مبادیات طب

مبادیات طب

حکیم صابر ملتانی رحمہ اللہ

فہرست یہاں دیکھیں

Toggle

حرفِ اول

حکیمِ مطلق کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے علمِ طب پیدا کرکے اپنے بندوں پر بہت بڑا احسان کیا جس سے ان کے امراض اور تکالیف کا مداواہوتا ہے ۔علمِ طب حکمت کی ایک شاخ ہے اور حکمت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ

من یوت حکمۃ فقد اوتی خیراً کثیرہ
ترجمہ: جس کو حکمت (عقل)عطا کی ، اس کوبہت بڑی دولت عطا کی گئی۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ علم ِ طب ایک انتہائی شریف علم ہےاور اس کے حامل اور عامل کو بھی اسی مناسبت سے شرافت کا انتہائی مقام حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ بہترین طبیب وہ ہے جس کا اپنا مزاج اعتدال پر ہو اور انسان کے مزاج کا اعتدال اس کے شرف و فضیلت کی دلیل ہے۔ جب انسان کا مزاج “نفسانی خواہشات” کی غیر اعتدالی حالت سے چھٹکارا حاصل کرلیتا ہے تو یقیناً اس کے اخلاق بھی اعتدال کے درجہ پر آنا شروع کردیتے ہیں اور یہ انسان کے مزاج کو ارتقاء کی بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے۔اور اگر معالج کا اپنا مزاج اعتدال پر نہ رہے اور اخلاق کی اقدار کمال پر نہ ہوں تو حقیقت یہ ہے کہ اس کا ذہن پوری طرح قوت سے کام نہیں کرسکتا اور حکیمانہ مسائل اور عقلی دلائل جن سے مشکل مضامین حل ہوتے ہیں ۔ عام طور پر بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس لئے معالج کا اولین فرض ہے کہ وہ اپنے دل ودماغ کو حرص و آزار، نفسانی خواہشات اور لالچ سے دور رکھے۔

من خاف مقام ربہ انسانہ و ھی النفس عن الھویٰ وان الجنۃ ھی الماوی ہ
گویا معالج کا فرضِ اولین ہے کہ علاج کے دوران خوفِ الہی کو اپنے دل میں رکھے اور خواہشاتِ نفسانی سے دور رہے تاکہ اس کو ابدی مسرت و شادمانی حاصل ہو۔ اس کا سب سے آسان حل یہ ہے کہ معالج کسی قیمت پر جھوٹ نہ بولے، نہ جھوٹ پسند ہو اور ہمیشہ حق و صداقت کا گرویدہ رہے۔

