بیٹی کو باپ کی چند قیمتی نصیحتیں

Dulhan 4 بیٹی کو نصیحت 1

بیٹی کو باپ کی چند قیمتی نصیحتیں
حضرت اسماء بن خارجہ رحمةاللہ علیہ نے اپنی بیٹی کی شادی کی ، شادی کے بعد اپنی بیٹی کے پاس آئے اور فرمایا کہ اے میری بیٹی !عورتیں اصلاح وفہمائش کی حق دار ہو تی ہیں ، اس لیے ضروری ہے کہ میں کچھ باتیں اصلاح و تہذیب کی تم سے بھی بیان کروں:تم اپنے شوہر کی باندی بن جاوٴ وہ تمہاراغلام بن جائے گا، اتنا قریب بھی نہ جاوٴ کہ وہ تجھ سے اکتا جائے یا تم اس سے اکتا جاوٴ اور اتنا دور بھی نہ ہونا کہ تم اس کے لیے بارِ گراں بن جاوٴ بس ایسی بن جاوٴ جیسے میں نے تمہاری والدہ کو ان اشعار میں نصیحت کی تھی:

خذ ا لعفو منی تستد یمی مو د تی ولاتنطقی فی سورتی حین أغضب
ولا تنقر ینی نقر ة الدف مر ة فا نک لا تدرین کیف المغیب
فا نی رأیت الحب فی القلب والأ ذی اذا اجمتعالم یلبث الحب یذھب

” میری غلطیوں سے درگزر کر تے رہنا ، اس طر ح محبت قائم رہے گی اور میرے غصہ کے وقت خاموش رہنا ، مجھے اس طرح نہ بجا نا جس طرح تم ڈھول بجا تی ہو ، تمہیں کیا معلوم کہ اِس میں سے کیسی آوز نکلتی ہے میں نے دیکھا ہے کہ جب ایک دِل محبت اور دوسرے میں تکلیف جمع ہو جائے تو پھر محبت با قی نہیں رہا کرتی بلکہ ختم ہو جاتی ہے۔“
ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات مرد اپنی بیوی کو طلاق دینے کی حد تک پہنچ جا تا ہے لیکن عورت اگر صبر کرے اور اپنی طرف سے بغض و نفرت کا اظہا ر نہ کرے تو بہت جلد خاوند شرمندہ ہو جا تا ہے اور اسے اس بات کا احسا س ہو جا تا ہے کہ وہ کس نقصا ن اور مصیبت میں مبتلا ہو نے والا تھا ۔

نیک بیو ی کی ایک نما یا ں اور قابل قدر خوبی
ایک اور واقعہ سنئے ! اور اس میں غور کیجئے !
حضرت عبداللہ بن العجلان رحمة اللہ علیہ نے غصے میں آکر اپنی بیوی کو طلاق دیدی ، بیوی لڑائی جھگڑے میں شریک نہ ہو ئی ، طلاق ملنے کے بعد خاموشی کے ساتھ جا نے لگی تو حضرت عبداللہ کو اپنی غلطی کا احساس ہو ا، ان کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی ، اپنے کیے پر نا دم اور غمگین ہو ئے اور چند اشعارکہے :
فا ر قت ہندا طا ئعا قند مت عند فر اقھا
فا لعین تذری دمعة کا لد رمن آما قھا

” ہندہ ، جو میری بڑی فرما ں بردار تھی ، مجھ سے جدا ہو گئی ، مجھے اس کے فراق پر بڑی ندامت ہو ئی میری آنکھیں مو تیوں کی طرح آنسو بہا تی ہیں “
بہت سے شوہر ایسے بھی ہیں جو جذبا ت اور طیش میں آکر یا کسی نئی خواہش کی خاطر اپنی بیویوں کو طلا ق دے دیتے ہیں ، عہد شکنی کر تے ہیں اور وعدے کا پا س نہیں کر تے ، یہ بات اسلا م کے بلکہ مر وت کے بھی خلاف ہے ۔ گھر کے اندر جب بھی کوئی مسئلہ یا نزاع پیدا ہو عورت کو چا ہیے کہ حکمت و دانائی سے اس کو نمٹا ئے ، تاکہ اس کا گھر آباد رہے ،بر باد نہ ہو ۔

