بدنظری کے خلاف صرف بیان بازی کافی نہیں۔
وہ مرد اور عورتیں جن کی کسی وجہ سے شادی نہیں ہوسکی ان میں آپ کتنے ہی بدنظری کے خلاف بیانات کریں مگر عادۃً ایسا ممکن نہیں کہ ان میں سے ایک کثیر تعداد آپس میں بدکاری یا کسی اور طرح سے بے حیائی کے کاموں میں ملوث نہ ہو۔
روز وشب مشاہدہ ہے کہ وہ لڑکیاں جن کی شادیاں نہیں ہورہیں کتنے ہی اچھے ماحول میں پلنے اور بڑے بڑے بزرگوں سے تعلق اور دیندار گھرانے کی بیٹیاں ہونے کے باوجود لڑکوں کے معاشقے میں مبتلا ہورہی ہیں، مرد وعورت دونوں کی ایک دوسرے کی طرف اللہ تعالیٰ نے ایسی بھر پور رغبت اور کشش رکھی ہے کہ اگر اس رغبت کی فطری طریقے سے بروقت تسکین نہ کی جائے تو پھر یہ تسکین کسی اور طریقے سے پوری کرنا کسی حد تک مردوزن دونوں کی مجبوری اور پھر بالاخر عادت بن جاتی ہے۔
مدارس البنات میں پڑھنے والی عالمات جن کا سارا دن کام ہی قال اللہ اور قال الرسول پڑھنا پڑھانا ہے، ان میں سے بھی بعض کا کسی لڑکے اورکوئی نہ ہو تو بعض مرتبہ تو خود معلمین میں سے کسی سے معاشقہ پیدا ہوجاتا ہے جو بالاخر فسادات کا سبب بنتا ہے، جب مدارس میں بھی ایسا ہوجاتا ہے تو اسکول وکالجز میں کیا حال ہوگا۔۔؟؟
گھر کی چاردیواری میں مکمل طور پر بند رہنے والی لڑکیاں، جن کی کسی بھی وجہ سے شادی نہیں ہوپارہی ان کے بھی لڑکوں سے تعلقات اور روزوشب لڑکوں کے ساتھ فرار ہونےکے واقعات کا ظہور کچھ کم نہیں ، پھر مدارس اور دوسرے تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کو اگر معاشقے کے لئے لڑکا نہ ملے تو آپس میں ہی معاشقے بازی شروع ہو جاتی ، لڑکوں کے وہ تعلیمی ادارےجہاں لڑکے لڑکیاں اکٹھے نہیں پڑھتے وہاں لڑکوں کے آپس میں معاشقے اور پھر بالاخر ہم جنس پرستی جیسی لعنت کے واقعات بکثرت رونما ہورہے ہیں۔ (ایک سے زائد شادیوں کی ضرورت، مولانا طارق مسعود)
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں بے نکاحی لڑکیاں
بگڑے ہوئے دماغوں کی اصلاح کریں۔
باپ جو اولاد کے لئے منزلہ رہبر اور مربی ہوتاہے (بشرط عدل اور اپنی حیثیت واستطاعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے) اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک سے زائد بیویاں رکھے تاکہ اس معاملے میں اس کی اولاد کے بگڑے ہوئے دماغوں کی کسی قدر اصلاح ہو سکے اور اس کی آل اولاد میں سے اگر کوئی اس حلال کام کا اقدام کرنا چاہے تو اس آل اولاد پر اس معاملے میں ذرا سی بھی تنگی نہ رہے ۔
چھوٹے بھائی کی نسبت بڑے بھائی پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ (بشرط عدل اور اپنی حیثیت واستطاعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے)ایک سے زائد شادیاں کرے تا کہ اس کے چھوٹے بھائیوں کے بگڑے ہوئے دماغوں کی کسی قدر اصلاح ہو سکے اور ان پر اس معاملے میں بڑے بھائی کے عمل کو دیکھ کر ذراسی بھی تنگی نہ رہے ۔
کسی مسلمان خاندان کے مسلمان بڑوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ (بشرط عدل اور اپنی حیثیت واستطاعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے)وہ ایک سے زائد بیویاں رکھیں تاکہ ان کے چھوٹوں کے بگڑے ہوئے دماغوں کی اصلاح ہو اور جب کوئی انہیں طعنہ دے تو خاندان کے ان بڑوں کی مثال پیش کرکے وہ خود کو بھی اس اقدام کا پوری طرح مستحق ثابت کر سکیں ۔
بعض اکابر اور محقق اہل علم کی رائے کے مطابق ملک کے مفتیانِ کرام اور علما کرام پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ زبانی ترغیب کے ساتھ اس سنت کا عملی اقدام کریں تا کہ ان پر اعتماد کرنے اور ان سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے بگڑے ہوئے دماغوں کی اصلاح ہوسکے۔
(ایک سے زائد شادیوں کی ضرورت کیوں؟،مولانا طارق مسعود صاحب۔)