کلیکرز ٹک ٹک
Clackers
(سید عبدالوہاب شاہ)
کلیکرز ٹک ٹک پہلی بار 1968 میں ایک امریکی کمپنی نے بنانا شروع کیے اور ایک سال بعد یہ پورے امریکا میں وبا کی طرح پھیل گئے۔
چونکہ یورپ اور امریکا میں قوانین سخت اور ان پر عملدرآمد بھی کروایا جاتا ہے اس لیے کوئی بھی نئی ایجاد ہونے والی چیز کی پہلے متعلقہ اداروں سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ اس لیے اسے بنانے والی کمپنی نے حکومت سے انہیں بیچنے کی اجازت مانگی، متعلقہ اداروں نے ان کلیکرز کا باریک بینی سے جائزہ لیا، ان کی رسی ان کا سائز ان کا استعمال اور ان کی مضبطوطی سمیت تمام پہلووں کا جائزہ لینے کے بعد ان کے فروخت کی اجازت دے دی۔
اس وقت امریکا میں اس کے مختلف نام تھے مثلا:
Black Eyes
ناک کاٹنے والا بلیڈ(Nose Blade )
Nockers
Click Clickers
ہڈی توڑ (Broken Bones)
برکن بونز کا معنی ہے ہڈی توڑنے والا کیونکہ ایسے واقعات کثرت سے ہو رہے تھے اور بچوں کی ہڈیاں اس سے ٹوٹ رہی تھیں۔
کلیکرز نا صرف بچوں کو زخمی کر رہے تھے بلکہ آہستہ آہستہ بچوں نے اسے لڑائیوں میں ایک دوسرے کو مارنے کے لیے بھی استعمال کرنا شروع کر دیا، گویا بچوں کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار آگیا تھا جسے بچے لڑائی میں استعمال کرتےتھے۔
ستر کی دہائی میں پورا امریکا اور یورپ ان کلیکرز کی لپیٹ میں آچکا تھا اور ڈپریشن کا شکار یا سکون کے عادی لوگوں کا جینا حرام ہو گیا تھا کیونکہ ہر وقت اور ہر طرف سے ٹک ٹک کی آوازیں آتی رہتی تھیں۔
چنانچہ ان مسائل کو دیکھتے ہوئے امریکی ادارے (ایف ڈی اے ) نے وارننگ جاری کی، اور پابندی لگا دی، چنانچہ ایک بہت بڑا آپریشن ضرب عضب ان ننھے دہشت گردوں کے خلاف لانچ کیا گیا،پوری امریکی اور یورپی اقوام یک جان ہو کر اس دہشت گردی کے خلاف اکھٹی ہو گئی، سکولوں کے ٹیچر، پولیس، حتی کے انٹیلی جنس کے ادارے بھی متحرک ہو گئے اور کہیں سے بھی ٹک ٹک کی آواز آتی فورا وہاں پہنچ کر اس ہتھیار کو ضبط کیا جانے لگا، بنانے والی کمپنیوں پر پابندی لگا دی گئی، فروخت ممنوع قرار دے دی گئی اور ہتھیاروں کی تلفی کا کام شروع ہو گیا۔
جو کام صرف ایک سال میں پورے امریکا اور یورپ میں پھیلا تھا اسے ختم کرنے میں چھ سات سال لگ گئے اور باالاخر سن 80 کی دہائی تک اس وباء کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اس کے بعد چالیس سال تک یہ کلیکرز پوری دنیا میں غائب رہے اور اب چالیس پنتالیس سال بعد اچانک یہ کلیکرز پاکستان کے شہر کراچی سے دبارہ نمودار ہوئے اور ایک دو مہینے میں پورے پاکستان میں وائرس کی طرح پھیل چکے ہیں،
ہر چیز کے کچھ سائیڈ ایفکٹس بھی ہوتے ہیں جن سائیڈ ایفکٹس کی وجہ سے کلیکرز پر امریکا نے پابندی لگائی تھی وہی سائیڈ ایفکٹس پاکستان میں آنا شروع ہو گئے ہیں، بچے زخمی ہو رہے ہیں، لوگوں کا سکون برباد ہو گیا ہے اور بچے لڑائی میں بطور ہتھیار ایک دوسرے پر وار کرنے اور مارنے کے لیے کلیکرز کا استعمال کر رہے ہیں۔
Hey people!!!!!
Good mood and good luck to everyone!!!!!