ڈاکٹر اسرار احمد
سید عبدالوہاب شیرازی
ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ نے اپنی زندگی کا زیادہ تر وقت لاہور شہر میں گزارا، لاہور شہر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں ایک اور عظیم شخصیت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ بھی یہیں مقیم رہے۔
ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی کے آخری خطاب میں فرماتے ہیں کہ میری مولانا احمد علی لاہوری سے دو مناسبتیں ہیں، ایک یہ کہ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے چالیس سال تک قرآن مجید کا درس دیا، الحمدللہ میں نے بھی اسی شہر لاہور میں چالیس اکتالیس سال درس دیا، دوسری مناسبت یہ ہے کہ میں نے جس مسجد میں درس دیا اس کا افتتاح مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ نے کیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد ملک کے تمام اخبارات،رسائل، اور چینلز نے ان کے بارے میں اداریے،کالمز،مضامین شائع کئے اور مشہور شخصیات ، اور علماء نے اپنے تاثرات بیان کئے۔ ان مضامین اور تاثرات کو غازی محمد وقاص نے کتابی شکل میں جمع کرکے’’ڈاکٹراسراراحمدکی یادمیں‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ویسے تو یہ کتاب ہر ایک کو پڑھنی چاہیے لیکن علماء نے اپنے تاثرات میں ڈاکٹر صاحب کے بارے میں کیا کہا اسے آپ بھی ملاحظہ کیجئے۔
مولانا اسلم شیخوپوری شہید رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جن حضرات کو حضرت شیخ الہند رحمہ کی شخصیت اور فکر نے بہت زیادہ متاثر کیا ان میں ڈاکٹر اسرار صاحب کا نام بہت نمایاں ہے۔ وہ حضرت شیخ الہند کو حضرت شاہ ولی اللہ کی جامعیت کبریٰ کا عکس کامل اور اپنے آپ کو حضرت شیخ کے علوم ومعارف کا خوشہ چین اور فکری جانشین قرار دیتے تھے۔ آگے فرماتے ہیں دعوت الی القرآن کے حوالے سے ان کی خدمات کا انکار صریح ناانصافی ہوگی، حضرت شیخ الہند کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ اس نوجوان نے ہمیں ہمارا بھولا ہوا سبق یاد دلادیا۔ اگر اس میں تھوڑی سی ترمیم کرتے ہوئے یوں کہا جائے تو شاید بے جانہ ہوگا کہ’’ ایک ڈاکٹر نے ہمیں ہمارا بھولا ہوا سبق یاد دلادیا۔درس قرآن کے میدان میں جو چند اچھے لوگ سامنے آئے ان میں ڈاکٹر صاحب سرفہرست تھے۔آگے فرماتے ہیں نماز تراویح میں جو تلاوت کی جاتی ہے اس کے ترجمہ اور خلاصہ کا سلسلہ بھی ان کی حسنات میں سے ہے، ہماری معلومات کے مطابق یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا اور ایک حد تک کامیاب بھی رہا۔اپنی زندگی کے پچاس ساٹھ سال کتاب اللہ کے علم وحکمت کی اشاعت میں لگا دینا ہی اتنی بڑی سعادت ہے کہ اس پر ایک سچے مسلمان کو رشک آنا چاہئے۔ڈاکٹر صاحب حق گوئی سے باز نہیں آتے تھے ، اس حق گوئی کا مظاہرہ انہوں نے اس وقت بھی کیا تھا جب پی ٹی وی کی انتظامیہ نے ان کے درس میں خواتین کو بٹھانے پر اصرار کیا انہوں نے اپنے مقبول عام پروگرام سے دستبرداری تو قبول کرلی،مگر بے حجاب خواتین کو درس میں بیٹھنے کی اجازت نہ دی۔اس حقیقت کا اعتراف تو ان کے مخالفین بھی کرتے ہیں کہ وہ شرعی مسائل واحکام کی اتباع اور ان پر استقامت میں مداہنت سے کام نہیں لیتے تھے۔ہم امید رکھتے ہیں امت کی نشاۃ ثانیہ کی تڑپ رکھنے والے اس خام قرآن کے ساتھ اللہ عفو ودرگزر کا معاملہ فرمائیں گے۔(ضرب مومن 29اپریل 2010)۔
مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہ فرماتے ہیں: بلاشبہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو اللہ نے خدمت قرآن کے لئے خاص جذبہ عطا کیا تھا وہ پاکستان اور اسلام کے سچے سپاہی اور مخلص خادم تھے ایک زمانے میں وہ ہمارے دارالعلوم کراچی کے پڑوس میں کچھ عرصہ کے لئے مقیم رہے، پانچوں وقت کی نماز دارالعلوم میں پڑھتے تھے ہمارے ساتھ اس وقت بھی ان سے ملاقاتیں رہی ہیں، میں نے ہمیشہ ان کو اسلام اور پاکستان کے سلسلے میں مخلص پایا۔اختلاف رائے ان سے کیا جاسکتا ہے اور ہوا بھی ہے لیکن یہ کہ پاکستان اور اسلام کے لئے ان کے اخلاص میں شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ بلاشبہ ہم بہت مخلص خادم اسلام اور خادم پاکستان سے محروم ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔(دنیا نیوز ٹی وی چینل)۔
مولانا عاصم محمود لکھتے ہیں: ڈاکٹر صاحب کی ذات میں خاصا تنوع تھا۔ وہ بہترین مقرر،مبلغ،مفسر اور مصنف تے۔ ڈاکٹراسرار احمد دنیائے اسلام کے لئے رول مادل تھے وہ جہاں بھی رہے دین کو تقویت ملی۔ آپ کا شمار برصغیر کے جید علمائے کرام میں ہوتا تھا۔ڈاکٹر صاحب میں بڑا اہم وصف یہ تھا کہ جو کہتے تھے خود اس پر عمل کرتے تھے، انہوں نے اپنی زندگی اسلام کے لئے وقف کررکھی تھی، ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ فرقہ وارانہ تعصبات سے بالاتر ہو کر نہ صرف ایک خطہ بلکہ پورے عالم اسلام کے اتحاد ویگانگت کے لئے بھرپور آواز اٹھائی۔وہ اپنی ہر گفتگو اور بیان میں پاکستان کو سود سے پاک کرنے پر زور دیتے تھے۔(ماہنامہ چراغ اسلام)۔
مولانا محمد زاہد صاحب لکھتے ہیں: ڈاکٹر صاحب نظام خلافت کے بہت بڑے شعوری علم بردار تھے اور اس کے لئے حکمت عملی اور طریق کار کے سلسلے میں اپنا واضح ذہن رکھتے تھے جس سے دوسرے منکرین کو اتفاق بھی ہو سکتاہے اور اختلاف بھی۔ وہ شیخ الہند مولانا محمود حسن کے بہت بڑے مداح اور خود کو ان کا پیرو کار قرار دیتے تھے ان کی جدوجہد کا اہم پہلو یہ تھا کہ وہ رجوع الی القرآن اور عوام میں قرآن کی ترویج واشاعت کے بڑے علمبرداروں میں سے تھے،یہ ان دونکتوں میں سے ایک ہے جس کی طرف شیخ الہند نے بھی اپنی زندگی کے آخر میں علماء کو خصوصی طور پر متوجہ کیا تھا۔ڈاکٹر صاحب کی بعض آراء یا حکمت عملی سے اختلاف کیا گیا لیکن اس میں شک نہیں کہ ان کی رحلت ایک مخلص اور محنتی داعی دین اور خادم قرآن کی رحلت ہے۔(ماہنامہ الصیانہ)۔
مولانا قاری منصور احمد لکھتے ہیں: ان کی دوباتیں مجھے اچھی لگتی تھیں ایک تو وہ دین دار تھے اور پکے دین دار،کالج یونیورسٹی کی تعلیم نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔انہوں نے داڑھی رکھی تھی،پوری داڑھی اور خوب ٹھوک بجا کے، اس کا پرچار اپنے متعلقین میں کیا کرتے وہ بڑی داڑھی کو ہی داڑھی سمجھتے تھے وہ اپنی شلوار ٹخنوں سے اونچی رکھتے تھے واضح طور پر اونچی بغیر کسی معذرت کے ۔ ان کے گھرانے میں شرعی پردہ تھا، مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ میری اہلیہ پردہ تو کرتی تھی مگر میرے کہنے پر ان کو تو دل کی پوری رضامندی سے قائل کرنے کا ذریعہ ڈاکٹر صاحب کی دکٹر نیک اکٹر ہی بنیں۔وہ پکے دین دار تھے انہوں نے شادی بیاہ سے ہندوانہ رسوم اور دیگر خرافات کے خاتمے اور سنت نبوی کے مطابق اسے انجام دینے کے لئے مثالی کردار ادا کیا۔
