اولیا کی طرف سے نکاح میں بے جا تاخیرکرنا۔
بعض والدین کی یہ بُری عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنی بچی کے لئے آنے والے پیغام نکاح کو فضول قسم کی باتوں کی وجہ سے رد کردیتے ہیں۔
مثلا بعض والدین کئی کئی پیغام نکاح مہر کی زیادتی کی تلاش میں ٹھکرا دیتے ہیں، بعض لڑکے میں یا اس کے خاندان میں فضول قسم کے عیب نکال کر پیغام نکاح ٹھکرا دیتے ہیں، پھر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ لڑکی اپنی عمر کا ایک بہترین حصہ گزار لیتی ہے اس کے بعد اس کے پیغام آنا بند ہوجاتے ہیں اور اس طرح وہ ساری عمر گھر میں گزارتی ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ جب کسی گھر میں کوئی بچی جوان ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم کرتے ہیں کہ فلاں فلاں کے دل میں یہ الہام کرو کہ وہ جا کر اس بچی کا رشتہ مانگیں ، فرشتے مختلف لوگوں کے دلوں میں یہ الہام کرتے ہیں کہ وہ جا کر فلاں لڑکی کا رشتہ اپنےلڑکے کے لئے مانگیں ، اس طرح کچھ لوگ اس بچی کا رشتہ مانگنے کے لئے جاتے ہیں ۔ اب اگر بچی کے والدین سمجھدار ہوں تو وہ اس پیغام نکاح کو قبول کرلیتے ہیں ورنہ جب وہ اس پیغام نکاح کو ٹھکراتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ بھی انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے کہ اب اپنی بچی کے لئے رشتہ خود تلاش کرو اس طرح پھر انہیں رشتہ نہیں ملتا اور وہ شکایتیں کرتے پھرتے ہیں کہ ہماری بچی کا رشتہ نہیں آرہا ۔
ایسے والدین کے بارے میں علام حنابلہ جن کا مذہب ہے کہ بلا اجازت ولی عاقلہ بالغہ لڑکی کا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا تو ان کے نزدیک بھی اگر کسی لڑکی کا باپ زیادہ مہر کی لالچ میں لڑکی کو گھر میں بٹھائے رکھے اور پے درپے متوجہ ہونے والے رشتوں کو مسلسل رد کرکے بچی کے نکاح میں غیر معمولی تاخیر کا سبب بن رہا ہو تو اس عمل سے لڑکی کے باپ کی ولایت ساقط ہو جائے گی۔چنانچہ سعودی عرب کے ایک جید حنبلی عالم شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ ایک فتوے میں فرماتےہیں:
آپ نے بعض لوگ دیکھے ہوں گے کہ جنہیں ان کی بچی کےلئے نکاح کا پیغام بھیجا جاتا ہے اور پیغام بھیجنے والا اس لڑکی کا ہم پلہ(کفو) بھی ہوتا ہے مگر اس کا باپ اسے مسترد کردیتا ہے، پھر ( اس جیسا) کوئی دوسرا پیغام بھیجتا ہے اسے بھی اور پھر اس کے بعدایسے کسی تیسرے کو بھی مسترد کرتا رہتا ہے تو جو شخص ایسی عادت کا ہو تو بچی کے نکاح کے معاملے میں اس کی ولایت ساقط ہوجائے گی اور اس باپ کے سوا کسی دوسرے قریبی ولی کے لئے جائز ہو گا کہ وہ اس لڑکی کا نکاح کرادے(اگرچہ باپ راضی نہ ہو)۔
یہ بھی پڑھیں: علماء زیادہ شادیاں کریں ۔ اجتماعی شادی ۔ اصولی بات ۔ بیوی کے بغیر موت
عورت کتنی مدت تک صبر کرسکتی ہے۔؟؟؟
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کے وقت کسی گلی میں سے گزررہے تھے، کان میں کسی عورت کی آواز پڑی جو یہ شعر پڑھ رہی تھیَ
فواللہ لولااللہ تخشی عواقبہ
لزحزح من ہذا السریرجوانبہ
نوٹ: ترجمہ کسی عالم سے پوچھ لیں یہاں لکھنا مناسب نہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وجہ دریافت فرمائی تو معلوم ہوا کہ اس کا شوہر مدت طویلہ سےجہاد میں گیا ہوا ہے،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ سمجھدار عورتوں کی شوریٰ بلا کر یہ طے کرو کہ ورت کتنی مدت تک ضبط کرسکتی ہے ، چنانچہ متفقہ طور پر یہ طے پایا کہ چار ماہ کی مدت تک عورت صبر کرسکتی ہے، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قانون بنادیا کہ اس مدت سے زیادہ کوئی شادی شدہ سپاہی جہاد میں نہ رہے۔
اسی کے پیش نظر فقہا رحمہم اللہ نے تحریر فرمایا ہے کہ چار مہینے میں ایک دفعہ ہمبستری کرنا دیانۃً فرض ہے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ تو ایک اعلیٰ مقصد اور اسلام کی چوٹی جہاد میں چار ماہ سے زیادہ رہنے پر پابندی لگا رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں تو مرد چند ٹکے کمانے کے لئے سالوں سال دوسرے ممالک میں رہتے ہیں، اکثر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ خود وہاں اِدھر اُدھر ہاتھ مارتے ہیں اور ان کی بیویاں یہاں۔
مرد کے لئے مدتِ ضبط شرعا منقول نہیں ،مگر کئی ایک معاملات میں ایک مہینے کی مدت کو کثیر شمار کیا جاتا ہے ، جیسا کہ بیع سلم اور عندالبعض اختلافِ مطالع میں مدت شہر کا اعتبار کیا جاتا ہے، نیز ایک ماہ میں قمر اپنا دورکامل کرلیتا ہے، جس کا انسانی خون پر اثر ہوتا ہے، اس لحاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ مرد کی قوتِ برداشت کی انتہا ایک مہینہ ہے اور عورت کی چاہ ماہ، دونوں کے تناسب سے معلوم ہوا کہ ایک مرد کے لئے چار بیویاں کافی ہوسکتی ہیں۔