شوہر سے ناراض نہ رہنے کی نصیحت
مسلمان بیوی کو اس امر کا علم ہو نا چاہیے کہ اس کا شوہر سے خفا رہنا اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت کا موجب ہوتا ہے ۔ بیوی اگر شوہر کے کسی کام کو پسند یدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتی تب بھی وہ اپنی ناخوشی کا اظہار شوہر کے سامنے نہ کرے ۔ عاجزی اور صبر کے ساتھ شوہر کی کمزوریوں اور ناانصافیوں کو برداشت کرے۔ شوہر کی زیادتیوں پر اس کا سر تسلیم خم کر نا اور صبر سے برداشت کر نا اس کے لئے اللہ کے ہاں درجات کی بلندی کا باعث ہوگا۔
صبر کو اپنا وطیرہ اپنا کر عورت بہت فائدہ میں رہے گی۔ اس کا بات بات پر بگڑنا اور غم وغصہ کا اظہار کر نا قطعاً اسکے لئے سود مند نہیں ہو گا۔ اس کے برعکس ایسے طرز عمل سے وہ اپنے شوہر کے دل سے دور ہو تی چلی جائے گی ۔ محبت کی شمع جو اس کے شوہر کے دل میں روشن ہے بجھ جائے گی۔
خفگی اور ناراضگی تو دور کی بات ہے وہ اپنے چہرے پر ایسے تاثرات بھی ظاہر نہ ہونے دے جس سے شوہر کی خوشیوں میں کھنڈت پڑے ۔ زود رنج ہونا ایک سچی مسلمان عورت کے شایان شان نہیں ہے ۔ بیوی پر لازم ہے کہ وہ ہر وقت اپنے خاوند کو خوش رکھے ۔ جس وقت شوہر گھر آئے مسکرا کر اسے خوش آمدید کہے اور جتنی دیر وہ گھر پر رہے اس پر تفکرات کے آثار غالب نہ رہیں ۔ وہ ہر ممکن طریقے سے اسے خوش رکھے کیونکہ اس کے خاوند کی خوشی میں اس کی اپنی خوشی پنہاں ہے۔ اس کی خوشی کی اس کے خاوند کی خوشی سے علیٰحدہ کوئی حیثیت نہیں ۔ اس کا یہ طرز عمل اس کی نیکی کی بنیاد اور اللہ تعالیٰ کی رضاکا ذریعہ ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
﴿ ای النساء خیر؟قال التی تسرہ اذانظر﴾ (بہ روایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ۔نسائی
”وہ بیو ی سب سے بہتر ہے جو اپنے شوہر کو خوش کرے جب کہ وہ اس کی طرف دیکھے ۔“
یہ بھی پڑھیں: خاوند کو خوش رکھیں بیوی کا انتخاب کیسے کریں۔ مسلمان لڑکیاں غیروں کے ساتھ متعدد شادیاں اور خواتین کا تحفظ
یہ بد قسمتی کا مقام ہے کہ شریعت سے لاعلمی اور مغربی تہذیب کی آزاد روش کو اپنانے سے مسلمان عورت دن بدن اپنی نسوانیت اسی طور پر کھورہی ہے جس طرح مغربی عورت اور یوں شوہر کو خوشیاں دینے کی بجائے اس کی مسرت و انبساط کو تباہ کرتی ہے ، اس کے امن و سکون کو غارت کرتی ہے اور اس کو محرومیوں کی طرف دھکیلتی ہے۔ کیا عورت یہ خیال کر تی ہے کہ اس کا ناروا سلوک خود اس پر اثر انداز نہ ہوگا؟ اپنے گھر کو قعر ظلمات میں گرانے کے علاوہ نہ تو اس کی نماز اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو گی اور نہ دوسرے اچھے اور نیک کا م ۔ جو عورت اپنے شوہر کو ناراض رکھتی ہے اللہ کے غضب کو دعوت دیتی ہے اور اس کے نیک اور بھلے کام بھی آسمان تک راہ نہیں پاتے ۔ نمازکی نامقبولیت کے معنی ثواب سے محرومی ہے۔ اس کا اپنے شوہر کے ساتھ برا رویہ اس کے اچھے کاموں کے ثواب کو بھی لے بیٹھتا ہے نماز کی نامقبولیت کا مطلب یہ نہیں کہ جیسے وہ پڑھی ہی نہیں گئی اور اس کا لوٹانا واجب ہو گیا ۔ نماز تو ادا ہو گئی مگر اللہ تعالیٰ کی بخشش اور ثواب کے بغیر ۔اس کی روحانی کامیابی کا انحصار اس کی ان کوششوں پر ہے جو وہ خاوند کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کرتی ہے اس کا خاوند در حقیقت دین ودنیا میں اس کی کا میابی کی منزل ہے۔
(دلہن، مولانا روح اللہ نقشبندی)