نوکری یا کاروبار۔۔ چند معروضات
تحریر بشارت حمید
سوشل میڈیا پر اور ذاتی ملاقاتوں میںکئی دوست روزگار کے متعلق بات کرتے ہیںکیا ہم کیا کریں کوئی جاب کی جائے یا کاروبار۔۔ جاب ڈھونڈنے جائیںتو ہر کمپنی یا ادارہ تجربہ مانگتا ہے اور فریش جاب تلاش کرنے والا اب تجربہ کہاںسے لائے جب تک وہ کوئی جاب شروع نہیںکرے گا تو تجربہ کیسے لے سکے گا۔ اسی طرحکاروبار کرنا ہے تو کس شعبے میںکیا جائے پھر اس کے لیے سرمایہ چاہیئے وہ کہاںسے لائیں۔۔ غرضدونوںشعبوںمیںایک نئے بندے کو مشکلات ہی مشکلات نظر آتی ہیںاور ان کے نتیجے میںوہ مایوس ہو کر بیٹھ رہتا ہے۔ اس کی سمجھ میںنہیںآتا کہ کیا کرے ۔۔
سب سے پہلے تو ہم نوکری کو ڈسکس کر لیں۔ ہمارے نظام تعلیم کا المیہ یہ ہے کہ یہ ڈگریاںتو بانٹرہا ہے لیکن عملی طور پر نوجوانوں کی تربیت اور انہیںمعاشرے میںکارآمد بنانے میںاس کا کردار صفر ہے۔ دوران تعلیم سٹوڈنٹ کو یہ کم ہی علم ہوتا ہے کہ وہ کیا کرے کونسی لائن اختیار کرے جو اسے مستقبل میںفائدہ دے سکے۔ عام طور پر بھیڑ چال کی ہی پیروی کرتے ہوئے جہاںسب جا رہے ہوتے ہیںاسی شعبے کا انتخاب کر لیا جاتا ہے جس کے نتیجے میںمارکیٹ کی ڈیمانڈ سے کہیںزیادہ ڈگری ہولڈرز نوکری کی تلاش میںمارے مارے پھرتے رہتے ہیں۔
پرائیویٹ سیکٹر میںمناسب نوکری کا مل جانا بذات خود کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لئے بھی سفارشیںڈھونڈنا پڑ جاتی ہیں پھر ادارے کی توقعات زیادہ ہوتی ہیںاور اکثر اوقات تنخواہ کم ہوتی ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے نوجوان کسی ٹیکنیکل سکِل کے حامل نہیںہوتے لیکن نوکری وہ چاہتے ہیںجو کم از کم تیس چالیس ہزار تنخواہ والی ہو۔ کم تنخواہ پر کام کرنے سے فارغ بیٹھ رہنا بہتر سمجھتے ہیں حالانکہ ہونا یہ چاہیئے کہ جو نوکری جس تنخواہ پر بھی مل رہی ہو وہ کر لی جائے اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ ایک تو بندہ مصروف ہو جاتا ہے دوسرا جہاںکام کریں گے وہاںدوسرے لوگوںسے تعلقات بننے لگیںگے اور مستقبل میںانہی تعلقات کی بنا پر بہت سے اچھے مواقع میسر آ جاتے ہیں۔
میںنے خود 2005 میںایک دفتر میںصرف 5 ہزار کی تنخواہ پر یہی سوچ کر نوکری کی تھی کہ یہ میرے آگے بڑھنے کا ذریعہ بنے گی حالانکہ تب دوسرے شہر رہنے کا میرا ذاتی خرچہ لگ بھگ 8 ہزار روپے تھا۔ میںنے یہ سوچا کہ 8 میںسے چلو 5 ہزار تو کم ہوئےاور ساتھ تجربہ فری میںمل جائے گا۔۔ اور پھر دو ماہ بعد ہی اسی دفتر سے مجھے آگے ملٹی نیشنل کمپنی میںجانے کا رستہ مل گیا جہاںمیں25 ہزار تنخواہ پر جاب لینے میںکامیاب رہا۔ اب آپ دیکھیںکہ اگر میں5 ہزار والی جاب یہ سوچ کر نہ کرتا کہ یہ تو میرے شایان شان ہی نہیںاور اتنی کم تنخواہ کو میںکیا کروںگا تو پھر مجھے آگے بڑھنے کا راستہ کبھی نہ مل پاتا۔
پاکستان کی سب سے بڑی سیلولر آپریٹر کمپنی میں تقریباً سوا گیارہ سال جاب کرنے کے بعد میںنے از خود جاب چھوڑ کر کاروبار کی لائن میںآنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے سے قبل جتنے دوستوںسے بھی مشورہ کیا شاید ہی کسی نے جاب چھوڑنے کا مشورہ دیا ہو۔۔ اکثر کی رائے یہی تھی کہ کچن چل رہا ہے چلتا رہنے دو۔۔ پریشانی ہو جائے گی ۔۔ کاروبار سیٹ نہ ہوا تو کیا بنے گا ۔۔ یہ اخراجات کہاںسے پورے کرو گے۔۔ لیکن اللہ پر بھروسہ کرکے میںنے جاب چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور الحمدللہ اس ڈھائی سال کے عرصے میںایک پل کے لئے بھی پچھتاوا نہیںہوا کہ جاب کیوںچھوڑی۔ کاروبار میںاونچ نیچ چلتی رہتی ہے لیکن بہرحال جاب سے ہزار درجے بہتر ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہر کام سے قبل مشورہ ضرور کریںلیکن ہر کسی سے بالکل نہیں بلکہ محدود سے لوگوںکے ساتھ جو علم و فہم رکھنے والے ہوںاس کے بعد پھر استخارہ خود کریںاور اللہ کے بھروسے پر جو اپنے دل میںآئے وہی کریں۔ مشورہ دینے والے نے بھی اپنے علم اور تجربے کی بنا پر مشورہ دینا ہوتا ہے ضروری نہیں کہ کسی شعبے میںایک بندہ ناکام ہو تو سارے اس میںناکام ہی ہوںگے اور اگر کوئی ایک کامیاب ہے تو باقی بھی سارے کامیاب ہی ہوں گے۔ یہ معاملات ہر بندے کے ساتھ مختلف ہوتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کاروبار کونسا کیا جائے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ جو فیلڈآپکا شوق ہو اس میںکریںان شاءاللہ آپ کو مزہ بھی آئے گا اور کاروبار آگے بھی تیزی سے بڑھے گا۔ کاروبار کو شروع کرنے سے قبل اس فیلڈمیںکسی جاننے والے کے پاس اپنا مستقبل کا پلان شئر کئے بغیر چھ آٹھ ماہ جاب ضرور کریںچاہے کم ترین تنخواہ پر ہی کرنی پڑے۔۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ کو مارکیٹ کا اچھی طرحاندازہ ہو جائے گا اور کسی حد تک لنکس بھی بن جائیںگے۔
اب کاروبار کرنا ہے تو اس کے لئے کچھ نہ کچھ پیسہ بھی درکار ہے جو ہر ایک کے پاس نہیںہوتا۔ اس کے لئے ایک بات ذہن میںرکھیںکہ بلندی پر پہنچنے کے لئے سیڑھی پر ایک ایک قدم رکھ کر ہی اوپر پہنچا جا سکتا ہے ایک دم سے بندہ جمپ لگائے گا تو منہ کے بل گر جائے گا۔ اپنے اردگرد جائزہ لیں اور کوئی اثاثہ بیچ کر یا کسی دوست سے قرض حسنہ لے کر چھوٹے پیمانے سے کام کا آغاز کریں۔سودی قرض سے مکمل پرہیز کریں اگر اس میں پھنس گئے تو پھر نکلنا بھی مشکل ہو جائے گا اور کام میںبرکت بھی نہیںرہے گی۔ یاد رکھیںانسان کے ذمے کوشش کرنا ہے رزق اللہ نے ہی دینا ہے۔ وہ چاہے تو آپکو ایک معمولی نظر آنے والے کام سے ہی بلندیوںتک پہنچا دے اور وہ چاہے تو ملوںفیکٹریوںوالوںکو کنگال کر کے رکھ دے۔ اللہ کے ساتھ تعلق ڈیویلپ کریںاپنے معاملات درست کرنے کی کوشش کریں اور اللہ کو اپنے کام میںپارٹنر بنائیں۔ اس سلسلے میں مرحوم جنید جمشید کا ایک آدھے گھنٹے کا لیکچر ہے وہ ضرور دیکھیںیوٹیوب پر موجود ہے اس سے بھی بہت رہنمائی ملتی ہے۔
پھر کام کوئی بھی شروع کریںاپنی نیت نیک رکھیںاور اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے کی نیت سے کام کریں۔ سارا نفع اپنی جیبوں میںبھرنے کی بجائے ایک مخصوص حصہ ہر ماہ اللہ کی مخلوق کے لئے بھی مختص کریں۔ اگر کوئی ملازم آپ کے پاس کام کر رہا ہے تو تنخواہ کے علاوہ بھی اسے گاہے کچھ نہ کچھ دیتے رہیں۔ ہم عام طور پر لوگوںسے دعا کا کہتے ہیںاس کی بجائے زیادہ موثر یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق کا خیال رکھیںاپنے وسائل لوگوںکے ساتھ شئر کریںاور انکی دعائیںلیں۔ دعا کروانے سے زیادہ دعا لینا زیادہ اثر رکھتا ہے۔ اگر آپ کوئی مال فروخت کرتے ہیں تو بیچا ہوا مال واپس لیتے وقت خوش دلی سے واپس لیںیہ بہت برکت والا عمل ہے اور کم ہی لوگ اس کی توفیق رکھتے ہیں۔
اپنے کاروبار کے ساتھ وابستہ ایسے لوگ جن کا رزق آپکے ہاتھوںسے ان تک پہنچتا ہے ان کو اپنے ساتھ جوڑے رکھیںکیا معلوم کس کے نصیب کی وجہ سے اللہ ہمیںبھی رزق دے رہا ہو۔ کاروبار میںسچائی اور دیانت داری پر سختی سے کاربند رہیں جھوٹ اور دھوکے کی دکان زیادہ دیر نہیںچل سکتی۔ کاروباری گڈ وِل بنانے میں کچھ وقت لگتا ہے لیکن جب ایک ریپیوٹ مارکیٹ میںبن جاتی ہے تو کسٹمرز پھر آنکھیںبند کرکے پورے اعتماد کے ساتھ آتے ہیں اور فری میںآپ کی مارکیٹنگ کرتے ہیں ۔۔امید ہے کہ ان گزارشات سے کسی نہ کسی حد تک احباب کو فائدہ ہو گا۔