یہ نوجوان لندن کے ایک بین الاقوامی بینک میں معمولی سا کیشیر تھا‘
اس نے بینک کے ساتھ ایک ایسا فراڈ کیا جس کی وجہ سے وہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا فراڈیا ثابت ہوا‘
وہ کمپیوٹر کی مدد سے بینک کے لاکھوں کلائنٹس کے اکاؤنٹس سے ایک‘ ایک پینی نکالتا تھا
اور یہ رقم اپنی بہن کے اکاؤنٹ میں ڈال دیتا تھا،
وہ یہ کام پندرہ برس تک مسلسل کرتا رہا
یہاں تک کہ اس نے کلائنٹس کے اکاؤنٹس سے کئی ملین پونڈ چرا لیے،
آخر میں یہ شخص ایک تاجر کی شکایت پر پکڑا گیا‘
یہ تاجر کئی ماہ تک اپنی بینک سٹیٹ منٹ واچ کرتا رہا
اور اسے محسوس ہوا کہ اس کے اکاؤنٹ سے روزانہ ایک پینی کم ہو رہی ہے
چنانچہ وہ بینک منیجر کے پاس گیا‘ اسے اپنی سابق بینک اسٹیٹمنٹس دکھائیں
اور اس سے تفتیش کا مطالبہ کیا…
منیجر نے تاجر کو خبطی سمجھا ‘
اس نے قہقہہ لگایا اور دراز سے ایک پاؤنڈ نکالا
*اور تاجر کی ہتھیلی پر رکھ کر بولا
’’ یہ لیجئے میں نے آپ کا نقصان پورا کر دیا ‘‘
* تاجر ناراض ہو گیا‘*
*اس نے منیجر کو ڈانٹ کر کہا
’’میرے پاس دولت کی کمی نہیں‘
میں بس آپ لوگوں کو آپ کے سسٹم کی کمزوری بتانا چاہتا تھا‘‘
وہ اٹھا اور بینک سے نکل گیا،
* تاجر کے جانے کے بعد منیجر کو شکایت کی سنگینی کا اندازا ہوا‘*
اس نے تفتیش شروع کرائی تو شکایت درست نکلی
اور یوں یہ نوجوان پکڑا گیا…
یہ لندن کا فراڈ تھا لیکن ایک فراڈ پاکستان میں بھی ہو رہا ہے‘
اس فراڈ کا تعلق پیسے کے سکے سے جڑا ہے،
پاکستان کی کرنسی یکم اپریل 1948ء کو لانچ کی گئی تھی‘
اس کرنسی میں چھ سکے تھے‘
ان سکوں میں ایک روپے کا سکہ‘
اٹھنی‘ چونی‘ دوانی‘ اکنی‘ ادھنا
اور ایک پیسے کا سکہ شامل تھے‘
پیسے کے سکے کو پائی کہا جاتا تھا،
اس زمانے میں ایک روپیہ 16 آنے
اور 64 پیسوں کے برابر ہوتا تھا…
یہ سکے یکم جنوری 1961ء تک چلتے رہے‘
1961ء میں صدر ایوب خان نے ملک میں عشاریہ نظام نافذ کر دیا
جس کے بعد روپیہ سو پیسوں کا ہو گیا
جبکہ اٹھنی‘ چونی‘ دوانی اور پائی ختم ہو گئی
اور اس کی جگہ پچاس پیسے‘ پچیس پیسے‘ دس پیسے‘ پانچ پیسے
اور ایک پیسے کے سکے رائج ہو گئے…
یہ سکے جنرل ضیاء الحق کے دور تک چلتے رہے
لیکن بعد ازاں آہستہ آہستہ ختم ہوتے چلے گئے
یہاں تک کہ آج سب سے چھوٹا سکہ ایک روپے کا ہے
اور ہم نے پچھلے تیس برسوں سے
ایک پیسے‘ پانچ پیسے‘ دس پیسے اور پچیس پیسے کا کوئی سکہ نہیں دیکھا
کیوں…؟
کیونکہ اسٹیٹ بینک یہ سکے جاری ہی نہیں کر رہا
لیکن آپ حکومت کا کمال دیکھئے
حکومت جب بھی پیٹرول‘ گیس اور بجلی کی قیمت میں اضافہ کرتی ہے
تو اس میں روپوں کے ساتھ ساتھ پیسے ضرور شامل ہوتے ہیں
مثلاً آپ پیٹرول کے تازہ ترین اضافے ہی کو لے لیجئے‘
