ڈاکٹر ناکامورا

ڈاکٹر ناکامورا

DR. TETSU NAKAMURA

جاپانی ڈاکٹر ناکامورا

(سید عبدالوہاب شاہ)

دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے اندر اللہ تعالیٰ نے  انسانیت کی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی لائف اور اس کے مزے قربان کرکے انسانیت کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر لیتے ہیں۔ انہیں نہ اپنی جان کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی اپنے مال کی پرواہ ہوتی ہے۔

ایسی ایک شخصیت جاپانی ڈاکٹر ٹیٹسو ناکامورا بھی تھے۔جنہوں نے اپنی زندگی کے 35 سال افغانستان کی عوام کی خدمت میں وقف کرکے افغان سرزمین پر ہی اپنا خون بہا کر جان دے دی۔

ڈاکٹر ٹیٹسو ناکامورا

ناکامورا جاپانی جزیرے کیوشو کے شمالی ساحل کے فوکو شہر میں 1946 کو پیدا ہوئے۔ جاپان کے مختلف سکولوں اور کالجز سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1973 میں کیوشو یونیورسٹی آف میڈیسن سے اعلیٰ ڈگری حاصل کی۔

1978 میں پہلی بار ڈاکٹر ناکامورا پاکستان آئے۔ اس وقت وہ ایک کوہ پیما ٹیم کے ساتھ میڈیکل ڈاکٹر کے طور پر پاکستان آئے تھے۔  یہ وہ زمانہ تھا جب روس نے جارحیت کرتے ہوئے نہتے افغانوں پر حملہ کردیا تھا۔ اور افغان غیور عوام روسی ٹینکوں، جہازوں، اور کوبرا ہیلی کاپٹروں کا مقابلہ لاٹھیوں، ڈنڈوں، پتھروں ، چھریوں اور کلہاڑیوں سے کر رہے تھے۔

جیسا کہ ہر حملہ آوار ظالم حملے کے پہلے فیز میں بے تحاشہ بمباری اور تباہی مچاتا ہے ایسے ہی روس نے بھی افغانیوں کے شہروں، دیہاتوں اور قصبوں کو بموں سے اڑانا شروع کر دیا تھا۔ اس تباہی کے نتیجے میں لاکھوں افغان شہری ہجرت کرکے پاکستان آنا شروع ہو گئے۔

اس جنگ کو پانچ سال گزر چکے تھے اور ڈاکٹر ناکامورا اپنے ملک میں خبروں میں ان حالات اور افغانوں کے کسمپرسی کا مطالعہ کرتے رہتے تھے۔

ڈاکٹر ٹیٹسو ناکامورا

ڈاکٹر ناکامورا تپ دق اور جذام کے مرض کے علاج میں خاص مہارت رکھتے تھے، جب انہیں پتا چلا کے پشار میں افغان مہاجرین جذام کی بیماری کا شکار ہو گئے ہیں تو ڈاکٹر ناکامورا نے فیصلہ کیا کہ اب مجھے پشاور جانا چاہیے اور جذام کے مریضوں کا علاج کرنا چاہیے۔ چنانچہ 1984 میں ڈاکٹر ناکامورا اپنے بیوی بچوں سمیت پشاور آگئے اور اقوام متحدہ کے زیراہتمام ایک ہسپتال میں جذام کے مریضوں کے علاج کے لیے کام شروع کردیا۔ ڈاکٹر ناکامورانے اپنے بچے بھی پشاور کے ہی ایک سکول میں داخل کردیے۔پانچ چھ سال کے بعد ڈاکٹر ناکامورانے محسوس کیا کہ صرف جذام ہی نہیں دیگر بھی کئی بیماریاں ہیں جو افغان مہاجرین کو گھیر رہی ہیں  لہذا انہیں اپنے کام کو مزید بڑھانا چاہیے۔ ڈاکٹر ناکامورا نے اپنے جاپانی مخیر حضرات سے رابطہ کرکے ایک نئی فاونڈیشن قائم کی اور اس کے تحت 1991 میں پشاور کے ساتھ افغان صوبے ننگرہار میں تین کلینک کھولے اور خود بھی افغانستان منتقل ہوگئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب روس شکست کھاکرافغانستان سے نکل رہا تھا۔

 ڈاکٹر ناکامورانے کئی سال طبی خدمات سرانجام دینے کے بعد یہ محسوس کیا کہ افغانستان میں صحت کے مسائل کی خرابی کی ایک وجہ غذائی قلت بھی ہے ، لہذا غذائی قلت پر قابو پانی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ جب ڈاکٹر ناکامورانے  غذائی منصوبوں پر کام شروع کیا تو پتا چلا کے غذائی قلت کی وجہ پانی کی قلت ہے، حالانکہ افغانستان میں کئی دریا اور ندی نالے موجود ہیں لیکن ان سے کسی نے کبھی کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔  ڈاکٹر ناکامورا نے کافی غور و حوض اور تجربے کی بنیاد پر ایک بات کہی: ان کا کہنا تھا کہ ایک آبپاشی نہر 100ڈاکٹروں سے زیادہ اچھا کام کرسکتی ہے۔ ڈاکٹر ناکامورانے کہا ہسپتال ایک ایک مریض کا علاج کرتا ہے لیکن آبپاشی کی ایک نہر پورے گاوں کا علاج کرتی ہے۔

