پاکستانی سانپ اور ان کی اقسام
(سید عبدالوہاب شاہ)
میری ایک عادت ہے جب کسی خاص موضوع پر مطالعہ کرتا ہوں تو اگلے ایک دو ہفتے یا ایک دو مہینے مسلسل اسی موضوع پر سمعی، بصری، یا تحریری مواد کا مطالعہ کرتا ہوں، تاکہ اس موضوع کے بارے اچھی طرح معلومات حاصل ہو سکیں۔ گذشتہ ایک دو مہینے سے میں سانپوں کے بارے مطالعہ کررہا تھا، حیرت انگیز طور انٹرنیٹ پر سانپوں کے بارے کسی پاکستانی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کی طرف سے مجھے کوئی مواد پر اردو زبان میں نہیں ملا، البتہ انڈین ویڈیوز میں بڑی تفصیلات ، تربیت، ٹریننگ، اور معلومات دستیاب ہیں۔
انٹرنیٹ پر سرچ کرنے سے معلوم ہوا پاکستان میں صرف محمد شریف خان صاحب نے سانپوں پر کافی کام کیا ہےلیکن پھر وہی بدقسمتی ان کا تمام کام پاکستانیوں کے لیے نہیں بلکہ یورپ اور امریکیوں کے لوگوں کے لیے ان کی زبان میں کیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں واقع این آئی ایچ یعنی نیشنل ہیلتھ انسیٹیوٹ میں ایک ذیلی ادارہ قائم ہے جو سانپوں کے زہر سے بچانے کے لیے ویکسین تیار کرتا ہے۔ یہ ادارہ اگرچہ چالیس پچاس سال قبل قائم کیا گیا تھا مگر صرف کاغذوں میں قائم تھا اس نے باقاعدہ کام کا آغاز نہیں کیا، اور پھر آخر کاردس پندرہ سال پہلے اسے ایک فوجی افسر کی سربراہی میں دیا گیا تب جا کر اس ادارے نے باقاعدہ کام کا آغاز کیا اور ویکسین بنانا شروع کی۔ ہمارے ملک میں کوئی بھی کام بغیر فوجی بوٹ اور بغیر ڈنڈے کے ڈھنگ سے کوئی کرتا نہیں اور پھر کہتے ہیں فوج کیوں مداخلت کرتی ہے۔ آپ دیکھ لیں شاہراہوں پر جدت کے ساتھ کام کا آغاز بھی فوج نے ہی کیا، اور اب پاکستان کی زراعت کو جدید بنانے کا بیڑا بھی فوج نے اٹھایا ہے۔
پاکستان میں سانپ کو دیکھتے ہی فورا مار دیا جاتا ہے، جبکہ اس کے برعکس دنیا کے تمام ممالک میں سانپوں کو پکڑ کر آبادی سے دور زندہ چھوڑ دیا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی چیز بے مقصد نہیں پیدا کی۔ زمین کے ایکو سسٹم میں سانپوں کا بہت اہم کردار ہے، جس کی وجہ سے دنیا کے تمام ممالک میں سانپوں کی حفاظت کی جاتی ہے۔ صرف ایک مثال میں آپ کو دیتا ہوں، ہماری گندم اور دیگر فصلوں میں چوہے زیر زمین بہت ساری جگہیں بناتے ہیں اور اور ہماری فصل چوری کرکے ایک بہت بڑی تعداد زیر زمین لے جاتے ہیں، ظاہر ہے جس سے ہمیں نقصان ہوتا ہے، اس مسئلے کے تدارک کے لیے اللہ تعالیٰ نے بلیک کوبرا اور اس جیسے دیگر سانپ پیدا کیے ہیں جو چوہوں کی آبادی کو کنٹرول کرتے ہیں جس سے ہمیں ہی فائدہ ہوتا ہے۔