حکومت نے پٹرول کی قیمت میں 5 روپے 92 پیسے اضافہ کیا
جس کے بعد پٹرول کی قیمت 62 روپے 13 پیسے‘
ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت 62 روپے 65 پیسے
اور لائٹ ڈیزل کی قیمت 54 روپے 94 پیسے ہو گئی …
اب سوال یہ ہے کہ ملک میں پیسے کا تو سکہ ہی موجود نہیں ھے
لہٰذا جب کوئی شخص ایک لیٹر پیٹرول ڈلوائے گا تو کیا پمپ کا کیشیر اسے 87 پیسے واپس کرے گا…؟
نہیں وہ بالکل نہیں کرے گا
چنانچہ اسے لازماً 62 کی جگہ 63 روپے ادا کرنا پڑیں گے…
یہ زیادتی کیوں ہے…؟
اب آپ مزید دلچسپ صورتحال ملاحظہ کیجئے‘
پاکستان میں روزانہ 3 لاکھ 20 ہزار بیرل پیٹرول فروخت ہوتا ہے،
آپ اگراسے لیٹرز میں کیلکولیٹ کریں
تو یہ 5 کروڑ 8 لاکھ 80 ہزار لیٹرز بنتا ہے،
آپ اب اندازا کیجئے اگر پٹرول سپلائی کرنے والی کمپنیاں ہر لیٹر پر87 پیسےاڑاتی ہیں
تویہ کتنی رقم بنے گی…؟
یہ 4 کروڑ 42 لاکھ 65 ہزار روپے روزانہ بنتے ہیں جناب….
یہ رقم حتمی نہیں کیونکہ تمام لوگ پیٹرول نہیں ڈلواتے‘
کچھ صارفین ڈیزل اور مٹی کا تیل بھی خریدتے ہیں
اور زیادہ تر لوگ پانچ سے چالیس لیٹر پیٹرول خریدتے ہیں
اور بڑی حد تک یہ پیسے روپوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں
لیکن اس کے با وجود پیسوں کی ہیرا پھیری موجود رہتی ہے،
مجھے یقین ہے اگر کوئی معاشی ماہر اس ایشو پر تحقیق کرے ‘
وہ پیسوں کی اس ہیرا پھیری کو مہینوں‘
مہینوں کو برسوں
اور برسوں کو 30 سال سے ضرب دے
تو یہ اربوں روپے بن جائیں گے گویا ہماری سرکاری مشینری
30 برس سے چند خفیہ کمپنیوں کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچا رہی ہے
اور حکومت کو معلوم تک نہیں…
ہم اگر اس سوال کا جواب تلاش کریں
تو یہ پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا اسکینڈل ثابت ہوگا…
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کرپشن کا والیم
ساڑھے چار کروڑ روپے نہ ہو
لیکن اس کے با وجود یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا
کہ جب اسٹیٹ بینک پیسے کا سکہ جاری ہی نہیں کر رہا
تو حکومت کرنسی کو سکوں میں کیوں ماپ رہی ہے
اور ہم ’’راؤنڈ فگر‘‘ میں قیمتوں کا تعین کیوں کرتے ہیں…؟
ہم 62 روپے 13 پیسوں کو
62 روپے کر دیں یا پھر پورے 63 روپے کر دیں
تا کہ حکومت اور صارفین دونوں کو سہولت ہو جائے،
حکومت اگر ایسا نہیں کر رہی تو پھر اس میں یقیناً کوئی نہ کوئی ہیرا پھیری ضرور موجود ہے
کیونکہ ہماری حکومتوں کی تاریخ بتاتی ہے
ہماری بیورو کریسی کوئی ایسی غلطی نہیں دہراتی
جس میں اسے کوئی فائدہ نہ ہو…!!!
پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا جاری فراڈ