تاکیدِ مزید مبادیات طب

ہر علم و فن میں اس کے مبادیات کو جاننے کی اہم ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک کسی علم و فن کے مبادیات کا صحیح طور پر پت نہ چلے۔ اس وقت تک وہ علم و فن پوری طرح حاصل نہیں ہو سکتا۔اس کا کمال حاصل کرنا بغیر مبادیات کے جانے ، ناممکن اور محال ہے۔ یہی صورت علم و فنِ طب میں بھی پائی جاتی ہے بلکہ دیگر علم و فن سے بہت زیادہ کیونکہ اس میں عقیدت کا بہت زیادہ دخل ہے اور ایک اچھے معالج کو اکثر کلیات سے جزئیات اور جزئیات سے کلیات کی طرف آنا پڑتا ہے۔ یعنی کبھی وہ کُلی قوانین کے تحت جزوی معانی اخذ کرتا ہے اور کبھی جزوی معلومات سے کُلیات کو ترتیب دیتا ہے۔اسی طرح ایک طبیب کو بارہا تصورات قائم کرنے پاتے ہیں اور اپنے علم کے تحت دلائل کے ساتھ تصدیقات کی طرف آنا پڑتا ہے گویا ہر اچھے طبیب کے لئے لازم ہے کہ وہ علوم عقلیات سے بھی کچھ بہرہ ور ہو۔ تاکہ ان کلیات و جزئیات کے تجزیہ و تربیت اور تصورات و تصدیقات کو عملی جامہ پہنا سکے لیکن یہ سب کچھ اُسی صورت میں ہو سکتا ہے جب وہ علم و فنِ طب کے مبادیات اور اصطلاحات سے پوری طرح آگاہ ہو۔
علم و فن طب پر جس قدر کتب شائع ہوئی ہیں۔ ان میں جناب شیخ الرئیس بوعلی سیناؔ بن حسین صاحب کی کتاب “القانون”کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔اس کی خوبیوں اور بے حد افادیت کے مدِنظر یہ کتاب تقریباًہر زبان میں عربی سے ترجمہ کی گئی بلکہ یورپ کی یونیورسٹیوں میں تقریباً سات سو سال تک تدریس میں شامل رہی اور حقیقت بھی یہ ہے کہ اس کتاب میں جس قدر حقائق بیان کئے گئے ہیں وہ قانون(Laws)کا درجہ رکھتے ہیں اور آج بھی زمانے کی ضروریات کے مطابق چند معمولی ترمیمات و تنسیخات کے علاوہ اس میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی جا سکتی اور سچ تو یہ ہے کہ جب تک “القانون” کو پوری طرح سمجھا نہ جائے علم و فنِ طب پوری طرح ذہن نشین نہیں ہو سکتا۔ اور پھر اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کی ترتیب وتدوین بہت اچھے انداز میں کی گئی ہے۔ اس کو چار فنون میں تقسیم کیا گیا ہے۔فنِ اول میں امورِ طب کے قوانینِ کلی پر بحث کی گئی ہے۔ فنِ دوم میں علم الادویہ کے افعال و خواص ذہن نشین کرائے گئے ہیں۔ فنِ سوم میں امراضِ خصوصی کی تفصیل و تشریح کی گئی ہے۔ فن چہارم میں امراضِ عامہ کے حقائق و رموز بیان کئے گئے ہیں۔ گویا ایک گلدستہ ہے۔جس کی خوشبو اصحابِ فن اور اہلِ شوق کے لئے مشامِ جام سے کم نہیں اور اس مسلمہ حقیقت کو بیان کرنے میں کوئی باک نہیں کہ اس میں ایسے لاتبدیل قوانین اور افادی قوانین بیان کئے گئے ہیں جن کا جواب آج بھی یورپی دنیا کی سائنس نہیں دے سکتی۔ اس کی ترتیب و تدوین سے ذہن اور دماغ میں جو جِلا پیدا ہوتا ہے وہ یورپ اور مغربی طب کی کسی کتاب سے ممکن نہیں ہے۔ اس لئے ہم نے اپنی کتاب “مبادیاتِ طب” کے لئے جو کتاب منتخب کی ہے وہ القانون ہی ہے۔ البتہ اس میں ضروریاتِ زمانہ کے مطابق ان قوانین کو عام فہم زبان میں ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ ہر پاکستانی اورا اہلِ شوق زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکے۔(انشاء اللہ)
خادمِ فن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صابرملتانی (9 جولائی 1968ء



مبادیاتِ طب

علم طب کی تعریف

علمِ طب اُس علم کا نام ہے جس کے ذریعے بدنِ انسان کے حالاتِ صحت و حلاتِ مرض کا پتہ چلتا ہے۔
غرض و غائیت: علمَِ طب کی غرض و غائیت یہ ہے کہ اگرصحت ہو تو اُس کی نگہداشت کی جائے اور مرض پیدا نہ ہونے دیا جائے یعنی صحت کو برقرار رکھا جائے ۔ اگر حالتِ مرض ہو تو حتی الامکان اُس کے ازلہ کی کوشش کی جائے اور مرض کو صحت کی طرف لوٹایا جائے۔
موضوع: جسمِ انسان جس میں اس کا نفس اور روح دونوں شریک ہیں۔

