کیا حفظ بھول جانا واقعی بہت بڑا گناہ ہے

کیا حفظ قرآن بھولنا واقعی گناہ ہے

کیا حفظ بھول جانا واقعی بہت بڑا گناہ ہے

کیا حفظ بھول جانا واقعی بہت بڑا گناہ ہے؟ حفظ قرآن بھولنے کے ڈر سے حفظ نہ کرنا

سید عبدالوہاب شاہ

نکتہ
نکتہ سید عبدالوہاب شیرازی

کچھ دن پہلے سوشل میڈیا کے کسی پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں کہا گیا تھا کہ اگر آپ کا بچہ ذہین اور قابل ہے تو اسے حفظ قرآن شروع کروائیں اور اگر وہ ذہین اور قابل نہیں ہے تو اسے ہرگز ہرگز حفظ قرآن شروع نہ کروائیں ورنہ سخت گناہ گار ہوں گے، میرے خیال میں یہ سوچ باالکل غلط ہے بلکہ اسے شیطانی حیلہ بازی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔۔ حفظ قرآن کو بھولنے پر بطور وعید ایک حدیث پیش کی جاتی ہے۔ اس حدیث پر بعد میں بات کریں گے پہلے یہ بات سمجھ لیں کہ قرآن حکیم کو سیکھنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے، قرآن حکیم کے سیکھنے میں دو چیزیں شامل ہیں ایک اسے درست طریقے سے پڑھنا سیکھنا اور دوسری اس کی تعلیمات یعنی ترجمہ تفسیر سیکھنا ۔  کیونکہ قرآن ہدایت کی کتاب ہے اور ہدایت سمجھ کر پڑھنے سے ملتی ہے۔

قرآن مجید کے پانچ حقوق ہیں ایک اس پر ایمان لانا، دوسرا اسے پڑھنا جس میں درست پڑھنا بھی شامل ہے، تیسرا  اسے سمجھنا، چوتھا اس پر عمل کرنا، اور پانچواں اس کی تبلیغ کرنا۔

قرآن حکیم کو درست پڑھنا واجب ہے، اسی لیے علماء نے علم تجوید کو واجب قرار دیا ہے۔ اور ہم سب کا یہ مشاہدہ ہے کہ قرآن مجید کے درست تلفظ صرف ان لوگوں کے ہوتے ہیں جو پورا قرآن یا چند سپارے پانچ دس سپارے حفظ کر لیتے ہیں۔ بغیر حفظ کے قرآن کریم کے تلفظ باالکل ٹھیک نہیں ہوتے، آپ نے بھی کئی ایسے علماء کو دیکھا ہوگا جو علماء ہیں اور حافظ نہیں ہیں ان کے تلفظ درست نہیں ہیں، اس سے معلوم ہوا قرآن کی درست قرات کے لیے مکمل یا آدھا قرآن حفظ کرنا بہت ضروری ہے۔یہی وجہ ہے کہ کروڑوں کی تعداد میں مسلمان موجود ہیں اور انہوں نے ناظرہ قرآن سیکھا ہوا ہے لیکن درست تلفظ کے ساتھ وہ قرآن نہیں پڑھ سکتے ، درست تلفظ کے ساتھ صرف وہی لوگ قرآن پڑھتے ہیں جنہوں نے حفظ کی کلاس میں ایک آدھ سال لگایا ہوتا ہے، اگرچہ انہیں وہ سپارے بھول جائیں جو انہوں نے حفظ کیے تھے۔

اب یہ رویہ اور سوچ اختیار کرنا کہ فلاں بچہ چونکہ ذہین نہیں، اسے اگر حفظ کی کلاس میں بٹھایا اور قرآن حفظ کرایا تو بعد میں یہ بھول جائے گا لہذا اسے حفظ کی کلاس میں بٹھانا ہی نہیں چاہیے انتہائی غلط سوچ ہے۔ اس طرح ہم اس بچے کو ہمیشہ کے لیے درست قرآن پڑھنے اور سیکھنے سے محروم کر دیتے ہیں۔

ایک خاتون نے کسی دارالافتاء سے سوال پوچھا کہ مجھے قرآن حفظ کرنے کا بہت شوق ہے لیکن جب میں یہ سوچتی ہوں کہ قرآن حکیم حفظ کے بعد بھول جانا بہت بڑا گناہ ہے تو اپنا ارادہ ترک کردیتی ہوں۔ اس سے معلوم ہوا بے شمار لوگ صرف اس لیے نہ خود قرآن حفظ کی طرف آتے ہیں اور نہ اپنے بچوں کو لاتے ہیں کہ حفظ کے بعد بھول جانا بہت بڑا گنا ہے۔

کیا حفظ بھول جانا واقعی بہت بڑا گناہ ہے؟

اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ کیا واقعی حفظ بھول جانا بہت بڑا گناہ ہے؟ اور بیان کی جانے والی حدیث کیا حفظ کے بارے ہے یا نہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حوالے سے جو حدیث بیان کی جاتی ہے اس میں کہیں بھی حفظ کا لفظ نہیں ہے، بلکہ مطلقا قرآن بھولنے کا ذکر ہے، یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کے مطلب میں حنفی، شافعی اور دیگر علماء میں اختلاف ہے اور کئی مطالب مراد لیے گئے ہیں۔

حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

عن سعد بن عبادة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم :  ما من امرئ يقرأ القرآن ثم ينساه إلا لقي الله يوم القيامة أجذم  . رواه أبو داود والدارمي۔

ترجمہ : حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  جو شخص قرآنِ  کریم پڑھ کر بھول جائے تو  وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا ہاتھ کٹا ہوا ہو گا۔

اس کی تشریح میں علماء لکھتے ہیں:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما من امرئ يقرأ القرآن ثم ينساه ، أي بالنظر عندنا، وبالغيب عند الشافعي، أو المعنى ثم يترك قراءته نسي أو ما نسي (إلا لقي الله يوم القيامة أجذم) ، أي: ساقط الأسنان، أو على هيئة المجذوم، أو ليست له يد،

والنسيان عندنا أن لايقدر أن يقرأ بالنظر، كذا في شرح شرعة الإسلام

علامہ نواب قطب الدین خان دہلوی ؒ تحریر فرماتے ہیں:

“حنفیہ کے  نزدیک  بھول جانے سے مراد یہ ہے کہ دیکھ کر بھی نہ پڑھ سکے، جب کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے قرآن حفظ کیا، پھر اسے بھول گیا کہ حفظ نہ پڑھ سکے یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پڑھنا چھوڑ دے خواہ بھولے یا نہ بھولے۔

حضرت مولانا شاہ محمد اسحق فرمایا کرتے تھے کہ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ استعداد والے کا بھولنا تو یہ ہے کہ یاد کیے ہوئے کو بغیر دیکھے نہ پڑھ سکے اور غیر استعداد والے کا بھولنا یہ ہے کہ دیکھ کر بھی نہ پڑھ سکے۔

ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ جو شخص قرآن حفظ کرے اور پھر بھول جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا:
“اس کا حکم یہ ہے کہ قرآن کریم یاد کرنے کی کوشش کرے، اور اس کیلیے خوب محنت کرے، اگر بندہ سچے دل سے محنت کرے گا تو اللہ اسے کامیابی عطا فرمائے گا۔ اس پر بھول جانے کی وجہ سے کچھ نہیں ہے، نیز اس بارے میں جو حدیث ذکر کی جاتی ہے وہ ضعیف ہے، وعید اس شخص کیلیے ہے جو اس پر عمل کرنا چھوڑ دے، قرآن کریم سے منہ موڑ لے اور قرآن کریم ترک کر دے۔ لیکن اگر کوئی شخص قرآن یاد کرے اور پھر سارا بھول جائے یا کچھ حصہ بھول جائے تو اس پر کچھ نہیں ہے، اس کی ذمہ داری اتنی بنتی ہے کہ وہ اسے دوبارہ یاد کرنے کی پوری کوشش کرے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اور احناف کے نزدیک اس سے بھولنے سے مراد یہ ہے کہ باالکل قرآن بھول جائے یعنی اسے دیکھ کر بھی پڑھنا نہ آئے۔ شوافع کے علاوہ باقی ائمہ اور علماء کے نزدیک بھولنے سے مرادباالکل ترک کرنا یا عمل نہ کرنا ہے،  اور یہ معنی اس لیےبھی زیادہ درست  ہے کہ دینی وعیدیں، یا خوشخبریاں عمل کرنے اور عمل نہ کرنے پر ہی ہوتی ہیں۔حفظ کا تعلق انسانی حافظے اور ذہنی قابلیت کے ساتھ ہے اور سارے انسانوں کی ذہنی صلاحیتیں ایک جیسی نہیں ہیں لہذا ایک آدمی کا حافظہ زیادہ اچھا ہے اسے قرآن یاد رہا اور دوسرے کا حافظہ ہی پیدائشی کمزور ہے اور وہ حفظ کرکے بھول گیا تو اس میں اس کا اختیار ہی نہیں ہے ، تو ایسی چیز جو انسان کے اختیار میں ہی نہیں  اس پر اتنی سخت وعید کیسے لگائی جاسکتی ہے۔ البتہ عمل کا اختیار سب کے لیے اللہ نے برابر رکھا ہے۔

اس لیے ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ قرآن کو درست پڑھنا واجب ہے اور قرآن کے الفاظ کی درستگی پورا قرآن یا چندسپارے حفظ کرنے یا حفظ کی کلاس میں ایک آدھ سال لگائے بغیر نہیں ہو سکتی۔ لہذا ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جہاں اپنے بچوں کو دس پندرہ سال سکول پڑھاتے ہیں وہیں وہ ناظرہ کے بعد اس نیت سے کہ قرآن کے تلفظ درست ہوجائیں اپنے بچوں کو کم از کم ایک سال تک حفظ کی کلاس میں بٹھائیں، اگر بچے کو شوق ہوا، قابلیت ہوئی تو پورا قرآن بھی حفظ کر لے گا ورنہ ایک سال میں چار پانچ سپارے تو ضرور حفظ کر لے گا جس کا پھل یہ ملے گا کہ اسے پورا قرآن درست تلفظ کے ساتھ پڑھنا آجائے گا۔

Leave a Reply