چار شادیوں پر پابندی اور مساوات کا مطالبہ
س… گزشتہ دنوں کراچی میں عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر مختلف سماجی تنظیموں کی جانب سے تقاریب منعقد ہوئیں، جن میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ: “ایک سے زیادہ شادیوں پر پابندی عائد کی جائے اور عورتوں کو مردوں کے مساوی وراثت کا حق حاصل ہونا چاہئے۔ اسی طرح شادی اور طلاق میں عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔”
۱:… اسلامی نقطہٴ نگاہ سے ان مطالبات کی کیا اہمیت ہے؟
۲:… ایسے مطالبے کرنے والے شرعی نقطہٴ نگاہ سے کیا اب تک دائرہٴ اسلام میں داخل ہیں؟
۳:… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اَحکامات کا مذاق اُڑانے والوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اَحکامات کے خلاف آواز اُٹھانے والوں کی اسلام میں کیا سزا ہے؟
ج… ان بے چاری خواتین نے جن کے مطالبات آپ نے نقل کئے ہیں، یہ دعویٰ کب کیا ہے کہ وہ اسلام کی ترجمانی کر رہی ہیں، تاکہ آپ یہ سوال کریں کہ وہ دائرہٴ اسلام میں رہیں یا نہیں؟ رہا یہ کہ اسلامی نقطہٴ نظر سے ان مطالبات کی کیا اہمیت ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر مسلمان کو معلوم ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مرد کو بشرطِ عدل چار شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے، عورت کو چار شوہر کرنے کی اجازت اللہ تعالیٰ نے تو کجا؟ کسی ادنیٰ عقل و فہم کے شخص نے بھی نہیں دی۔ اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ قرآنِ کریم نے وراثت اور شہادت میں عورت کا حصہ مرد سے نصف رکھا ہے، اور طلاق کا اختیار مرد کو دیا ہے، جبکہ عورت کو طلاق مانگنے کا اختیار دیا ہے، طلاق دینے کا نہیں۔ اب فرمانِ الٰہی سے بڑھ کر اسلامی نقطہٴ نظر کی وضاحت کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مسلم معاشرے میں بڑی بھاری اکثریت ایسی باعفت، سلیقہ مند اور اطاعت شعار خواتین کی رہی ہے جنھوں نے اپنے گھروں کو جنت کا نمونہ بنا رکھا ہے، واقعتا حورانِ بہشتی کو بھی ان کی جنت پر رشک آتا ہے، اور یہ پاکباز خواتین اپنے گھر کی جنت کی حکمران ہیں، اور اپنی اولاد اور شوہروں کے دِلوں پر حکومت کر رہی ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض گھروں میں مرد بڑے ظالم ہوتے ہیں اور ان کی خواتین ان سے بڑھ کر بے سلیقہ اور آدابِ زندگی سے ناآشنا۔ ایسے گھروں میں میاں بیوی کی “جنگِ اَنا” ہمیشہ برپا رہتی ہے اور اس کے شور شرابے سے ان کے آس پڑوس کے ہمسایوں کی زندگی بھی اجیرن ہوجاتی ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ “عورتوں کے عالمی دن” کے موقع پر جن بیگمات نے اپنے مطالبات کی فہرست پیش کی ہے، ان کا تعلق بھی خواتین کے اسی طبقے سے ہے جن کا گھر جہنم کا نمونہ پیش کر رہا ہے، اور اس کے جگر شگاف شعلے اخبارات کی سطح تک بلند ہو رہے ہیں، اور وہ غالباً اپنے ظالم شوہروں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہی ہیں، اور چونکہ یہ انسانی فطرت کی کمزوری ہے کہ وہ دُوسروں کو بھی اپنے جیسا سمجھتا کرتا ہے اس لئے اپنے گھروں کو جہنم کی آگ میں جلتے ہوئے دیکھ کر یہ بیگمات سمجھتی ہوں گی کہ جس طرح وہ خود مظلوم و مقہور ہیں، اور اپنے ظالم شوہروں کے ظلم سے تنگ آچکی ہیں، کچھ یہی کیفیت مسلمانوں کے دُوسرے گھروں میں بھی ہوگی، اس لئے وہ بزعمِ خود تمام مسلم خواتین کی طرف سے مطالبات پیش کر رہی ہیں۔ حالانکہ یہ ان کی “آپ بیتی” ہے، “جگ بیتی” نہیں۔ سو ایسی خواتین واقعی لائقِ رحم ہیں، ہر نیک دِل انسان کو ان سے ہمدردی ہونی چاہئے، اور حکومت سے مطالبہ کیا جانا چاہئے کہ ان مظلوم بیگمات کو ان کے درندہ صفت شوہروں کے چنگل سے فوراً نجات دِلائے۔
یہ بھی پڑھیں:
میں ایسے مطالبے کرنے والی خواتین کو مشورہ دُوں گا کہ وہ اپنی برادری کی خواتین میں یہ تحریک چلائیں کہ جس شخص کی ایک بیوی موجود ہو اس کے حبالہ عقد میں آنے کو کسی قیمت پر بھی منظور نہ کیا کریں، ظاہر ہے کہ اس صورت میں مردوں کی ایک سے زیادہ شادی پر خودبخود پابندی لگ جائے گی اور ان محترم بیگمات کو حکومت سے مطالبہ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
رہا طلاق کا اختیار تو اس کا حل پہلے سے موجود ہے کہ جب بھی میاں بیوی کے درمیان اَن بن ہو فوراً خلع کا مطالبہ کردیا جائے، ظالم شوہر خلع نہ دے تو عدالت خلع دِلوادے گی، بہرحال اس کے لئے حکومت سے مطالبے کی ضرورت نہیں۔ رہا مرد و عورت کی برابری کا مسئلہ! تو آج کل امریکہ بہادر اس مساوات کا سب سے بڑا علمبردار بھی ہے اور ساری دُنیا کا اکیلا چودھری بھی، یہ مطالبہ کرنے والی خواتین امریکی ایوانِ صدر کا گھیراوٴ کریں اور مطالبہ کریں کہ جب سے امریکہ مہذب دُنیا کی برادری میں شامل ہوا ہے آج تک اس نے ایک خاتونِ خانہ کو بھی امریکی صدارت کا منصب مرحمت نہیں فرمایا، لہٰذا فی الفور امریکہ کے صدر کلنٹن صدارت کے منصب سے اپنی اہلیہ محترمہ کے حق میں دستبردار ہوجائیں، اسی طرح امریکی حکومت کے وزراء اور ارکانِ دولت بھی اپنی اپنی بیگمات کے حق میں دستبردار ہوکر گھروں میں جابیٹھیں، پھر یہ خواتین فوراً یہ قانون وضع کریں کہ جتنا عرصہ مردوں نے امریکہ پر راج کیا ہے اتنے عرصے کے لئے خواتین حکومت کریں گی، اور اتنے عرصہ تک کسی مرد کو امریکی حکومت کے کسی منصب پر نہیں لیا جائے گا، تاکہ مرد و زن کی مساوات کی ابتدا امریکہ بہادر سے ہو۔ اگر ان معزّز خواتین نے اس معرکے کو سر کرلیا تو دُنیا میں عورت اور مرد کی برابری کی ایسی ہوا چلے گی کہ ان خواتین کو اخبارات کے اوراق سیاہ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی، اللہ تعالیٰ ان خواتین کے حالِ زار پر رحم فرمائیں۔
(مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ،متفرق مسائل)