آہ! مولانا عبد الوحید ہزاروی رحمہ اللہ
میرا رنگ روپ بگڑ گیا
میرا یار مجھ سے بچھڑ گیا
آج جامعہ محمدیہ اسلام آباد کے دوسرے ہزاروی رح کا جنازہ اٹھا،،شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد القیوم ہزاروی رح کے بعد حضرت مولانا عبد الوحید ہزاروی رحمہ اللہ آنکھیں کھلنے سے لے کر لحد میں اترنے تک قرآن اور قرآن پہ نظریں جمی اور لگی رہیں۔
ابھی بالی عمر تھی کہ بچے کو اسلام آباد کی سب سے قدیمی درسگاہ،،مدرسہ شاہ فیصل جی سکس اسلام آباد میں حفظ کے بٹھا دیا گیا،یہاں حافظ عبد الغفار صاحب سے حفظ مکمل کیا،اسی مدرسہ سے حفظ و تجوید کی تکمیل کے بعد جامعہ محمدیہ اسلام آباد میں درجہ سابعہ تک پڑھا،اور دورہ حدیث جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی سے حضرت اقدس مولانا سلیم اللہ خاں صاحب رح سے سن 2000ء میں کیا،2001ء(1421ھ)سے21دسمبر 2024ء( 18 جمادی الاُخرٰى 1446ھجری، بروز ہفتہ،6پوہ 2081ب)تک جامعہ محمدیہ اسلام آباد میں ہی تدریس کی۔
مدارس میں چونکہ تدریسی ماہ وسال ھجری کیلنڈر کے حساب سے ترتیب دیے جاتے ہیں،اس لحاظ سے 1421ھ سے 1446ھ۔تک 26سال تدریس کی،کل عمر تقریباً ساڑھے انچاس سال پائی،4سال حفظ و تجوید،8 سال درس نظامی،26 سال تدریس ۔۔باقی بس گھر میں آنکھ کھولی اور طوطلی بولی بولی۔۔
24سال کا عرصہ ہماری رفاقت کا اکٹھے گزرا،دکھ سکھ کے ساتھی،محفلوں مجلسوں کے ندیم،سفرو حضر کے رفیق،مشکل اور آڑے وقتوں کےمہربان و انیس،مجلسی قہقہوں سے لے کرتنہائیوں کے رازوں تک کے رازداں ، مشاورتیں،مجلسیں،نگرانیاں،ڈیوٹیاں۔۔کیاکیا آنکھوں سے کِرکِر کر گزر رہا ہے:
کچھ یادیں،کچھ باتیں،کچھ پرانی ملاقاتیں
بہت کچھ یاد آتاہے اک ان کے یاد آنے سے
پارسال درجہ خامسہ میں ہزاروی رح صاحب کے بعد راقم کا پیریڈ تھا،روزانہ سرسری ملاقات ہوتی،میں ان کے شوگر کی وجہ سے خراب پاؤں کا اور شوگر کا حال دریافت کرتا،بس ہشاش بشاش،الحمدللہ!کہتے اور مخصوص انداز میں پوچھتے!کیا حال مفتی صاحب!کھبی ہلکا پھلکا لطیفہ بھی ارشاد ہوتا۔
لطائف وظرائف آپ پہ بس تھے،موقع محل کے اعتبار سے کوئی نہ کوئی لطیفہ ڈھونڈ لاتے،کوئی محفل، کوئی مجلس آپ کے بغیر خوشگوار نہ ہوتی،ہزاروی صاحب رح نہ ہوتے تو سب پوچھتے کہ آج کہاں گئے؟
اساتذہ کی کوئی سی بھی مجلس ہوتی،تھوڑی تھوڑی دیر بعد کوئی نہ کوئی لطیفہ ارشاد فرماکر محفل کو کشتِ زعفران بنا دیتے،لطیفوں کی گویا پٹاری تھے،اکثر مولانا انعام اللہ صاحب حفظہ اللہ فرماتے!جی ہزاروی صاحب:ہزاروی صاحب انتہائی سنجیدگی سے سٹارٹ لیتے ہوئے فرماتے:
،،وہ ایک آدمی تھاناں۔۔۔۔،،
لطیفہ ابھی شروع بھی نہیں ہوتا تھا کہ اساتذہ کی ہنسی چھوٹ جاتی،پھر سب کو ہنسا کر خود چپ ہوجاتے۔
ہزاروی صاحب رح اور لطائف گویا ہم زلف تھے،ان کا چہرہ دیکھ کر ہی ہنسی آجاتی تھی،خوش طبعی اور ظرافت کا استعارہ بن چکے تھے،سفر میں ،اساتذہ کے ٹرپ میں حتی کہ سفر حرم میں بھی ان کی دل لگی جاری رہتی،کھبی چلتے چلتے کوئی شرارتی سا چٹکلہ چھوڑ،ہنسا ہنسا کر،،دُہرا،،کردیتے،ایسے چٹکلوں کوہم نے ،،پھلجڑی،،کانام دیا ہوا تھا۔