تقسیم علمِ طب

علم طب کودوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔1۔ علمی یا نظری ۔2۔عملی
فی الحقیقت یہ دونوں قسمیں علم ہی سے تعلق رکھتی ہیں جن کی تشریح درج ذیل ہے۔

1۔ علمی یا نظری
وہ علم ہے جس سے محض اشیاء اور کائنات کا علم اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ مثلاً ارکان یا کسی شے کی ذات اور اس کے افعال کا علم ۔ علاوہ ازیں اس میں اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں جن کا عمل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

2۔ عملی
وہ علم جس میں ایسے مسائل ہوتے ہیں جن کا تعلق عمل سے ہوتا ہے۔ مثلاً ورزش کیسے کی جائے، اگر کوئی مرض ہوتو اس کا علاج کیسے عمل میں لایا جائے نیز صحت کو برقرار رکھنے کے لئے کن اصولوں کو مدِ نظر رکھنا چاہیے۔ گویا عملی سے مراد عمل کا علم مراد ہے یعنی اس میں یہ بتایا جاتا ہےکہ عمل کیسے کیا جائے۔گویا یہ بھی ایک علم ہے۔

طب علمی اور عملی کی مزید تقسیم
طب علمی کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ 1۔ امور طبیعہ کا علم 2۔بدن انسان کے حالات3۔ علم الاسباب 4۔علم العلامات
طب عملی کی دو اقسام ہیں۔ 1۔ علم حفظانِ صحت2۔ علم العلاج

امورِ طبیعہ

تعریف: امورِ طبیعہ چند ایسے امور ہیں۔ جن پر بدنِ انسان کی بنیاد قائم ہے یعنی بدنِ انسان انہی سے مل کر بنا ہے ۔ ان میں سے اگر ایک کو بھی نفی فرض کر لیں تو بدنِ انسان قائم نہیں رہ سکتا ۔ وہ امور حسبِ ذیل ہیں۔
1۔ ارکان ۔2۔ مزاج۔3۔ اخلاط ،4، اعضاء۔5۔ ارواح ۔6۔ قویٰ ۔7۔ افعال

1۔ارکان

تعریف: ارکان چند ایسے بسیط اجسام ہیں جو بدنِ انسان و حیوان اور نباتات و جمادات میں پائے جاتے ہیں جن کا مزید تجزیہ نہیں ہو سکتا۔ یعنی ایسے اجزاء اولیہ جو مختلف صورتوں اور طبیعتوں کے اجسام میں تقسیم نہیں ہو سکتے ۔ گویا وہ اجزاء “لاتجزی” ہیں یعنی ان اجزاء کو مختل یا دیگر اجزاء میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ ارکان رکن کی جمع ہے جس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ ایک بنیادی چیز ہے ۔ گویا چاروں ارکان کائنات میں زندگی کے بنیادی اجزاء ہیں۔ وہ چاؔر ہیں۔1۔ آگ جو گرم خشک ہے۔2۔ ہوا یہ گرم تر ہے۔ 3۔ پانی یہ سرد تر ہے۔ 4۔ مٹی یہ سرد خشک ہے۔ارکان چار اجزاء پر مشتمل ہے۔ 

1۔ آگ ۔2۔ ہوا ۔ 3۔ پانی ۔4۔ مٹی

ؔ آیورویدک پانچ ارکان تسلیم کرتے ہیں۔ یعنی وہ ان چار ارکان کے ساتھ ایک “آکاش” کا بھی اضافہ کرتے ہیں جس کو ہم ایثر اور انگلش میں ایتھر(Ether)کہہ سکتے ہیں اور ان کی ترتیب اس طرح ہے۔ ا۔ آکاش۔2۔اگنی۔3 ۔ وایو۔4۔ جل۔5۔ پرتھوی ۔ مغربی سائنس تقریباً 99 عناصر تسلیم کرتی ہے۔گویا انہوں نے آج تک جس قدر عناصر میں تحقیق اور معلومات کی ہیں وہ 99 کے قریب ہیں جن میں قابلِ ذکر یہ ہیں۔

