تر غیب نکاح کے ساتھ وعدہ غنا

09 نکاح کے ساتھ وعدہ غنا 1

تر غیب نکاح کے ساتھ وعدہ غنا

فقہائے اسلام کا یہ اتفاقی مسئلہ ہے ، مسئلہ کی غیر معمولی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ معاشی خطرات کو خواہ مخواہ محسوس کر کے نکاح سے جو کترانا چاہتے تھے ‘ قرآن میں انہی کو حکم دیا گیا ہے کہ:
ان یکونوافقراء یعنیھم اللہ من فضلہ واللہ واسع علیم۔(نور۔۴(
”اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے اُن کو غنی کردے گا‘ اور اللہ کشائش والا ہے۔“
معاشی مسائل کے متعلق صرف عقلی مشوروں پر جینے والے جن اوہام اور وساوس میں تہ وبالا ہو تے رہتے ہیں‘ وہی اکثر سوچتے ہیں کہ ”شادی کیسے کریں“؟افلاس نے گھر میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے‘بیوی اور پھر بال بچوں کی خوراک و پوشاک کا کیا نظم ہو گا؟
اس قسم کی تنگ خیالیوں کے معاملے میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے دلاسا اور تسلی دی گئی ہے کہ ا س مسئلہ کو اتنا پریشان کن نہ بناؤ ‘رزق کا معاملہ میرے ہاتھ میں ہے ‘ بار بار قرآن میں اطمینان دلایا گیا ہے کہ:
ویرزقہ من حیث لا یحتسب (الطلاق(نحن نر ز قکم وایاھم۔)(الانعام)
” اور وہ اس کو رزق دیتا ہے جہاں سے اس کو خیال بھی نہیں گزرتا ہم تم کو اور ان کو رزق دیں گے۔“
مطلب یہی ہے کہ حال پر مستقبل کو قیاس نہ کر نا چاہیے۔ ” الرزاق ذو القوة المتین “پر اعتماد کرکے چاہیے کہ نکاح کا زمانہ جب آجا ئے تو آدمی نکاح کرے، اور اس مسئلہ کو اللہ کے سپرد کر دے،بیو ی اورپھر بال بچوں کے نان نفقہ کا سامان من جانب اللہ ہو گا، ممکن ہے بیوی کی شر کت سے خیر و برکت بڑھ جائے بیوی کا خاندان امداد کر ے، یا کسی جائز ذریعہ معاش کابندوبست کردے ، خو د شادی کر نے والے میں شادی کے بعد مستعد ی اور ذمہ داری کا احساس پیدا ہو جاتا ہے، کبھی خود بیوی ہاتھ بٹا تی ہے اور کبھی اس طرح کا کوئی دوسرا سامان فر اہم ہو جاتا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تاثر  قرآن پاک کی اس آیت (ان یکونوافقراء یغنیھماللہ من فضلہ)کوپڑھ کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نکاح کی رغبت دلاتا ہے‘اور اس شخص کو شادی کا حکم دیتا ہے جس میں شادی کی صلاحیت پائی جائے اور ساتھ ہی غنا کا وعدہ فرماتاہے۔ (تفسیرابن کثیر۳ص۲۸۶)
حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نکاح کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو حکم فرمایا ہے اس پر عمل کرو اور رب العزت کی اسکے اس امر میں اطاعت کرو‘ اس سلسلہ میں اس نے تم سے جو کچھ وعدہ فرمایا ہے‘ پورا کرے گا۔(ایضا)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شادی کے ذریعہ غنا تلاش کرو ‘اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:
التمسواالغنی فی النکا ح۔(ابن کثیر ج ۳ص۲۸۶)
”غنا نکاح میں تلاش کرو۔“
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، عورتوں سے شادی کرو، تمہارے یہاں مال اور دولت لانے کا ذریعہ ثابت ہو ں گی یعنی اللہ تعالیٰ اس کی آمد کی وجہ سے روزی میں بر کت دے گا ۔ (جمع الفو ائد جلد اول ص ۲۱۶)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکر صلی اللہ و آلہ وسلم فر ما تے ہیں : جو شخص اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرکے شادی کرے اور دل میں اس کی خو شنو دی کا جذبہ رکھے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ اس شخص کی مدد کرے اور اس کو بر کت عطا کر ے ۔ ( مع الفوائد کتاب النکاح )

یہ بھی پڑھیں:  خاوند کو خوش رکھیں    بیوی کا انتخاب کیسے کریں۔    آٹھ عورتوں سے شادی نہ کریں

