سید عبدالوہاب شیرازی
آ ج صبح آذان فجر سے ایک گھنٹہ قبل زور دار دھماکوں سے اچانک میری آنکھ کھلی، پندرہ سے بیس سیکنڈ کے بعد ایک زور دار دھماکہ ہوتا اور میرے کمرے کی کھڑکی لرزجاتی۔ایسی گھبراہٹ جو عام طور پر کسی اچانک واقع یا زلزلے سے ہوتی ہے اور آدمی فورا ادھر ادھر بھاگتا ہے ایسی گھبراہٹ تو نہیں ہوئی۔ لیکن کلیجہ منہ کو آرہا تھا اور میں خلاف معمول اٹھا اور گھر سے باہر نکل گیا، یہ دھماکے ایک تسلسلے کے ساتھ تقریبا ہمارے گھر سے ڈیڑھ کلومیٹر دور ہورہے تھے۔ میں گھر کے باہر سروس روڈ کے کنارے لگے درختوں کے نیچے فٹ پاتھ پر کافی آگے تک ٹہلتا اور پھر دوسری طرف ٹہلتا ٹہلتا کافی دور تک چلا جاتا۔
یہ باالکل ایسا ہی منظر تھا جیسے کسی پھانسی کے مجرم کو گھر والوں سےآدھی رات کو آخری ملاقات کروائی جاتی ہے اور پھر وہ جیل کے باہر فجرکا انتظار کررہے ہوتے ہیں کہ اپنے پیارے کی لاش وصول کرلیں۔ جی باالکل میں بھی اسی کیفیت میں فجر اور پھر فجر کے بعد والی صورتحال کے انتظار میں ٹہلتا رہا۔
دھماکے مارٹر گولوں اور راکٹ لانچر کے لگ رہے تھے لیکن تھوڑی دیر کے بعد ایک آدھ دھماکہ اتنا زور دار ہوتا کہ زمین بھی کانپ جاتی،شاید ٹینک یا توپ کا گولا فائر ہوتا ہوگا۔اب دھماکوں کے ساتھ ساتھ گولیوں کی تڑتڑاہٹ بھی شروع ہوچکی تھی، کچھ دیر کے بعد ہمارے محلے کی الفلاح مسجدکے موذن نے فجر کی آذان دی،اس کی آواز بھی دھیمی تھی، غم اور دکھ کی کپکپاہٹ سے بھری آذان ختم ہوئی تو میں سیدھا مسجد گیا،وضو کیا، موذن صاحب دوست تھے ہم نے خلاف معمول ایک دوسرے سے صرف نظریں ہی ملائیں بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
نماز کے بعد تازہ ترین صورتحال کو جاننا پہلی ترجیح تھی، میرے پاس ٹی وی،انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولت نہیں تھی۔ چنانچہ میں انتظار کرنے لگا کہ سروس موڑ پر واقع پٹھانوں کا چائے والا چھپر ہوٹل کھلے اور وہاں ایک کپ چائے کے بدلے ٹی وی پر خبریں سن لوں۔ چنانچہ ایک بار میں وہاں گیا لیکن ابھی ہوٹل بند تھا، کچھ دیر سڑک پرٹہلتا رہا، اب دھماکوں کی آوازیں کم پڑھ گئیں تھیں لیکن گولیوں کی تڑتڑاہٹ ابھی بھی آرہی تھی۔ اتنے میں ہوٹل والے بھی آگئے، جنہوں نے خلاف معمول صفائی کرنے پہلے ہی ٹی وی آن کردیا، اور چند لمحوں میں ہوٹل کھچاکھچ بھر گیا۔
جب ٹی وی آن ہوا تو نیوزکاسٹر نے کہا ہم غازی عبدالرشید سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، چنانچہ اچانک ان سے رابطہ ہوا اور انہوں نے اپنے آخری انٹرویو میں نیوزکاسٹر کےسوالوں کے جواب دینے کے بجائے اپنی چند وصیتیں کیں، پھر جامعہ حفصہ کی اندر کی صورتحال بتاتے ہوئے کہا ہرطرف لاشوں کے دھیڑ لگے ہوئے ہیں، میری والدہ کو ابھی ابھی ایک گولی ہے اور میں ان کے سرہانے بیٹھا ان کو رخصت کررہا ہوں۔ یہ میرے آخری الفاظ ہیں شاید پھر میں آپ کو انٹرویو نہ دے سکوں کیونکہ ہمیں ہر صورت قتل کردیاجائے گا۔عبدالرشید غازی کی ٹیلی فون کال پر بھی مسلسل گولیوں کی آواز آرہی تھی اور پھر اچانک ٹیلی فون لائن کٹ گئی۔