دور کیا دیکھنا، اپنے پڑوس میں انڈیا کو ہی دیکھ لیں، وہاں باقاعدہ ایسے تعلیمی ادارے موجود ہیں جہاں سانپوں کو گھروں میں تلاش کرنے کا طریقہ، پھر انہیں محفوظ طریقے سے پکڑنے، اور باحفاظت آبادی سے دور چھوڑنے کی ٹریننگ، تربیت اور تعلیم دی جاتی ہے۔ سانپوں کے یہ کورسز کرنے کے بعد یہ لوگ یہ کام بہت خوبی سے سرانجام دیتے ہیں۔ مجھے خود ایسا کورس کرنے کا شوق ہے لیکن ابھی تک میری معلومات کی حد تک مجھے پاکستان میں کوئی ایسا سرکاری ادارہ نہیں ملا جہاں لوگوں کو سانپ پکڑنےکا طریقہ سکھایا جاتا ہو یا سانپوں کی اقسام، اور ان کے فوائد و نقصانات پر کورسز کرائے جاتے ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: جنکو بائیلوبا
سانپوں کے کاٹنے سے مرنے کی وجہ:
پاکستان میں سالانہ 40ہزار سانپ کے کاٹنے کے واقعات رجسٹرڈ ہوتے ہیں، جن میں سے صرف تین ہزار لوگ مرتے ہیں
یاد رکھیں جتنے بھی سانپ ہیں ان میں اسی فیصد سانپ غیر زہریلے ہوتے ہیں، صرف بیس فیصد سانپ ہی زہریلے ہوتے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سانپوں کے کاٹنے سے جتنی اموات ہوتی ہیں اس کی دو وجوہات ہیں:
1۔ خوف۔ یعنی لوگ سانپ سے بہت زیادہ خوفزدہ ہوتے ہیں، کاٹنے کی صورت میں خوف کی وجہ سے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے، بلڈپریشر ہائی ہو جاتا ہے، جس سے زہر تیزی سے خون میں پھیلتا ہے اور جلدی موت واقع ہو جاتی ہے، اور کئی لوگوں کو تو غیر زہریلہ سانپ کاٹتا ہے وہ پھر بھی صرف خوف سے ہارٹ اٹیک ہو کر مر جاتے ہیں۔
اس کے برعکس جو لوگ خوفزدہ نہیں ہوتے، حوصلہ رکھتے ہیں انہیں کوبرا، رسل وائپر جیسے خطرناک زہریلے سانپ بھی کاٹ لیں، وہ ہسپتال پہنچ کر ویکسین لے لیتے ہیں اور بچ جاتے ہیں۔
2۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگ فورا ہسپتال نہیں جاتے اور ٹونے ٹوٹکے آزمانا شروع کر دیتے ہیں۔ یاد رکھیں، بیماری کا طبی علاج کرانا از روئے شریعت بھی اول درجہ رکھتا ہے، دم درود دوسرے درجے میں آتا ہے، اس لیے سب سے پہلے ہسپتال پہنچنے کی کوشش کریں تاکہ اینٹی وینم ویکسین لگ سکے۔
اہم بات
اگر کسی کو سانپ کاٹ لے تو سب سانپوں کی ویکسین ایک ہی طرح کی نہیں ہوتی، بلکہ تین قسم کے زہر ہیں اور تین قسم کی ویکسین ہیں۔ اس لیے یہ بات بہت ضروری ہے کہ جب کسی کو سانپ کاٹ لے تو اگر ممکن ہو سکے تو سانپ کو بھی ساتھ ہسپتال لے جائیں یا کم از کم سانپ کی تصویر ڈاکٹر کو دکھائیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس مریض کو نیورو ٹاکسن ویکسین لگنی ہے یا ہیومو ٹاکسن ویکسین لگنی ہے۔ کیونکہ ویکسین بذات خود معمولی زہر ہوتا ہے، اگر ہومیوٹاکسن زہر ہو تو اس کے مطابق ویکسین لگتی ہے اور اگر نیوروٹاکسن زہر ہو تو اس کے مطابق ویکسین لگتی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے حکیم انقلاب حکیم صابر ملتانی کا نظریہ مفرد اعضاء ہے۔ یعنی اگر اعصابی تحریک ہے تو عضلاتی تحریک علاج ہے اور اگر عضلاتی تحریک ہے تو غدی تحریک علاج ہے اور اگر غدی تحریک ہے تو اعصابی تحریک علاج ہے۔ اور اگر اعصابی تحریک والے کو ایسی دوائی دے دی جائے جو خود اعصابی تحریک پیدا کرنے والی ہو تو مریض ٹھیک ہونے کے بجائے مزید بگڑ جاتا ہے۔