1۔ آئرن۔2۔ آرسینک۔3۔ آرگن۔4۔ایریڈیم۔5۔اسٹرانیشیئمم۔6۔ اسکینڈیم۔ 7۔ اوسمیم ۔8۔آکسیجن ۔9۔ ایریبیم۔ 10۔انڈیم۔11۔ ایلومینیم۔ 12۔انٹی منی۔ 13۔آیوڈین۔14 ۔بیریم ۔15۔ برمین۔16۔ لیتھیئم۔17۔ بورون ۔18۔ بیری نیم۔19۔ پرسیوڈیم۔20۔ پلاٹینم۔21۔ پوٹاشیم۔22 پلاڈیم۔23۔ تھیولیم۔24۔ تھیوریم۔25۔ تھیلیم۔26۔ ٹینینیم۔27۔ زنک۔28۔ فاسفورس۔ 29۔ نکل۔30۔ لیڈ۔ وغیرہ وغیرہ۔ 

مغربی سائنس کی اس تحقیق سے کہ عناصر چار نہیں بلکہ 99 ہیں۔ طبی دنیا میں بہت بڑا مغالطہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس کی مکمل تشریح ہماری کتاب” فرنگی طریقہ علاج غلط اور غیر علمی ہے” میں ملاحظہ فرمائیں۔مگر یہاں پر اتنا جان لیں کہ ارکان مادے کی ابتدئی صورت کا نا م ہے جو چار ارکان کی صورت اختیار کر لیتی ہے مگر مادی صورتوں میں ظاہر نہیں ہوتے۔ یہ آگ، پانی، ہوا اور مٹی دراصل وہ حقیقی ارکان نہیں بلکہ ان کے لطیف اور مادی صورتیں ہیں۔ انہی کی مزید تقسیم در تقسیم سے یہ سائنس کے 99 عناصر پیدا ہو گئے ہیں۔ گویا ارکان اور عناصر دو مختلف چیزیں ہیں یا یوں سمجھ لیں کہ ارکان کے بعد عناصر پیدا ہوتے ہیں اور آج سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ عناصر مزید سالمات اور برقیات میں تقسیم ہوسکتے ہیں۔ اور اسی تقسیم کےنتیجہ میں ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم وجود میں آئے ہیں۔

2۔ مزاج

تعریف: ارکان کے امتزاج میں فعل و انفعال ، اثر و متاثر اور کسر و انکسار کے بعد جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کا نام مزاج ہے ۔ اس امتزاج میں چاروں کیفیت کا مساوی ہونا ضروری نہیں۔ اس میں جو ایک قسم کا اعتدال پایا جاتا ہے وہ اعتدال فی القسمت(مزاج معتدل فرضی ) یا با ضرورت ہے۔ یعنی جس مزاج میں ان کیفیات کی جس قدر ضرورت ہو وہ پائی جائیں ۔ ان کیفیات میں حرارت اور برودت کو کیفیاتِ فاعلہ اور رطوبت اور یبوست کو کیفیاتِ مفعولہ تسلیم کیا گیا ہے۔

مزاج حقیقی

چاروں کیفیات کو کسی مزاج میں برابر اور مساوی پایا جانا ناممکن ہے اس لئے اس مزاج کو عقلی یا حقیقی کہتے ہیں۔ چونکہ اس عقلی اور حقیقی مزاج کا مقام ناممکن ہے اس لئے اطبا نے ایک فرضی مزاج تسلیم کیا ہے۔