پورے ہوٹل میں سناٹا چھایا ہوا تھا کسی کو غم کے مارے کوئی بات کرنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی، میں بھی گھر واپس آگیا اور پھر چند گھنٹوں کے بعد اطلاع ملی کہ مسجد فتح ہوگئی ہے اور غازی عبدالرشید اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
یہ تو سات جولائی 2007 کا واقع ہے۔ اس سے ٹھیک ایک سال قبل جولائی کا پہلا ہفتہ تھا، میں کسی روزنامے میں ملازمت کے حصول کے لئے گیا تو انہوں نے مجھے کام کے لئے فائنل کرنے کے بعد کہا آپ کسی معروف شخصیت سے اپنے حق میں ایک تصدیق نامہ بنا کر لائیں تو آپ کو رکھ لیں گے۔ چنانچہ میں اس سلسلے میں ایک معرف صحافی جو میرے دوست تھے ان کے پاس گیا، انہوں نے اپنی طرف سے ایک چھوٹا سا خط غازی عبدالرشید کے نام لکھا کہ ان کو تصدیق نامہ بنا کردیں۔ وہ خط لے کر میں غازی عبدالرشید کے پاس گیا، جب میں جامعہ حفصہ میں داخل ہوا تو پوچھتے پوچھتے غازی صاحب کے کمرے تک پہنچا اس وقت ان کے پاس کسی یونیورسٹی کے چند سٹوڈنٹ بیٹھے ہوئے تھے، میں سلام کرنے کے بعد ایک طرف بیٹھ گیا، کافی دیر کے بعد جب وہ سٹوڈنٹ چلے گئے تو میں نے کہا کہ فلاں روزنامے میں کام کرنا چاہتا ہوں، انہوں نے کہا ہے کہ کسی مشہور شخصیت سے تصدیق نامہ بناکرلائیں، لہٰذا میں آپ کے پاس حاضرہوا ہوں کہ آپ مجھے تصدیق نامہ بنا کردیں۔ پہلے تو غازی صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا میں تو مشہور شخصیت نہیں ہوں آپ کسی صحافت کی لائن کے بندے کے پاس چلے جائیں تو میں نے کہا میں فلاں صحافی کے پاس گیا تو انہوں نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ غازی صاحب نے میرا بہت اکرام کیا، ساری صورتحال معلوم کی اور پھر مجھے کہا کہ تصدیق نامے میں یہ لکھنا ہوتا ہے کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں یہ بہت ایمان دار اور اچھا انسان ہے،میں آپ کے بارے میں بدگمانی نہیں کرتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں تو آپ کو پہلی بار دیکھ رہا ہوں، میں آپ کو جانتا نہیں، کیا جب میں ایسی بات لکھوں گا تو یہ جھوٹ نہیں ہوجائے گا؟
میں خاموش رہا ، تو انہوں نے پھر مجھے کہا آپ بتائیں نا کیا یہ جھوٹ نہیں ہوگا؟ میں نے کہا جی ! ایسا ہی ہے یہ جھوٹی تحریر ہوگی۔ تو فرمایا۔ میرے دوست میری جھوٹ بھولنے کی عادت نہیں۔ اب آپ ہی بتائیں مجھے جھوٹ لکھنا چاہیے؟ میں نے کہا نہیں۔ پھر غازی صاحب بار بار مجھ سے سوری اور معذرت کرتے رہے کہ ناراض نہیں ہونا ، مجھے بڑے احترام سے کھڑے ہوکرملے اور رخصت کیا۔اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ ٹھیک ایک سال بعد اسی جگہ اتنا عظیم سانحہ ہوگا تو شاید میں کچھ دیر اور بیٹھ کر ان سے کچھ اور باتیں بھی کرتا، لیکن اللہ کا ایک نظام ہے آنے والے لمحے کا کسی کو کچھ معلوم نہیں کیا ہوگا
10 جولائی 2007