امریکی ریاست میں اسقاط حمل ممنوع
بی بی سی کی یہ رپورٹ دیکھیں:
امریکی ریاست جنوبی ڈیکوٹا میں نافذ کیے جانےن والے قانون کے تحت حمل گرانا تقریباً نا ممکن ہو جائے گا۔
امریکی ریاست جنوبی ڈیکوٹا میں ایسا قانون نافذ کیا گیا ہے جس کے تحت حمل گرانا تقریبا ناممکن ہوجائے گا۔
حمل کو ممنوع بنانے والے اس قانون پر گورنر مائیک راونڈ نے دستخط کرکے اسے نافذالعمل بنادیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس قانون کا مقصد سپریم کورٹ پر دباو ڈالنا ہے تا کہ وہ اپنی پہلے کی رولنگ پر نظر ثانی کرے۔
اسقاطِ حمل کا یہ قانون یکم جولائی سے نافذالعمل ہوگا ۔ قانون کے تحت اب جبری آبروریزی اور محرم کے ساتھ جنسی عمل کی وجہ سے بھی حمل گرانے کی اجازت نہیں ہوگی، قانون کے مطابق حمل ساقط کرنے والے ڈاکٹر کو پانچ سال قید کی سزادی جائے گی۔
کفار تو جبری زنا اور محرم رشتہ دار سے حمل ٹھہرنے کی صورت میں بھی اسقاط حمل پر پابندی لگارہے ہیں جبکہ مسلمان ممالک میں ترغیبی مہمات چلائی جاتی ہیں کہ حمل ساقط کئے جائیں ہمارے حکمران اس کام کو کرنے کے لئے وزارتیں قائم کرتے ہیں اور لاکھوں ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھ لیں: خواتین کا دوسری بیوی بننے سے انکار
بیوی خاوند کے بغیر کتنے دن رہ سکتی ہے
رشتوں کے سلسلے میں ایک رپورٹ
اس وقت پاکستان میں تین کروڑ لڑکیاں مناسب رشتوں کے انتظار میں بوڑھی ہورہی ہیں۔ تین لاکھ لڑکیاں شادی کے خواب دیکھتے دیکھتے شادی کی عمر گزار چکی ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ہر تیسرے گھر میں دو سے زائد لڑکیاں ہیں۔ہر آٹھویں گھر میں لڑکیوں کی تعداد پانچ سے زائد ہے۔
والدین اپنی بچیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کی آس میں بوڑھے ہو رہے ہیں اور انہیں موزوں رشتے دستیاب نہیں۔
لڑکیوں کے والدین اچھے کھاتے پیتے لڑکے کے انتظار میں لڑکیوں کو گھر بٹھائے رکھنے پر مجبور ہیں جب ان لڑکیوں کی عمر بڑھنے لگتی ہے اور 35 سال کی ہو جاتی ہیں تو پھر وہ اَن پڑھ اور عام رشتے ہی قبول کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لڑکیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں جبکہ لڑکے لڑکیوں سے تعلیم کے لحاظ سے پیچھے ہیں۔ بیس سال سے کم عمر لڑکے لڑکیوں کی شرح دس فیصد بھی نہیں رہی لڑکے اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کا بہانہ اور نوکری لگنے کا کہہ کر ٹالتے رہتے ہیں۔ لڑکیوں کی شرح پیدائش بھی لڑکوں سے بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ اگر یہی حال رہا تو مستقبل میں شادی مزید گھمبیر مسئلہ بن جائے گی ان خطرناک حالات میں ترغیب نہیں بھر پور تحریک کی ضرورت ہے۔