کیا طالبان بدل چکے ہیں

کیا طالبان بدل چکے ہیں۔

سید عبدالوہاب شاہ شیرازی

ایک ٹی وی چینل پر سلیم صافی نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا طالبان بدل چکے ہیں ؟  بہت آگ بگولا ہو کر کہا کہ نہیں طالبان نہیں بدلے۔ سلیم صافی کا کہنا تھا جوحکومتی  وزراء  یہ بات کررہے ہیں دو چار دن بعد ان کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوجائے گا اور وہ ایسے بیانات دینا چھوڑ دیں گے۔ اس پروگرام میں سلیم صافی افغان طالبان کی کامیابی پر سخت سیخ پا نظر آئے اور پیشنگوئیاں کرتے رہے کہ اب پاکستان کے برے حالات اور برے دن شروع ہونے والے ہیں۔ انہوں نے اپنی کئی سال پرانی شکایت بھی کی کہ میں جب طالبان کا انٹرویو کرنے گیا تھا تو انہوں نے مجھ سے کیمرہ چھین لیا تھا۔ اسی طرح ایک گھسا پٹا یہ اعتراض بھی کیا کہ جن طالبان نے میرا کیمرا چھینا تھا آج وہی طالبان کیمرے کے سامنے بیٹھ کر بڑے مزے سے انٹرویو بھی دیتے ہیں۔

نکتہ
نکتہ سید عبدالوہاب شیرازی

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ طالبان بدل چکے ہیں یا نہیں تو پہلے ہمیں اس سوال کی نوعیت کو دیکھنا ہوگا اور اس خاص نکتے کا تعین کرنا ہوگا کہ کس اعتبار سے طالبان بدل گئے ہیں یا نہیں بدلے۔

جہاں تک ان کے نظریات اور عقائد کا تعلق ہے تو بلاشبہ طالبان اس لحاظ سے نہیں بدلے۔ البتہ اور بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جن میں طالبان بہت زیادہ بدل چکے ہیں۔ مثلا

1۔آج سے پچیس سال پہلے طالبان نے افغانستان کو محض اپنے زور بازو اور طاقت کے بل بوتے پر فتح کیا تھا۔ابتدائی سالوں میں انہیں کوئی نہیں جانتا تھا اس لیے عوامی حمایت بھی حاصل نہیں تھی۔ لیکن حکومت بنانے کے بعد ان کے انصاف پسندانہ اقدامات کی وجہ سے انہیں بہت جلد عوامی حمایت حاصل ہو چکی تھی، البتہ ہر کسی کے کچھ نہ کچھ مخالفین تو ہر سوسائٹی میں موجود ہوتے ہیں۔

2۔پچیس سال پہلے طالبان انتہائی سادہ اور بھولے بھالے تھے۔نہ وہ مذاکرات اور بات چیت کے داو پیج جانتے تھے اور نہ ہی اس کی خامیاں اور خوبیاں جانتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے سابقہ دور حکومت میں انہیں کئی بار دھوکہ دے کر بھاری جانی نقصان پہنچایا گیا۔

3۔ پچیس سال پہلے کے طالبان افغانستان سے باہر کی دنیا سے اتنے زیادہ واقف نہیں تھے۔ عالمی برادری کیا ہے اور ان سے تعلق رکھنا کتنا ضروری اور کتنا اہم ہے وہ اس چیز سے ناواقف تھے۔آج کی دنیا میں پڑوسی ممالک کی اپنے لیے کتنی اہمیت ہے وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے۔

4۔وہ دنیا کی سیاست اور اس کے داو پیج سے بھی واقف نہیں تھے۔ دنیا کی سیاست کیا ہے اور کیسے کھیلی جاتی ہے، وہ اس فن سے بالکل عاری تھی۔ وہ سیدھی  اور دوٹاک بات کرتے تھے، اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا ان کے مزاج میں بالکل نہیں تھا۔

