کیا یہ ملالہ کا اپنا موقف ہے؟
سید عبدالوہاب شاہ شیرازی
آج کل سوشل میڈیا پر یورپ میں مقیم پاکسانی لڑکی ملالہ یوسف زئی کا ایک بیان موضوع بحث بنا ہوا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی لوگ نکاح کیوں کرتے ہیں، کیا دستخط کرنا ضروری ہے؟ ویسے ہی پارٹنرشپ کی زندگی گزارنی چاہیے۔
میرے خیال میں یہ ملالہ کی ذاتی رائے نہیں ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ ملالہ کے ذہن میں خود سے یہ بات آئی اور اس نے یہ بیان دے دیا، ملالہ تو ایک مہرہ ہے، جسے استعمال کیا جاتا ہے۔ عالمی استعمار جس چالاکی اورجن حربوں سے دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلاتا ہے ہم ان کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ملالہ کا حالیہ بیان بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک کورونا ویکسن کے بارے سخت نفرت کا اظہار کرنے والے بھی آج کل ویکسین لگاتے وقت اور کچھ کریں نا کریں لیکن سیلفی ضرور لے کر فیس بک پر شیئر کرتے ہیں، کیونکہ عالمی استعمار نے چند مشہور شخصیات کے ذریعے سیلفی لینے کا ٹرینڈ شروع کیا تھا لہذا کئی لوگوں کو کرونا کا ڈر نہیں بلکہ وہ تو صرف سیلفی لگانے کی وجہ سے تڑپ رہے ہوتے ہیں کہ کب مجھے ویکسین لگے گی۔
ملالہ یوسف زئی کے حالیہ بیان کے پیچھے پوری ایک کہانی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں پچھلی کئی دہائیوں سے عالمی استعمار دنیا کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے ہوئے ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جبکہ یورپ امریکا کی آبادی میں بڑھنے کا تناسب خطرناک حد تک کم ہوگیا ہے۔ اس معاملے پر انہوں نے ہر طرح کی تحقیق کی کہ کیا وجہ ہے ہماری عورتیں بچہ جننے کے لیے تیار نہیں ہوتیں اور شادی سے پہلے ہی بیضہ نکلوا کر محفوظ کروالیتی ہیں، یعنی ایسا بھی نہیں کہ بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت بالکل ختم کرلیں بلکہ عارضی طور پر یہ صلاحیت ختم کرلیتی ہیں اور جب ضرورت ہوتی ہے بیضہ دوبارہ رکھوا کر صلاحیت بحال کردیتی ہیں۔ چنانچہ اس معاملے کو جاننے کے لیے ہزاروں عورتوں کے انٹریو کیے گئے اور ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنا بیضہ کیوں نکلوا دیا ہے آپ بچہ کیوں نہیں پیدا کرنا چاہتیں؟
اس سروے اور ان انٹرویوز کی روشنی میں جو بات سامنے آئی وہ یہ تھی کہ عورتوں کا خیال ہے ہمیں ساری زندگی رکھنے والا خاوند نہیں مل رہا جس دن ہمیں ایسا شوہر مل جائے گا جو ہمیں ساری زندگی اپنے ساتھ رکھے ہم اسی دن بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت بحال کرکے بچہ پیدا کرلیں گیں۔
یعنی یورپ میں نکاح کرکے ساری زندگی بیوی بنا کررکھنے کا مزاج ختم ہوچکا ہے یہی وجہ ہے کہ شادی کے بعد جلد ہی طلاق اور جدائی ہوجاتی ہے، ایسے میں اگر عورت کا کوئی بچہ بھی ہو تو ظاہر ہے اس بچے اور ماں کی ساری زندگی تباہ ہو کر رہ جاتی ہے، خاص طور پر ایسے معاشرے میں جہاں خاندان ، قبیلے نام کی کوئی چیز نہ ہو۔اسی لیے عورتیں بجائے نکاح کے صرف پارٹنر بننا کر رہنا چاہتی ہیں اور جب انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ اب یہ مرد پارٹنر نہیں بلکہ میرا خاوند ہے اور مجھے بیوی بنا کر میرا خیال رکھے گا تو میں بھی اس کی بیوی بن کر اس کو بچہ دوں گی۔
یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یورپ امریکا کاخاندانی اور آبادی کا نظام درھم برھم ہو کر رہ گیا، لہذا وہ اپنی ظالمانہ اور گھٹیا سوچ کی وجہ سے بجائے اس کے کہ اسے ٹھیک کریں وہ یہ چاہتے ہیں کہ جہاں یہ ٹھیک ہے وہاں بھی خراب ہو جائے۔ آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مغربی اقوام کی سوچ کتنی گھٹیا اور حاسدانہ ہے، ایسی سوچ انتہائی جاہل اور پسے ہوئے لوگوں کی ہوتی ہے جو یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم نہیں ٹھیک تو دوسرے کیوں ٹھیک ہیں۔
اس ساری تفصیل کے تناظر میں دیکھا جائے تو ملالہ کا بیان بھی وہی مغربی نظام یہاں مشرقی معاشرے میں لانے کی ایک کوشش ہے، ظاہر ہے اس بیان سے ہزاروں لڑکیاں متاثر ہوں گی اور وہ بھی ایسا ہی سوچنا شروع کردیں گی، اور بجائے بیوی بننے کے صرف پارٹنر بننے کی خواہش کریں گی۔
جیسے ہم نے کرونا ویکسین کی پہلی سیلفی پر بہت تنقید کی تھی جبکہ چند ماہ بعد اب تنقید کرنے بھی سیلفی کے لیے تڑپ رہے ہیں، ایسے ہی چند ماہ بعد یا چند سال بعد ملالہ کے ذریعے اعلان کردہ یہ سوچ بھی ہمارے معاشرے میں اتنی عام ہو جائے گی کہ یہ کوئی اتنا بڑا معاملہ نہیں لگےگا۔باقی مجھے نہیں لگتا کہ ملالہ کسی پارٹنر کی تلاش میں ہو، اس نے یہ بیان دے کر اپنی تنخواہ لے لی ہوگی، اور کسی ہم پلہ رشتے کی تلاش میں ہوگی۔