نظام کی تبدیلی یا خلافت علی منہاج النبوة کیسے ممکن ہے۔
(سیدعبدالوہاب شیرازی)
اس وقت ملک خداد پاکستان میں بے شمار مذہبی اور سیاسی جماعتیں نظام کی تبدیلی کا دعویٰ لیے کام کررہی ہیں۔جن میں تحریک انصاف،ڈاکٹر طاہرالقادری، جماعت اسلامی، تنظیم اسلامی،جمعیت علمائے اسلام، تبلیغی جماعت وغیرہ وغیرہ سرفہرست ہیں۔قطع نظر اس کے کہ ان حضرات اور جماعتوں کے نزدیک نظام کی تبدیلی سے کیا مراد ہے لیکن اکثر وبیشتر ان جماعتوں کے قائدین خلافت راشدہ کا حوالہ دیتے رہتے ہیں، جس سے یہی پتا چلتا ہے کہ ان کے نزدیک تبدیلی سے مراد ایسی تبدیلی ہے جو ہمارے اس بوسیدہ نظام کو خلافت راشدہ جیسا یا اس کے قریب قریب بنا دے۔ لہٰذا میں اس تحریر میں اسی بات کا مختصر جائزہ لوں گا کہ تبدیلی کیا ہوتی ہے اور کیسے ممکن ہے۔؟
پہلی بات تو یہ سمجھ لیں کہ تبدیلی کے لئے ایک لفظ انقلاب بھی بولا جاتا ہے، اور یہ لفظ بھی ہرجماعت اور ہر لیڈر کی زبان پر اکثر وبیشتر سنا جاسکتا ہے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ انقلاب کسے کہتے ہیں؟ کیا انقلاب پولیس کے محکمے کو ٹھیک کرنے کا نام ہے؟ کیا انقلاب لاکھوں سکول بنانے کا نام ہے؟ کیا انقلاب کروڑوں درخت لگانے یا سڑکوں کا جال بچھانے اور موٹر وے کا نام ہے؟کیا انقلاب جمعے کی چھٹی بحال کرنے کا نام ہے؟ کیا انقلاب مدارس کی اسناد ہائرایجوکیشن سے ایم اے کے برابر کروانے کا نام ہے؟
جی نہیں ، ان میں سے کوئی بھی تبدیلی حقیقی انقلاب نہیں کہلاتی۔ حقیقی انقلاب وہی ہوتا ہے جس میں معاشرتی، معاشی یا سیاسی میدان میں ایسی بڑی تبدیلی لائی جائے کہ پہلے والا نظام مکمل طور پر ختم ہوکر اس کی جگہ نیا نظام آجائے۔ مثلا انقلاب فرانس جس میں لاکھوں لوگ قتل ہوئے اور اس کے نتیجے میں پورا کا پورا سیاسی نظام تبدیل ہوگیا، یعنی بادشاہت ختم ہوکر جمہوریت آگئی۔ اسی طرح انقلاب روس میں مکمل معاشی نظام تبدیل ہوا اور سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہوا۔
باالکل اسی طرح آج سے پندرہ سو سال قبل حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو انقلاب لائے تھے اس میں تینوں گوشے مکمل تبدیل ہوگئے تھے۔ یعنی وہ انقلاب معاشرتی، معاشی اور سیاسی تینوں میدانوں میں آیا تھا۔
اب آتے ہیں اس بات کی طرف جس کا حوالہ ہمارے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین اکثر وبیشتر اپنے خطابات میں دیتے رہتے ہیں، یعنی خلافت راشدہ جیسا نظام لانا۔ پہلے تو ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ خلافت کا مقصد کیا ہے؟ خلافت کا نظام کیوں لایا جائے؟
مقاصد خلافت:
1 ۔ اقامت دین:
مقاصد خلافت میں سے ایک مقصد اقامت دین ہے۔ یعنی وہ دین جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا تھا اور انہوں نے اس دین کو عرب میں قائم کرکے دکھایا تھا، اب اس دین کو دوبارہ اسی طرح قائم کرنامقاصد خلافت میں سے ایک مقصد ہے۔
2۔قوانین شریعت کا نفاذ:
خلافت کا دوسرا مقصد قوانین شریعت کا نفاظ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حدود وقصاص کے نفاذ کو فرض قرار دیا ہے، اور یہ فرض بغیرخلافت کے ادا نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا خلافت اس لئے بھی قائم کرنا ضروری ہے تاکہ حدود وقصاص جیسے معطل فرائض کی ادائیگی ہوسکے۔
3۔ غلبہ اسلام:
خلافت کا تیسرا مقصد غلبہ اسلام ہے۔ قرآن حکیم میں تین مقامات پر حضور ﷺ کا مقصد بعثت ہی غلبہ دین بیان ہوا ہے، چنانچہ حضور ﷺ نے عرب کی حد تک اپنی زندگی میں ہی اس مقصد کو پورا کردیا تھا اور باقی کام امت کے حوالے کرکے اس دنیا سے تشریف لے گئے تھے، اب اسلام کو غالب کرنے کے لئے نظام خلافت کا ہونا ضروری ہے۔
4۔ امت کی سیاست اور اجتماعیت:
خلافت کا چوتھا مقصد امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور اجتماعیت کو قائم رکھنا ہے۔ چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ نے تم پر خلیفہ بنایا ہے تاکہ اس کے ذریعے تمہارا اتحاد رہے اور تمہارا کلمہ(مرکزیت) قائم رہے۔
5۔نظام عبادات کا قیام
6۔ نظام احتساب کا قیام
7۔ نظام جہاد کا قیام
8۔ نظام اقتصاد کا قیام
9۔عدالتی نظام کا قیام
10۔ نظام تعلیم کا قیام
یہ چند ایک چیزیں مقاصد خلافت میں سے ہیں، ان کے حصول کے لئے نظام خلافت کا ہونا ضروری ہے۔بحیثیت مسلمان اور بحیثیت امت محمدی ہونے کے مندرجہ بالا تمام امور کا قیام نہایت ہی ضروری ہے، اور یہ تمام امور بغیر نظام خلافت کے ممکن نہیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب خلافت کی اتنی اہمیت ہے تو کیا مسلمانوں نے اس کے لئے کبھی کوشش نہیں کی؟ مسلمانوں نے ہردور میں خصوصا پچھلے دو سو سال میں بہت کوششیں کی ہیں، اور آج بھی بہت سی مذہبی اور سیاسی جماعتیں خلافت راشدہ کا نام لیتی رہتی ہیں لیکن کامیابی کسی کو نہیں ملی۔ اگر اس ناکامی کے اسباب پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کے نظام کو قائم کرنے کے لئے اب تک جتنی کوششیں ہوئی یا ہورہی ہیں ان کی ناکامی کے کچھ اسباب ہیں۔
مثلا
1۔ غیر شرعی اور غیر فطری طریقہ کار اختیار کرنا۔ مثلا انفرادی حیثیت میں حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانا۔کچھ افراد اور تنظیموں نے اپنے ہی حکمرانوں کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کرکے غیرفطری طریقہ کار اختیار کیا جس کا نتیجہ ناکامی کی شکل میں ظاہر ہوا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام جب تک مکہ میں دوسرے حکمرانوں کی رعایہ کے طور پر رہتے تھے اس وقت تک آپ کو مسلح جدوجہد کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، ہاں ان کے باطل عقائد، باطل نظریات اور باطل اعمال کا بھرپور رد کرنے کا حکم تھا لیکن ہاتھ اٹھانے کی قطعا اجازت نہیں تھی۔ جونہی آپ ہجرت کرکے مدینہ پہنچتے ہیں اور آپ کی حیثیت رعایہ سے بدل کر حکمران والی بنتی ہے تو فورا آپ مسلح جدوجہد شروع کردیتے ہیں۔
2۔غیروںکے بنائے ہوئے نظام (جمہوریت)کے تحت جدوجہد کرنا۔ یعنی یہ کیسے ممکن ہے جس شاخ پر آپ خود بیٹھے ہوں اسی کو آپ کاٹ بھی لیں؟ ایسا ناممکن ہے۔ نظام خلافت راشدہ کو قائم کرنے کا مطلب ہے مغربی نظام کو جڑسے اکھاڑ کر پھینکنا ، اور یہ کام خود جمہوریت تو ہر گز نہیں کرے گی۔ جمہوریت میں انتخابات ان لوگوں کو منتخب کرنے کے لئے ہوتے ہیں جو اس نظام کو پانچ سال تک چلائیں، الیکشن اس لئے نہیں ہوتے کہ آپ آکر کے اس کی جڑیں کاٹیں، اگر ایسا کریں گے تو اس کے رکھوالے آپ کو دو دن بھی نہیں چھوڑیں گے۔ تاریخ میں اس کی مثالیں موجود ہیں، آپ حماس۔اخوان المسلمون۔الجزائر کی ایف آئی ایس کو دیکھ سکتے ہیںیہ سب بھاری اکثریت سے جیت کر ایوانوں میں گئے پھر ان کے ساتھ کیا ہوا۔متحدہ مجلس عمل نے پانچ سال تک ایک صوبے میں حکومت کی اور اس نظام کے تحت نٹیو کی سپلائی لائن کی حفاظت بھی کرتی رہی۔
