مدرسہ اور یونیورسٹی کا تاریخی تعلق

مدرسہ اور یونیورسٹی

مدرسہ اور یونیورسٹی کا تاریخی تعلق

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۵ مارچ کو جامعۃ الرشید کراچی کے سالانہ کانووکیشن اور الغزالی یونیورسٹی کی تعارفی تقریب میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ پہلی نشست کی صدارت کا شرف ملا جبکہ تیسری نشست میں کچھ گزارشات پیش کیں جن کا خلاصہ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم صاحب، تمام معززین مہمانانِ خصوصی، شرکاء محفل اور وہ طلباء کرام جو آج مختلف شعبوں میں کامیابی حاصل کر کے اسناد لے کر جا رہے ہیں! جامعۃ الرشید کے سالانہ کانووکیشن میں حاضری اور الغزالی یونیورسٹی کی تعارفی تقریب میں شرکت میرے لیے سعادت کی بات ہے، اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔

جامعۃ الرشید کے ساتھ میری بہت سی نسبتیں ہیں، ان میں سے ایک نسبت کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی نور اللہ مرقدہٗ اور میرے والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر قدس اللہ سرہ العزیز دورہ حدیث کے ساتھی تھے، انہوں نے اکٹھے شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے دورہ حدیث پڑھا تھا۔ اس نسبت کے اظہار کے بعد عرض کرنا چاہوں گا کہ ’’الغزالی یونیورسٹی‘‘ میری زندگی بھر کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ میں اس وقت جامعۃ الرشید اور الغزالی یونیورسٹی کے سنگم پر کھڑا ہوں تو تھوڑی سی تاریخ بیان کرنا چاہوں گا اور مدرسہ اور کالج کے تعلقات کے دو چار مراحل ذکر کرنا چاہوں گا۔ مدرسہ اور کالج کی لڑائی کا تو ہم ذکر کرتے رہتے ہیں لیکن ان کے تعلقات کی تاریخ پر بھی ہماری نظر رہنی چاہیے۔

مولانا زاہد الراشدی نوائے حق

مدرسہ اور یونیورسٹی

(۱) دیوبند میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے مدرسہ عربیہ بنایا تھا اور سر سید احمد خان مرحوم نے علی گڑھ میں کالج بنایا تھا۔ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ علی گڑھ کالج میں دینیات کے شعبے کے سربراہ حضرت مولانا عبد اللہ انصاریؒ تھے جو حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے داماد تھے اور سر سید احمد خان مرحوم کی طلب پر وہاں بھیجے گئے تھے۔ یہ مدرسہ اور یونیورسٹی کا پہلا تعلق تھا۔

(۲) پھر ’’نیشنل مسلم یونیورسٹی‘‘ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ تاریخ کا طالب علم ہوں، میرا یہ سوال ہے کہ ہماری تین بڑی تحریکات (۱) تحریکِ خلافت (۲) تحریکِ آزادی (۳) تحریکِ پاکستان جن میں دونوں اداروں کے تربیت یافتہ حضرات نے مشترک کردار ادا کیا تھا۔ تحریکِ خلافت میں بھی علماء اور سیاستدان اکٹھے تھے، تحریکِ آزادی میں بھی اور تحریکِ پاکستان میں بھی۔ ان میں یہ ملاپ کہاں سے آیا تھا؟ دونوں کو لیڈرشپ کے میدان میں کس نے اکٹھا کیا تھا؟ اس کا نقطہ آغاز شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ ہیں جو دونوں کا خلا پر کرنے کے لیے علی گڑھ تشریف لے گئے تھے۔ جس کے نتیجے میں ’’نیشنل مسلم یونیورسٹی‘‘ تشکیل پائی تھی جو آج بھی ’’جامعہ ملیہ‘‘ کے نام سے دہلی میں کام کر رہی ہے۔ تحریکِ خلافت، تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان میں دونوں طبقوں کی مشترک قیادت اس سوچ کا نتیجہ ہے جو نیشنل مسلم یونیورسٹی نے دی تھی۔