چنانچہ 2003 میں ڈاکٹر ناکامورا نے صوبہ کنڑ میں ایک نہر کی تعمیر کا منصوبہ بنایا۔ یہ نہر 25 کلومیٹر لمبی ہوگی اور اس سے لاکھوں لوگوں اور ہزاروں ایکڑ اراضی کو فائدہ ہوگا۔ اس نہر کے تعمیر  کا طریقہ کار ڈاکٹر ناکامورا نے وہی اختیار کیا جو ان کے اپنے جاپانی گاوں فوکو میں 200 سال پہلے اختیار کیا گیا تھا۔ یعنی جدید آلات کے بغیر محض مزدوروں کی مدد سے نہر کی تعمیر۔

یہ بھی پڑھیں: آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور سکلز

ناکامورا نے صوبہ ننگرہار میں جلال آباد کے مضافات میں صحرائے گمبیری میں 16,000 ہیکٹر کو سیراب کرنے اور 600,000 لوگوں کی روزی روٹی کو سہارا دیتے ہوئے آٹھ اضافی نہریں تعمیر کیں یا بحال کیں۔ ڈاکٹر ناکامورا نے دریائے کنڑ پر گیارہ ڈیم بھی بنائے۔ انہوں نے اعلان کیا: “ہتھیاروں اور ٹینکوں سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ کاشتکاری کا احیاء افغانستان کی بحالی کا سنگ بنیاد ہے۔

ڈاکٹر ٹیٹسو ناکامورا

2001 میں جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو ڈاکٹر ناکامورانے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا: افغانستان کو چلانے کے لیے طالبان بہترین منتظم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار امریکی ہیلی کاپٹر نے ڈاکٹر ناکامورا پر فائرنگ کرکے قتل کرنے کی کوشش بھی کی لیکن ڈاکٹر ناکامورا بال بال بچے۔

ڈاکٹر ناکامورا نے افغانستان میں جو نہریں بنائیں ان میں وہ خود کدال، بیلچہ لے کر مزدوروں کی طرح کام کرتے تھے۔ خود کاندھے پر پتھر، ریت اور بجری اٹھاکر لاتے تھے۔ ڈاکٹر ناکامورا نے ایک فرد ہوتے ہوئے بڑی بڑی تنظیموں اور حکومتوں کے برابر کام کیا، افغان عوام انہیں بہت پسند کرتی تھی۔ 2017 میں  جب طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے مذاکرات کامیاب ہوگئے اور امریکا نے شکست خوردہ ہو کر افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کیا تو  ساتھ ہی اس نے ہر اس چیز کو تباہ کرنا شروع کردیا جو افغانستان کی تعمیر و ترقی میں کام آسکتی تھی اور ایسے افراد کو بھی چن چن کر نشانہ بنانا شروع کردیا جو افغانستان کی ترقی میں کسی طرح معاون ثابت ہو سکتے تھے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں امریکا نے  اپنے آخری دو سال تمام اہم مشینری اور چیزیں افغانستان سے واپس نکالنا شروع کر دیں تھی، اور جو چیز وہ واپس نہیں لے جاسکتے تھے اسے تباہ کردیتے تھے۔ یہاں تک کہ بگرام میں ایک بہت بڑا بجلی گھر بھی جاتے وقت بم سے اڑا دیا تھا۔

چنانچہ اسی سلسلے کی کڑی میں 4دسمبر 2019 کو جلال آباد کے قریب ڈاکٹر ناکامورا جب صبح اپنے گھر سے کام کے لیے نکلے تو دو گاڑیوں میں سوار مسلح حملہ آوروں نے ڈاکٹر ناکامورا پر چاروں طرف سے فائرنگ شروع کردی۔ عینی شاہد کے مطابق فائرنگ کے بعد ایک حملہ آوار نے دوسرے سے پوچھا ڈاکٹر ناکامورا ختم ہوا یا نہیں؟ تو دوسرے نے کہا ہاں ڈاکٹر ناکامورا ختم ہو گیا ہے، پھر یہ حملہ آوار اپنی گاڑیوں میں بھاگ گئے۔

اس حملے کے بعد طالبان کے ترجمان نے اپنے بیان میں افسوس کرتے ہوئے کہا ڈاکٹر ناکامورا اور ان کی رفاہی تنظیم کے ساتھ ہمارے بہت اچھے تعلقات تھے اور ہم ہر اس شخص کی قدر کرتے ہیں جو افغانستان کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیتا ہے۔

حملے کے بعد ڈاکٹر ناکامورا ابھی زندہ تھے، جنہیں جلال آباد میں ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد کابل کی طرف منتقل کرنے کے لیے جہاز میں سوار کیا جارہا تھا کہ ان کی جان چلی گئی۔ اس کے بعد ان کی لاش کو کابل سے جاپان منتقل کیا گیا جہاں سپرد خاک کردیا گیا۔

ڈاکٹر ناکامورا کے قتل کے پیچھے منصوبہ ساز اگرچہ اور تھے لیکن فائرنگ کرنے والے کرائے کے قاتل افغانی ہی تھے۔ 2021 میں طالبان حکومت آنے کے بعد طالبان نے یہ اعلان کیا تھا کہ فائرنگ کرنے والے قاتلوں تک ہم پہنچ چکے ہیں اور انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس کے علاوہ طالبان نے  ڈاکٹر ناکامورا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک چوک کا نام ڈاکٹر ناکامورا رکھتے ہوئے وہاں ان کی بڑی سی تصویر بھی آویزاں کی ہے۔

Leave a ReplyCancel reply

Exit mobile version