کیا دوسری شادی سے پہلی بیوی کا گھر اجڑتا ہے۔
یہاں میں ان حضرات سے سوال پوچھتا ہوں جو یہ دلیل پیش کرکے کسی بھی نوجوان کے لئے متعدد شادیوں کے اقدام کو ناپسند کرتے ہیں کہ دوسری شادی کے نتیجے میں عموما پہلی زوجہ کا گھر اجڑتا ہے، وہ ناراض ہو کر بچوں سمیت والدین کے ہاں جا بیٹھتی ہے، نہ صرف یہ کہ طلاق کے مطالبے شروع کردیتی ہے بلکہ بعض مرتبہ تو واقعی طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
وہ حضرات جو ایسے واقعات سنا کر یہ کہتے ہیں : بھلا ایسی شادی کا کیا فائدہ جس میں پہلی زوجہ کا گھر اجڑتا ہو؟ اور اس بنا پر اس عمل کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں، ایسے حضرات کی خدمت میں عرض کروں گا کہ یہ بات تو درست ہے کہ رواج نہ ہونے کے باعث دوسری شادی کے نتیجے میں بسا اوقات پہلی کا گھر اجڑتا ہے ، وہ طلاق تک کا مطالبہ شروع کردیتی ہے، اور بعض مرتبہ ہنگاموں کے باعث طلاق ہو بھی جاتی ہے لیکن سوچا جائے کہ اس میں قصور کیا اس مرد کا ہوتا ہے جس نےدوسری شادی کا اقدام کیا یا اس کی اس مسلمان بیوی کا ہوتا ہے کہ اسے جب نکاح سے وابستہ مصلحتین حاصل ہو گئیں تو وہ اور اس کے والدین قطعا اس بات کو گوارا نہیں کرتے کہ کوئی دوسری مسلمان عورت بھی ان مصلحتوں میں اس کے ساتھ شریک ہو جائے اور اس بات کو برداشت نہ کرتے ہوئے کسی صورت اللہ تعالیٰ کے حکم اور تقدیر پر راضی رہنے کو تیار نہیں ہوتے۔۔۔۔؟
یہ بھی پڑھیں:
نیز کیا یہ قاعدہ کلیہ نہیں کہ اجتماعی سطح پر رونما ہونے والے اور بڑے نقصانات سے بچنے کے لئے انفرادی اور چھوٹے نقصانات کو برداشت کرنا ضروری ہے اور ایک بیوی کا گھر بچانے کے لئے نوجوانوں کو دوسری شادی سے اجتناب کا مشورہ دیا جانے لگے تو کیا جو تباہی وبربادی ابھی تک ہوچکی اس میں مزید تیزی نہ آئے گی؟
نیز اس پہلو کو بھی تو دیکھا جائے کہ متعدد شادیاں کرکے ایک بیوی کا گھر اجاڑنے والا مزید دو یا تین عورتوں کا گھر بساتا بھی تو ہے جبکہ اجاڑتا ایسی عورت کا گھر ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم پر راضی نہ ہونے کے باعث اپنا گھر بسانے پر خود ہی راضی نہیں اور دوسری طرف بساتا ایسی عورتوں کا گھر ہے کہ دوسری شادی سے باز رہنے کی صورت میں ان عورتوں کے کسی جرم اور قصور کے بغیر ہی انہیں ساری عمر اپنے گھر کو آباد کرنے والی نعمت سے محروم رہنے پر مجبور ہونے کی سزا مل رہی ہوتی ہے ، بلکہ ان میں سے کثیر عورتیں معاشرے میں ملازمتوں اور بے حیائی کے کاموں میں ملوث ہو کر قوم میں نکاح کے رجحان میں مزید کمی کا سبب بن رہی ہوتی ہیں۔ (مفتی طارق مسعود صاحب حفظہ اللہ)
کیا اس زمانے میں دوسری شادی مناسب نہیں۔۔۔۔؟؟
فیس بک پر جب میری لوگوں سے دوسری شادی کے حوالے سے گفتگو ہوتی ہے تو بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں دوسری شادی مناسب نہیں،
ایسے حضرات سے گذارش ہے کہ پوری دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ عورتوں کی شرح پیدائش مردوں سے زیادہ ہے۔ چین اور ہندوستان میں عورتوں کی تعداد اس لئے کم ہے کہ وہاں لڑکی کو پیدائش سے قبل ہی قتل کردیا جاتاہے، اس طرح وہاں اب تک کروڑوں لڑکیوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔
دوسری بات یہ کہ محققین کے مطابق نومولود لڑکوں میں مختلف بیماریوں سے قوت مدافعت کم ہوتی ہے اس لئے لڑکوں کی ایک بڑی تعداد کم عمری میں فوت ہوجاتی ہے،
جو بالغ ہوتے ہیں ان میں بھی بہت بڑی تعداد مختلف حادثات کا شکار ہوتی ہے کیونکہ عورتیں عام طور پر زیادہ تر گھر میں ہوتی ہیں چنانچہ ہم سنتے رہتے ہیں کہ گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا اتنے مرد ہلاک ہوگئے، بس کی ٹکر سے موٹر سائیکل سوار نوجوان ہلاک، ڈاکو نے مزاحمت پر دو نوجوانوں کو گولی ماردی، بھری بس میں دھماکہ اتنے افراد ہلاک، موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کی 5 علما شہید، یونیورسٹی میں دو طلبہ تنظیموں میں لڑائی 12 سٹوڈنٹ ہلاک، پاک فوج کا القاعدہ کی تلاش میں قبائلی علاقوں پر حملہ اتنے قبائلی ہلاک، امریکی ڈرون حملہ مسجد میں نماز جمعہ پڑھتے ہوئے 115 نمازی شہید، کرنٹ لگنے سے الیکٹریشن ہلاک، کوئلے کی کان میں 52مزدور ہلاک، فیکٹری میں آگ لگنے سے 23 ملازم جل گئے، وغیرہ وغیرہ۔
پھر جو مرد ان حوادث سے محفوظ رہتے ہیں ان میں سے بھی ایک بڑی تعداد ہیروئن ، چرس اور شراب جیسے نشوں کی عادی ہوتی ہے۔
جو باقی بچ جاتے ہیں ہیں ان میں سے بھی بہت سارے آوارہ ہوتے ہیں کام کاج نہیں کرتے، پھر باقی جو بچ جاتے ہیں ان میں سے بھی اکثر کو امت کی بیٹیوں کی کوئی فکر نہیں ہوتی نہ ہی معاشرے کی فکر ہوتی ہے کہ اسے زنا سے کیسے پاک کیا جائے، تو آپ خود اندازہ لگائیں کہ باقی عورتوں کے مقابلے میں کتنے مرد رہ جاتے ہیں۔ اب اگر یہ بھی اس قسم کے اعتراض کرنے لگ جائیں تو پھر زنا کیسے ختم ہوگا ۔۔۔۔؟؟ نکاح کیسے سستا ہوگا۔۔۔؟؟
ذرا سوچیں اور بتائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