خاوند کی عیب گیری نہ کر نے کی نصیحت

3 dulhan خاوند کی عیب جوئی 1

خاوند کی عیب گیری نہ کر نے کی نصیحت

عورت کے ناقابل برداشت افعال میں سے اس کی ہر وقت عیب گیری یا جھڑ کتے رہنے کی عادت ہے، عیب گیری حقیقت میں ناشکر گزاری کا اظہار ہے۔ عورت کی یہ بری عادت گھر کی خوشی کے لئے سم قاتل ہے۔ اس سے شوہر کادل عورت کی طرف سے پھر جاتا ہے اور اس کے رویے میں درشتگی کا باعث بنتا ہے۔ بیوی کو کسی موقع اور حال میں بھی اس بری عادت کو نہیں اپنانا چاہئے ۔ بیویاں نہیں جان سکتیں کہ عیب گیری سے ان کے گھریلو تعلقات پر کتنے تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان بیوی کو حکم دیا ہے کہ تسکین اور آسودگی کو اپنا ئے جوخاوند کے پژمردہ چہرے کو بھی مسرت سے ہمکنار کردے گا۔
خاوند کے حقیر تحفے پر بھی وہ یوں کھل اٹھے جیسے اسے سارے جہان کی دولت مل گئی ہو۔ اس سے خاوند اپنی کم ما نگی پر افسردہ نہیں ہوگا اور نہ ہی احساس کمتری میں مبتلا ہوگا کہ وہ بیوی کی ویسی خدمت نہیں کر سکا اور اس کو ایسے تحفے نہیں پیش کر سکا جیسا کہ اس کا حق تھا یا جیسی اس کی اپنے والدین کے گھر حیثیت تھی۔
ای النساء خیر قال التی تسرہ اذانظرو تطیعہ اذا امرولا تخالفہ فی نفسھا ولا مالھا بمایکرہ )

(بہ روایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نسائی
”عورتوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے شوہر کو خوش کرے جب وہ اس کی طرف دیکھے ۔“
بیوی کی مسحور کن نظر ہی شوہر کو نہال کر دے ۔ صرف ایسی عورت جو اللہ تعالیٰ کی رضاکی طالب ہو، آخرت کا خوف اسے دامنگیر ہو، اپنی زندگی کو شریعت اور سنت پر استوار کر نے کی خواہش رکھتی ہو اس عبادت سے سر فراز ہو گی ۔ شوہر کی خوشی کو بر قرار رکھنا عبادت ہی تو ہے۔ عبادت بھی ایسی کہ جس کا ثواب اللہ کی راہ میں جہاد کر نے والے شخص کے ثواب سے زیادہ ۔ عورت کی پہلی اور سب سے اچھی اللہ کی راہ اور اس کا سب سے بڑا جہاد اس میں ہے کہ وہ اپنے شوہر کو خوش رکھے اور بڑی محبت سے بچوں کی پرورش کرے ۔ سلیقے اور احتیاط سے اس کے گھر بار اور مال اسباب کی حفاظت کرے۔
ذیل میں ایک حدیث درج ہے جس سے عورت کی گھریلوذمہ داریوں سے عمدہ طور پر ادائیگی کی قدرو منزلت کا صحیح اندازہ ہوتا ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسماء بنت زید انصاریہ آئی اور اس نے کہا:
”اے رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے عورتوں نے آپ کے پاس سفیر بنا کر بھیجا ہے اللہ تعالیٰ نے مردوں پر جہاد فرض کیا ہے۔ اگر وہ کا میاب لوٹتے ہیں تو انعام و اکرام سے نوازے جاتے ہیں ۔ اگر وہ شہید ہو جاتے ہیں تو وہ زندہ رہتے ہیں اور پروردگار کے ہاں سے رزق پاتے ہیں۔ لیکن ہم عورتیں پیچھے ان کی خدمت میں رہتی ہیں۔ اجر میں ہمارے لئے کیا ہے؟“
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:”ہر عورت کو جو تمہیں ملے بتادو کہ شوہر کی اطاعت کرنا اور اس کے حقوق کو تسلیم کرنا جہاد کے برابر ہے۔ لیکن تم میں سے کم ہی عورتیں ہونگی جو ایسا کرتی ہیں۔“
حضرت اسماء نے صرف اپنے زمانے ہی کی خواتین کی نمائندگی نہیں فرمائی بلکہ بعض پہلووٴں سے ہمارے زمانے کی خواتین کی بھی پوری پوری نمائندگی کردی ہے ۔ اس زمانہ میں آزادی نسو ا ں کی علمبردار عورتیں جو کچھ کہتی ہیں اس کی ایک بڑی اہم وجہ تو یہی ہے کہ وہ فرائض ان کو حقیر نظر آتے ہیں جو قدرت نے ان کے سر ڈالے ہیں اور وہ فرائض ان کو معزز ومحترم نظرآتے ہیں جو مردوں سے متعلق ہیں ۔ اس وجہ سے وہ کہتی ہیں کہ یہ کیا ناانصاف ہے کہ ہم عورتیں تو زندگی بھر بچے لادے لادے پھریں اور چولہے چکی کی نظر ہو کر رہ جائیں اور مرد ملکوں اور قوموں کی قسمتوں کے فیصلے کر تے پھریں! اور پھر وہ مطالبہ کر تی ہیں کہ ان کو بھی مردوں کے دوش بدوش ہر میدان میں جدوجہد کر نے کا موقع ملنا چاہیے ۔ حالانکہ وہ غور کریں تو اس بات کے سمجھنے میں ذرا بھی دشواری نہیں ہے کہ ایک مرد مجاہد جو میدان جنگ میں جہاد کر رہا ہے اس کا یہ جہاد ہو نہیں سکتا جب تک اس کے پیچھے ایک مجاہدہ بچوں کے سنبھالنے اور گھر کی دیکھ بھال میں اپنی پوری قوتیں صرف نہ کرے! میدان جنگ کا یہ جہاد گھر کے جہاد ہی کا ایک پر تو اور مر د کی یہ یکسوئی عورت کی قربانیوں کا ایک ثمر ہے۔ اس لیے مرد اگر خدا کی راہ میں لڑ رہا ہے تو تنہا مرد ہی نہیں لڑ رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ خدا کی وہ بندی بھی مصروف پیکار ہے جس نے مرد کو زندگی کے دوسرے محاذوں پر لڑنے سے سبکدوش کر کے اس میدان جنگ کے لیے فارغ کیا ہے اور گھر کے مورچہ کو اس نے سنبھا ل رکھا ہے جذبات سے بے لا گ ہو کر صحیح صحیح موازنہ کر کے اگر دیکھا جائے تو کون کہہ سکتا ہے کہ ان دونوں جہادوں میں سے کوئی بھی کم ضروری ہے یا غیر ضروری ہے ؟ انصاف یہ کہ دونوں یکساں ضروری ہیں ، اس لیے خدا کی نگاہوں میں دونوں کا اجرو ثواب بھی یکساں ہے “۔

