مرد پر ایک عورت کا قبضہ درست نہیں

18 مرد پر ایک عورت کا قبضہ 1

ایک اچھے مرد پر ایک عورت کا قبضہ درست نہیں۔

چونکہ مرد میں جنسی قوت زیادہ ہوتی ہے اس لئے یہ انتہائی ظلم ہے کہ مرد کو صرف ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنے پر زبردستی مجبور کیا جائے۔اس کی مثال تو اس طرح ہے جیسے کسی مرد کو زیادہ بھوک لگتی ہو اور اس کے سامنے صرف ایک ہی روٹی رکھی جائے ، ظاہر ہے زبردستی ایک ہی روٹی پر مجبور کرنے سے یا تو اس کی بھوک ہی مٹ جائے گی اور یا وہ مرد چوری چھپے دوسروں کی روٹیاں کھانے پر مجبور ہوجائے گا۔ہمارے معاشرے میں یہی ہورہا ہے بے شمار مرد چوری چھپے دوسروں کی روٹیاں کھانے پر مجبور ہیں، جس کی نحوست ہم مختلف عذابوں کی صورت میں برداشت کررہے ہیں۔

آج کا کوئی مرد اگر غلطی سے دوسری شادی کا ارادہ کربھی لیتا ہے لیکن جہالت اور ناسمجھی کی وجہ سے اسے اپنی پہلی بیوی پر ترس آنے لگتا ہےاور وہ پھر دوسری شادی کے ارادے کو ہمیشہ کے لئے ترک کردیتا ہے۔ایسے مردوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ان کا یہ بےجا ترس ہزاروں کنواریوں ، طلاق یافتہ اور بیوہ عورتوں کا بیڑہ غرق کرنے کا سبب بن رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بے جا ترس کھانا معاشرے میں زنا کو عام کرنے کا سبب بھی بن رہا ہے۔ ظاہر بات ہے جب اس طرح بے جا ترس کھا کر دوسری شادی نہیں کی جائے گی تو ان عورتوں کا کیا بنے گا جن کے مقابلے میں کوئی مرد ہی نہیں ۔

یہ بھی پڑھیں:  بیوی خاوند کے بغیر کتنے دن رہ سکتی ہے   ۔  علماء زیادہ شادیاں کریں

تعدد ازدواج کی سنت زندہ کرنے والا معاشرہ۔

جن معاشروں میں تعددازدواج کی سنت زندہ ہے وہاں عمومی طور پرآج بھی لڑکی کے باپ کو اس کی فکر نہیں ہوتی کہ میری کتنی بچیاں ہیں؟  آپ نے ممکن ہے سنا ہو کہ افغانوں کے ہاں بعض مرتبہ اس پر لڑائی ہو جاتی ہے کہ فلاں نے اپنی بچی ہمیں کیوں نہ دی؟   ہمیں چھوڑ کر فلاں سے نکاح کیوں کروایا؟   اس کے برخلاف ہمارے معاشرے میں مشاہدہ ہے کہ خاندانوں میں اس پر ناراضیاں چلتی ہیں کہ فلاں باصلاحیت بھتیجے یا بھانجے نے ہماری بچی کیوں نہ لی؟

صحابہ کرام رضوان اللہ کے زمانے میں عورتوں کے مقابلے میں اتنی کثرت سے مردوں کے شہید ہونے کے باوجود کسی ضعیف سے ضعیف روایت میں بھی اس بات کا ذکر نہیں ملتا کہ کوئی صحابی اپنی بیوہ یا طلاق یافتہ یا کسی کنواری بچی کے بارے میں رشتے کے سلسلے میں پریشان ہوئے ہوں یا اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خصوصی دعا کی درخواست کی ہو۔ اگر بالفرض کسی روایت میں اس کا تذکرہ ہو بھی تو کم از کم مجبور اور پریشان ہو کر ایسا اقدام نہ کیا گیا ہوگا۔

جبکہ آج کسی بھی بزرگ کے پاس بچیوں کی شادی کے سلسلے میں دعا اورتعویز گنڈوں کی درخواستیں کچھ کم نہیں آتیں اور دعاوں اور وظیفوں کی یہ درخواستیں صرف کنواری بچیوں کی شادیوں کے سلسلے میں ہی آتی ہیں، طلاق یافتگان وبیوگان کے نکاح کی کوشش اور جستجو کو دنیا کا لاحاصل اور فضول ترین کام سمجھ کر اس سے کنارہ کشی میں ہی عافیت محسوس کی جارہی ہے۔

غزوہ موتہ میں جعفر طیار رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور اس طرح بیک وقت ان کی چار بیویاں بیوہ ہوئیں لیکن یہ بات کسی روایت میں نہیں ملتی کہ ان کی شادی کا کوئی مسئلہ پیدا ہوا ہویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کوئی وظیفہ بتایا ہو یا ان کی شادی کے لئے خصوصی دعا کی ہو یا کروائی ہو۔

فہرست پر واپس جائیں

Leave a Reply