سفر حرم کے شیدائی تھے،نمازفجر کےبعد طلبہ کرام اجتماعی طور پر سورہ یس کی تلاوت کرتےہیں،اور اپنی منزل کی دہرائی کرتے ہیں،ان کی حاضری لینا اور نگرانی ہزاروی صاحب رح کے ذمہ تھی،اور آخر میں دلسوزی سے دعا بھی کراتے،دعا کا یہ جملہ ان کی دعا کا ،،جزو لاینفک ،،تھا:
،، اللہ تعالیٰ ہم سب کو حرمین شریفین کی حاضری نصیب فرما اور باربار نصیب فرما،،۔
ایک حاضری کے بعد دوسری حاضری کے لئے بےتاب وتیار رہتے،اورفرماتے تھے کہ:
،،حرم پہنچ کر ہی اپنے رب سے اگلی بار آنے کےلئے بکنگ کرواتا ہوں،،۔
واپسی پہ اہتمام کے ساتھ کھجوریں اور آب زمزم گھر بھیجتے۔
ایک بار حج کیا اور 2013 ء سے ہرسال مسلسل عمرے کررہے تھے،سوائے کرونا کے ایک سال کے۔ابھی ایک ماہ قبل نومبر میں عمرہ سے واپسی ہوئی،گناہ دھلوا کے آگئے،وفات سے پہلے تمام اساتذہ، طلباء اورفقاء سے معافی مانگ کر حقوق العباد سے فارغ ہوکر رب کے حضور پاک صاف پیش ہو گئے۔
خطابت کاستھرا ذوق قدرت نے عطاکیا تھا،خوبصورت انداز ،نپے تلے الفاظ،لہجے کازیروبم،ہر موضوع پہ بولتے لیکن سیرت پہ خوبصورت بولتے،سیرت بیان کرتے
ہوئے اس بچی کا واقعہ بڑی دلسوزی سے بیان کرتے جسے اس کا والد زندہ درگور کررہا تھا،گڑھا کھود رہا تھا،وہ پسینہ صاف کررہی تھی،پھر وہ چیختی رہی اور کہتی رہی کہ ابو: مجھے کیوں دفن کررہے ہیں؟،،واذا الموودۃ سئلت،،پھر
خود بھی روتے اور مجمع کو بھی رلاتے۔۔
مفتی اکرام صاحب اور دیگراساتذہ کرام ہزاروی صاحب رح کو اکثر چھیڑتے کہ بیان میں بچی کا واقعہ ضرور بیان کیا ہوگا۔۔
ہزاروی صاحب کےپیریڈ سےطلبا کرام خوش رہتے تھے،آپ پڑھاتے بھی تھے، ہنساتے بھی تھے،اور طلباء کو کھلاتےپلاتے بھی تھے۔
کئی سالوں سے آپ مسلسل تفسیر قرآن کریم پڑھا رہے تھے،طلباء کرام کے فیورٹ استاذ تھے،کل جب میرے بیٹے ،،محمد،،نے ہزاروی صاحب رح کی وفات کی خبر سنی تو بے طرح رودیااور کہا کہ ہزاروی صاحب رح ہمیں منطق پڑھاتے تھے،ایک بار پوری کلاس نے سبق نہیں سنایا تو بھی آپ نے کسی کو نہیں مارا،بلکہ سمجھایا،ہمارے ساتھ بہت شفیق تھے،آپ کی حاضری بھی پوری ہوتی،طلباء کرام بھی مطمئن ہوتے،کتابیں وقت پہ مکمل ہوتیں رزلٹ بھی بہترین
آتا،لیکن افسوس کہ 26سالوں میں یاروں نے آپ کاتدریسی مستوی رجہ خامسہ سے آگے نہ بڑھایا گیا۔
مرض الوفات
شوگر عرصہ سے تھی، پچھلے دو سال سے زیادہ ہوگئی تھی،لیکن میٹھے سے احتیاط نہیں کرتے تھے،منع کرتے کرتے چائے میں چینی ڈال دیتے،اور باقاعدگی سے شوگر کا ٹیسٹ بھی نہیں کراتے تھے،ڈرتے رہتے کہ کوئی بیماری نہ نکل آئے، شوگر نے اندر سے کھا کر کھوکھلا کردیاتھا،گردے،پھیپھڑے بالکل ختم کردیئے،ڈاکٹروں نے وفات سے ایک دن قبل ٹانگ کاٹنے کا کہا،اس میں پیپ پڑ گئی،لیکن دوسرے دن دوسری ٹانگ کی بھی یہی صورت حال تھی۔