فرضی مزاج

یعنی ایسا مزاج جو ضرورت کے مطابق موالید ثلاثۃ (حیوانات، نباتات ، جمادات) کی کسی شے کو عطا کیا جائے جس سے اس کی صحت ، قویٰ اور نشوونماقائم رہے یعنی جس مزاج میں گرمی زیادہ دی جائے اور جس مزاج میں سردی کی زیادہ ضروررت ہو اس کو سردی زیادہ دی جائے۔ یہ مزاج “عدل فی القسمت” ہے۔ مثلاً شیر کو حرارت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ خرگوش کو بروت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ان کے مزاج میں کمی بیشی ہو جائے تو اس کی صحت ، قویٰ اور نشوونما قائم نہیں رہ سکتی۔ بس یہی مزاج کا معتدل ہونا تسلیم کیا گیا ہے لیکن جن کا مزاج معتدل فرضی، حقیقی یا عقلی کے زیادہ قریب ہوگا ان کامزاج سب سے زیادہ معتدل ہوگا۔ چونکہ انسان کا مزاج تمام کائنات میں مزاج معتدل حقیقی کے بہت قریب ہے اسی لئے انسان دنیا میں سب سے زیادہ معتدل اور اشرف المخلوقات ہے۔ اسی نسبت سے نوعی، صنعتی اور شخصی امزجہ کے خارجی و داخلی ذوق پائے جاتے ہیں جو اگرچہ تمام بالقیاس ہیں مگر حقیقت پر مبنی ہیں۔

مزاج غیر معتدل فرضی

غیر معتدل فرضی ایسا مزاج ہے جو کسی فرضی معتدل مزاج کو اعتدال سے دور کردے اس کی دو اقسام ہیں۔ 1۔ مفرد ۔2۔ مرکب ۔ پھر ہر دو کی چار چار اقسام ہیں۔
1۔ مفرد: 1۔ گرم ۔2۔سرد۔3 ۔ خشک ۔4۔ تر
2۔مرکب: 1۔گرم خشک۔2۔گرم تر۔3۔ سرد خشک ۔4۔ سرد تر

مزاج ِعمر

عمرکے اعتبار سے جوان زیادہ معتدل ہوتے ہیں۔ بچوں میں حرارت جوانوں کے برابر مگر رطوبت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے بچوں کی حرارت نرم اور جوانوں کی حرارت تیز ہوتی ہے۔ ادھیڑ اور بوڑھے اشخاص کے مزاج سرد خشک ہوتے ہیں مگر بوڑھے ایک عارضی اور سطحی رطوبت (رطوبت دو طرح کی ہوتی ہے ایک حقیقی اور دوسری غیر حقیقی ۔ درخت کی ٹہنی میں حقیقی یعنی اصلی رطوبت ہوتی ہے۔ سوکھی ہوئی لکڑی کو پانی میں ڈبو دیا جائے تو یہ سطحی اور عارضی یعنی غیر حقیقی رطوبت ہوگی۔ بالکل اسی طرح جیسے حرارتِ غریزی اور حرارتِ غریبہ کی وجہ سے مرطوب ہوتے ہیں۔

مزاج اعضاء

اعضاء بدن میں سب سے زیادہ معتدل سر انگشت شہادت کی جلد ہے، اس کے باقی انگلیوں کے اگلے پوروں کی جلد پھر انگلیوں کی جلد، پھر غارِ کف کی جلد پھر کفِ دست کی جلد پھر ہاتھ کی جلد پھر عام جلد۔ جملہ اعضاء میں سب سے زیادہ گرم دل ہے اس کے بعد جگر اور اس کے بعد گوشت۔ اعضاء میں سب سے زیادہ سرد ہڈی ہے پھر کُری پھر رباط پھر عصب پھر تمام نخاع پھر دماغ۔ تمام بدن میں سب سے زیادہ ترسمین ( پتلی چربی) پھر شحم (موتی چربی) پھر نرم گوشت پھر دماغ پھر نخاع۔ بدن میں سب سے زیادہ خشک بال اس کے بعد ہڈی پھر کری پھر رباط اور پھر اعصاب ہیں۔