دوسری بات جو مجھے ان کی اچھی لگی وہ ان کی سادگی تھی۔ ڈاکٹر صاحب میں اور بھی بہت سی چیزیں اچھی ہوں گی، ہوں گی کیا ،بلکہ تھیں۔(ضرب مومن30اپریل2010)۔
مولانا زاہدالراشدی مدظلہ لکھتے ہیں: ان کی وفات سے پاکستان میں نفاذ شریعت کی جدوجہد جس کا میں خود بھی ایک کارکن ہوں ایک باشعور اور حوصلہ مند رہنما سے محروم ہوگئی۔ شیخ الہند رحمہ اللہ نے آئندہ جدوجہد کے لئے تین نکات کا ایجنڈا پیش کیا: ۱۔مسلمان باہمی اختلافات سے گریز کرتے ہوئے متحدہ کردار ادا کریں۔ ۲۔قرآن کریم کی تعلیمات کے فروغ اور عام مسلمانوں کو قرآن کریم سے شعوری طور پر وابستہ کرنے کے لئے ہر سطح پر دروس قرآنکا اہتمام کیا جائے۔ ۳۔مسلمان اپنے شرعی معاملات طے کرنے کے امارت شرعیہ کاقیام عمل میں لائیں اور ایک باقاعدہ امیر منتخب کرکے اس کی اطاعت میں کام کریں۔ڈاکٹر اسرار احمد کا موقف تھا کہ وہ شیخ الہند کے اسی تین نکاتی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لئے کام کرہے ہیں جبکہ ان کے بقول شیخ الہند کے تلامذہ اور ان کے حلقے کے لوگ اس ایجنڈے پر قائم نہیں رہ سکے ۔ ڈاکٹر اسرار احمد کے اس موقف سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن یہ شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ وہ خود اسی ایجنڈے پر کام کرتے رہے اور انہوں نے اس مقص کے لئے ملک بھر میں احباب اور رفقاء کاایک پورا حلقہ تیار کیا تھا جو اب تنظیم اسلامی کے نام سے سرگرم عمل ہے۔
لاہور میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کے ذوق اور رہنمائی کے مطابق قرآن کریم کے دروس کے آغاز کا اعزاز شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری اور ان کے تلامذہ کو حاصل ہے مگر ان کے حلقہ سے باہر اس ذوق کو بڑھانے میں اگر میری اس بات کو مبالغہ پر محمول نہ کیا جائے تو ڈاکٹر اسرار احمد کی جدوجہد سب سے نمایا نظر آتی ہے۔ انہوں نے نفاذ اسلام کے لئے مسلسل جدوجہد ہی نہیں کی بلکہ اسلامی نظام کی اصل اصطلاح خلافت کو زندہ رکھنے اور نئی نسل کو خلافت کی اصطلاح سے مانوس کرنے کے لئے بھی اہم کردار ادا کیا۔ وہ ایک امیر کی بیعت اور اس کی اطاعت میں کام کرنے کی ترغیب دیتے رہے اور ان کا زندگی بھرا اصرار رہا کہ ایک امیر اور اس کے ساتھ سمع وطاعت کا تعلق دینی تقاضوں میں سے ہے۔اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں۔(ماہنامہ الشریعہ)۔
مولانا شیخ رحیم الدین لکھتے ہیں: آپ کے دروس قرآنی میں علامہ اقبال کا سوزِ دروں،فراہی واصلاحی کا تدبر وتعمق،ابوالکلام کا غلبہ واقامت دین کا حرکی تصور موجزن نظر آنے لگا۔نیز ادبیت کی چاشنی سے معمور یہ دروس شیخ الہند مولانا محمود حسن اور شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی کے رسوخ فی العلم کا پرتُو بننے لگے۔نئی دہلی میں سید عرب شاہ کے نام سے ایک صاحب مشہور ومعروف ہیں، وہ میوزک اور فلم وغیرہ کی سی ڈیز بنانے میں خاص مہارت رکھتے ہیں انہوں نے اپنے گھر میں سٹوڈیو بھی بنارکھا تھا، کسی حوالہ سے ایک دفعہ انہوں نے محترم ڈاکٹر صاحب کا درس قرآن سن لیا بس پھر کیا تھا اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کو قرآن کی نشر واشاعت کے لئے کھول دیا،انہوں نے گزشتہ کاروبار کو خیر باد کہا لاکھوں روپے کا نقصان اٹھایا اور اپنی جسم وجان کی تمام توانائیاں صرف اس کام میں لگا دیں کہ ڈاکٹر صاحب کے دروس قرآن کی سی ڈیز وڈی وی ڈیز لاکھوں نہیں کروڑوں کی تعداد میں تمام انڈیا میں پھیلادیں۔(ندائے خلافت)۔
ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک میں اس کے مدیر لکھتے ہیں: ڈاکٹر صاحب کی پوری زندگی جہد مسلسل،دعوت قرآن کو پھیلانے اور اسلامی فلسفے کی ترویج اور دین کی اشاعت کے لئے گزری۔ڈاکٹر صاحب جیسے باکمال اور منفرد اور گوناگوں صفات کی حامل شخصیت کا احاطہ ایک طالب علم کے لئے ناممکن ہے، آج قلم متحیر ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے کس کس پہلو پر روشنی پہلے ڈالی جائے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کا قرآن کے ساتھ عشق اور شغف کا اعجاز ہی تھا کہ دعوت قرآن اور ڈاکٹر صاحب کا نام پاکستان اور دوسرے ممالک میں لازم وملزوم بن گئے۔ گو کہ ڈاکٹر صاحب کی اپنی علمی تفردات اور ذاتی آراء سے کئی حلقوں کو اختلاف بھی رہا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس گئے گزرے بے دین اور خصوصا قرآن سے دور بھاگے ہوئے معاشرے میں دعوت قرآن کو پھیلانا اور اس کو عوام میں سمجھانا اور قرآن فہمی کا ذوق پیدا کرنا ڈاکٹر صاحب کا بہت بڑا کارنام ہے۔ڈاکٹر صاحب جیسی بڑی عبقری قومی،ملی،علمی اور تاریخی شخصیت کا بچھڑنا پاکستان اور خصوصا دینی حلقوں کے لئے انتہائی دکھ اور درد کی علامت ہے۔(ماہنامہ ’’الحق‘‘2010)۔
مدیر ماہنامہ ’’الحسن‘‘ لکھتے ہیں: ڈاکٹر صاحب کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ فتویٰ نہیں دیا کرتے تھے جب بھی ان سے کوئی شرعی مسئلہ یا فتویٰ پوچھتا تو وہ ہمیشہ یہی جواب دیتے کہ میں مفتی نہیں ہوں۔مسئلہ پوچھنا ہو تو جامعہ اشرفیہ کے دارالافتاء سے پوچھو۔ڈاکٹر صاحب کے دروس قرآن میں بڑی کشش اور علمی معلومات ہوتی تھیں، ان کا درس انتہائی محققانہ ہوا کرتا تھا۔
ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک میں اس کے مدیر لکھتے ہیں: ڈاکٹر صاحب کی پوری زندگی جہد مسلسل،دعوت قرآن کو پھیلانے اور اسلامی فلسفے کی ترویج اور دین کی اشاعت کے لئے گزری۔ڈاکٹر صاحب جیسے باکمال اور منفرد اور گوناگوں صفات کی حامل شخصیت کا احاطہ ایک طالب علم کے لئے ناممکن ہے، آج قلم متحیر ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے کس کس پہلو پر روشنی پہلے ڈالی جائے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کا قرآن کے ساتھ عشق اور شغف کا اعجاز ہی تھا کہ دعوت قرآن اور ڈاکٹر صاحب کا نام پاکستان اور دوسرے ممالک میں لازم وملزوم بن گئے۔ گو کہ ڈاکٹر صاحب کی اپنی علمی تفردات اور ذاتی آراء سے کئی حلقوں کو اختلاف بھی رہا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس گئے گزرے بے دین اور خصوصا قرآن سے دور بھاگے ہوئے معاشرے میں دعوت قرآن کو پھیلانا اور اس کو عوام میں مجھانا اور قرآن فہمی کا ذوق پیدا کرنا ڈاکٹر صاحب کا بہت بڑا کارنام ہے۔ڈاکٹر صاحب جیسی بڑی عبقری قومی،ملی،علمی اور تاریخی شخصیت کا بچھڑنا پاکستان اور خصوصا دینی حلقوں کے لئے انتہائی دکھ اور درد کی علامت ہے۔(ماہنامہ ’’الحق‘‘2010)۔
مدیر ماہنامہ ’’الحسن‘‘ لکھتے ہیں: ڈاکٹر صاحب کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ فتویٰ نہیں دیا کرتے تھے جب بھی ان سے کوئی شرعی مسئلہ یا فتویٰ پوچھتا تو وہ ہمیشہ یہی جواب دیتے کہ میں مفتی نہیں ہوں۔مسئلہ پوچھنا ہو تو جامعہ اشرفیہ کے دارالافتاء سے پوچھو۔ڈاکٹر صاحب کے دروس قرآن میں بڑی کشش اور علمی معلومات ہوتی تھیں، ان کا درس انتہائی محققانہ ہوا کرتا تھا۔