زہر کی اقسام:
1۔ نیورو ٹاکسن زہر:
یہ زہر انسان کے اعصابی نظام پر اثر انداز ہوتا ہے اور اعصابی نظام میں خلل ڈالتا ہے جس سے عضلات مفلوج ہو جاتے ہیں اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔
2۔ سائٹو ٹاکسن زہر:
یہ زہر ہمارے جسم میں ٹشوز، اعضاء اور عضلات بنانے والے خلیوں کو متاثر کرتا ہے اور خلیوں کو مارنا شروع کر دیتا ہے۔ اس زہر کے اثرات میں جلد پر چھالے پڑنا اور سوجن ہونا شامل ہے، ٹشوز اور سیل کے مرنے کے بعد جسم پر سیاہ دھبے بن جاتے ہیں۔ اگر بروقت علاج نہ ہو سکے اور دیر ہو جائے تو اس عضو کو کاٹنا پڑتا ہے جہاں سانپ نے کاٹا ہوتا ہے۔
3۔ہیوموٹاکسن زہر:
یہ زہر جسم میں خون کے گردشی نظام کو متاثر کرتا ہے اور خون کے سرخ خلیوں پر حملہ کرکے انہیں مارنا شروع کر دیتا ہے، جس سے سرخ خلیے پھٹ جاتے ہیں اور جسم میں اندرونی نکسیر شروع ہو جاتی ہے۔ یہ زہر خون کی نالیوں میں رکاوٹ بھی پیدا کرکے دل کی صحت کو خراب کرنے کا باعث بھی بنتا ہے۔
قانون مفرد اعضاء اور سانپوں کے زہر
قانون مفرد اعضاء کے مطابق میرے خیال میں نیورو ٹاکسن زہر اعصابی تحریک پیدا کرتا ہے۔اور سائٹو ٹاکسن زہر غدی تحریک پیدا کرتا ہے، جبکہ ہیوموٹاکسن زہر عضلاتی تحریک پیدا کرتا ہے۔ یہ صرف میری رائے ہے کنفرم بات نہیں ہے، ماہرین اور بڑے حکماء اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔
زہروں کا تریاق یا اینٹی وینم ویکسین کیسے تیار کی جاتی ہے؟
کسی بھی زہر کا تریاق تیار کرنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس زہر کی ایک معمولی سے مقدار جو ہلاکت خیز نہ ہو، گھوڑے کو لگائی جاتی ہے، چنانچہ اس زہر کے جسم میں لگتے ہی فورا گھوڑے کا مدافعتی نظام متحرک ہوتا ہے اور اینٹی باڈیز چھوڑتا ہے، چنانچہ ان اینٹی باڈیز کو گھوڑے کے جسم سے نکال کر محفوظ کر لیا جاتا ہے، اور یہی ویکسین ہوتی ہے۔
پاکستانی سانپ اور ان کی اقسام
پاکستانی سانپ اور ان کی اقسم کی بات کی جائے تو پاکستان میں تقریبا 300 اقسام موجود ہیں اور ان 300 میں سے صرف 40 اقسام ایسی ہیں جو پاکستان کی مقامی اقسام ہیں، باقی اقسام دوسرے ملکوں یا علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں۔