ہزاروی صاحب کواپنی موت کا یقین ہوچکا تھا،ابھی کچھ عرصہ قبل مولانا عبد المالک صاحب کے ساتھ اپنے والدین کی قبور پہ گئے اس کے ساتھ بچی ہوئی جگہ کے بارہ میں کہنے لگے کہ یہاں میری قبر بنے گی،اس پہ مولانا عبد المالک صاحب نے کہا کہ:استاذ جی :اللہ تعالیٰ آپ کو عافیت کے ساتھ لمبی زندگی عطا فرمائے۔
وفات سے 20منٹس پہلے
وفات سے 20منٹس پہلے تقریباً 35 اساتذہ اور طلباء آپ کے پاس جمع تھے،ان کے سامنے کہا کہ میں تمام اساتذہ اور طلباءسے معافی مانگتا ہوں کہ مجھے معاف کردیں،اور اپنی بخشش کے لئےدعا کی درخواست کی،اسی اثناءمیں حضرت مہتمم صاحب تشریف لائے ان سے بھی معانی مانگی۔
پھر خود ہی یہ حدیث مبارک پڑھی:
مَنْ كان آخِرُ كلامهِ: (لَا إِلَهَ إِلا الله) دَخلَ الْجَنَّة”(سنن ابی داؤد،رقم الحدیث:3116)
پھر تمام حاضرین کے سامنے کلمہ طیبہ پڑھا،اور سب حاضرین سے فرمایا کہ میرے ایمان کے گواہ رہنا،کتنی عظیم سعادت ہے،اس کا اندازہ عظیم محدث امام ابو زرعہ رازی رح کی زندگی کےبالکل آخری لمحات سے لگایا جا سکتا ہے:
مجھے یہ واقعہ یہاں ٹوٹ کر یادآرہاہے:
محدث ابو زرعہ رازی رح جن کو چھ لاکھ احادیث زبانی یاد تھیں، ایک لاکھ تو سورہ اخلاص کی طرح یاد تھیں،ان کی زندگی کی آخری سانسوں کے وقت ان کےپاس، وقت کے عظیم محدثین کی ایک جماعت تھی.اس جماعت کوشرم آ رہی تھی کہ کیسےاتنے عظیم امام اور محدث کو کلمہ تلقین کریں کہ لاالہ الا اللہ پڑھیں،ان محدثین نے حضرت کے سامنےآپس میں حدیث کا تکرار شروع کر دیا.
محمد بن مسلم نے کہا کہ مجھےضحاک نے بیان کیا،ان سے مخلد بن عبد الحمید نے بیان کیاان سے صالح نے بیان کیا…..مگر آگے حدیث کا متن پڑھنے سے رک گئے،امام ابو حاتم رازی رح نے بھی اسی طرح سند پڑھی مگر حدیث کے الفاظ جان بوجھ کر چھوڑ دئیے.
اس عاشق حدیث نے جب دیکھا کہ یہ صرف سند پڑھ رہے ہیں متن نہیں توفوراً حدیث پڑھنا شروع کی،زندگی کے آخری منٹ نہیں بلکہ سیکنڈ باقی تھے .آخری سانس بھی حدیث کے لیے وقف کر دئیے.
محدث ابو زرعہ رح نے ان لمحوں میں حدیث پڑھنا شروع کی.
حدثنا بندار قال حدثنا ابو عاصم قال حدثنا عبد الحمید بن جعفر عن صالح بن ابی غریب عن کثیر بن مرہ الحضرمی عن معاذ بن جبل قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :
مَنْ كان آخِرُ كلامهِ: (لَا إِلَهَ إِلا الله) دَخلَ الْجَنَّة”.
جس کاآخری لفظ لا الہ الا اللہ ہوگا.وہ جنت میں داخل ہوگا.
یہ آخری الفاظ کہے اوراس سودوزیاں سے پُر عالم سے گزرگئے،،۔
ہزاروی صاحب رح مسلسل اور کثرت سے کلمہ طیبہ اور استغفار کا ورد کرتے رہے،آخری وقت میں جب آئی سی یو میں لے جارہے تھے تواسم ذاتی باری تعالیٰ ،،اللہ اللہ،،ورد زباں تھا،ڈاکٹروں نے جب گردن کے قریب نالی لگائی تو آخری بار دوبار اللہ اللہ کہا،پھر زبان نے حرکت نہ کی،یہی دو آخری مبارک کلمات زبان مبارک سے ادا ہوئے،اور راہی سفر آخرت ہوگئے۔
اب کیا ستائیں گی ہمیں دوراں کی کلفتیں
اب افسانہ سود و زیاں سے گزر گئے
کل بروز ہفتہ جامعہ محمدیہ کے باہر گراؤنڈ میں جنازہ ہوا اور آج 2 بجے شنکیاری میں جنازہ ہوگا۔۔۔باقی اگلی قسط میں۔۔۔