نفاذ اسلام
غور طلب
غلبہ دین، اقامت دین یا اسلام کے نفاذ کے لئے سب سے پہلے تو مسالک پر لڑنے بھڑنے کو ختم کرنا ضروری ہے۔ عوام کو یہ حیرت انگیز خبر دینے کی ضرورت ہے کہ دیوبندی،بریلوی،اھلحدیث 95٪ پچانویں فیصد باتوں میں متفق ہیں۔ صرف پانچ فیصد یا اس سے بھی کم مسائل میں کچھ اختلاف ہے۔ اس بات کو علماء جانتے ہیں البتہ عوام کو علم نہیں، عوام سمجھتے ہیں یہ مسالک شاید الگ الگ دین ہیں۔ چنانچہ جن جن کو اس بات کا علم نہیں وہ فورا لڑنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اھل حدیث کے ساتھ تقلید اورسوائے نماز کے اور کوئی اختلاف نہیں۔ زکوہ میں کوئی اختلاف نہیں، روزے میں کوئی اختلاف نہیں، حج عمرہ میں کوئی اختلاف نہیں۔ واحد ایک نماز ہے اس میں رفع یدین،آمین،فاتحہ کا اختلاف ہے۔
چنانچہ صرف آمین اونچی یا آہستہ کہنے پر قتل تک ہوجاتے ہیں۔چنانچہ میں نے خود ایک ایسے شخص کی عیادت کی جس کی ٹانگیں صرف اس وجہ سے توڑ دی گئیں تھیں کہ اس نے اونچی آواز سے آمین کہہ دی تھی۔
دیوبندی بریلوی اختلاف کا معاملہ اس سے بھی عجیب ہے۔ ان دونوں کا کسی عبادت میں اختلاف نہیں۔کچھ چیزیں ہیں، کچھ رسومات ہیں جنہیں بریلوی حضرات عشق رسول میں کرتے ہیں اور دیوبندی کہتے ہیں یہ ٹھیک نہیں۔
جہاں تک معاملہ ہے مزارات کا جہاں کچھ شرکیہ افعال ہوتے ہیں، ان سے بریلوی علماء بری ہیں اور وقتا فوقتا اس کا اظہار تقریر وتحریر کی شکل میں کرتے رہتے ہیں۔ لیکن چونکہ مزارات وزارت داخلہ کے ذیلی ادارے اوقاف کے قبضہ میں اس لئے اس کی ساری ذمہ داری وزیر داخلہ پر عائد ہوتی ہے۔ چونکہ مزارات کو اس ڈھنگ سے چلانے میں حکومت کو دو فوائد حاصل ہوتے ہیں ایک کروڑوں کا چندہ اور دوسرا اختلاف ، یعنی لڑاو اور حکومت کرو۔ اس لئے حکومت کسی صورت یہ نہیں چاہتی کہ مزارات پر یہ شرک ختم ہو۔
چنانچہ عوام کو یہ بتانا ضروری ہے کہ پچانویں فیصد سے زیادہ باتوں میں اتفاق ہے ، جو تھوڑا سا معمولی اختلاف ہے بھی تو اس پر بات چیت جاری رہنی چاہیے، جھگڑا کرنا اور کفر کے فتوی لگانا مناسب نہیں۔
بات ہورہی تھی نفاذ اسلام کی۔ پہلا کام عوام میں شعور بیدار کرکے ایک دوسرے کے قریب لانا ہے۔ پھر ساتھ ساتھ دروس قرآن کے حلقے قائم کرکےلوگوں کو قرآن کے ساتھ جوڑنا اور قرآنی تعلیمات سے روشناس کرانا ہوگا۔لوگوں کو یہ شعور دینا ہوگا کہ وہ قرآن کو ترجمے کے ساتھ تلاوت کیا کریں۔جب لوگ قرآن کے ساتھ جڑیں گے ان کی سوچ بدلے گی، سوچ بدلنے سے نظریہ اور عقیدہ بدلے گا، عقیدہ بدلنے سے توقع اور امید بدلے گی، پھر اس سے رویہ بدلے گا، رویہ بدلنے سے ترجیحات بدلیں گیں اور پھر اس سے زندگیاں بدلیں گیں، زندگیاں بدلنے سے پورے معاشرے اور ملک میں بڑے پیمانے پر تبدیلی آئے گی۔اور یہی تبدیلی باطل نظام سے کشمکش پیدا کرے گی، یہ کشمکش بڑا ٹکراو پیدا کرسکتی ہے ، لیکن اس صورت میں بھی فتح حق کی ہوگی کیونکہ حق پاور میں ہوگا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ کشمکش کسی بڑے ٹکراو کے بغیر ہی تبدیلی لے آئے۔
خلاصہ کلام یہ کہ اس کام کی پہلی اینٹ اختلاف کو ختم کرنا ہے۔ یہ بات باطل قوتیں اچھی طرح جانتی ہیں چنانچہ وہ کسی صورت یہ نہیں چاہتے کہ اختلاف ختم ہو، ان کا مفاد اسی میں ہے کہ لوگ لڑتے رہیں اور ہم حکومت کرتے رہیں۔