3۔ اخلاط

تعریف: اخلاط ایساتر سیال ہے جس کی طرف غذا تحلیل ہو کراولاً آتی ہے۔ یعنی جو غذا ہم کھاتے ہیں وہ ہضم ہو کر کیلوس اور کیموس کی صورت کے بعد اخلاط کی صورت اختیا کر لیتی ہے۔ اخلاط تعداد میں چار ہیں۔
1۔خون جو گرم تر ہے۔2۔صفر جو گرم خشک ہے۔3۔ بلغم جو سردتر ہے۔4۔ سودا جو سرد خشک ہے۔
آیورویدک اپنے اخلاط کو دوش(بگڑنے والا) کہتے ہیں۔ وہ تعداد میں تین ہیں۔ 1۔ وات جس کا مزاج سرد خشک ہے۔2۔ پت جس کا مزاج گرم ہے۔3۔ کف جس کا مزاج تر ہے۔ آیورویدک میں خون کو دوشوں میں شمار نہیں کرتے بلکہ اس کو علیحدہ چیز کہتے ہیں جس کانام وہ رکت رکھتے ہیں۔ ان کے نظریہ کے مطابق یہ تینوں دوشوں کا حامل ہے۔
ایلوپیتھی (فرنگی طب) صرف خون کو خلط مانتی ہے۔ وہ صفرا،سودا اور بلغم کو خلط نہیں مانتے۔ بلکہ ان کو خون کے فضلات میں شمار کرتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ اخلاط کے امزجہ اور کیفیات کے بھی قائل نہیں اور اسی باعث وہ علاج میں مزاج و کیفیات اور اخلاط کو مدنظر نہیں رکھتے۔

حقیقت اخلاط

اخلاط کی حقیقت بالکل دودھ کی طرح ہے جب دودھ کچا ہوتا ہے تو وہ ایک ہی چیز معلوم ہوتا ہے۔ لیکن جب اس کو گرم کیا جاتا ہے تو اس کے اوپر بالائی آ جاتی ہے اور اس کے اندر دانے پیدا ہوجاتے ہیں جو اس کی رطوبت سے علیحدہ معلوم ہوتے ہیں۔ اور ایک حصہ ثقل کی طرح بیٹھ جاتا ہے اور اکثر جل جاتا ہے۔گویا یہ چاروں حصے ۔1۔ بالائی،2، ذرات یا دانے۔3۔ رطوبت یا ماہیت۔4۔ ثقل ۔ یہ سب اسی دودھ میں پائے جاتے ہیں۔ اس طرح جب کیلوس بننے کے بعد اس میں حرارت اثر کرتی ہے تو اس کے بعد اسی طرح چار جز بن جاتے ہیں۔ جو حصہ بالائی کی طرح جھاگ کی شکل میں اوپر ہوتا ہے جس کا رنگ سرخی مائل زرد ہوتا ہے اس کو صفرا کہتے ہیں۔ اور جو ذرات کی شکل میں سرخ دانے پائے جاتے ہیں اس کو خون کہتے ہیں۔ جو خون کی مائیت ہے اس کو بلغم کہتے ہیں اس کی رنگت سفید ہوتی ہے ۔ اور جو تلچھٹ بیٹھ جاتی ہے جس کا رنگ سرخ سیاہی مائل ہوتا ہے اس کو سودا کہتے ہیں۔ جب تک یہ اجزاء خون میں شریک رہتے ہیں یہ اخلاط ہیں اور جب کون سے باہر اخراج پاتے ہیں تو فضلات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
خون: جملہ اخلاط سے افضل و برتر ہے یہ بدن کی غذا بنتا ہےاس کی پرورش کرتا ہے اس کی دو قسمیں ہیں۔

