غربت دوسری شادی نہ کرنے کا بہانہ

غربت کا بہانہ

کچھ لوگ دوسروں کو یہ کہہ کردوسری شادی سے روکتے ہیں کہ پہلی بیوی کے اخراجات پورے نہیں ہورہے اور تم دوسری کی بات کرتے ہو۔

دراصل آج کل کے زمانے میں جو شخص بحریہ ٹاون اور ڈیفنس میں مکان نہیں بنا سکتا وہ اپنے آپ کو غریب سمجھتا ہے حالانکہ غربت یہ نہیں ہے، جو آدمی دو وقت(تین وقت نہیں) خود بھی کھاتا ہے اور اپنے بیوی بچوں کو بھی کھلاتا ہے وہ غریب نہیں ہے۔

ایک سے زائد شادیاں کرنے کے لئے بہت زیادہ مالدار ہونا ضروری نہیں ہے،بس اتنا کافی ہے کہ آپ اپنی بیوی کو تین چیزیں اس کے مناسب حال دے سکیں:

۱۔ مناسب خوراک

۲۔مناسب لباس

۳۔مناسب رہائش، پھر اس رہائش میں یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ 500 گز کا بنگلا بنا کردیں بلکہ اتنا کافی ہے کہ ایک ایسا کمرہ بیوی کو دینا چاہئے جس میں اس کا پورا اختیار ہو، یعنی اس کمرے میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی داخل نہ ہوسکے اسے بند کرنا اور کھولنا بیوی کے اختیار میں ہوجیسے کوئی مالک ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:  بیویوں میں عدل کا مطلب    دور صحابہ میں نکاح کیسے  ایک شادی کرنے والے صحابہ 

مذکورہ شرائظ صرف دوسری بیوی کے لئے نہیں ہیں بلکہ پہلی بیوی  کے لئے بھی یہ چیزیں ضروری ہیں اگر آپ ان شرائط کو پورا نہیں کرسکتے تو پھر آپ پہلی شادی بھی نہیں کرسکتے۔

ہمارے سروں کے تاج حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کون غریب ہوگا، آپ کواپنی ازواج مطہرات کو دو وقت کھلانے کے لئے مناسب خوراک تو کیا میسر ہوتی غربت کے باعث گھر میں چالیس چالیس دن چولہا جلنے کی نوبت بھی نہ آتی تھی۔

معلوم ہوا غربت کا بہانہ بنا کر ایک یا متعدد شادیوں سے اجتناب کرناشرعاً اچھی بات نہیں،اگر آپ واقعی غریب ہیں تو لڑکی کے انتخاب میں اپنا معیار بدل دیں اور ایسی لڑکی کا انتخاب کریں جو آپ سے بھی زیادہ غریب ہو یا اس غربت کے باوجود آپ کے ساتھ رہنے پر راضی ہو۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں سے نکاح کرو ا لئے کہ یہ عورتیں تمہارے مال میں برکت واضافے کا سبب ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگو روزی کو نکاح میں تلاش کرواور پھر یہ آیت تلاوت کی:

اِن یَکونُوا فقرا یغنھم اللہ من فضلہ

اگر یہ فقیر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں(نکاح کے باعث) غنی کردے گا۔

بخاری شریف میں ایک غریب صحابی کے نکاح کا عجیب واقعہ موجود ہے وہ یہ کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں ایک عورت آئی اور کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ سے نکاح کرنا چاہتی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف ایک نظر کی اور سر جھکا لیاکچھ دیر اسی طرح گزر گئی تو ایک صحابی کھڑے ہوئے اور کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ کو اس عورت سے نکاح کی رغبت نہیں تو میرا نکاح کرادیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مہر دینے کے لئے کچھ ہے؟ صحابی نے کہا اس تہبند کے علاوہ کچھ بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گھر بھیجا تاکہ کوئی چیز لائے ، وہ صحابی اپنے گھر سے ہوکر واپس آئے اور کہا کہ اس تہبند کے علاوہ کچھ بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دوبارہ بھیجا کہ دوبارہ تلاش کرکے آو اگرچہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو، وہ دوبارہ تلاش کرکے آئے اور کہا اس تہبند کے علاوہ کچھ بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں قرآن سے کچھ یاد ہے؟ اس پر صحابی نے کچھ سورتیں گنوائیں کہ فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان سورتوں کو تم زبانی پڑھ سکتے ہو؟ صحابی نے عرض کیا جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے تمہارا نکاح اس عورت سے اس قرآن کے بدلے کردیا جو تمہیں یاد ہے(یعنی جتنی سورتیں یاد ہیں ان کی تعلیم بیوی کو بھی دے دینا فی الحال یہ سہی)۔

