علم طب کے فروغ میں جہاں صاحبان علم وفضل اطباء کا کردار یاد گار اور ناقابل فراموش ہے، وہیں جڑی بوٹیوں کی تلاش اور خصوصیات کے حوالے سے’’عطائیوں‘‘ کی عرق ریزی سے بھی انکار ممکن نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہی ’’عطائیوں‘‘ نے اپنی زندگیاں جڑی بوٹیوں کی پہچان، ان کے خواص اور استعمال کے بارے میں جانتے جانتے جنگلوں، ویرانوں، میدانوں اور پہاڑوں میں تیاگ دیں۔
30 سال قبل جڑی بوٹیوں کے ایک عمر رسیدہ ’’عطائی‘‘ سے ملاقات میں نباتات کے مفید اور مضر اثرات سے واقفیت کے بارے میں پوچھا تو اس نے دھیرے سے کہا کہ ہمیں یہ جڑی بوٹیاں خود بول کر اپنے مفید اور مضر اثرات بتاتی ہیں۔اس وقت اس بابے کی یہ بات ایک ’’دیوانے کے بڑ‘‘ سے زیادہ کچھ نہ لگی لیکن دوران مطب ایک لاعلاج ،انتہائی نازک اور قریب المرگ مریض کا علاج کرتے ہوئے جب ہم آٹھوں پہر اسی مریض کے مرض کے بارے ہی میں سوچا کرتے تھے تو دوران علاج تین بار مختلف ادویات خواب میں منکشف ہوئیں جوکہ 100 فیصد موثر اور مفید ثابت ہوئیں۔تب ہمیں اس سنیاسی بابے کی باتوں میں چھپی سچائی کا یقین ہوا۔
ہمارے ہاں فی زمانہ لفظ’’اتائی‘‘ بڑی کثرت سے بولا جانے لگا ہے۔ بعض لوگ ’’اتائی‘‘ اور’’ عطائی ‘‘کے مفہوم و معانی جانے بغیر ہی اچھے خاصے علم و فضل سے مالا مال فرد پر بھی’’اتائی‘‘ ہونے کا بہتان لگادیتے ہیں حالانکہ ’’اتائی‘‘ اور’’ عطائی‘‘ کے معانی و مفہوم پر غور کیا جائے تو لاعلمی اور بے دھیانی کے کئی پردے چاک ہوجاتے ہیں۔ ’اتائی‘ کے لغوی معانی ایک ایسے اناڑی کے ہیں جو کسی بھی شعبے یا پیشے کی فنی تعلیم و تربیت حاصل کیے بغیر اس کی پریکٹس کرتا ہو۔
ہمارے ہاں عجیب و غریب رویے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ایک خاص مائینڈ سیٹ کے تحت طب اور طبیب کے بغض میںلتھڑی ہوئی سوچ کے حاملین صرف شعبہ طب سے منسلک افراد کو’’ اتائی‘‘قراردیتے ہیں۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ شعبہ طب کے علاوہ دیگرتمام شعبہ ہائے زندگی میں گھسی کالی بھیڑوں کے لیے بھی’’اتائی‘‘ کا لفظ بولا جائے۔بعض لوگ نہ صرف جعلی حکیموں کو ’اتائی‘ کہتے ہیں بلکہ بعض اوقات مستند، رجسٹرڈ اور محکمہ صحت کے تمام قوائد و ضوابط پر عمل پیرا، پڑھے لکھے ہزاروں اطباء کو بھی ’’اتائی‘‘ اور ’’نیم حکیم‘‘ کہہ کر پیغمبرانہ پیشے اور الہامی علم کی توہین کرتے ہیں۔
اتائی سے ملتے جلتے اور مشابہہ لفظ ’’عطائی‘‘ کا مفہوم ’عطا کیا گیا‘، ’دیا ہوا‘، ’بخشش‘ اور ’سخاوت‘ ہے۔ لغات کے مطابق’’عطائی ‘‘ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جس نے کسی استاد کے پاس بیٹھ کر کسی ہنر، پیشے یا فن سیکھنے کی عملی کوشش متواتر، ایک مخصوص مدت تک کی ہو ، اور اس کے استاد نے اسکی فنی مہارت کو جانچنے وپرکھنے کے بعد اسے اس فن ،ہنر یا پیشے کی پریکٹس کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہو۔
تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو شعبہ طب کے ساتھ ساتھ ا دب و صحافت،شاعری، فن موسیقی،فن مصوری،فن تعمیر اور زندگی سے وابستہ تما م علوم وفنون کی ترویج و فروغ کا سبب عطائیت ہی ہے۔ ماضی کے نامور اکابرین واسلاف کی علمی، و فنی تمام تر صلاحیتوں کا دارو مدار اور انحصار اسی’’ عطائیت ‘‘ کے بل بوتے پر تھا۔ ابتدائے انسان سے لے کر مہذب اور متمدن زندگی سے پہلے تمام علوم و فنون ایک سے دوسرے فرد میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے ہیں۔ بڑی بڑی درس گاہیں اور علمی اداروںکا قیام تو بہت بعد میں وجود میں آیا۔ اگر ’’عطائیت ‘‘ کو اتنا ہی انسان دشمن مان لیا جائے جتنا کہ آج کل اسے ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایاجارہاہے تو پھر فی زمانہ رائج الوقت تمام علوم و فنون کی اہمیت، حقانیت اور صداقت سے انکار کرتے ہوئے انھیں متروک قرار دینا چاہیے۔
کورونا وائرس نے دنیا بھر میں انسانوں کی نہ صرف صحت کے معاملات کو ہلا کے رکھ دیا ہے بلکہ طبی، معاشی،جدید آلاتی، سائنسی،فلاحی، سماجی، نفسیاتی اور ماحولیاتی لحاظ سے بھی نئی جہتوں پر سوچنے کا موقع فراہم کیا ہے۔اسے اتفاق ہی سمجھنا چاہیے کہ گزشتہ چند دہائیوں سے پوری دنیا اپنی جدید ترقی کے زعم میں فطری طرز علاج اور متبادل ادویات کو پس پشت ڈالنے کی روش پر عمل پیرا تھی۔کورونا کے حملے نے جدید اور ترقی یافتہ اقوام کو فطرت اور فطری طرز علاج سے دوبارہ متعارف کروادیا ہے کیونکہ کورونا کے اثرات سے مبینہ بچاؤ کے حوالے سے جدید میڈیکل سائنس کے پاس سوائے وینٹیلیٹر اور آکسیجن کے کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں۔ اس کے بر عکس طب قدیم اور قدرتی نباتات کے ماہرین کے مطابق جڑی بوٹیوں میں کورونا وائرس کی شدت کم کرنے اور اس کے مضر اثرات زائل کرنے کی صلاحیت اتم درجہ پائی جاتی ہے۔
اس حوالے سے دنیا بھر کے نیچرو پیتھ اور نباتات کے ماہرین وقتاََ فوقتاََ اپنی ماہرانہ آراء اظہار کرتے رہے ہیں لیکن اس نازک اور مشکل صورتحال میں ہمیں’’اتائیت‘‘ کا سامنا بھی رہا ہے۔ بہت سے ایسے ٹوٹکے ہیں جن کی طبی حیثیت کسی درجے میں بھی نہیں مانی جا سکتی جیسا کہ کہا گیا ’’پیاز کھانے سے کورونا سے نجات ملتی ہے‘‘لیکن طبی ماہرین نے اس مفروضے کو رد کردیا۔اس طرح کے لاتعداد ٹوٹکے نان پروفیشنلز کی جانب سے منظر عام پر آتے رہے اور سمجھدار لوگ ماہرین سے ان کے بارے میں استفسار کرتے رہے۔دریں حالات بہت سی مفید قدرتی گھریلو تراکیب بھی وائرل ہوئیں اور عوا م الناس نے ان سے خاطر خواہ استفادہ بھی کیا۔کئی نام نہاد ’’ماہرین‘‘ کی جانب سے کورونا کاعلاج دریافت کرنے کے دعوے بھی سامنے آئے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ان ’’ماہرین‘‘ کی کافی جگ ہنسائی بھی ہوئی۔
کورونا وائرس کے خاتمے بارے کوئی حتمی رائے نہیں جا سکتی اور نہ ہی اس وباء کے ختم ہونے کی مدت کا تعین کیا جانا ممکن ہے۔آج کل ایک قدرتی نبات ’’سنا مکی‘‘ کے قہوے کے سوشل میڈیا پر بہت چرچے ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ کورونا میں مبتلا مریض سنا مکی کا قہوہ پینے سے چند گھنٹوں میں صحت یاب ہوجاتا ہے۔ طب کے طالب علم کے طور پر چند وضاحتیں ضروری ہیں تاکہ عوام الناس ’’بھیڑ چال‘‘ سے بچ کر اپنی زندگی، صحت اور وقت کے ضیاع سے بچیں۔
