چھتر پلین واقعہ کی حقیقت
چند شرپسند عناصر کی کارروائی کو عظیم تبلیغی جماعت کے کھاتے میں ڈالنا اور ملک کی عظیم دینی و سیاسی جماعت کو بھی لگے ہاتھوں ملوث کرنا انتہائی گھٹیا حرکت اور ایک تیر سے کئی شکار کرنے کے مترادف ہے، گزشتہ دنوں چھتر پلین میں پیش آمدہ ناخوش گوار واقعہ کے بارے میں چہ میگوئیاں اور جتنے منہ اتنی باتیں ہوئیں اور ہر ایک نے اس واقعہ کی آڑ میں اپنے لچ تلے، اس سلسلے میں سب سے زیادہ جو ویڈیو وائرل ہوئی وہ سید چراغ الدین شاہ صاحب کی ہے جو اس مدرسہ کے بانی ہیں، صاحب خانہ ہونے کے ناطے انکے بیان کو اہمیت ملی اور مولانا اور سید کے سابقے اور انکی سفید ریشی نے اس بیان کو کئی آتشہ کردیا لیکن بدقسمتی سے تحقیق کے بعد انکا بیان خلاف حقیقت سراسر بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوا، حضرت مولانا ناصر محمود صاحب نے ضلعی انتظامیہ کی بے بسی کے بعد انکے مطالبے پر معاملے کو سلجھانے کی کوشش کی اور وہاں ایک بے ہنگم جلوس کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوئے اور بڑے حادثے سے علاقے کو بچایا اسی وجہ سے 100 کے لگ بھگ افراد موجود ہوتے ہوئے اور حملہ آوروں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہونے کے باوجود زخمی صرف تین چار افراد ہوئے اور انکو بھی معمولی چوٹیں آئیں، مولانا نے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے اور اس آگ کو بھڑکنے سے پہلے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس جذباتی جم غفیر کو اپنی حکمت عملی سے کنٹرول کیا لیکن بغض فضل الرحمٰن میں جلنے والے سرکاری ملا نے ایک طرف بیرونی (کینیڈا، انگلینڈ وغیرہ) مہمانوں سے بٹوری ہوئی رقم ہضم کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف سارا ملبہ تبلیغی جماعت اور جمعیة پر ڈال کر یہودی ایجنٹ حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی اور تیسرے نمبر پر مدرسے پر اپنے بیٹے سے واگزار کرانے کی کوشش کی جو مہمانوں کو مسجد سے نکالنے میں پیش پیش تھا، ایک بھیانک کردار قاری عامر نامی شخص ہے جسے رائے ونڈ مدرسہ کی تدریس سے فارغ کر کے مرکز سے نکال دیا گیا جس کے بھائی کالعدم تنظیموں سے وابستہ اور گرفتار ہیں، جمعیة کا مزاج ومذاق ہر موافق اور مخالف کو معلوم ہے کہ وہ ہمیشہ اتحاد و یگانگت کا صرف درس ہی نہیں بلکہ اس کا بھرپور عملی مظاہرہ کرتی ہے، جو دیگر مسالک کے معاملات میں بھی اس طرح کی دخل اندازی کو جرم سمجھتی ہو وہ اپنے ہی مسلک کے دو اختلافی فریقوں کے درمیان اس طرح کا کردار کیسے ادا کر سکتی ہے اور مولانا ناصر محمود جمعیة کے ورکر ہی نہیں ایک ذمہ دار شخصیت اور ضلعی جنرل سیکرٹری ہیں اور کئی بار جمعیة کے پلیٹ فارم سے الیکش بھی لڑ چکے ہیں اور سینیٹر محترم جناب محمد طلحہ محمود صاحب کے ہمراہ راشن کی تقسیم یہ انکی معمول کی سماجی خدمات کا حصہ ہے، سرکاری ملا نے اس رنگ میں بھی بھنگ ڈالنے کی ناکام کوشش کی، الله رب العزت انتشار و افتراق کی ہر صورت کو ختم فرمائے اور سازشی عناصر کو اپنے مذموم مقاصد میں ناکام فرمائے، آمین ثم آمین، ہم شوریٰ کی رائے رکھنے والے اور امارت کو بہتر سمجھنے والے تبلیغ کے ہر دو فریق کے اکابر و اصاغر سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ امت کی اصلاح و تعلق مع الله کے عظیم مقصد کے پیش نظر اپنے اس اختلاف رائے کو احسن انداز سے حل کریں یا اختلاف رکھتے ہوئے بھی مشترکات کی بنیاد پر باہمی تعاون کو فروغ دیں، الله تعالیٰ اسلام کو سربلند اور خادمین دین کو باہم شیر وشکر اور ہر طرح کے فتنوں سے انکو محفوظ فرمائے، آمین ثم آمین۔۔۔۔۔”
(ضیف الرحمٰن، راولپنڈی)