طبعی خون

طبعی خون وہ ہے جو جگر میں پیدا ہو اور بدن کو اس سے فائدہ پہنچے۔ یہ خون سرخ ، بے بو،معتدل قوام اور شیریں ہوتا ہے۔ فی الحقیقت ہر خلط طبعی کے یہ شرط ہے کہ وہ جگر میں پیدا ہو اور بدن کو مطلوبہ فوائد پہنچائے ۔ جو خلط جگر میں پیدا نہ ہو اور بدن کو مطلوبہ فوائد نہ پہنچائے تو غیر طبعی خلط کہلاتی ہے۔

غیر طبعی خون
غیر طبعی خون ان اوصاف میں خون طبعی سے مختلف ہوتا ہے۔

صفرا طبعی

صفرا طبعی خون کے وہ جھاگ ہوتی ہیں جو شوخ زردی ماتل سرخ ہوتے ہیں۔ ان کا وزن ہلکا ہوتا ہے ان کے مزاج میں تیزی ہوتی ہےوہ جگر میں پیدا ہوتا ہے اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ خون کو لطیف بنا کررگوں میں پہنچاتا ہے۔ دوسرے پھیپھڑے وغیرہ گرم خشک اعضاء کی غذا میں شامل ہوتا ہے نیز اس کا ایک حصہ آنتوں پر گرتا ہے اور اس کے ثقل اور لیسدار بلغم کو دھو ڈالتا ہے۔

صفرا غیر طبعی
صفرا غیر طبعی کی چار اقسام ہیں۔ 1۔ مرہ۔2۔ محیہ۔3۔ محترقہ۔4۔ زنجاری یا کراثی۔اس کی صورتیں یہ ہیں کہ جو بلغم غلیظ کے ساتھ مخلوط ہونے سے پیدا ہوتا ہے اس کو صفرا محیہ کہتے ہیں۔ جو رقیق بلغم کے ملنے سے بنتا ہے اسے صفرا مرہ کہتے ہیں۔ جس میں جلا ہوا سودا مل جاتا ہے اس کو صفرامحترقہ کہتے ہیں یا خود صفرا جل کرر غیر طبعی ہو جاتا ہے اسے کراثی یا زنگاری کہتے ہیں کیونکہ صفرازنگاری میں احتراق زیادہ ہوتا ہے اس لئے یہ قتل اور ہلاکت میں زہروں کے مشابہ ہوتا ہے۔

بلغم طبعی

بلغم طبعی وہ ہے جو جگر میں پیدا ہو اور بوقتِ ضرورت کامل خون بننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ گویا وہ سفید خون ہے جس میں ابھی کامل نضج نہیں ہوا۔ جب بدن کو غذا میسر نہیں آتی تو بلغم خون کی شکل اختیار کرکے اس کی غذا بنتا ہےیہ اعضاء کو تر رکھتا ہے اور ان کو حرکت سے خشک نہیں ہونے دیتا ۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ دماغ وغیرہ سرد تر اعضاء کی غذا بنتا ہے۔

بلغم غیر طبعی
بلغم غیر طبعی یاتو مزے کے اعتبار سے ہوتا ہے یا قوام کی رو سے۔ مزے کے اعتبار سے بلغم غیر طبعی کی پانچ اقسام ہیں۔

اقسام بلغم غیرطبعی بلحاظِ مزہ

1۔ حلو(شیریں) اس کا مزاج حرارت کی طرف ہوتا ہے۔2۔ مالح (نمکین) یہ حرارت اور یبوست کی طرف مائل ہوتاہے۔3۔ حامض (ترش) یہ برودت کی طرف مائل ہوتا ہے۔ 4۔ عفص ( بکھٹا) اس کا یبوست اور برودت کی طرف میلان ہوتا ہے۔ 5۔ تفہ (بے مزہ) یہ بہت سرد اور خام ہوتا ہے۔

