چولستان خشک سالی
(سید عبدالوہاب شاہ)
میں نے 2015 سے 2020 تک پانچ سال چولستان میں گزارے ہیں۔ چولستان پنجاب کا صحرائی علاقہ ہے۔ جس کا کچھ حصہ ضلع بہاولپور اور کچھ حصہ بہاولنگر میں آتا ہے۔ اسی کے ساتھ انڈیا کا علاقہ راجستان بھی لگتا ہے۔ چولستان میں اچانک جاکر بچوں سمیت آباد ہوجانا میرے لیے ایک نیا اور انوکھا تجربہ تھا، پندرہ سال پہلے جب روزے اکتوبر نومبر کے مہینوں میں ہوتے تھے اور ہر سال گرمیوں کی طرف بڑھ رہے تھے میں سوچا کرتا تھا جب مئی جون کے روزے آئیں گے تو میں کیسے روزے رکھ سکوں گا۔ پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ مئی جون کے روزے مجھے چولستان کے صحرائی علاقے میں جہاں گرمی کبھی پچاس سے بھی تجاوز کرجاتی ہے وہاں رکھنے پڑے، گھر کے صحن میں جہاں دھوپ پڑتی تھی جب ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانا ہوتا تو ایسے دوڑ کر ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں داخل ہوتا جیسے بارش میں آدمی دوڑ کر گزرتا ہے۔الحمدللہ ان پانچ سالوں کے روزے رکھنے میں جو سرور اور مزا آیا وہ اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔ اور حدیث پاک کے اس فرمان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ روزے دار کی افطاری کے وقت بھی عید ہوتی ہے۔
چولستان انتہائی پسماندہ علاقہ ہے، میرا قیام مروٹ سٹی میں رہا، ضیاء الحق مرحوم کے فرزند اعجازالحق اسلام آباد میں مستقل رہائش رکھتے ہوئے بھی وہاں سے ایم این اے سلیکٹ ہو جاتے تھے۔اگر لوگوں سے پوچھیں آپ کا بلدیاتی چیئرمین ، کسان کونسلر، یوتھ کونسلر کون ہے تو لوگوں کو اس بارے بالکل معلوم نہیں ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان بنے ہوئے ستر سال گزرنے کے بعد بھی مروٹ شہر کی وہ گلیاں بھی کچی تھیں جن میں وہاں کے امیراور سیٹھ لوگوں کے گھر ہوتے تھے۔ اپنے ترقیاتی کام کروانے کا شعور لوگوں میں بالکل بھی نہیں ہے۔ عوامی نمائندے فنڈ خود کھا جاتے ہیں ان سے کوئی پوچھنے اور سوال کرنے والا نہیں ہے۔
چولستان میں ایک انوکھی چیز جو میں نے دیکھی وہ یہ تھی کہ وہاں سالانہ بارشوں کی تعداد اور مقدار انتہائی کم ہے، چونکہ میں نے تو اسلام آباد اور مانسہرہ کی بارشیں دیکھی ہوئی تھیں جو دس دس دن مسلسل بھی لگی رہتی ہیں اس لیے وہاں چار چار مہینے بارش کا ایک قطرہ بھی نہ دیکھنا عجیب سا لگتا تھا، اگر تین چار مہینے بعد بارش ہوتی بھی تو نہایت ہی کم مقدار میں اور تھوڑے سے وقت کے لیے۔
لیکن پھر ایک دن ایسا ہوا کہ مغرب کے وقت تیز بارش شروع ہوئی اور پورے عشاء تک لگی رہی، یعنی پورے ڈیڑھ دو گھنٹے تیز بارش ہوتی رہی میں بہت خوش ہوااور دل کے ارمان پورے ہوگئے، لیکن جب صبح ہوئی تو پتہ چلا پورے چولستان میں تباہی پھر گئی ہے، ساری کپاس کی فصل جو حال ہی میں کاش کی تھی زمین پر پانی جمع ہونے کی وجہ سے تباہ ہوگئی۔ چنانچہ اب مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ اپر پنجاب اور کے پی کے میں تیزبارشوں کا پانی ندی نالوں اور دریاوں میں بہہ جاتا ہے جبکہ یہاں سے تو جتنی بارش ہوتی ہے وہ سب یہاں ہی کھڑی رہ جاتی ہے آگے بہنے کا سسٹم ہی نہیں جس سے زمینیں خراب ہوجاتی ہیں۔ تب میں نے کہا ہر کام میں اللہ کی کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے۔ یہاں اسی لیے بارشیں کم ہوتی ہیں تاکہ لوگوں کا نقصان نہ ہو۔
