کیا دوسری شادی محض مباح کام ہے ۔۔۔؟؟؟
بعض حضرات کہتے ہیں کہ دوسری شادی محض ایک مباح کام ہے اور اس عمل کا اقدام کرکے اہل علم اور دیگر نیک لوگ قوم کی طرف سے عیش پرستی شہوت پرستی کے جن طعنوں اور جس قیل وقال کا شکار ہو کر بدنام ہوتے ہیں اس بدنامی سے بچنا فرض ہے اور دیندار لوگ پہلے ہی بہت بدنام ہیں، لہٰذا ایک ایسے عمل جس کی خود ان کی ذات اور معاشرے کو کوئی ضرورت بھی نہیں اور یہ عمل فرض وواجب بھی نہیں تو اس عمل کا اقدام کرکے اپنی بدنامی میں مزید اضافے کی چنداں ضرورت نہیں۔ خلاصہ یہ کہ دوسری شادی حلال ہے اور بدنامی سے بچنا فرض ۔۔۔۔فرض کی اہمیت ایک مباح کام سے زیادہ ہوتی ہے۔
آیت میں اس نظریے پر یوں رد ہے کہ اگر اپنی ذات ، قوم یا معاشرے کو حلال کردہ ایک اقدام کی عملی ضرورت نہ بھی ہو تو بھی ایک کام جسے اللہ تعالیٰ نے واضح لفظوں میں حلال قرار دے دیا ہو ، اس سے اجتناب کرکے خود کو بدنامی سے بچانا اتنا اہم نہیں بلکہ اس سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ اس کام کا عملی اقدام کرکے لوگوں کے ایسے بگڑے ہوئے مزاج کی اصلاح کی کوشش کی جائے ، جس بگڑے ہوئے مزاج کے باعث وہ خدا کی طرف سے واضح لفظوں میں حلال کردہ ایک عمل کو بدنامی کا سبب اور باعث عار سمجھ رہے ہیں۔
(ایک سے زائد شادیوں کی ضرورت کیوں؟،مولانا طارق مسعود صاحب۔)
یہ بھی پڑھیں: 25 دوسری شادی سے پہلے ذہن سازی کریں 24 دوسری شادی سے پہلی بیوی کا گھر اجڑتا ہے؟ 23 چارشادیوں میں مساوات
عجیب بات:
عربوں اور افغانوں کے وہ قبائل اور وہ ممالک جہاں تعددازدواج کا رواج ہے ہمارے معاشرے کے برعکس کوئی مرد جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہترین روزگار کا حامل ہو اپنی پھوپھی زاد ، چچازاد یا ماموزاد بہنوں سے نکاح کی کوشش کرت ہے اور یوں واہاں تعلیم سے عاری اور غریب خواتین کے والدین بھی اپنے خاندان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار مردوں کو چھوڑ کر خاندان سے باہر رشتے تلاش کرنے اور خاک چھاننے پر مجبور نہیں ہوتے۔
ہمارے معاشرے میں عورت پر ظلم ہوتا ہے ، افغانوں کے ہاں ہمارے بالکل برعکس مرد کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لڑکی کے والدین اپنے داماد کی اچھی خاصی کھال کھینچ لیتے ہیں ، مہر کی رقم کے علاوہ لڑکی کا باپ داماد سے اپنی جیب بھرنے کے لئے بھی اچھی خاصی رقم وصول کرتا ہے اور کئی کئی لاکھ روپے وصول کرکے اپنی بچی کے نکاح پر آمادہ ہوتا ہے، یہ رسم بلاشبہ ناجائز اور حرام ہے اور شریعت اس کی حوصلہ افزائی ہر گز نہیں کرتی مگر ان باتوں کے باوجود اس سے اتنا تو ثابت ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں نکاح کے حق میں عورت کی کیا قدروقیمت ہے۔
ہمارے معاشرے کی بے حسی دیکھیں کہ لڑکا شادی کی پہلی رات بھی عورت کے بستر پر گزارتا ہے اور بالکل شرم محسوس نہیں کرتا، ساری زندگی عورت کے برتن اور فرنیچر استعمال کرتا ہے۔