ایک عام آدمی کے لیے یہ بات سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ ہر سانپ زہریلہ نہیں ہوتا، بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ سانپوں کی زیادہ اقسام غیر زہریلی ہیں، اور سانپوں کی کم اقسام زہریلی ہیں۔ یہ بات بتانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ کسی بھی حادثے یا بیماری میں نفسیات کا بہت اثر ہوتا ہے، چونکہ عام طور پر سانپ ایک خوف کی علامت ہے اور لوگ سانپ کو دیکھ کر ہی کانپنا شروع ہو جاتے ہیں اور حواس کھو جاتے ہیں، جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے، تو ایسی صورت میں اگر کوئی غیر زہریلہ سانپ بھی کاٹ لے تو خوف کے مارے ویسے ہی موت ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ ہر سانپ زہریلہ نہیں ہوتا تو اس سے ایک امید قائم ہو جاتی ہے اور حوصلہ ملتا ہے کہ شاید مجھے غیر زہریلے سانپ نے کاٹا ہو اور انسان اس صورتحال کا حوصلے سے مقابلہ کرے اور علاج کرے تو زہریلے سانپ کا کاٹا ہوا بھی بچ سکتا ہے۔ اس لیے آج کی اس تحریر میں صرف زہریلے سانپوں کی اقسام اور ان کی علامات پر گفتگو کی جائے گی۔
جس طرح انسانوں، جانوروں، یا پودوں کے مختلف خاندان ہوتے ہیں اسی طرح سانپوں کے بھی مختلف خاندان ہوتے ہیں، جن میں سے صرف چار خاندان ایسے ہیں جو زہریلے ہوتے ہیں، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
پاکستانی سانپ کے زہریلے خاندان
1۔ ایلاپیڈی (کریٹس اور کوبرا) Elapidae (Kraits and Cobras)
2۔ وائپریڈی (وائپر) Viperidae (Vipers)
3۔ ہائیڈروپیڈی (سمندری سانپ) Hydrophiidae (Sea Snakes)
4۔ کروٹا لیڈی (ہمالیائی پٹ وائپر) Crotalidae (Himalayan Pit Viper)
اب ان چاروں اقسام کو ذرا تفصیل سے دیکھتے ہیں
1۔سانپوں کا پہلا خاندان
ایلاپیڈی Elapidae
نوٹ: ایلاپیڈی سانپوں میں نیورو ٹاکسن زہر ہوتا ہے۔ ایلاپیڈی میں دو قسمیں ہیں۔ ایک کریٹس اور دوسری کوبرا
کریٹس
پاکستان میں کریٹس سانپوں کی تین قسمیں ہیں:
1۔ کامن کریٹ (Bungarus caeruleus)
کامن کریٹ کو سنگچور سانپ بھی کہتے ہیں اور خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ انسانی جسم کی حرارت کو بہت پسند کرتا ہے اور خاموشی سے بستر میں گھس کر جسم کی حرارت کے مزے لیتا ہے، لیکن اگر جسم کے نیچے دب جائے تو فورا کاٹ کر بھاگ جاتا ہے، اور اس کے کاٹنے سے صرف اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی مچھر کے کاٹنے سے ہوتی ہے، اور جسم پر کوئی زخم بھی نہیں ہوتا، اس لیے انسان کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ مجھے سانپ نے کاٹا ہے، اور اگر کاٹنے کے بعد دو چار گھنٹے کے اندر تشخیص نہ ہواور ویکسین نہ لگے تو انسان مر جاتا ہے۔
یہ رات کا سانپ ہے دن کو بہت کم نظر آتا ہے۔ اکثر برسات کے موسم میں یہ باہر نکل کر کسی سوکھے گھر میں آجاتے ہیں، ان کی خوراک چوہے مینڈک، چوزے اور ان جیسے چھوٹے جانور ہیں۔
