کامل انسان کی کیا علامت ہے۔؟
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عورتوں سے محبت(یعنی نکاح کی کثرت کا شوق) انسان کے کامل ہونے کی علامت ہے اس لئے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس امت میں سب سے بہترین شخص وہ ہے جس کی بیویاں سب سے زیادہ ہیں۔
حدیث:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میری نظر میں)عورتوں اور خوشبو کو محبوب بنادیا گیا ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔
اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل میں عورتوں کی رغبت وطلب کا ذکر فرمایا، ظاہر ہے کہ عورتوں کی طرف رغبت سے مقصد کثرت سے عورتوں کو بذریعہ نکاح جمع کرنے کی محبت مراد ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ عورتوں سے نکاح کی غیر معمولی محبت کی اطلاع سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد محض اپنے بارے میں ایک خبر پر مطلع کرنا نہیں،یقینا اس خبر سے مقصد اپنی امت کو بھی اس کام پرابھارنا ہے اور ان کے دل میں اس کام کی رغبت پیدا کرنا ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے سے تو قناعت اختیار کی مگر زیادہ نکاح سے قناعت نہیں کی۔
قابل تعریف کام:
علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اگر کوئی شخص نکاح کثرت سے کرے اور زیادہ باندیاں رکھے تو یہ ایک قابل تعریف کام ہے، قابل ملامت نہیں، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویاں بھی رکھیں اور باندیاں بھی اور جمہور صحابہ نکاح کثرت سے کیا کرتے تھے اور اگر نکاح سے کسی کا مقصد اولاد(کی کثرت) ہو تو پھر تو یہ عمل(نإیعنی نکاح کی کثرت) اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے، نکاح کئی لحاظ سے عبادت ہے کہ جن کو شمار کرنا ممکن نہیں مثلا اس سے خود کو بھی عفت وپاکدامنی حاصل ہوتی ہے اورعورتوں کو بھی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نکاح کی خاطر اپنی مبارک عمر کے دس سال بکریاں چرا کر گزار دیئے(تاکہ نکاح کرسکیں) پس نکاح اگر تمام اعمال میں افضل نہ ہوتا تو انبیا کرام علیہم السلام اپنی زندگیوں کا ایک کثیر حصہ نکاح کی کوشش میں(یوں) خرچ نہ فرماتے ۔
یہ بھی پڑھیں: 10 زیادہ بچے اور ہماری جہالت 12 ایک بیوی والوں کا انجام 05 ایک شادی کرنے والے صحابہ
نبی کی ترغیب اور ہمارا طرزعمل
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یوں ترغیب دینا کہ بچے جننے والی عورت اس حسن وجمال والی عورت سے بدرجہا بہتر ہے جس کے اولاد نہ ہوتی ہو، اور اس بارے میں تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایسی عورت جو مال ومنصب کے ساتھ حسن وجمال والی بھی تھی، اس عورت سے محض اس کے بانجھ ہونے کے باعث صحابی کی اس کی طرف بھر پوررغبت ہونے کے باوجود اس سے نکاح سے روکنا اور اس بارے میں پیغمبر کا اتنا حساس ہونا کہ تین مرتبہ اجازت مانگنے پر بھی ان صحابی کو اس سے نکاح کی اجازت نہ دینا اور کثیر الولادۃ عورت سے نکاح پر برانگیختہ کرتے ہوئے اولاد کی کثرت کا غیر معمولی شوق بھڑکادینا۔۔۔۔۔ تمہارے نبی کے ساتھیوں کا صرف اولاد کی کثرت کے لئے کثرت سے نکاح کرنا، تمہاری کتاب کا یہ وعدہ کہ تقویٰ اختیار کرو گے تو میں کثرت سے بیٹے دوں گا اور تمہاری آبادی کو (اکثر نفیرا) کہہ کر سب سے زیادہ کردوں گا، تمہاری کتاب کا تمہاری بیویوں کو حرث(کھیتی) سے تعبیر کرکے تمہیں(پیداوار یعنی) اولاد کی کثرت پر برانگیختہ کرنا، یہ سب باتیں پہاڑوں اور پتھروں اور سائنس ٹیکنالوجی اور ترقی سے عاری دور کے لئے تھیں۔؟؟؟؟
متعدد بیویوں کی صورت میں مشکلات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔
عرب عالم عبداللہ الفقیہ لکھتے ہیں:
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان عورتوں کے خلاف بہت غیرت آتی تھی جو خود کو نکاح کے لئے از خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دیتی تھیں ، نیز صحیح بخاری میں ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج دو جماعتوں میں منقسم تھیں۔
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک زوجہ کے گھر تشریف فرماتھے، اسی دوران دوسری زوجہ نے ایک پیالے میں خادم کے ہاتھ کھانا بھجوایا، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جس زوجہ کے گھر تھے ان زوجہ کو اپنی باری میں سوکن کی اس مداخلت پر اتنی غیرت آئی کہ انہوں نے اس پیالے کو لے کر زمین پر دے مارا اور اس کے دو ٹکڑے کر دیئے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری ماں کو غیرت آئی اس کے بعد آپ نے زمین پر جھک کر اس پیالے کو جوڑا اور اس میں کھانا دوبارہ ڈالا اور اس وقت موجود افراد کو کھانا تناول کرنے کا حکم دیا۔
مگر یہ مشکلات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو متعدد بیویاں رکھنے سے باز نہیں رکھ سکیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ مرد جب پہلی زوجہ کو اعتماد میں لئے بغیر اور اسے راضی کئے بغیر دوسری شادی کرے تو مشکلات زیادہ ہوتی ہیں اور اسے راضی کرکے یہ اقدام کرے تو مشکلات کم ہو جاتی ہیں، لیکن اگر وہ بیوی کو راضی کرنے کی کوشش کرے اور پھر بھی بیوی راضی نہ ہو تو بھی مرد کے لئے یہ اقدام جائز ہے، کیونکہ مرد کو دوسری شادی سے زبردستی روکنے کا نہ تو بیوی کو حق ہے اور نہ ہی بیوی کے ولیوں کو۔
لہٰذا عورت کو چاہئے کہ اس کا شوہر جب کسی عورت سے نکاح کا خواہش مند ہو تو اس کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے کیونکہ اس کا یہ رکاوٹ ڈالنا بسا اوقات طلاق یا شوہر کے دل میں زوجہ کی نفرت کا سبب بنتا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ مسلمانوں کے احوال کو درست فرمائے۔