حالت فقر میں اجا زت نکاح

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخض نے فقر کا شکو ہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو نکاح کرنے کا حکم فرمایا ( بیان ا لقر ان ج ہفتم ص۱۷)
ماحصل یہ ہے کہ فوری فقر اور تنگ دستی کا خود رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بالکل خیال نہیں فرمایا اور نہ اس کی وجہ سے کسی کو نکاح کی اجازت دینے میں پس وپیش فرمایا ، حد یث کی کتابوں میں واقعات مذکور ہیں کہ آپ نے فوری فقر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شادی کا حکم دیا ، کسی صحابی کی تعلیم قرآن پر شادی کردی جس کے پاس اس کے سوا کو ئی دولت نہ تھی ۔ کوئی خدمت نبوی میں آیا اور شادی کی خواہش ظاہر کی اور اس کے پاس ا زار (لنگی )کے سوا کچھ نہ تھا ، آپ نے اسے شادی کی اجازت دے دی ،کسی نے اپنی بیوی کو صرف جو تی دی اور آپ نے شادی کی اجازت مرحمت فر مادی ، حد یہ ہے کہ ایک لپ ستواور کھجور پر شادی کی اجازت دی ۔
ان حدیثو ں کو پیش کرکے کہنا ہے کہ عہد نبوی میں خودذات برکت سراپا رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس طرح کے واقعات پیش آئے جو بتا تے ہیں کہ تنگ دستی اور فقر وفاقہ کے اس عالم میں شادی کی اور کرائی اور اللہ تعالیٰ نے خیر و برکت دی اور رزق کا سامان فرمایا۔
اسلام نے شادی کو اتنی اہمیت کیوں دی ؟ اور پیغمر اسلام نے لوگوں کی شادی ایسی تنگدستی میں کیوں کرائی ؟ سو چاجائے تو یہی معلوم ہو گا کہ سارا ہتمام اس لیے عمل میں آیا کہ عفت وعصمت کی پاکیزہ زندگی میسرّ آئے اور اس طر ح جائز طور پر بچے پیدا ہوں جس سے پاکبازی پھیلے اور پھر دنیا میں اخلاق اور عزت و آبرو کی مٹی پلیدنہ ہو سکے۔

مالداری اور نکاح

1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمی وہ ہیں کہ جن کی مدد اللہ تعالیٰ (نے خود) پر واجب (کرلی) ہے ،

۱۔وہ نکاح کرنے والا شخص جس کا مقصد نکاح سے خود کو بے حیائی سے بچانا ہو۔

۲۔وہ غلام جو غلامی کے طوق سے آزادی کی خاطر عقدِ مکا تبت(مالک سے ایک خاص قسم کا مالی عقد) کرکے آزاد ہونا چاہتا ہو۔

۳۔وہ مجاہد جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کررہا ہو۔

2۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص حاضر ہوا جو اپنی غربت وفقر وفاقہ کی شکایت کررہا تھا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ نکاح کرلے۔

3۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (لوگو!) اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو نکاح کا حکم دیا ہے تو اس حکم کی تکمیل کی خاطر تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو، اس پر اللہ تعالیٰ نے تم سے جو غنٰی(مال میں وسعت وبرکت کا وعدہ) کیا ہے، تو اللہ تعالیٰ تم سے کئے گئے اس وعدہ کو پورا کرے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اگر فقیر ہوگے تو اللہ (اس نکاح کی برکت سے) غنی کردے گا۔

4۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (لوگو!) غِنٰی کو نکاح میں تلاش کرو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر فقیر ہوگے تو اللہ (اس نکاح کی برکت سے) غنی کردے گا۔

5۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: رزق نکاح میں تلاش کرو۔

6۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں سے نکاح کرو اس لئے کہ یہ عورتیں تمہارے مال میں برکت واضافے کا سبب ہیں۔

7۔ثعلبی اپنی سند سے رویات کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غربت کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : نکاح کو لازم پکڑو۔

8۔ایوب رحمہ اللہ فرماتے ہیں محمد(غالبا ابن سیرین ) مجھے کاروبار،جائیداد، مال بڑھانے کے لئے نکاح کی ترغیب دیتے تھے۔

9۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اے لوگو!(جس نے مال تلاش کرنا ہوتو وہ) نکاح میں مال تلاش کرے۔

10۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطبہ میں فرمایا : کسی بھی شخص کے لئے ایمان کے بعد اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں کہ اسے اچھے اخلاق اور محبت والی ایسی بیوی مل جائے جو کثرت سے بچے جنتی ہو۔

مضامین کی فہرست پر واپس جائیں

Related posts

Leave a Reply