کامن کریت سانپ نیوروٹاکسن زہر چھوڑتا ہے۔جس سے فالج جیسے کیفیت پیدا ہوتی ہے، پیٹ میں درد، سانس گھٹتا ہے۔ اور اینٹی وینم نہ لگنے کی صورت میں چار سے آٹھ گھنٹے میں موت واقع ہوجاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حج کا طریقہ
2۔ سندھی کریٹ (Bungarus sindanus)
یہ سانپ چونکہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں بکثرت پایا جاتا ہے اور یہاں کا مقامی سانپ ہے اس لیے اسے سندھی کریت کہتے ہیں۔ یہ بھی انتہائی زہریلا سانپ ہے جس میں نیوروٹاکسن نامی زہر ہوتا ہے اور کامن کریٹ والی علامات ظاہر کرتا ہے۔
شمالی پنجاب کریٹ (Bangarus sindanus razai)
یہ بھی سندھی کریٹ کی ہی ایک ذیلی قسم ہے، اور زہریلا سانپ ہے۔
یہ پاکستانی سانپ کن علاقوں میں پائے جاتے ہیں اس کے لیے نیچے والا نقشہ دیکھیں:
کوبرا سانپ Cobra Snake
ایلاپیڈی سانپوں کی دوسری قسم کوبرا سانپ ہیں۔ پاکستان میں کوبرا کی دو قسمیں ہیں:
1۔ سیاہ کوبرا (N. naja)
2۔ آکسس یا براؤن کوبرا (N. oxiana)
بلیک کوبرا
بلیک کوبرا جنوبی اور مشرقی پاکستان کے علاقوں میں پایا جاتا ہے، جبکہ براؤن کوبرا (N. oxiana) صرف شمالی پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ پاکستانی زہریلے سانپوں میں سب سے زیادہ لمبائی بلیک کوبرا کی ہوتی ہے۔
جس بلیک کوبرا پر سفید دھاریاں ہوں اسے کنگ کوبرا بھی کہا جاتا ہے یعنی کوبرا کا بھی بادشاہ، یہ اتنا خوفناک اور بہادر سانپ ہوتا ہے کہ اس سے جنگلی جانور شیر اور ہاتھی تک ڈر کر بھاگ جاتے ہیں۔ اپنے سائز میں بڑا ہونے کی وجہ سے یہ سانپ رسل وائپر اور دیگر زہریلے سانپوں کو بھی کھا جاتا ہے۔
جبکہ ایک تیسری ذیلی قسم سپیکٹیکل کوبرا بھی موجود ہے۔اس کوبرا کے پھن کے پیچھے عینک کی طرح نشان ہوتا ہے۔ یہ زیادہ تر انڈیا میں پایا جاتا ہے لیکن پاکستان میں بھی موجود ہے۔
کوبرا پاکستان کے جن علاقوں میں پایا جاتا ہے اس کا نقشہ نیچے دیکھ سکتے ہیں:
2۔ سانپوں کا دوسرا خاندان
وائپریڈی (وائپر) Viperidae (Vipers)
پاکستان میں زہریلے سانپوں کا دوسرا خاندان پانچ نسلوں پر مشتمل ہے جس کی سات انواع اور کچھ مزید ذیلی قسمیں بھی ہیں۔
نوٹ: وائپر سانپوں میں ہیموٹاکسن زہر ہوتا ہے۔
1۔ رسل یا چین وائپر (Daboia russelii)
یہ سانپ دریا کے قریب خشک یا پتھریلے علاقے میں ہوتا ہے۔ جبکہ اس کی کچھ اقسام پہاڑوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس کی جلد سخت اور اس کے جسم پر چین جیسے تین لائنیں ہوتی ہیں۔ اس کا سر گردن سے بڑا ہوتا ہے اور تکونے سر کی وجہ سے دوسرے سانپوں سے مختلف شکل کا ہوتا ہے۔یہ سانپ بہت غصے والا اور پھرتیلا ہوتا ہے۔جب یہ حملہ کرنے کے موڈ میں ہو تو انگریزی حرف S کی طرح شکل بناتا ہے۔