لیکن آج کے طالبان ان تمام چیزوں میں بدل چکے ہیں، انہوں نے بیس سال تن تنہاء چالیس ممالک کی فوجوں اور دنیا کے تمام ممالک کے میڈیا سے جنگ کی، جد جہد کی، دنیا کی سپر پاور طاقتوں امریکا، روس، چین کے ساتھ بیٹھ کر ٹیبل ٹاک کی، مذاکرات کیے اور اس کے نتیجے میں اپنے مطالبات منوا کر معاہدے کیے۔ لہذا اب وہ پہلے والے سادہ اور بھولے بھالے طالبان نہیں رہے۔ اب دنیا کا میڈیا اور حکومتیں ان سے بات کرنا اپنی سعادت سمجھتی ہیں۔امریکی صدر جو کسی بھی ملک کے سربراہ سے ملاقات کے لیے پانچ دس منٹ سے زیادہ وقت نہیں دیتا طالبان کے سفیروں سے پینتیس منٹ تک ملاقات کرتا ہے۔

آج کے طالبان طاقت کے استعمال  کے ساتھ ساتھ بات چیت کرنے اور ٹیبل ٹاک کرنے کے فن سے بھی واقف ہو چکے ہیں۔ وہ عالمی سیاسی منظرنامے سے بھی واقف ہیں اور کس وقت کیا کرنا ہے یہ بھی جانتے ہیں۔ اپنا موقف کیسے بیان کرنا ہے اور دوسرے کے جواب میں کتنا بولنا ہے اور کتنا خاموش رہنا ہے یہ فن بھی انہوں نے سیکھ لیا ہے۔

انہوں نے بیس سالہ جدجہد کے نتیجے میں سب سے بڑا سبق یہ سیکھا ہے کہ اگر ہم نے اپنی مضبوط حکومت بنانی ہے تو پھر ہمیں اپنے ملک سے جڑے پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنا ہوں گے، اور انہیں مطمئن کرنا ہوگا کہ افغانستان کی سرزمین کسی پڑوسی ملک کے مفادات کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے انٹرویوز میں باربار یہی بات دہرا رہے ہیں۔اور حکومت بننے سے پہلے ہی تمام پڑوستی ممالک  خصوصا ایران ، روس میں ان کے وفود یہی یقین دہانی کرانے کے لیے دورے کررہے ہیں۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ طالبان بالکل اسی حکمت عملی پر چل رہے ہیں جو حکمت عملی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچنے کے فورا بعد ریاست مدینہ کے قیام کے وقت اختیار کی تھی۔ یعنی زیادہ سے زیادہ فریقین کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے کرنا، اور اپنی حدود میں دشمن کو گھیرے میں لے کر تنہاء کرنا۔دشمن پر چاروں طرف سے اتنا دباو بڑھانا کہ جنگ کی نوبت ہی نہ آئے اور بغیر جنگ کے فتح حاصل ہو جائے۔

ہمارے میڈیا پر بیٹھے جمعہ جمعہ آٹھ دن کے ماہر افغان امور تجزیہ کار حوصلہ رکھیں، اور حالات کا مشاہدہ کریں، اور یہ یقین رکھیں کہ واقعی طالبان اب بدل چکے ہیں اور انہیں اب اس طرح بہکایا یا دھوکہ نہیں دیا جاسکتا جیسے پہلے مختلف حکومتیں دے دیا کرتی تھیں، اور اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرلیا کرتیں تھیں۔

آج کے طالبان محض جنگجو نہیں بلکہ اپنی بیس سالہ عملی جدجہد کے بعد واقعتا ایک ملک کی نمائندہ جماعت کی حیثیت منوا چکے  ہیں، اور اب باقاعدہ ایک ایسی حکومت قائم کرنے کی پوزیشن پر پہنچ چکے ہیں جسے دنیا کے اکثر ممالک بہت جلد تسلیم کرلیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا سمیت روس، چائنہ وغیرہ عالمی طاقتوں نے طالبان کو افغانستان کی عوامی حمایت رکھنے والی طاقت تسلیم کرلیا ہے۔

Leave a Reply