سعودی عرب کے ایک مشہور عالم محمد الامین لشنقیطی فرماتے ہیں:
بعض ملحد اور دشمنان دین کا دعویٰ ہے کہ ایک سے زائد بیویاں رکھنے کے نتیجے میں بیویوں میں کچھ جھگڑا فساد ہوتا ہے اس سے زندگی کی رونق(اور مزا) کِرکِرا ہوجاتا ہے، کیونکہ مرد جب کسی ایک زوجہ کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری ناراض ہوجاتی ہے ، دوسری کو خوش کرنا چاہتا ہے تو پہلی ناراض ہوجاتی ہے یوں وہ ہمیشہ دو ناراضیوں میں سے ایک کا بہرحال شکار رہتا ہے ، اور خود کو ایسی پریشانی میں مبتلا کرنا حکمت اور مصلحت کا کام نہیں۔۔۔۔جو لوگ اس بنیاد پر تعددزوجات کی مخالفت کرتے ہیں اکا کا کلام ایسا ساقط اور کمزور ہے کہ جس کا لغو اور بے کار ہونا کسی عقلمند پر مخفی نہیں ، کیونکہ ایک گھر میں آپس میں نوک جھوک اور جھگڑے ایک ایسا کام ہے جس سے فرار کا کوئی راستہ ہی نہیں ، بعض مرتبہ مرد کے اپنی اکلوتی بیوی سے اختلافات اور لڑائی جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں، الغرض گھر کے مختلف افراد کی آپس میں نوک جھوک اور جھگڑے معاشرے میں ایک معمول کی بات سمجھا جاتا ہے اور ان اختلافات کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دے جاتی ، چنانچہ ایک سے زائد بیویاں رکھنے میں جو کچھ فسادات واختلاف ہوتے ہیں، ان فسادات واختلافات کی ان مصلحتوں کے قابلے میں کچھ حیثیت نہیں جو مصلحتیں اس سنت پر عمل پیرا ہونے کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہیں،
یہ بھی پڑھیں: زیادہ بچے اور ہماری جہالت۔۔ دور صحابہ میں نکاح کیسے ۔۔۔ متعدد شادیاں اور خواتین کا تحفظ۔۔۔ بیوی کا انتخاب کیسے کریں۔
مثلا متعدد عورتوں کی کفالت اور ان کو عفت وپاکدامنی کی زندگی میسر ہونا، قوم کی تمام عورتوں میں سے ہر ایک عورت کے لئے ایک اچھے مرد سے نکاح کا حصول باآسانی ممکن ہوجاتا ہے، بچوں کیشرح پیدائش میں اضافہ تاکہ امت اپنی کثرت کے باعث(مختلف شعبوں میں) دشمنان اسلام کے سامنے ٹہر سکے، الغرض(یہ اور اس جیسی اور) بڑی بڑی مصلحتوں اور فوائد کے مقابلے میں سوکنوں کے آپس کے جھگڑوں جیسے فسادات کچھ معنی نہیں رکھتے۔ لہٰذا ہم یہ فرض بھی کر لیں سوکنوں کے جھگڑے فساد کا سبب ہیں یا دوسری شادی کے نتیجے میں پہلی بیوی کو جو کچھ تکلیف ہوتی ہے تو بیوی کو ایسی تکلیف پہنچانا بھی فساد کا سبب ہے تو شریعت کی نظر میں ترجیح اس بات کو ہے کہ بڑی بڑی مصلحتوں کی خاطر ان چھوٹے فسادات کو برداشت کیا جائے۔
اس کی مثال یہ ہے کہ مثلا انگور سے شراب نچوڑی جاتی ہے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے مگر انگور سے جو بڑے بڑے فوائد حاصل ہوتے ہیں ان کے پیش نظر انگور کے وجود کو برقرار رکھنا ہی مناسب سمجھا جاتا ہے اور شراب کے نقصانات کو دیکھ کر انگور کے وجود ہی کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔
پس قرآن نے مرد کے لئے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کو حلال قرار دیا ، عورتوں کی مصلحت کی خاطر تاکہ کوئی مرد ایک بیوی پر اکتفا کرکے نکاح سے وابستہ بہت سے مصلحتوں سے محروم نہ رہ سکے۔ اور اجتماعی سطح پر امت کی مصلحت کی خاطر تاکہ شرح پیدائش میں اضافہ کے باعث امت کی تعداد میں اضفہ ہو اور امت کے لئے(بذریعہ جہاد) اللہ کے کلمہ کو پوری دنیا میں بلند کرنا ممکن ہو۔
پس تعدد زوجات ایک ایسے باخبر کی طرف سے نازل کردہ حکم ہے جو حکمت والا ہے ،اس حکم پر اعتراض وہی کرسکتا ہے جس کی بصیرت کو اللہ نے کفر کی گمراہیوں سے اندھا کردیا ہو، اور بیویوں کی تعداد کو چار کے عدد میں منحصر کردینا بھی ایک حکمت والے اور باخبر کی طرف سے مقرر کردہ حد ہے، کیونکہ اس سے کم بیویاںرکھنے میں مرد نکاح سے وابستہ بعض فوائد سے محروم ہوسکتا ہے اور اس سے زائد بیویاں رکھنے میں اس کا زیادہ امکان ہے کہ عدل اور بیویوں کے حقوق ادا نہ ہوسکیں گے۔
محمد الامین الشنقیطی(فقہ تعددالزوجات بحوالہ اضوالبیان ج۳ صفحہ۳۷۷)
کیا دوسری شادی کرنے سے فتنہ پیدا ہوتا ہے؟
بعض لوگ کہتےہیں کہ دوسری شادی کرنے سے فتنہ پھیلتا ہے بیوی اور سسرال والوں سے جھگڑا ہوتا ہے، اور الفتنۃ اشد من القتل کہ فتنہ قتل سے بھی بڑی چیز ہے۔
جی ہاں بالکل فتنہ قتل سے بھی سخت ہے لیکن فتنے کو ختم کرنے کا طریقہ بھی تو کوئی ہوگا نا۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر ایک فتنہ فرض بھی کیا ہے وہ جہاد ہے ، جہاد اول تا آخر فتنہ ہی فتنہ ہے،
اس میں قتل بھی ہوتا ہے ، خون بھی بہتا ہے، سہاگ بھی اجڑتے ہیں ، بچوں کے چیٹڑے بھی اڑتے ہیں، آبادیاں ویران بھی ہوتی ہیں، اور شریعت بھی اسکو حسن لعینہ نہیں کہتی بلکہ حسن لغیرہ کہتی ہے ۔ لیکن اس فتنہ میں کئی راز پوشیدہ ہیں ، یہ فتنہ اپنے سے کئی گنا بڑے بڑے فتنوں کی سرکوبی کرتا ہے ، بڑے بڑے فتنوں کا خاتمہ کرتا ہے ، امن قائم کرتا ہے، اسلام کو غلبہ نصیب کرتا ہے، کفر کو مغلوب کرتا ہے، اس وجہ سے یہ فتنہ اتنا فضیلت والا بن گیا ہے کہ اس فتنے کوکرنے والوں کو جنت کی خوشخبری دی جاتی ہیں، خون بعد میں گرتا ہے مغفرت پہلے ہوجاتی ہے، الغرض بعض اوقات بڑے فتنوں کو ختم کرنے کے لئے چھوٹے فتنوں میں مبتلا ہونا عین عقل مندی ہوتی ہے۔
آج اپنے معاشرے میں دیکھیں صرف ایک شادی والے رواج کی وجہ سے عورتیں گھروں میں سسک سسک کر جان دے رہی ہیں ، لیکن ایسی عورتیں بہت کم ہیں اکثر بے حیائی اور فحاشی میں مبتلا ہیں،
زنا سستا ہوتے ہوتے صرف دو سو روپے تک پہنچ چکا ہے۔جبکہ نکاح مہنگا ہوتے ہوتے دس لاکھ سے بڑھ رہا ہے۔
کیا آپ میں اتنا حوصلہ بھی نہیں کہ ان بڑے بڑے فتنوں کے سدباب کے لئے آپ تھوڑی سی قربانی پیش کرکے اللہ کے ہاں سرخرو ہوں۔۔۔۔؟؟