شر یعت کا حکم ! بیوی شوہر کی فرما ں بردار رہے
کچھ حلقوں میں یہ غلط خیال عام ہے کہ بیوی کو شو ہر کی ایسی خواہشات کی تکمیل نہیں کرنی چا ہیے جس کے لیے شر یعت نے اس کو واضح ہدایا ت نہیں دی ہیں یا شر یعت نے وہ اس پر لا زم نہیں کیں ہیں ۔ بہکے ہو ئے اور گمراہ پڑھے لکھے لوگ جوعورتوں کی آزادی اور ان کے لئے انصاف کے دعویدار ہیں ، ان خیا لا ت کو عام کر نے میں مصروف ہیں کہ کھا نا پکا نا اور گھر کے دیگر کا م کر نا شریعت کی طرف سے عورت پر عائد اور لازم فرائض میں نہیں ہیں ۔ عورت کے لئے قطعاً ضروری نہیں کہ ان کی ادائیگی کے لئے وہ شوہر کا حکم مانے ۔ دوسرے لفظوں میں وہ شوہر کو صاف انکار کر سکتی ہے ۔ بلکہ ایسے لوگوں کی نظر میں اس کو انکار ہی کردینا چا ہیے ۔ یہ تو خاوند کا فرض ہے کہ وہ بیوی کے لیے خادمہ کا بندوبست کرے۔ بیوی گھر کی مالکہ ہی نہیں بلکہ ملکہ ہے اور وہ اس شان سے رہے جو ملکہ کی شایان شان ہے ۔ شوہر کی ایسی خواہشات اور احکام کو خا طر میں نہ لائے جو اس کو اس عالی مر تبہ سے گر اتے ہیں بر تن ما نجنے سے اس کے ہا تھوں میں خراشیں ، پیا ز کا ٹنے سے آنکھوں میں پا نی ، روٹی پکانے سے ہا تھوں میں جلن … بھلا وہ کو ئی لو نڈی ہے یا با ندی جو ایسے کام کر ے ۔
جو لو گ عورتوں کو بہکا تے ہیں ، انتہا ئی کم ظرف کو تا ہ بین اور نا عا قبت اندیش ہیں ۔ ان کی سوچ بچگانہ اور نا معقول ہے کہ کامیاب اور خو شیوں سے بھر پو ر شادی کی عمارت اپنے حقوق کے حصول اور صرف ضروری فرائض کی بجا آوری پر استوار ہے ۔ یہ سچ ہے کہ شر یعت نے بعض گھر یلو کا موں کی بجا آوری بیو ی پرلا زم نہیں کی ہے۔مگر وہ یہ حقیقت کیوں بھول جا تی ہے کہ شو ہر بھی اس کی خوشی اور آرام کی خا طر بعض ایسے کام کر تا ہے جو اس پر فرض نہیں ہیں۔ وہ بیوی کو آرام پہنچاتا ہے ۔ عیش و عشرت کا سامان مہیا کر تا ہے ایسا وہ کسی فرض کے تحت نہیں کرتا بلکہ خالصتاً بیوی کے سا تھ محبت والفت کی وجہ سے کرتا ہے ۔
مسلما ن بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کے حصول پر بے جا زور نہ دے اور گھر کے کام کاج کر نے سے اس وجہ سے دریغ نہ کرے کہ یہ کام اس کے فرائض میں شامل نہیں ہیں ۔
شو ہر کے جا ئز حکم کی تعمیل کر نا عورت کے لئے لازم ہے ، خواہ شر یعت نے ایسے کا موں کی بجا آ وری اس پر فرض نہ بھی کی ہو ۔ جب شوہر اس کو یہ کا م کرنے کاحکم دیتا ہے تو وہ خود بخود اس پر لازم ہو جاتے ہیں ،کیونکہ اسلام نے بیوی کو حکم دیا ہے کہ شوہر کی اطاعت کرے اور اس کا حکم مانے ۔ اسے خاوند کے تمام جا ئز احکام کو ما ننا ہو گا اگر چہ ابتدا میں وہ احکام شریعت نے اس پر فرض نہ بھی کئے ہوں ۔
یہ با ت ہما رے علم میں ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر عورت نفل عبادت بھی نہیں کر سکتی ۔ عورت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ وہ شو ہر کو اپنی ذات اور اپنی دولت سے خوش رکھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تا کید فرما ئی ہے کہ بیوی خا وند کا ہر جا ئز حکم مانے ، اگر چہ ان میں سے بعض شر یعت نے شروع میں اس پر فر ض نہ بھی کئے ہو ں ۔ بیوی کو اپنے گھر میں بیٹھ کر یا دوسری جگہ جہاں پر دے کے قوانین کی خلا ف ورزی نہ ہو تی ہے ،تجا رت کر نے کی اجازت ہے ۔ اگر اس کا شو ہر منع کر دے تو یہ اجازت ختم ہو جاتی ہے۔
بیوی کو اجا ز ت ہے کہ وہ اپنے عزیز و اقارب کو کسی بھی و قت اور کتنی ہی بار ملے بشر طیکہ شر عی حجاب کی پا سداری رہے ۔ لیکن اگر اس کا شو ہر مخالفت کر تا ہے تو شر یعت کا حکم ہے کہ وہ شو ہر کا حکم مانے ۔
اما م غزالی رحمة اللہ علیہ کی کتاب احیاء العلوم با ب نکاح میں مذکو ر ہے کہ ایک شخص سفر پر گیا ۔ روانگی سے قبل اپنی بیوی سے کہہ گیا کہ وہ خانہ سے نہ اترے ۔ نچلے حصے میں اس عورت کا باپ رہتا تھا ۔ اتفاقاً وہ بیمار ہو ا تو اس عورت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اجازت لینے کے لیے آدمی بھیجا کہ وہ نیچے اتر کر اپنے والد کی عیادت کر سکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے خاوند کی اطاعت کر ۔ اس کا باپ فوت ہو گیا ۔ اس نے پھر اترنے کی اجازت چا ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو کہلا بھیجاکہ تو نے جو اپنے شوہر کی اطاعت کی اس کے عوض میں اللہ تعالیٰ نے تیرے باپ کی مغفرت فرمادی۔

(دلہن، مولانا روح اللہ نقشبندی)

Related posts

Leave a Reply