یہ بھی پڑھیں: شوہر کو ناراض کرنے والی  خاوند کو خوش رکھیں  ترغیب نکاح وعدہ غنا  ایک شادی کرنے والے صحابہ 

جو خواتین و حضرات غزوات میں صحابیا ت کی شرکت کی بعض استشنائی نظیر وں سے عورتوں کو مردوں کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں کام کر نے کے لیے استد لال کرتی ہیں وہ اگر نیک نیتی سے کسی مغا لطے میں مبتلا ہیں تو صرف یہی حدیث انکا مغالطہ دور کر نے کے لیے کافی ہے ۔
مسلمان بیوی کو اپنی گھریلو ذمہ داریوں کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے ۔ اپنے بچوں کی صحیح نگہداشت ، خاوند کی طرف الفت و محبت کا طرز عمل درحقیقت ایسے اعمال ہیں جو مردوں کی طرف سے جہاد فی سبیل اللہ سے اگر بڑھ کر نہیں تو ہم پلہ ضرور ہیں ۔ گھر کی نگہبا نی اور امور خانہ داری کی صحیح طور پر بجا آوری نیکی کے بڑے کاموں میں سے ہیں جن کی ادائیگی سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خو شنو دی حاصل ہو تی ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت فا طمة الزہرہ رضی اللہ عنہا کی زندگی سے دو مثالیں پیش کی جاتی ہیں ۔
حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا اپنے ہا تھوں سے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے دھوتیں اور سر مبارک میں تیل لگا تی تھیں گھر کا تمام کا م کاج خو د کرتی تھیں ۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ گھر کا تمام اندرونی کام کاج کھانا پکانا ، چکی پیسنا ، کپڑے دھونا ، گھر میں جھاڑو دینا وغیرہ سب ہماری والدہ محترمہ خود اپنے ہا تھوں سے سر انجام دیتی تھیں اور انہیں کا موں کے درمیان ہماری ضرورتیں دوا پلا نا ، نہلانا، کپڑے بد لوانا ، وقت پر پوری کر تی جاتی تھیں ۔ پھر خاتون جنت کا یہ بھی اصول تھا کہ خواہ دو وقت کا فا قہ ہو جب تک شوہر اور بچوں کو نہ کھلا لیتیں خود ایک دانہ نوش نہ فرماتی تھیں ۔
ازدواجی زندگی میں نا مسا عد حالا ت کا مقابلہ کر نے کے لئے مسلمان عورت کو اپنے نفس سے جنگ کرنی پڑتی ہے ۔ اور نفس کے خلا ف جنگ کو مجا ہدہ کہتے ہیں ۔عورت کے مجاہدہ کا دائرہ اس کے گھر ، خاوند اور بچوں کے گر د گھومتا ہے ۔ عورت اپنی روحانیت کی تکمیل اپنے نفس کے ساتھ جنگ سے کرتی ہے جو اسے اپنے فرائض سے عہد ہ براء ہو نے کے لئے لڑنی پڑتی ہے۔
عو رت کو اس امر کا خیال رکھنا چا ہیے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسے اپنے خاوند کو ہر صورت میں خوش رکھنا ہوگا ۔ اگر اس حقیقت کو اپنے ذہن میں بٹھا لے گی تو اس کے لیے شوہر کی ناانصافیوں اور زیادیتوں کو برداشت کر نا آسان ہو جائے گا ۔خاوند کو اس کی اجازت نہیں کہ وہ بلاوجہ اپنی بیوی کے ساتھ بد سلو کی رو ارکھے ، لیکن بیوی کو چا ہیے کہ اپنی اور اپنے گھر کی خوشنودی کی خا طر وہ اپنے حقوق کو پس پشت ڈال دے ۔ اپنے حقوق کا تقاضا کرنا تو کجا ان کی طرف سے اپنی آنکھیں موندلے۔ شادی کے بعد اس سے جن فرائض کی بجا آوری کا تقا ضا ہے وہ کچھ اس سے بھی زیادہ ذمہ داریوں کو بخوشی قبول کرلے ۔ اپنے شوہر کی محبت جیتنے کے لیے اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر طر ح کی قر با نی سے دریغ نہ کرے۔

(دلہن، مولانا روح اللہ نقشبندی)

مضامین کی فہرست پر واپس جائیں

Related posts

Leave a Reply