معیشت اور ہمارا یاجوج ماجوج
سینیٹر مشتاق احمد خان کے سوال پر حکومت کا جواب پڑھا کہ سرکاری اداروں کے 189000 ملازمین نے صرف اس ایک سال میں 8ارب 19 کروڑ کی بجلی مفت استعمال کی تو مجھے محمد صالح عباد کی کتاب ’ سلطنت عثمانیہ کا زوال ‘ یاد آ گئی۔ کتاب کے ابتدائیے میں اس زوال کے اسباب بیان کرتے ہوئے ایک جگہ پر و ہ لکھتے ہیں کہ اس سلطنت کو اس کی افسر شاہی کا یاجوج ماجوج کھا گیا۔
صالح عباد کے مطابق زوال کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ دربار شاہی اور اس سے جڑی اشرافیہ کے غیر معمولی اخراجات تھے۔ افسر شاہی کی تنخواہیں ، معاوضے اور مراعات اتنی بڑھ چکی تھیں کہ ریاست ان کے بوجھ تلے دبتی چلی گئی۔ یہ افسر شاہی نا اہل اور کرپٹ ہو چکی تھی۔ اسکی زیادہ توجہ منصوبوں اور اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے کی بجائے اس میں سے اپنے معاشی امکانات پیدا کرنے پر صرف ہوتی ہے۔
صالح عباد لکھتے ہیں کہ یہ یاجوج ماجوج کا لشکر تھا ، وسائل چاٹتا چلا گیا اور بحران سے دوچار ریاست کے لئے ممکن نہ رہا اس لشکر کا پیٹ بھر سکے۔
یعنی وہی ہوا جو ہمارے ہاں ہو تا رہا ہے۔قرض کا پہاڑ کھڑا ہو گیا ہے، ہر قسم کی بالادست اشرافیہ مزے میں ہے، غیر معمولی تنخواہیں ہیں، پلاٹ ہیں، ہوش ربا مراعات ہیں لیکن عوام کو ہر پہر پیاس بجھانے کے لیے اپنا کنواں خود کھودنا پڑتا ہے۔ اسے معلوم نہیں اربوں ڈالر کا یہ قرض کہاں سے آیا اور کہاں گیا۔
بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ قرض ملتے ہی عوام کے لیے بجلی قریب پچاس روپے فی یونٹ کر دی گئی اور فکری افلاس کا یہ عالم ہے کہ ریڈیو کو چلانے کے لیے بجلی کے بل میں پندرہ روپے کا ٹیکس ڈال دیا گیا لیکن افسر شاہی کی مراعات کم کرنے کا کوئی سوچ ہی نہیں رہا۔
چار پیسے کشکول میں آتے ہی کروڑوں کی مالیت سے گاڑیاں خرید کر اسسٹنٹ کمشنروں کو دی جا رہی ہیں جن کی اہلیت یہ ہے کہ سبزیوں کے ریٹ ان کے بس میں ہیں نہ پٹرول پمپوں کے پیمانے پورے ہیں۔ بس مراعات ہیں اور افسر شاہی ہے۔
سلطنت عثمانیہ
کبھی کبھی تو باقاعدہ خوف آتا ہے کہ کیا ہم بھی اپنے ساتھ وہی کر رہے ہیں جو سلطنت عثمانیہ کے ساتھ ہوا۔ قرض لے لے کر اور بے رحمی سے کھا کھا کرایک وقت آیا کہ سلطنت عثمانیہ کا دیوالیہ نکل گیا۔ قرض کا پہاڑ کھڑا تھا لیکن اس قرض سے سلطنت میں ایسا کچھ بھی تیار نہیں کیا گیا تھا جس سے اتنا زر مبادلہ حاصل ہو پاتا کہ قرض کی ادائیگی ہی ہوتی رہتی۔ چنانچہ 1875میں’فرمان رمضان‘ جاری کیا گیا اور دنیا کو بتا دیا گیا کہ سلطنت عثمانیہ کے پاس آپ کا قرض ادا کرنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔ وہ دیوالیہ ہو گئی ہے۔
سلطنت کا جغرافیائی سقوط تو بعد میں جا کر ہوا لیکن اس کی معاشی خود مختاری کا خاتمہ اس فرمان رمضان کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔( آج میرے جیسا آدمی بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ ہم نے پاکستان میں جو اتنا قرض کا پہاڑ کھڑا کر لیا ہے تو یہ قرض لگا کہاں؟ کس نے کھایا؟ )
جب نوبت یہاں تک آن پہنچی تو جنہوں نے قرض دے رکھے تھے وہ اکٹھے ہو گئے کہ اب سلطنت عثمانیہ کی معاشی پالیسیاں ہم ترتیب دیں گے۔ اب اہم فیصلے ہم کریں گے۔ طے پایا کہ اب ٹیکس کب کہاں اور کتنا لگنا ہے اس کا فیصلہ سلطنت عثمانیہ کے بادشاہ سلامت نہیں کریں گے بلکہ اس کا فیصلہ وہ کریں گے جنہوں نے سلطنت عثمانیہ کو قرض دے رکھا ہے۔
چنانچہ چند ہی سال بعد 1881 میں مجبوری کے عالم میں سلطنت عثمانیہ نے معاشی سرنڈر کی دستاویز پر دستخط کیے اور ’فرمان محرم‘ جاری کر دیا گیا۔
