خواتین کا مرد کی دوسری ،تیسری یا چوتھی بیوی بننے سے انکار۔
مشاہدہ ہے کہ بہت سےعورتیں اس بات کو تو گوارا کر لیتی ہیں کہ ساری زندگی نکاح کے بغیر گذر جائے یا کسی اچھے رشتے کے انتظار میں عمر کا بہترین حصہ نکاح کے بغیر ہی گذر جائےمگر اس بات کو برداشت نہیں کرتیں کہ وہ کسی ایسے مناسب اور ذمہ دار مرد جو ان کا ہم پلہ ہو اس کی دوسری ،تیسری یا چوتھی بیوی بنیں اور صرف اس لالچ میں کہ کوئی ایسا مرد میسر آجائے جس کی اکلوتی زوجہ ہوں ، بسا اوقات عمر کے بہترین ایام اسی حال میں گذار دیتی ہیں۔
وہ مرد جن کا دوسری شادی کا ارادہ ہو انہیں بھی یہ شکایت ہوتی ہے کہ ایک طرف تو بے نکاحی عورتوں کی بھر مارہے مگر تلاش کی عملی کوشش کے باوجود دوسری بیوی بننے کے لئے کوئی عورت تیار ہی نہیں ہوتی۔ ان حالات کا اصل اور بنیادی سبب یہ نہیں کہ خواتین کو نکاح کی ضرورت نہیں بلکہ اصل سبب یہ ہے کہ معاشرے میں نکاح ثانی کو ایک ایسا کفر اور گھناونا بلکہ گھٹیا جرم سمجھا جانے لگا ہے کہ کسی کے ہاں جب کوئی مرد نکاح ثانی کے لئے پیغام بھیجتا ہے تو اس مرد کا یہ اقدام ہی اس کے شہوت پرست ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے اور جب تک مرد اپنی اس نازیبا حرکت کی کوئی مجبوری بیان کر کرے لڑکی کے اولیا ایسے نامناسب مردوں کو اپنی بیٹی دینا براعمل سمجھتے ہیں۔حالانکہ فقہا نے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ اگر کوئی مرد دوسری شادی کرنا چاہے اور لوگ اسے ملامت کریں یا شہوت پرست کہیں تو ان کے کفر کا خطرہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قران مجید میں فرماتے ہیں : انھم غیر ملومین۔
نیز بعض عورتوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ دوسری شادی کے اقدام کے نتیجے مرد اور اس کی پہلی زوجہ کے درمیان جو کچھ تعلقات خراب ہوں گے تو تعلقات کی خرابی کی یہ تمام تر ذمہ داری اس دوسری زوجہ پر ہوگی جو کسی مرد کی دوسری بیوی بن کر پہلی بیوی کے گھر کے اجڑنے کا سبب بنی۔
یہ بھی پڑھیں: مرد پر ایک عورت کا قبضہ
بیوی خاوند کے بغیر کتنے دن رہ سکتی ہے
تھوکا ہوا مال۔
ایک صاحب کہنے لگے یہ بچے میری پہلی بیوی سے ہیں جن کو میں نے طلاق دے دی تھی ، جب ان سے پوچھا کیوں طلاق دی ؟ کہنے لگے بدزبان تھی، اس پوچھا اب اس کا نکاح ہوگیا؟ کہنے لگے تھوکے ہوئے مال کو کون چاٹتا ہے۔۔۔۔؟؟؟؟؟ (استغفراللہ)
ان صاحب نے جیسی بھی بات کی بہرحال ہمارے معاشرے کی صحیح تصویر کشی کی ہے۔اس کے مقابلہ میں صحابہ کے زمانے میں جو کچھ ہوتا تھا اسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ کو قرآن میں کہنا پڑا کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم بیوگان کے نکاح میں غیر معمولی رغبت کے باعث انہیں عدت گزرنے سے قبل بھی نکاح کے سلسلے میں کسی نہ کسی طرح ضرور یاد کرو گے، لہٰذا اس رغبت وشوق کی رعایت کی خاطر تمہیں اشارۃ اور گول مول طریقے سے عدت سے قبل بھی پیغام نکاح بھیجنے کی اجازت ہے۔
یاد رکھیے! کل آپ کی بیٹیوں میں سے بھی کسی کو طلاق ہو سکتی ہے، اگر آپ اپنے قول وعمل سے اپنی بیوی پر اضافی ترس کا ثواب حاصل کرنے کی خاطر اپنے خاندان کا جمود توڑنے کو تیار نہیں تو ممکن ہے کہ آپ کی کسی بچی یا پوتی، نواسی کو طلاق ہو اور وہ بھی ‘‘ تھوکے ہوئے مال’’ کی فہرست میں اس طرح سے داخل ہو جائے کہ آپ کے خاندان کا کوئی مناسب اور اس بچی کا ہم پلہ اور کفو اس سے نکاح کو ‘‘ تھوکے ہوئے مال کو چاٹنا’’ سمجھے اور اس نکاح پر آمادہ نہ ہو یا ممکن ہے کہ آپ کی کوئی بچی حسن وجمال والی نہ اور آپ کا متوقع داماد یہ سوچ کر اسے مسترد کردے کہ شادی زندگی میں صرف ایک بار ہوتی ہے، جیسا کہ آپ نے اپنی باری میں بھی یہی سوچاتھا تو مسلمانوں بتاو کیا یہ عورت پر ظلم نہیں ؟؟ اگر ظلم ہے تو ظالم کون ہے۔۔۔؟؟ کیا اب بھی وہ شخص ظالم نہیں جو استطاعت کے باوجود ان حالات میں بھی ایک زوجہ پر قناعت کو سعادت سمجھے۔۔۔۔؟
کئی ایسے واقعات بھی مشاہدے میں آتے رہتے ہیں کہ ایک شخص کی بیٹی کا رشتہ نہ ہوا، اس کی عمر بڑھنے لگی تو اس نے ہر طرف سے ناکام اور پریشان ہوکر بالاخر اپنی بیٹی کو کالج میں داخل کردیا کہ خود ہی کسی سے دوستی لگا کر شادی کرلو۔
اب آپ خود سوچیں اس صورت میں کیا ہوگا ۔۔۔؟؟ کیا وہ لڑکی دوستی لگا کر شادی کرلے گی۔۔۔؟؟ کیا ہوگا یہی نا کہ وہ کبھی ایک سے دوستی لگائے گی کبھی دوسرے سے ۔ لڑکوں کو تو کوئی مسئلہ نہیں شادی تو وہ اپنی مرضی سے کریں گے کیونکہ یہ زندگی میں صرف ایک بار کرنی ہے، البتہ اس لڑکی سے دوستی وقت گزاری اور شہوت پوری کرنے کے لئے لگائیں گے، اس طرح اس بے چاری کی عزت بھی تار تار ہو جائے گی اور شادی بھی نہیں ہوگی۔