ہمارے بزرگوں کی صحت کیوں اچھی ہوتی تھی
ہمارے بزرگ اتنے بیمار نہیں ہوتے تھے ان کی صحت اچھی ہوتی تھی اس کی وجہ چار ایسی چیزیں ہیں جو ان کی غذاوں میں پائی جاتی تھیں جبکہ ہماری غذاوں میں چار چیزوں کی کمی ہے جس کی وجہ سے طرح طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ ہمیں کوئی غذا فائدہ نہیں دیتی، نیند کی کمی ہے، بلڈپریشر، شوگر عام ہے، جگہ، دل ، دماغ کے مسائل بہت زیادہ ہیں، تھکاوٹ ، جوڑوں کا درد اور کمزوری بہت زیادہ ہے۔ وہ چار چیزیں یہ ہیں۔
(تحریر: حکیم سید عبدالوہاب شاہ)
چار اہم غذائی اجزاء:
- الفا لیپوئک ایسڈ (Alpha Lipoic Acid)
- گلوٹا تھایون (Glutathione)
- میگنیشیم (Magnesium)
- سیلینیم (Selenium)
ان میں پہلی دو چیزیں در اصل اینٹی آکسیڈنٹ ہوتے ہیں۔
اینٹی آکسیڈنٹ کیا ہے؟
ہمارے جسم کو ہر وقت انرجی اور طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ انرجی اور طاقت ہمیں خوراک سے حاصل ہوتی ہے۔ جب ہم خوراک کھاتے پیتے ہیں تو معدے میں جاکر وہاں ہزاروں مزدور اسے توڑتے ہیں، اس ٹوڑنے کے نتیجے میں ایک خاص کیمیکل عمل ہوتا ہے جس کے نیتیجے میں ہمیں انرجی اور طاقت ملتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ سائیڈ پروڈکٹس بھی بنتی ہیں۔ ان سائیڈ پروڈکٹس میں فری ریڈیکلز اور آکسیڈنٹس ہوتے ہیں جو ہمارے خلیوں کو توڑتے اور تباہ کرتے ہیں۔
ان آکسیڈنٹ کو روکنے کے لیے ہمارے جسم میں قدرتی طور پر کچھ اینٹی آکسیڈنٹس پیدا ہوتے ہیں جن میں دو سب سے بڑے اینٹی آکسیڈنٹ ہیں۔ ایک الفا لوپک ایسڈ اور دوسرا گلوٹا تھایئون۔ یہ دونوں بھی ہمیں مختلف غذاوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ اگر ان کی مقدار کم ہو جائے تو پھر ریڈیکلز اور آکسیڈنٹ ہمارے خلیوں کو ڈیمج کرتے ہیں جس سے ہمیں طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور اگر ان اینٹی آکسیڈنٹ کی مقدار پوری ہو تو یہ ہمارے خلیوں کا تحفظ کرتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں یہ آکسیڈنٹ کہاں سے ملیں گے؟ تو اس کا جواب ہے یہ آکسیڈنٹ ہماری روز مرہ کی غذاوں میں ہی پائے جاتے ہیں جن میں سے چند غذائیں ایسی ہیں جن میں یہ کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں مثلا:
- سبز پتوں والی سبزیاں (پالک، میتھی وغیرہ)
- گاجر، چقندر، آلو
- گوبھی، پپیتا، کیلا
- سرخ گوشت، انڈے
- پیاز، ادرک، لہسن وغیرہ۔
الغرض ہماری جو جو نارمل قدرتی غذائیں ہیں ان میں یہ تمام چیزیں موجود ہوتی ہیں۔
بزرگوں کی خوراک اور آج کی خوراک میں فرق:
پھر سوال پیدا ہوتا ہے جب یہ ہماری غذاوں میں موجود ہے تو ہمیں فائدہ کیوں نہیں ہوتا۔ ہمارے بزرگ بھی یہی کھاتے تھے ان کو فائدہ ہوتا تھا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ان غذاوں کو فطری اور سادہ طریقے سے کھاتے تھے۔ جبکہ ہم نے ان غذاوں کو سادہ اور فطری طریقے سے استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم ان غذاوں کو ڈالڈے میں خوب بھونتے اور تلتے ہیں۔ پھر طرح طرح کے کیمیکلز کا استعمال کرتے ہیں۔ خاص طور پر کمپنیوں کے بنے بنائے مصالحے جن میں کیمکلز کی ملاوٹ ہوتی ہے ان کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم بہت ساری ایسی چیزیں کھاتے ہیں جو ہمارے بزرگوں کے زمانے میں خوراک کا حصہ نہیں تھیں۔ مثلا کولڈڈرنکس، طرح طرح کے بیکری آئٹمز، ڈالڈا اور اس میں تلی ہوئی چیزیں ، کمپنیوں کی بنائی ہوئی مصنوعی چیزیں ، جیسے مصنوعی دودھ، مصنوعی مصالحے، مصنوعی میٹھی چیزیں اور بے شمار ایسی خوراکیں جو آج سے پچاس سال پہلے نہیں تھیں آج ہماری خوراک کا نہ صرف حصہ ہیں بلکہ بڑا حصہ ہیں جبکہ قدرتی اور فطری غذائیں بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔
اس لیے اگر ہم ان قدرتی اور فطری غذاوں سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اسی فطری طریقے سے کھانا ہوگا جیسے پہلے لوگ کھاتے تھے، یعنی ڈالڈے اور کیمیکلز کے بغیر سادہ طریقے سے پکا کر، جسے ہم ابالنا اور یحنی بنانا بھی کہتے ہیں۔ یعنی ہمیں پکانے والی چیز کو صرف پکانا چاہیے مثلا گوشت ہے اسے کچا نہیں کھا سکتے ، تو اسے ہمیں صرف پکانا چاہیے۔ اور گوشت کو پکانے کے لیے صرف پانی چاہیے، ڈالڈ، مصنوعی مصالحے، کیمیکلز اور عجیب و غریب طریقے نہیں چاہیے۔ہاں ہم قدرتی مصالحے اس میں بقدر ضرورت استعمال کر سکتے ہیں، جیسے الائچی، کالی یا سبز مرچ، دارچینی، لونگ، وغیرہ وغیرہ
صحیح خوراک تیار کرنے کا طریقہ:
- اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری صحت بھی ہمارے بزرگوں جیسی ہو، تو ہمیں اپنی خوراک کو قدرتی اور سادہ طریقے سے تیار کرنا ہوگا۔
- کھانے کو صرف پکائیں، یعنی اسے ابالیں یا یخنی کی شکل میں تیار کریں۔
- گوشت پکانے کے لیے صرف پانی اور قدرتی مصالحے استعمال کریں، جیسے الائچی، کالی یا سبز مرچ، دارچینی، لونگ وغیرہ۔
- ڈالڈے، مصنوعی مصالحوں اور کیمیکلز کا مکمل طور پر پرہیز کریں۔
- کولڈ ڈرنکس اور دیگر غیر فطری اشیاء کو اپنی خوراک سے نکال دیں۔