3۔ناکامی کا تیسرا سبب دین کے کسی ایک گوشے میں محنت کرناہے، جیسے صرف عبادات کے گوشے پر محنت کرنا۔صرف رفاہی اور تعلیمی سرگرمیوں پر اکتفاءکرنا۔مسجدیں اور مدرسے بنانا،اسلامی ویڈیوز بنانا، درس وتدریس کرنا، کتابیں لکھنا، مسلمانوں کے لئے رفاہی اور فلاحی سرگرمیاں سرانجام دینا بلاشبہ اجروثواب کے کام ہیں لیکن خلافت کا قیام صرف انہیں کاموں سے ممکن نہیں۔
نظام کی تبدیلی یا قیام خلافت کے لئے ضروری چیزیں:
نظام خلافت کے قیام یا نظام کی تبدیلی کے چند ایک چیزیں نہایت ہی ضروری ہیں جن سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا مثلا
1۔ منہج نبوی
نظام کی تبدیلی کے لئے سب اہم اور سب سے ضروری چیز وہ منہج اور طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے جواللہ تعالیٰ نے بتایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا ۔
٭….رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں ایک دفعہ اسلامی ریاست قائم کی ….جو کہ مکہ میں تیرہ سال کی جدوجہد کے نتیجے میں مدینہ میں قائم ہوئی تھی۔
٭….اس کے بعد آپ ﷺ خلفائے راشدین اور دیگر خلفاءنے اس ریاست کو دعوت وجہاد سے پھیلایا۔
٭….یہ ریاست صرف ایک بار قائم ہوئی تھی لہٰذا جو لوگ اس خلافت کی واپسی چاہتے ہیں انہیں وہی طریقہ اختیار کرنا ہوگا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقبل کے بارے پیشن گوئی کرتے ہوئے فرمایا تھا:
تکونُ النُبوةُ فیکم ماشاءاللہ اَن تکونَ، ثم یَرفَعُھا اذا شاءاَن یرفعَھا، ثم تکون خلافة علی منہاج النبوة، فَتکونُ ماشاءاللہ اَن تکونَ، ثم یرفعُھا اذا شاءان یرفعَھا، ثم تکونُ مُلکًا عَاضًّا، فیکون ماشاءاللہ ان یکون، ثم یرفعُھا اذا شاءان یرفعھا، ثم تکونُ مُلکًا جَبرِیَّةً، فتکونُ ماشائاللہ ان تکونَ، ثم یرفعُھا اذاشاءان یرفعھا، ثم تکونُ خلافة علی منہاج النبوة،ثم سکت۔ (مسند احمد)
آخری الفاظ ہیں: اس کے بعد پھر تم میں نبوی طریقے پر خلافت قائم ہوگی ۔ علی منہاج النبوة کا ایک مطلب یہ ہے کہ نبوی طرز پر خلافت ہوگی، اور ایک مطلب ہے اسی نبوی طریقے سے خلافت قائم ہوگی جس طریقے پر نبی نے قائم کی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے نبوی طریقہ کیا ہے؟
حضور ﷺکو جب نبوت ملی تو آپ نے
(1) سب سے پہلے اس دین کی طرف لوگوں کو دعوت دی۔
(2) جن لوگوں نے اس دعوت کو قبول کیا آپ نے ان کو بھرپور طریقے سے منظم کیا، انہیں آپس میں جوڑا اور ایک لڑی میں پرو دیا۔
(3) پھر آپ نے ان کی روحانی تربیت کی۔ جسمانی تربیت کرنا اس وقت کا عام معمول اور رواج ہی تھا، ہر شخص تیر تلوار اور نیزے کا استعمال جانتا تھا۔
(4) دعوت کا کام بڑے پیمانے پر بڑھادیا جس کے نتیجے میں ٹکراو شروع ہوا اور جواب میں ظلم وستم ہونے لگا، لیکن آپ نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، ظلم برداشت کیالیکن دعوت سے خاموشی نہیں اختیار کی۔
(5)آپ کی دعوت کے نتیجے میں آپ کو مدینہ میں ایک ٹھکانہ میسر آگیا آپ وہاں تشریف لے گئے چند مہینے تک اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے بعد آپ نے اقدام کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ مکے کی حکومت پر معاشی ضرب لگانے کے لئے ان کے تجارتی قافلوں پر حملے شروع ہوئے اور باالاخر مسلح تصادم شروع ہوگیا اور پھر صرف آٹھ سال بعد مکہ بھی فتح ہوگیا۔
خلاصہ کلام یہ کہ ہمیں نظام کی تبدیلی کے لئے اسی طرح منہج نبوی کو اختیار کرنا ہوگا۔
2۔ضرورت جماعت