اس واقعہ سے معلوم ہوا غربت کا بہانہ بنا کر نکاح میں رکاوٹ نہیں ڈالی جاسکتی۔

ایک سے زائد شادیوں میں رکاوٹ۔

آج نکاح میں دو چیزیں سب سے زیادہ رکاوٹ بنتی ہیں:

۱۔ دین کی خدمت کا جذبہ اور ان میں ہمہ تن مشغولیت

۲۔غربت

مشاہدہ ہے کہ بہت سے اہل علم حضرات اس خوف سے جلد نکاح یا متعدد نکاح نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ ان سے جو کچھ دین کی خدمات لے رہے ہیں تو اہل وعیال کی کثرت ان کےمعاش کی فکر اور سوکنوں کے جھگڑے نمٹانے کے چکر میں ان خدمات میں کمی واقع نہ ہو جائے نیز سابقہ دور جہاد میں کئی ایسے مجاہدین کے حالالت سننے اور دیکھنے میں آئے جو رشتہ ملنے کے باوجود یہ سوچ کر ایک شادی بھی نہیں کرتے تھے کہ جہاد میں مصروفیت کے باعث کسی بھی وقت شہادت سے سرفراز ہو سکتے ہیں، تو ان حالات میں بیوی بچوں کا بوجھ پالنا بلا وجہ کی مصیبت سرمول لینے کے مترادف ہے، لہٰذا ہلکے پھلکے رہ کر اور بیوی بچوں کی فکر سے آزاد ہو کر مصروف جہاد رہنا چاہئے، بیویاں تو خود سے حوروں کی شکل میں شہادت کے بعد مل جائیں گی، بلا شبہ ان کا یہ جذبہ(صرف جذبے کی حد تک) قابل تحسین ہے۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔۔

صحابہ کرام میں نکاح سے روکنے والی یہ دونوں رکاوٹیں یعنی دین کی (خدمات کا جذبہ، ان میں عملی مشغولیت اور غربت) بطریق اتم موجود تھیں، دین کی خدمات متعدیہ میں سے مشکل اور افضل ترین اور دنیا کی تمامتر مرغوبات سے سب سے زیادہ غافل کردینے والی خدمت جہاد ہے، صحابہ اس وقت ان خدمات اور جہاد میں مشغول تھے جب اسلام  کو جہاد اور دوسری خدمات کی سب سے زیادہ ضرورت تھی اور پھر جہادی مصروفیت بھی ایسی کہ روم اور فارس اور ان جیسی نہ معلوم مزید کیسی بڑی بڑی سلطنتیں کہ جنہوں نے مٹھی بھر مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ ان سے ٹکراو تھا دوسری طرف علمی میدان میں دشمنان اسلام کی سازشیں چاروں طرف سے بھرپور طریقے سے امڈ کر اسلام اور اسلام کے بنیادی عقائد سے متعلق شکوک وشبہات پیدا کرکے پورے اسلام ہی کی مشکوک بانے اور اسے صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلی ہوئی تھی۔

مگر جہادی اور علمی میدان کی یہ تمامتر قربانیاں اور دنیا سے غایت درجہ کی بے رغبتی صحابہ کرام کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نکاح کی کثرت والی سنت سے بہر حال باز نہ رکھ سکتی اور بھلا باز  رکھتی بھی کیسے۔۔۔؟؟ صحابہ تو دیکھ چکے تھے کہ ان سے زیادہ غریب اور مسکین تو ان کے محبوب ترین پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تھے،غربت کے باعث گھر میں چالیس چالیس دن چولھا جلنے کی نوبت نہ آتی، مگر اس کے باوجود بیویوں کے بارے میں نہ صرف یہ کہ قناعت نہیں کی بلکہ  اتزوج النسا  کہہ کر اس کی قولی وعملی ترغیب بھی دے ڈالی، بلکہ جب غربت کے بناعث امہات المومنین نے مال غنیمت کا سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےرب کی طرف سے یہ حکم سنایا کہ میرے ساتھ اگر اسی حال میں رہنا ہے تو رہو ۔

مضامین کی فہرست پر واپس جائیں

Leave a ReplyCancel reply

Discover more from Nukta Guidance Articles

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Exit mobile version