چولستان میں تعلیم اور شعور کی بہت کمی ہے ، لوگوں کو اپنے ترقیاتی کاموں کا ہی شعور نہیں تو دینی شعور کہاں سے ہوگا، یہی وجہ ہے کہ جہالت اور بے دینی بہت عام ہے، روزہ نماز اور فرائض اسلام کو لوگ فرض نہیں سمجھتے بلکہ محض ثواب کاکام سمجھتے ہیں اگر کرلیا تو اچھی بات ہے نہ کیا تو کوئی بات نہیں۔ یہاں ایک دلچسپ بات یہ بھی بتاوں کہ مئی جون کے مہینے میں جب ہم گھر والے روزے رکھتے تھے تو کئی مقامی لوگوں کو بھی اس بات پر یقین نہیں آتا تھا کہ مولوی صاحب سارے روزے رکھتے ہیں، خاص طور پر خواتین گھر میں آکر پوچھتی تھیں آپ روزے بھی رکھتے ہیں؟ مجھ سے بھی مسجد میں کئی بار کسی نہ کسی نے پوچھا آپ کا روزہ ہے؟ یہ بات ہمارے لیے بڑی حیران کن ہوتی تھی کیونکہ ہمارے ہاں روزے چھوڑنے کا تصور بھی نہیں پایا جاتا۔
اگر روزوں کا یہ حال ہے تو آپ خود ہی اندازہ لگا لیں زکوۃ کا کیا حال ہوگا۔کیونکہ روزے میں تو چند گھنٹوں کے لیے کھانے سے رکنا ہوتا ہے جبکہ زکوۃ میں بڑی محنت سے کمایا ہوا مال مفتے میں کسی کو دینا ہوتا ہے۔ زکوۃ اللہ کا وہ حکم ہے جسے پورا نہ کرنے سے قحط اور بارشوں کی بندش ہو جاتی ہے۔آج کل چولستان میں قحط اور بارشوں کی بندش سے ہزاروں جانور پیاس سے مر رہے ہیں۔
یہاں یہ معلومات دینا بھی ضروری ہے کہ چولستان ہی وہ علاقہ ہے جو پورے ملک میں گوشت کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ موجودہ اعدادوشمار تو مجھے نہیں معلوم لیکن آج سے چھ سات سال پہلے کے اعدادوشمار کے مطابق چولستان میں چھ لاکھ سے زیادہ بھیڑ بکریاں، چارلاکھ سے زیادہ گائیں، اور دو سے تین لاکھ اونٹ موجود ہیں جسے سے پورے ملک میں جانوروں کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔
چونکہ وہاں نہ ندیاں ہیں اور نہ دریا بلکہ صرف تین چار مہینے بعد ہونے والی بارش ہی ان جانوروں کے پانی پینے کا واحد ذریعہ ہے اس لیے صحرا میں جگہ جگہ ٹوبے (گھڑے) بنائے جاتے ہیں جہاں ایک بار بارش ہونے سے پانی جمع ہو جاتا ہے جو اگلے دو تین مہینے تک جانوروں کی ضرورت پوری کرتا ہے۔ اس بار چونکہ کافی عرصہ گزرگیا ہے بارش نہیں ہوئی یہ ٹوبے خشک ہو چکے ہیں اور ہزاروں جانور مر رہے ہیں اس لیے نہ صرف بارش کی ضرورت ہے بلکہ حکومت اور رفاعی اداروں کی ذمہ داری ہے فوری طور پر ٹینکروں کے ذریعے وہاں پانی پہنچایا جائے تاکہ جانوروں اور انسانوں کی جانوں کو بچایا جاسکے۔
ٹوبے سے ایک اور بات یاد آئی کہ گذشتہ نواز شریف کی حکومت میں پنجاب حکومت نے چولستان میں سینکڑوں ٹوبے بنانے کے لیے کروڑوں روپے کا فنڈ منظور کیا، وہاں کے مقامی نمائندوں نے ایک ایک ٹوبے کو بنانے کے لیے بیس بیس لاکھ کا فنڈ حکومت سے لیا، اور سادہ طریقے سے ٹریکٹر لگا کر ایک دو لاکھ میں ٹوبہ تیار کرکے باقی پیسے ہضم کرلیے۔ یعنی فنڈ تو پختہ اور بڑے ٹوبے بنانے کے لیے لیا تھا، لیکن چھوٹے اور کچے ٹوبے بناکر باقی پیسے ہڑپ کرلیے۔
اس وقت حکومت اور حکومتی نمائندے تو اپنے جھگڑوں میں الجھے ہوئے ہیں ، عام لوگوں اور مخیر حضرات کو اس مسئلے کی طرف توجہ کرتے ہوئے حسب توفیق وہاں پانی پہنچانے کی ذمہ داری لینی چاہیے۔یہ بہت بڑا صدقہ جاریہ اور اجر وثواب کا کام ہے۔