اس سانپ میں ہیوموٹاکسن زہر ہوتا ہے۔ بعض سانپ کاٹتے تو ہیں لیکن زہر نہیں چھوڑتے لیکن اس سانپ کے کاٹنے کی صورت میں اسی فیصد امکان ہوتا ہے کہ یہ زہر چھوڑے گا۔ کاٹنے کے بعد بہت جلن، درد ہوتا ہے گوشت پھٹنا شروع ہو جاتا ہےاور گردے بھی متاثر ہوتے ہیں۔
دو چار گھنٹوں میں اگر اینٹی وینم ویکسین لگ جائے تو بچت ہو جاتی ہے ورنہ موت واقع ہو جاتی ہے۔ یہ سانپ سنگچور کے بعد دوسرے نمبر کا زہریلہ سانپ ہے۔
2۔ آری سکیلڈ وائپر (saw-scaled viper Echis carinatus)
یہ سانپ کھپرا، لنڈی، اور جلیبی سانپ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ سانپ انگریزی کے C کی شکل بناتا ہے اور انتہائی تیزی سے حملہ کرتے ہوئے ایک سیکنڈ میں واپس اپنی جگہ آجاتا ہے۔
لمبائی میں یہ سب سے چھوٹا سانپ ہوتا ہے، اور گندمی رنگ کی ریت ، مٹی، یا پتھر میں کیموفلاج کیے ہوئے چھپا رہتا ہے، مٹی یا ریت میں صرف آنکھیں باہر نکال کا باقی جسم چھپا لیتا ہے۔
Saw-scaled Viper (Echis carinatus) آری سکیلڈ وائپر پاکستانی سانپ
اس میں بھی ہیومو ٹاکسن زہر ہوتا ہے۔چونکہ یہ آبادی والے علاقوں میں پایا جاتا ہے اس لیے اس سے بہت اموات واقع ہوتی ہیں۔
3۔ سوچوریکز یا ایسٹرن سو اسکیلڈ وائپر (Echis carinatus sochureki)
آسٹریلیا کے ایک ہرپٹولوجسٹ ایرک سوچوریک کے نام پر اس کا نام رکھا گیا ہے۔ یہ سانپ بھی پاکستان بھر میں پایا جاتا ہے اور خاص طور پر خشک پہاڑی علاقوں اور بلوچستان کے ضلع پشین میں پایا جاتا ہے۔
4۔ ملٹی اسکیل یا ٹرانسکاسپین سو اسکیلڈ وائپر (Echis carinatus multisquamatus)
پاکستان میں یہ سانپ افغان سرحد کے ساتھ ساتھ کوہ ہندوکش، شمال مشرقی بلوچستان کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ اس میں بھی ہیومو ٹاکسن زہر ہوتا ہے۔
5۔ آسٹولا آری سکیلڈ وائپر (Echis carinatus astolae)
یہ سانپ بلوچستان کے ضلع مکران کے قریب سمندر میں واقع اسٹولا جزیرے میں پایا جاتا ہے۔ یہ بھی انتہائی خطرناک اور زہریلہ سانپ ہے۔
6۔ میکماہون یا لیف ناک والا وائپر (Eristicophis macmahonii)
یہ پاکستان، افغانستان، ایران کے سرحدی علاقوں اور بلوچستان کے صحرائی علاقوں اور چاغی ، نوشکی میں پایا جاتا ہے۔ اس کا سر بڑا چوڑا اور چپٹا ہوا ہوتا ہے ،
یہ ریت میں دھنس جاتا ہے صرف آنکھیں باہر چھوٹا ہے۔ پرندوں، چھپکلیوں اور چوہوں کو کھاتا ہے۔
7۔ فارسی سینگوں والا وائپر (Pseudocerastes persicus)
سینگوں والا یہ سانپ بلوچستان میں پایا جاتا ہے۔اکثر پہاڑوں اور چٹانوں میں پتھریلے رنگ میں کیمو فلاج کیے اپنے شکار کے لیے بیٹھا رہتا ہے،
بلوچستان میں آبادی بہت کم ہے اس لیے انسانوں کے ساتھ آمنا سامنا اس کا کم ہوتا ہے۔
8۔ لیونٹین وائپر یا ماؤنٹین ایڈر (Macrovipera lebetina)
