بیویوں میں ‘‘عدل’’۔
جس طرح لوگ پردے کے معاملے میں ایک غلط فہمی کا شکار ہیں یعنی ‘‘ستر اور پردہ’’ میں فرق نہیں سمجھتے بالکل اسی طرح دوسری شادی کی صورت میں عدل کے بارے میں بھی غلط فہمی کا شکار ہیں۔
لہٰذا اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ عدل کے معنی ظلم کا مقابل ہے،
ظلم کہتے ہیں حق کے موافق برتاو نہ کرنا، مثلا ٹو پی کا مقام سرپر رکھنا ہے اگر آپ اسے پاوں پر رکھ دیں تو یہ ظلم ہے۔
عدل کہتے ہیں حق موافق کے برتاو کرنا۔
عام طور پر لوگ عدل اور تسویہ(برابری)میں فرق کو نہیں سمجھتے۔ عدل ہر حال میں ضروری ہے چاہے بیوی ایک ہو یا ایک سے زائد جبکہ تسویہ(برابری) ایک سے زائد بیویاں ہونے کی صورت میں صرف دو چیزوں میں ضروری ہے۔۱۔بیتوتہ(رات گزارنا) ۲۔وصلات زائدہ(اضافی تحفے تحائف) میں۔
عدل کا مطلب یہ ہوا کہ کسی پر ظلم نہ ہو، اور یہ بات تو ایک بیوی کی صورت میں بھی ضروری ہے کہ آپ اس پر ظلم اور زیادتی نہ کریں اس کے حقوق واجبہ کو ادا کریں۔
البتہ ایک سے زائد بیویاں ہونے کی صورت میں دوچیزوں میں تسویہ یعنی برابری بھی کرنا ہوگی،
یاد رکھیں ہر چیز میں برابری کرنا ضروری نہیں ہے۔ اگر دونوں بیویاں مالی حیثیت سے برابر ہیں یعنی دونوں مالدار ہیں یا دونوں غریب ہیں تو پھر نان نفقہ میں برابری ضروری ہے ورنہ نان نفقہ میں برابری ضروری نہیں ہے ، مالدار بیوی کو اچھا کھانا جو اس کے لائق ہو وہ دینا ضروری ہے اور غریب بیوی کو ہلکا کھانا جو اس کے موافق ہو وہ دینا ضروری ہے۔ البتہ دو چیزیں ایسی ہیں جن میں برابری ضروری ہے:
۱۔ رات گزارنے میں یعنی جتنی راتیں ایک بیوی کے ساتھ گزاری ہیں اتنی ہی دوسری کے پاس بھی گزارنا ہوں گی، چاہے جماع کریں یا نہ کریں۔ اور یہ کام اتنا مشکل نہیں جتنا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔
۲۔ اضافی تحفے تحائف دینا۔ یعنی ضروری نان نفقہ کے علاوہ اضافی کوئی چیز دینی ہو تو پھر دونوں میں برابری کرنا ہوگی۔(مثلا شادی بیاہ یا عید کے موقع پر کپڑے وغیرہ بنانا)
کیا آپ ان دو چیزوں میں برابری نہیں کرسکتے۔۔؟؟
کیا آپ انسان نہیں ہیں آپ کو اللہ نے عقل نہیں دی کہ آپ عدل کو چھوڑ کر ظلم کریں گے۔۔؟؟
لہٰذا خود بھی زیادہ شادیاں کریں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔
اگر عدل کا کوئی اور مفہوم آپ کے ذہن میں ہے تو براہ کرم تحریر فرمائیں انشااللہ آپ کی تشفی کی جائے گی۔باقی جہاں تک مہنگائی یا غربت کا تعلق ہے تو میرے بھائی ہمارے ہاں جو شخص بحریہ ٹاون اور ڈیفنس میں بنگلہ نہ بنا سکے وہ اپنے آپ کو غریب سمجھتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صبح ایسی حالت میں ہوتی تھی کہ کھانا نہیں ہوتا تھا پھر ایسی ہوتی تھی کہ کھانا نہیں ہوتا تھا اس کے باوجود آپ نے بعض روایات کے مطابق چودہ شادیاں کیں اور جب آپ کی وفات ہوئی تو نو بیویاں آپ کے نکاح میں تھیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے چار شادیاں کیں، حالانکہ حالت یہ ہے کہ بیوی روزانہ کے کھانے میں سے تھوڑا تھوڑا بچا کر حلوے کا انتظام کرنا چاہتی ہیں،
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آٹھ شادیاں کیں، کپڑے پھٹے ہوئے ہیں امیرالمومنین ہیں ایک اور عورت کو نکاح کا پیغام بھیجتے ہیں وہ یہ کہہ کر انکار کردیتی ہے کہ عمر غریب ہے،
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آٹھ شادیاں کیں،
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نو شادیاں کی اور غالبا 18 باندیاں بھی تھیں۔
اسی طرح اس موضوع پر آپ سرچ کریں تو آپ حیران ہوجائیں گے کے صحابہ کا کیا طرز عمل تھا، حقیقت یہ ہے کہ غربت رکاوٹ نہیں ہے ہماری عیاشیاں قوم کی بیٹیوں کو زنا پر لگا رہی ہیں۔
لفظ عدل کی تحقیق
العدل اس کی ضد ہے البغی، الظلم، الظلامۃ، الجور، الاجحاف، الطغیان، العسف، الاستبداد، قال البستی:
علیک باالعدل اذا وُلِّیتَ مملکۃ واحذر من الجورِ فیھا غایۃ الحذر عدم الشی۔(مجانی الاضداد صفحہ 207)
عادل۔۔۔۔۔منصف، مقتصد(معجم الجیب للمرادفات والاضداد صفحہ 63)
العدل۔۔۔۔۔انصاف۔۔۔الجور بمعنی ظلم کی ضد۔(مختار الصحاح صفحہ585)
