متعدد شادیاں اور خواتین کا تحفظ
اللہ تعالیٰ نے جو متعدد شادیوں کا نظام دیا ہے اس میں مردوں سے زیادہ تمہاری بیٹیوں اور بہنوں کا تحفظ ہے اور جس حساب سے اللہ تعالیٰ نے تمہاری فطرت بنا کر اور اپنے محبوب ترین پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرار دے کر تمہارے اندر عورتوں کی طرف نکاھ والی طلب رکھی ہے اللہ تعالیٰ اسی طلب کے حساب سے تمہارے خاندانوں اور نسلوں میں عورتیں پیدا کرتا رہے گا۔
تم اگر ہندووں اور انگریزوں سے متاثر ہو کر اور اپنے گڑھے ہوئے ڈبل روٹی اور برگر کے خرچوں کے خوف سے اور تعلیم کے لئے خود پر مسلط کردہ بچوں کے اسکول کی فیسوں کے کوف سے نیز اپنی خدمت گزار بیوی پر ترس کھاتے ہوئے یا کسی بھی دینی یا دنیوی خدمت میں مشغولیت کے پیش نظر عورتوں کی طرف نکاح والی اس طلب کو ختم کر ڈالو گے(جو فطرت نے تم میں ودیعت کی ہے) یا اور کسی جذبے سے سب کے سب ایک بیوی پر اکتفا شروع کردو گے تواللہ تعالٰ تمہارے اس مقتضی فطرت سے پوری طرح مطابقت نہ رکھنے والے طریقے سے متاثر ہو کر تماہرے خاندانوں اور قوموں میں عورتوں کی شرح پیدائش کم تھوڑا ہی کردے گا۔بلکہ جب نکاح سے اس عملی نفرت کی وجہ سے بے نکاحی عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور بے حیائی بڑھے گی تو اللہ تعالیٰ انتقام لینے کی خاطر اس شرح پیدائش میں مزید اضافہ کردے گا تاکہ جن خرچوں اور مہنگائی کے خوف سے نبی کی سنت سے عملا نفرت انگیز معاملہ برت رہے تھے اور یوں قوم کے لئےزنا کو آسان اور نکاح کو مشکل سے مشکل بناتے چلےجارہے تھے اور اس کے اقدام کے لئے غیر ضروری قیدیں بڑھائے چلے جارہے تھے تو غیور خدا تم سے انتقام لینے کے لئے تمہاری قوموں میں بیٹیوں کی تعداد بڑھا کر تمہارے ایسے خرچے کروائے گا جو تمہاری کمر توڑ کر رکھ دیں گے اور یہ خرچے اس قسم کے ہوں گے جو تمہارے اسلاف اور باپ دادا نے کبھی سنے بھی نہ ہوں گے۔
تعدد ازواج میں اصل حکم کیا ہے؟
اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لئے مرد کی فطرت سے پوری طرح مطابقت کے باعث اسلام میں اصل ترغیبی حکم یہ ہے کہ ایک سے زائد بیویاں رکھی جائیں ، یعنی تعدد اصل ہے اور ایک پر اکتفا کرنا یہ مجبوری کے وقت ہے۔
فانکحوا ماطاب لکم من النسا مثنیٰ وثلٰث وربٰع، وان خفتم ان لا تعدلوا فواحدۃ ۔
نکاح کرو دودو سے تین تین سے چار چار سے،اور اگر تمہیں خوف ہو کہ عدل قائم نہ کرسکو گے تو پھر ایک کرو۔
دیکھیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک کا حکم نہیں دیا بلکہ دو دو تین تین چار چار بیویاں رکھنے کا حکم دیا اور مجبوری کے وقت ایک ہی رکھنے کی اجازت بھی دی۔اس سے معلوم ہوا اصل حکم تعدد ازواج کا ہے۔
ایک سے زیادہ عورتوں کی خواہش اور طلب مرد کی فطرت میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کی فطرت ہی ایسی بنائی ہے کہ وہ صرف ایک عورت پر گزارہ نہیں کرسکتا۔ تاریخ بھی اس بات کی شاہد ہے کہ ابتدا ہی سے مردوں کا ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا رجحان رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ جنت میں بھی ایک مومن مرد کو ایک سے زیادہ بیویاں اور کئی حوریں ملیں گی۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک ادنیٰ درجے کے جنتی کے اسی ہزار خادم ہونگے اور بہتّر بیویاں ہونگی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک جنتی مرد کی پانچ سو حوروں اور چارہزار کنواریوں اور آٹھ ہزار بیوہ عورتوں سے شادی کروائی جائے گی۔
حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
عقلاً ونقلاً وتجربۃً وقیاساً ہر لحاظ سے یہ امر مسلّم ہے کہ مرد میں عورت کی بہ نسبت شہوت کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔
عقلاً اس لئے کہ مرد کا مزاج گرم ہے ، جوسبب شہوت ہے اور عورت کا مزج سرد ہے۔
شرعاً اور نقلاً اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرد کو چار بیویوں کا اختیار دیا ہے اگر عورت میں شہوت زیادہ ہوتی تو اس کے برعکس ہونا چاہئے تھا۔
تجربۃً اس لئے کہ کوئی شخص اس کا قائل نہیں اور اس کی مثال پیش نہیں کرسکتا کہ عورت ہمبستری کی دعوت دے اور مرد انکار کرے ، اس کے برعکس اس کی مثالیں روزانہ پیش آتی رہتی ہیں کہ مرد بلاتا ہے اور عوت راضی نہیں ہوتی۔
قیاساً اس طریقے سے کہ دوسرے حیوانات میں یہ امر مشاہد ہے کہ ایک مذکر سینکڑوں مونث کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔
اس کے علاوہ مردوں میں کثرت احتلام اور عورتوں میں اس کا وجود کالعدم ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں میں شہوت کم ہوتی ہے۔پس ثابت ہوا کہ مرد کی کثرت خواہش کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی متعدد بیویاں ہوں۔