نظام کی تبدیلی کے لئے دوسری نہایت ہی اہم چیز ”جماعت“ ہے۔ یعنی یہ کام کسی ایک آدمی کے کرنے کا نہیں بلکہ اس کے لئے ایک بھرپور اور منظم جماعت کا ہونا ضروری ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر یامرون باالمعروف وینھون عن المنکر
٭….رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظام کی تبدیلی کا کام صحابہ کرام کی جماعت کے ساتھ مل کر کیا۔
٭….یہ جدجہد باریک بینی اور منصوبہ بندی کا تقاضا کرتی ہے، جسے ہمیں رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق کرنا ضروری ہے۔
3۔بھرپور سیاسی تحریک
نظام کی تبدیلی کے لئے تیسری نہایت ہی اہم چیز باطل عقائد،نظریات، اور اعمال کو بے نقاب کرنے کے لئے بھرپور سیاسی تحریک چلانا ضروری ہے۔
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت ملنے کے بعد تین سال تک خفیہ دعوت کے ذریعے ایک جماعت کی تشکیل فرمائی اور پھر چوتھے سال بھرپور تحریک شروع کردی۔
- آپ ﷺ نے مکہ کے لیڈروں، حکمرانوں اور ان کے باطل نظریات کو چیلنج کیا۔
- آپ ﷺ نے ان کے سردار ”ابوالحکم“ (فیصلوں کا باپ) کو ابوجہل قرار دیا۔
- آپ ﷺ نے ان کے دوسرے سردار ”ابولہب“ کے بارے کھل کر سورہ لہب بیان کی کہ ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور وہ نامراد ہوگیا۔
- آپ ﷺ نے ان کے ایک تیسرے سردار ”ولید بن مغیرہ“ کی کھل کر مذمت کی اور سورہ القلم کی آیات پڑھ پڑھ کر سنائیں:
زیادہ قسمیں کھانے والا۔بے وقار۔ کمینہ۔ عیب گو۔ چغل خور۔ بھلائی سے روکنے والا۔ حد سے بڑھ جانے والا گنہگار۔گردن کش اور بے نسب۔ - اسی طرح دیگر سرداروں اور حکمرانوں میں پائی جانے والی خرابیوں کو کھل کربیان کیا۔
- مکہ میں ہونے والی یہ شدید جدوجہد اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ہم خود کو صرف اپنے ذاتی اوصاف کو درست کرنے تک محدود نہیں کرسکتے، بلکہ ہمیں معاشرے میں پائی جانے والی خرابیوں اور باطل نظریات کو کھل کر چیلنج کرنا ہوگا، صرف امرباالمعروف سے کام نہیں چلے گا بلکہ ہمیں بھرپور طریقے سے نہی عن المنکر بھی کرنا ہوگا۔
- حضورﷺ نے ان کے باطل معبودوں کا کھل کر رد بیان کیا۔ جس کا ذکر مکی سورتوں میں جابجا موجود ہے۔
- آپ ﷺ نے ان کے غلط اعمال کا بھی کھل کر رد بیان کیا۔ جیسے: (ویل للمطففین، الذین اذاکتالو علی الناس یستوفون….الخ) ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے ہلاکت ہے……..الخ
آپ ﷺ نے کعبہ کے ننگے طواف ، بچیوں کو زندہ درگور کرنا، غلاموں پر ظلم وستم،اور دیگربرائیوں کے خلاف آواز بلند کی۔
آج ہمیں بھی باالکل اسی طرح ”سیکولرازم، لبرل ازم، الحاد، نام نہاد مساوات،سرمایہ دارانہ نظام، مغربی عدالتی نظام، معاشی نظام، اور سیاسی نظام کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی۔
4۔دعوت اور تحریک
٭….حضور ﷺ نے اس مقصد کی تکمیل کے لئے عوام کے اندر بھرپور دعوتی کام کیا۔ اور عام وخاص ہر ایک کو اس مقدس جماعت میں شمولیت کی دعوت دی۔یہ دعوت آپ نے خفیہ بھی دی اور اعلانیہ بھی۔ گلی محلے کی سطح پر بھی دی اور بازاروں، میلوں اور موسم حج کے موقع پر بھی دی۔مکہ میں بھی دی اور مکہ سے باہر دوسرے قبائل کو بھی دی۔یہاں تک کہ مدینہ کے کچھ لوگوں نے اسلام قبول کیا اور آپ کو اسلامی ریاست کی بنیاد رکھنے کا موقع ہاتھ آیا۔ الغرض یہ چار کام
(1۔منہج نبوی۔2۔جماعت کا قیام۔3۔سیاسی جدوجہد۔4۔ بھرپور دعوت اور تحریک) کرکے ہی ہم نظام میں وہ تبدیلی لاسکتے ہیں جوہمیں خلافت راشدہ کے نظام کے قیام کے قریب کردے۔