سنا مکی کو طبی ماہرین کے ہاں صدیوں سے بطور مسہل یعنی اجابت کی بہ سہولت فراغت کے لیے استعمال کروایا جاتا رہا ہے۔ سنا مکی بدن انسانی سے بڑھے ہوئے اخلاط بلغم، صفراء اور سودا کو چھانٹ کر بول وبراز کے راستے خارج کردیتی ہے۔ یہ انتڑیوں میں رکاوٹ بننے والی آلائشوں سے بھی انہیں صاف کرتی ہے۔ زہریلے اور فاسد مادوں کو بدن سے نکا ل کر خون کو بھی صاف بناتی ہے۔سنا مکی پیٹ کے کیڑوں کو بھی مار کر نکال دیتی ہے۔یہ غلبہ بلغم ،سودا اور صفراء کے نتیجے میں ظاہر ہونے والی علامات میں بھی افاقہ کا سبب بنتی ہے۔پھیپھڑوں میں جمی بلغم کو خارج کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے۔ مسہل ہونے کے باعث سنا مکی استعمال کرنے سے قبض کے مریضوں پر اچھے اثرات مرتب کرتی ہے۔ طبیعت ہلکی،چست اور محرک ہوجاتی ہے۔
فوائد کے ساتھ ساتھ سنا مکی پیٹ میں مروڑ، درد، متلی اور قے کی کیفیت بھی پیدا کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔طبی ماہرین نے اس کی خوراک عمر کی مطابق ایک سے پانچ گرام تک متعین کی ہے۔یاد رہے کہ مقررہ مقدار سے زیادہ استعمال کرنے سے مذکورہ منفی اثرات ظاہر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔سنا مکی کے بہترین استعمال کے حوالے سے ماہرین نے اس کا خیساندہ زیادہ موثر قرار دیا ہے جس کی ترکیب یہ ہے:
سنا مکی ایک گرام، ادرک کی قاشیں نصف گرام اور گلاب کی چند پتیاں ایک کپ ابلتے ہوئے گرم پانی میں ڈال کر کپ کو دس سے پندرہ منٹ تک ڈھانپ کر رکھ چھوڑیں۔وقت مقررہ پورا ہونے کے بعد پانی کو صاف کر کے خالص شہد ایک چمچ ملا کر پی لیا جائے تو یہ فوائد کثیرہ کا سبب ہے۔ اسی طرح سنا مکی ایک گرام، منقیٰ 7 عدد اور گلاب کی چند پتیاں ایک کپ پانی میں تھوڑا سا پکا کر بطور قہوہ پیا جائے تو بہترین دوا ثابت ہوتی ہے۔
سنا مکی، سونٹھ اور دیسی شکر ہم وزن ملا کر سفوف بنا لیں اور رات سوتے وقت آدھا چمچ سے ایک چمچ تک نیم گرم پانی سے استعمال کریں۔ بدن کے بادی سے جڑی تمام امراض کا خاتمہ ہوجائے گا۔سنا مکی کو تنہا استعمال کرنے سے طبی ماہرین نے منع کیا ہے کیونکہ صرف سنا مکی استعمال کرنے سے پیٹ میں مروڑ،درد،متلی اور قے آنے کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح مقررہ کردہ مقدار خوراک سے زیادہ استعمال کرنے اسہال آنے لگتے ہیں، بار بار پاخانہ آنے سے انتڑیاں متاثر بھی ہوتی ہیں اور بدن سے پانی کی مقدار کے کم ہونے کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ لہٰذا زیادہ بہتر اور مناسب طرز عمل یہی ہے کہ کسی ماہر معالج سے مشاورت کرنے کے بعد اس کی مقدار خوراک اور طریقہ اپنا یا جائے۔
سوشل میڈیا پر دکھائی دینے والی اکثر معلومات بے سرو پا ہی ہوتی ہیں۔صحت کے حوالے سے محتاط رہنا بڑا ضروری ہے، ہلکی سی کوتاہی اور لا پرواہی کسی بڑے سانحہ کا سبب بن سکتی ہے۔جس طرح ہم لباس، جوتے اور خوبصورتی کے دوسرے لوازامت خریدتے وقت برانڈ اور کوالٹی پر سمجھوتہ نہیں کرتے بالکل اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر صحت اور تن درستی سے جڑے عوامل پر کبھی کمپرومائز نہ کریں۔ جس بدن کی ظاہری کشش اور دل کشی کے لیے ہم اتنی محنت اور پیسہ خرچ کرتے ہیں لیکن کس قدر نادانی ہے کہ اسی بدن کی تن درستی کے لیے ہم سنی سنائے اور ’’مفت‘‘ کے ٹوٹکوں پر انحصار ہیں۔
زیب وزینت کے اخراج سے نصف بھی اپنی صحت پر خرچ کر لیا جائے تو انسان کی زندگی سنور جائے۔
niazdayal@gmail.com