کے ارکان اور چار قسم کی کیفیات سے مرکب ہوتی وہ خون بھی چارہی قسم کے اخلاط کرتا ہے ۔پانی ان سے جدا ہے یہی خون چار اقسام مفرداعضا ٹشوز غذا بنتا ہے۔
تحقیقات علم الادویہ مصنف حکیم انقلاب صابر بتائی صفحہ 201,200 1967
تحقیقات علاج بالغذا مصنف حکیم انقلاب ملتانی صفحہ 81,80 181 182 اکتو برنومبر 1970
تحقیق قانون اربعه طب مفرداعضا
حکیم انقلاب وفات بعد تضادات حکیم رحمت علی راحت نے ان کے شاگردوں کے سامنے بھی رکھے لیکن کسی نے ان کا حل پیش نہ کیا بالا خرحکیم رحمت نے انھی خطوط پرتحقیق کر کے تقریبا 1976 میں نظریہ مفرد اعضاء میں پائے جانے والے تضادات دور کر کے دنیائے کے طب کے سامنے قانون اربعہ، طب مفرداعضا پیش کیا۔
یہ بھی پڑھیں: قانون اربعہ طب مفر د اعضاء کی تعریف
قانون طب یونانی کے امور طبیعہ سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہونے کی بدولت نظر مفرداعضا طب یونانی کے حاملین کے درمیان تو محاذ آرائی ہوگئی لیکن صابر ملتانی کے شاگردوں کے ایک گروہ نے اسے انا کا مسئلہ بنا کر حکیم رحمت علی راحت کی مخالفت شروع ۔ صابر ملتانی کے شاگردوں میں حکیم نورمحمد ہیروی ، ڈاکٹر محمد صدیق رہبری ،حکیم احمد سعید یوسفی ،حکیم عبدالسلام یوسفی، حکیم محمد مشتاق آف فیصل آباد، حکیم عبدالغنی آف اوکاڑہ، پروفیسر عطاءالحق سبحانی آف ملتان نے قانون اربعہ طب مفرداعضا کی بھر پور تائید کی اور اس کے پر چار میں اہم کردارادا کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ موجد طب جدید نے اعضاء کے دو فعل ( تیزی اور ستی ) بیان کیے۔صابر ملتانی ؒے سستی فعل کو دو اقسام میں تقسیم کر کے ایک سستی کا سبب تسکین ( تری ) اور دوسری ستی کا سب تحلیل ( گرمی ) کوقرار دیا۔ حکیم رحمت علی راحت نے ستی فعل کو تین اقسام میں تقسیم کر دیا ایک سستی فعل تحلیل ( گرمی ) سے دوسراسستی فعل تسکین ( تری ) سے اور تیسر اسستی فعل تخدیر(سردی ) سے قرار دیا۔
آپ سولہ سال تک حکیم انقلاب کے ساتھ فن طب کی خدمت میں معاون رہے ۔ آپ کے علمی شوق ولگن اور خدمت فن کو دیکھ کرصا بر ملتانی نے اپنی آخری کتاب’ تین انسانی زہر‘ آپ کے نام معنون کی حکیم انقلاب کا اپنے شاگرد کے نام اپنی کتاب کا انتساب کرنا یقینا حکیم رحمت علی راحت کے لیے بہت سعادت کی بات ہے،
یہ بھی پڑھیں: راحت سمپل آرگینو پیتھی یعنی قانون اربعہ طب
تحریک تجد ید طب کا پہلا حلقہ فیصل آباد میں قائم ہوا جس میں آپ پیش پیش رہے ۔ آپ کی سر پرستی میں ماہنامہ سمپل آرگینو پیتھی اور ماہنامہ قومی طب پاکستان شائع ہوتے رہے جن میں قانون مفرداعضاء کی ترویج واشاعت کے لیے تحقیقی مضامین شائع ہوتے رہے۔ حکیم انقلاب کی وفات کے بعد آپ نے فیصل آباد میں با قاعدہ اجلاس کا سلسلہ شروع کیا جس میں دور دراز سے اطباء آ کر قانون اربعہ طب مفرد اعضا کے اسرار و رموز سیکھتے ۔ آپ کے شاگردوں کی کثیر تعداد ملک کے کونے کونے میں موجود ہے اور اس قانون کی مدد سے دکھی انسانیت کی خدمت کر رہی ہے ۔
آپ کے شاگردوں میں حکیم مقبول احمد چیمہ ،حکیم عطاء الحق سبحانی ،حکیم شبیر احمد، حکیم محمد شفیق ،حکیم فیض محمد فیض اور حکیم محمد اشرف شاکر خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔
حکیم رحمت علی راحت نے مفرداعضا کے فروغ کے لیے حکیم انقلاب کی زندگی میں ایک کتاب لکھ کر ان کی خدمت میں اصلاح کے لیے پیش کی ۔ صابر ملتانی نے نا صرف اس کتاب کا قدمہ لکھا بلکہ اس کا نام “تشریح نظریہ مفرد اعضا بھی تجویز کیا اور حکیم رحمت علی راحت کوطبع کرنے کا حکم صادرفرمایا۔ اپنے استاد کے نظریہ کی اشاعت اور فروغ کے لیے آپ کی یہ پہلی کتاب تھی۔ اس کے بعد آپ نے صابر ملتانی کے مضمون ” کیا بڑھا یا قابل علاج ہے“ کو ان کی زندگی کے بعد کتابی شکل میں مرتب کر کے 1985 ء میں فیصل آباد سے طبع کیا۔ قانون اربعہ طب مفرد اعضا پر اعتراضات کے مسکت جوابات مقیاس الطب” نامی کتاب لکھ کر دیے۔ اس کے بعد ” کلیات علم الابدان ، نامی کتاب لکھ کر اناٹومی اور فزیالوی کو با کیفیت بالا خلاط اور ، بالمفرداعضا پیش کیا۔ اس طرح آپ نے اپنی زندگی طب کے فروغ اور احیاء کے لیے وقف کر رکھی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: قانون اربعہ طب مفرد اعضاء میں مرض کی ماہیت اور اس کا اصول علاج
علم وفن وطب کا یہ بے تاج بادشاہ 26 اگست 2004ء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دنیا ئے طب کو خیر باد کہ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملا۔ اللہ تعالی مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کے کام کوان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے ۔آمین
بحوالہ تحقیقات ماہیت الامراض و علاج