فرمان محرم گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اب سلطنت عثمانیہ کے ’سٹیٹ بنک‘ پر سلطنت کا کوئی کنٹرول نہیں رہا۔ اب مالیاتی بندوبست کو عالمی مالیاتی قوتیں براہ راست دیکھیں گی۔ انہی کا عملہ آئے گا۔ وہی پالیسیاں بنائیں گے۔ وہی ٹیکس کا تعین کریں گے،وہی ٹیکس وصول کریں گے۔( آج ہمارا سٹیٹ بنک خود مختار ہو چکا ہے ، ہماری پالیسیاں ہم نہیں بنا رہے۔ ہمارا وزیر اعظم کہتا ہے پٹرول بجلی اس لیے مہنگے کرنے پڑے کہ آئی ایم ایف نے کہا تھا۔ کب کہاں کتنا ٹیکس لگنا ہے اس کا فیصلہ آئی ایم ایف کر رہا ہے)
سلطنت عثمانیہ کی ’وزارت خزانہ‘ اور سارا مالیاتی ڈھانچہ بے بس ہو گیا۔ یورپی اہلکاروں نے ’ریاست کے اندر ریاست‘ بنا لی۔ بندرگاہوں سے لے کر بازاروں تک ہر طرف انہی کی پالیسیاں چل رہی تھیں۔ ایک متوازی معاشی بیوروکریسی کھڑی کر دی گئی۔کوئی ترقیاتی کام بھی ہوتا تو انہی کی اجازت اور تعاون سے ہوتا۔ انہوں نے ٹیکسوں کا انبار لگا کر رہی سہی مقامی معیشت کا بھی کباڑا کر دیا۔
سلطنت عثمانیہ کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہی یہاں برصغیر میں مغلوں کے ساتھ ہو چکا تھا۔ طریق واردات مختلف تھا، واردات ایک ہی تھی۔ دونوں سلطنتوں کی جغرافیائی خود مختاری سے پہلے ان کی معاشی خود مختاری پر حملہ کیا گیا۔جب معاشی خود مختاری نہ رہی تو پھر جغرافیائی خود مختاری بھی نہ رہی۔ مغلیہ سلطنت کا بھی خاتمہ ہوا اور سلطنت عثمانیہ بھی ختم ہو گئی۔
سلطنت عثمانیہ کے زوال
سلطنت عثمانیہ کے زوال کے جو اسباب اہل یورپ نے بیان کیے بڑے دلچسپ ہیں۔ چند نکات کا خلاصہ بیان کیا جائے تو کچھ یوں ہو گا:
اول: غیر معمولی قرض لیا گیا اور پیداواری شعبوں میں لگا نے کی بجائے اشرافیہ کی تعیش میں صرف ہوگیا۔ چنانچہ قرض کا پہاڑ کھڑا ہوتا گیا اور اس کی واپسی ممکن نہ رہی۔
دوم: سلطنت عثمانیہ ایک زرعی معیشت تھی لیکن سلطنت نے اس زرعی معیشت کو ’انڈسٹریلائز‘ نہیں کیا۔ وہ یورپ کی صنعتی ترقی سے پیچھے رہ گئی۔
سوم: سلطنت عثمانیہ اپنے شہریوں میں شراکت اقتدار کا تاثر پیدا نہ کر سکی۔اپنی ہی شہریوں سے محکوموں جیسا سلوک ہوا چنانچہ مختلف علاقوں میں باغیانہ خیالات پیدا ہونے لگے۔
چہارم : سلطنت عثمانیہ غیر مسلم شہریوں کی برین ڈرین کو نہ روک سکی۔
پنجم : اس نے اپنے شہریوں پر توجہ کم دی۔ چنانچہ بیسویں صدی کے آغاز میں اس کے صرف 10 فیصد شہری ایسے تھے جو لکھ پڑھ سکتے تھے۔ریاست اچھے پروفیشنلز کے بحران سے دوچار تھی۔
معیشت اور ہمارا یاجوج ماجوج ذرا غور کیجیے!
ان میں سے کتنی وجوہات ہمارے ہاں بھی ایک عارضے کے طور پر موجود ہیں۔ یہی بحران ہمارے قومی وجود سے بھی لپٹ چکا ہے۔افسر شاہی کا یہ یاجوج ماجوج کا لشکر ہمیں نو آبادیاتی ورثے میںملا ہے۔ یہ وسائل کو امانت نہیں مال غنیمت اور عوام کو شہری نہیں رعایا سمجھتا ہے۔ ذرا تصور کیجیے ایک معاشی بحران سے دوچار ملک ہے اور سرکاری اداروں کے 189000 ملازمین صرف اس ایک سال میں 8ارب 19 کروڑ کی بجلی مفت استعمال کرتے ہیں۔
ہم بھی بنیادی طور پر زرعی معیشت ہیں لیکن زراعت پر بات کرنا توہین سمجھتے ہیں اور ’ پینڈو‘ کا لفظ تحقیر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔زرعی معیشت کو ہم انڈسٹریلائز نہیں کر سکے ۔ شہریوں کو شراکت اقتدار کا تاثر نہیں دیاجا سکا۔ اپنے ہی شہریوں سے محکوموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ وسائل صرف ایک طبقے کی میراث بن چکے ہیں۔ افسر شاہی کا یاجوج ماجوج کا لشکر سب کچھ چاٹتا جا رہا ہے۔ ہماری آنکھیں کب کھلیں گی