یہ سانپ پاکستان کے پہاڑی علاقوں اور کشمیر میں پایا جاتا ہے۔ یہ بھی زہریلا سانپ ہے۔
یہ سانپ پاکستان میں کہاں کہاں اس نقشے کو دیکھیں:
3۔سانپوں کا تیسرا خاندان
سمندری سانپ Hydrophiidae
سمندری سانپوں کی بہت ساری اقسام ہیں جو دنیا بھر کے سمندروں میں پائی جاتی ہیں لیکن پاکستان کے ساحلی پانیوں میں اب تک صرف 14 اقسام ہی ریکارڈ کی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: روحانی عامل کی خفیہ ڈائری
1۔سٹوکس کا سمندری سانپ (Astrotia stokesii)
اس کا شمار سمندر کے بڑے سانپوں میں ہوتا ہے اس کے دانت بہت بڑے بڑے ہوتے ہیں۔
2۔چونچ والا سمندری سانپ، یا کاڈین سمندری سانپ (Enhydrina schistose)
یہ انتہائی زہریلا سمندری سانپ ہے۔
3۔ بونا سمندری سانپ یا کئی دانتوں والا سمندری سانپ (Hydrophis caerulescens)
4۔ اینولیٹڈ سمندری سانپ یا نیلی پٹی والا سمندری سانپ (Hydrophis cyanocinctus)
5۔ دھاری دار سمندری سانپ (Hydrophis fasciatus)
6۔ خلیج فارس کا سمندری سانپ (Hydrophis lapemoides)
7۔ بمبئی سمندری سانپ (Hydrophis mamillaris)
8۔ آرنیٹ ریف سمندری سانپ (Hydrophis ornatus)
9۔ زرد سمندری سانپ (Hydrophis spiralis)
10۔ شا کا سمندری سانپ (Lapemis curtus)
11۔ کینٹور کا چھوٹے سر والا سمندری سانپ (Microcephalophis cantoris)
12۔ خوبصورت چھوٹے سر والا سمندری سانپ یا پتلا سمندری سانپ (Microcephalophis gracilis)
اس سانپ کے کاٹنے سے درد نہیں ہوتا لیکن تیس منٹ کے بعد اس کا خطرناک زہر کام کرنا شروع کرتا ہے اور فالج جیسے علامات ظاہر ہوتی ہیں۔
13۔ پیلے پیٹ والا سمندری سانپ یا پیلاجک سمندری سانپ (Pelamis platurus)
یہ بھی زہریلا سمندری سانپ ہے ۔اس سانپ کے زہر میں کئی مختلف نیوروٹوکسینز اور دو دیگر آئسوٹوکسنز ہوتے ہیں۔
14۔ وائپرائن سمندری سانپ (Praescutata viperina)
اس کی شکل زمینی وائپر سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ یہ غیر زہریلا نیم آبی سانپ ہے۔
4۔سانپوں کا چوتھا خاندان
ہمالیائی پٹ وائپر (Gloydius Himalayan Pit Viper)
پٹ وائپرز کی پاکستان میں صرف ایک ہی قسم پائی جاتی ہے، جس کا تعلق Gloydius نسل سے ہے۔ یہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے پہاڑوں میں ہوتا ہے، اس کا سر جسم سے بڑا اور چپٹا ہوا ہوتا ہے۔یہ بھی انتہائی زہریلا سانپ ہوتا ہے۔یہ دنیا کا واحد سانپ ہے جو سطح سمندر سے 5000 میٹر کی بلندی پر بھی پایا گیا ہے۔
یہاں تک زہریلے سانپوں کا ذکر تھا، موضوع کی مناسبت سے ایک اور اہم سانپ کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ یہ سانپ بھی ہمارے ملک میں بہت پایا جاتا ہے، اور قصوں کہانیوں اور تمثیلات میں اس کا بکثرت ذکر ہوتا ہے۔
یہ سانپ پاکستان کے مندرجہ ذیل علاقوں میں پایا جاتا ہے:
پائتھن یا اژدھا python
سانپوں کی بات ہو اور پائتھن کی بات نہ ہو، یہ نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ پائتھون کا میرے موضوع سے تعلق نہیں کیونکہ یہ زہریلا سانپ نہیں لیکن پھر بھی کچھ ذکر کر لیتے ہیں۔
اپنی شکل اور سائز کی وجہ سے انسانوں کو سب سے زیادہ ڈر شاید پائتھن سے یا اژدھا سانپ سے لگتا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اژدھا زہریلہ نہیں ہوتا۔ البتہ چونکہ اس کا منہ، دانت اور سائز بڑا ہوتا ہے اس لیے یہ بہت زیادہ زخمی کرسکتا ہے، جیسے کوئی جانور کتا وغیرہ کاٹ لے۔
پائتھن بیس تیس فٹ تک لمبا اور کئی من وزنی ہو سکتا ہے، اس کا رنگ رسل وائپر کی طرح پیلا، گولڈن وغیرہ ہوتا ہے۔ اور بڑے بڑے جانوروں، کتا، بکری، کٹا وغیرہ کو سالم نگل لیتا ہے۔ یہ جب کسی کو پکڑتا ہے تو اس پر لپٹ کر سخت دباتا ہے۔ اس کے دانت اندر کی طرف مڑے ہوتے ہیں اس لیے جب کسی چیز کو پکڑ کر دانت گھسا دے تو کوئی اسے سے چھوٹ نہیں سکتا جب تک یہ خود نہ چھوڑے، کیونکہ اس کے دانت اندر کی طرف مڑے ہوتے ہیں اور پکڑی ہوئی چیز باہر کو زور لگاتی ہے تو دانت مزید اندر گھس جاتے ہیں۔
پاکستان میں پایا جانے والا پائتھن دراصل انڈین راک پائتھن ہے، جو سندھ کے علاقے سانگھڑ اور آزاد کشمیر کے علاقے کوٹلی اور بھمبر میں انڈیا کی سرحد پر کافی تعداد میں موجود ہے،اس کے علاوہ مانسہرہ ہزارہ کے علاقوں میں دیکھا گیا ہے۔
اس سانپ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی کھال سے مختلف چیزیں بنتی ہیں، اس لیے اب لوگوں نے اس سانپ کی فارمنگ بھی شروع کر دی ہے۔انڈیا میں تو اس کے انڈوں سے مشینی طریقے سے بچے نکال کر جنگل میں چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
دو مونہی سانپ
یہاں پر ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے تمام سانپ جنہیں دو مونہی کہا جاتا ہے، غیر زہریلے ہوتے ہیں اور بہت کم کاٹتے ہیں۔ دو مونہی یعنی جن کا سر اور دم کا سائز برابر ہوتا ہے اور یہ پتہ نہیں چلتا کہ سر کس طرف ہے، یعنی اس کی دونوں سائیڈ منہ ہی لگتی ہیں، ایسے سانپ عام طور پر چاکلیٹی رنگ کے اور سائز میں چھوٹے ہوتے ہیں ، شرمیلے ہوتے ہیں، زہریلے نہیں ہوتے۔ زہریلے نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ خود سے ہی ہاتھ سے پکڑ لیں، یاد رکھیں یہ کام ایک تجربہ کار آدمی کا ہوتا ہے، اور زہریلے اور غیرزہریلے سانپوں میں معمولی سا فرق ہوتا ہے، جسے آپ یہ تحریر پڑھ کر نہیں سیکھ سکتے اس لیے کسی بھی سانپ کو ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش نہ کریں، یہ معلومات صرف اس لیے ہیں کہ کوئی حادثہ ہو جائے تو بہت زیادہ خوفزدہ نہ ہوں بلکہ فورا ہسپتال جائیں۔