العادل۔۔۔۔۔الظالم ، العدل۔۔۔الظلم۔(قاموس الاضداد)
العادل۔۔۔۔۔اس کا مرادف ہے : المنصف المساوی۔ اور اس کی ضد ہے: الظالم، الباغی۔(قاموس الطالب فی المرادفات والاضداد صفحہ106)
عدل کے اصل معنی ہیں برابر تقسیم کرنا ہر شخص کو وہ جزا وسزا دینا جس کا فی الواقع وہ مستحق ہے اور جو اس کے کردار کے مساوی ہے دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ ظلم ورحمت کی درمیانی حالت کا نام عدل ہے۔ کسی شخص نے تمہارا ایک روپیہ ناجائز طریقہ سے دبا لیا تم نے بجائے ایک روپیہ کے اس سے دو روپے وصول کرلئے تو یہ ظلم ہے کیونکہ سزا عمل سے بڑھ گئی اور اگر سزا پر قدرت رکھنے کے باوجود بالقصد تم نے اس سے درگزر کی اور وہ روپیہ اسے معاف کردیا تو یہ مغفرت اور بخشش ہے ، لیکن تم نے اس سے صرف اپنا حق واجب یعنی ایک روپیہ بغیر کمی بیشی کے وصول کیا تو یہ عدل ہوا۔(قاموس القرآن صفحہ349)
یہ بھی پڑھیں: دور صحابہ میں نکاح کیسے کثرت سے نکاح کرو ایک شادی کرنے والے صحابہ
بعض لوگوں کا ایک عجیب اعتراض
بعض لوگ ایک عجیب قسم کا اعتراض کرتے ہیں کہ جی اس زمانے میں بیویوں کے درمیان عدل کرنا ممکن ہی نہیں۔
اس میں دو باتیں ہیں :
1۔ عدل ممکن ہی نہیں
2۔ عدل کرتے نہیں
جہاں تک دوسری بات کا تعلق ہے کہ لوگ عدل کرتے نہیں ، یہ بات کسی حد تک ٹھیک ہو سکتی ہے لیکن اس بات کو لیکر دوسری شادی ہی نہ کرنا کہ لوگ عدل نہیں کرتے یہ ایسا ہی جیسا کوئی کہے کہ لوگ نماز پڑھتے ہی نہیں لہٰذا میں بھی نہیں پڑھتا یا لوگ نماز پڑھتے ہی نہیں لہٰذا اس کی ترغیب دینا ہی فضول ہے۔
اگر لوگ نہیں کرتے تو آپ خود عدل کر کے لوگوں کے لئے مثال بنیں ، یا کم از کم اس بات کی ترغیب چلائیں لوگوں سے کہیں کہ وہ عدل کریں ، عدل کرنے سے ہوگا نہ کہ سوچنے سے ۔
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے کہ عدل ممکن ہی نہیں ، یہ بالکل فضول بات ہے ۔ اس قسم کے اعتراض پرویز مشرف کی ذہنیت رکھنے والے روشن خیال دین کی اور کئی باتوں پر بھی کرتے رہے ہیں کہ فلاں کام آج کے دور میں ممکن ہی نہیں ، یاد رکھیں دین کے کسی حکم کے بارے میں یہ سوچ لینا کہ آج اس پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں اس سے وہ معاف نہیں ہو جاتا بلکہ اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کہ اپنے آپ کو دین دار کہنے والے آگے بڑھ کر اس حکم پر عمل کرکے گمراہوں کی دلیل بیچ چوراہے کے باطل کرکے دکھائیں کہ دین اور شریعت کا ہر حکم قیامت تک کے لئے ہے اور اس پر عمل کرنا ہر دور اور زمانے میں ممکن ہے۔
لہٰذا آج جتنے اعتراض دوسری شادی پر ہو رہے ہیں یہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ دین دار طبقہ خصوصا علما ، حفاظ ، اور تبلیغی حضرات فورا اس دلیل کو اپنے عمل سے باطل کرکے دکھائیں، اور باقی عوام کے لئے مثال بن کر آسانی پیدا کریں۔
مولانا مفتی طارق مسعود مدظلہ فرماتے ہیں:
حقیقت یہ ہے کہ جب انسان اخلاص اور سنجیدگی کے ساتھ کسی کام کا پختہ عزم کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے راستے کھولتے چلے جاتے ہیں، چنانچہ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ جو نوجوان تعددزوجات پر عمل کے بارے میں اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے اخلاص اور سنجیدگی کے ساتھ عملی کوشش کرے گا، اس کے سامنے بہت سی ایسی تدبیریں اور راستے کھلتے جائیں گے جنہیں اختیار کرکے اس کے لئے اس سنت پر عمل آسان ہو جائے گا اور اگر عزم وارادہ ہی نہ ہو تو بنی اسرائیل کی طرح مختلف قسم کی شقیں اور اشکالات نکال نکال کر ساری عمر معاملے کو ٹہلانے کی کوشش ہی میں لگا رہے گا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
تین آدمی ایسے ہیں کہ جن کی مدد اللہ تعالیٰ نے خود پر واجب کرلی ہے:
1۔وہ نکاح کا ارادہ کرنے والا جس کا مقصد نکاح کے ذریعے خود کو بے حیائی سے بچانا ہو۔
2۔اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا۔
3۔وہ غلام جو خودکو آزاد کرانے کی کوشش میں لگا رہے۔
(ایک سے زائد شادیوں کی ضرورت کیوں؟ص294)