(۳) تیسرے نمبر پر یہ ذکر کروں گا کہ پاکستان بننے کے بعد ایک مرحلہ بہاولپور کی اسلامی یونیورسٹی ہے جو پہلے جامعہ عباسیہ تھا، اسے یونیورسٹی کا ٹائٹل دے کر ہم نے ملاپ کا مرکز بنایا تھا۔ علامہ شمس الحق افغانیؒ، علامہ سعید احمد کاظمیؒ، مولانا عبد الغفار حسنؒ اور دیگر اکابر نے آج کی جدید تعلیم یافتہ قیادت کے ساتھ مل کر ایک مشترک ادارہ بنایا تھا جو ریاستی سطح پر تھا۔ اگرچہ وہ اپنے ہدف پر قائم نہیں رہ سکا، یہ بات اپنی جگہ پر ہے، لیکن بہرحال یہ مدرسہ اور کالج کے تعلق کا تیسرا مرحلہ ہے۔

درمیان میں ایک کوشش ہم نے بھی کی تھی، جسے ریکارڈ پر لانا چاہوں گا کہ ۱۹۹۲ء میں گوجرانوالہ میں ہم نے اٹھائیس ایکڑ جگہ خرید کر عمارت تعمیر کر کے ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ کے نام سے ایک ادارے کا آغاز کیا تھا جس کا پہلا نام ’’نصرۃ العلوم اسلامی یونیورسٹی‘‘ رکھا گیا تھا۔ ہمارے دونوں بزرگ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ اس کے سرپرستِ اعلیٰ، اس کے ٹرسٹی اور اس کے نیٹ ورک کا حصہ تھے۔ ان کی سرپرستی میں ہم نے وہ ادارہ بنایا تھا جو کہ اب جامعۃ الرشید کے ایک شعبے کے طور پر ’’جامعہ شاہ ولی اللہ‘‘ کے نام سے کام کر رہا ہے۔

ان مراحل کے بعد آج جب میں جامعۃ الرشید اور الغزالی یونیورسٹی کو دیکھ رہا ہوں تو ماضی کی ان ناکامیوں کو محمود غزنویؒ کے پہلے سولہ حملے شمار کرتے ہوئے جامعۃ الرشید اور الغزالی یونیورسٹی کو سترہواں حملہ سمجھ رہا ہوں جو کامیابی کی طرف گیا ہے۔ اور میں حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم اور ان کے تمام معاونین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ اللہ رب العزت نے ہمارا وہ خواب شرمندہ تعبیر کیا جو ہم نے ۱۹۹۲ء میں گوجرانوالہ میں بیٹھ کر دیکھا کرتے تھے۔ میں آج اس خواب کی تعبیر صرف دیکھ نہیں رہا بلکہ اس خواب کی تعبیر کے عملی مرحلے میں شریک بھی ہوں، اللہ تعالیٰ برکتیں، رحمتیں، کامیابیاں، ثمرات اور قبولیت و رضا سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

ایک اور بات کہہ کر بات سمیٹوں گا۔ تاریخ اور سماجیات کا طالب علم ہوں۔ میں خود کو اس وقت سو سال پہلے کے ماحول میں دیکھ رہا ہوں کہ ’’نیشنل مسلم یونیورسٹی‘‘ بنی تھی جس نے ’’جامعہ ملیہ‘‘ کی شکل اختیار کی۔ اس نے متحدہ ہندوستان کو تحریکِ خلافت کی قیادت فراہم کی تھی، تحریکِ پاکستان اور تحریکِ آزادی کی مشترک قیادت فراہم کی۔ آج میں پھر سے تاریخ کو خود کو دہراتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور دعا گو ہوں کہ جامعۃ الرشید اور الغزالی یونیورسٹی مستقبل میں ہماری ایسی تحریکات کی نرسری بنے اور میں اس حوالے سے مستقبل کو روشن دیکھ رہا ہوں کہ ہمیں مشترک دیانت دار قیادت ملے گی جس کی راہنمائی میں پاکستان بحران سے نکلے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اور صرف خود نہیں نکلے گا بلکہ عالمِ اسلام اور ملتِ اسلامیہ کو بحران کی دلدل سے نکالنے میں ہراول دستہ ثابت ہو گا۔ واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

Related posts

Leave a Reply