اقسام بلغم غیرطبعی بلحاظِ قوام
بلحاظِ قوام بلغم غیر طبعی کی تین اقسام ہیں۔1۔بہت رقیق اس کو بلغم مائی (آبی) کہتے ہیں۔2۔ بلغم جصی (گچ کی طرح) بہت غلیظ بلغم کو کہتے ہیں۔3۔ مختلف القوام اس کا نام مخاطی (نیٹھ) ہے۔

سودا طبعی

سودا طبعی خون کا تلچھٹ ہوتا ہے اس کا فائدہ یہ ہے کہ خون کو گاڑھا کرتا ہے اور سخت بناتا ہے دوسرے ہڈی اور سرد خوراک اعضاء کی غذا بنتا ہے تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اس میں سے کچھ حصہ فمِ معدہ پر گرکر بھوک لگاتا ہے۔

سوداغیر طبعی

جلی ہوئی خلط ہے کبھی یہ خود جل جاتا ہے کبھی دیگر اخلاط جل کر سودا بن جاتی ہے۔

خون کے فوائد

خون کا سبب فاعلی معتدل حرارت، سبب مادی اچھی اغذیہ و اشربہ جن کامزاج معتدل ہو۔ سبب صوری، نضج کامل اور سبب غائی بدن کو تغذیہ اور گرمی تری پہنچانا ہے۔

صفرا طبعی کے فوائد

صفرا طبعی کا سبب فاعلی معتدل حرارت ہے۔ سبب مادی لطیف، گرم شیریں اور چکنی چپری غذائیں۔ سبب صوری نضج کامل اور سبب غائی ان اعضاء کی خوراک جن میں صفراوی خون خرچ ہوتا ہے۔ مثلاً پھیپھڑے، جگر وغیرہ۔

بلغم طبعی کے فوائد

بلغم طبعی کاسبب فاعلی ضیعف حرارت سبب مادی غلیظ لیسدار اور سرد غذائیں۔ سبب صوری نضج کامل سبب غائی بوقت ضرورت۔ بوقتِ ضرورت بدن کو غذا دینا، طراوت پہنچانا اور خاص طورپر بلغمی اعضاء مثلاً دماغ اور اعصاب کو غذا بخشنا۔

سودا طبعی کے فوائد

سودا طبعی کا سبب فاعلی معتدل حرارت، سبب مادی غلیظ کم رطوبت جو سرد خشک غذاؤں سے پیدا ہو سبب صوری تہ نشین درد( تلچھٹ) سبب غائی سوداوئی اعضاء مثلاً ہڈی وغیرہ کو غذا بخشنا اور فمِ معدہ پرگرکربھوک لگانا ہے۔

4 ۔ اعضاء

تعریف: اعضاء وہ کثیف اعضاء ہیں جو اخلاط کی ابتدائی ترکیب (رطوبتِ ثانیہ) سے پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ اخلاط ارکان کی ابتدائی ترکیب سے ظہور میں آتے ہیں۔واضح ہوکہ غذا ایک جسم ہےجس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ غذا معدے میں پہنچنے کے بعدایک ایسے جوہر میں تبدیل ہوجاتی ہےجو غلیظ آش جو کی مانند ہوتا ہے۔ اس کو کیلوس کہتے ہیں۔ یہ ہضمِ اول کہلاتا ہے۔ اس کے بعد کیلوس کا صاف اور لطیف حصہ مجریٰ الصدر کے ذریعے دل میں چلا جاتا ہے اور باقی حصہ آنتوں میں جاکر صفرا اور دیگر آنتوں کی رطوبات کے ملنے سے پکتا ہے یہ کیموس کہلاتا ہے۔ اس کو ہضمِ ثانی کہتے ہیں۔ پھر یہ کیموس عروقِ ماساریقا کے ذریعے جگر کی طرف جذب ہوجاتا ہے اور یہاں پر طبخ پانے کے بعد اخلاط میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ پھر اخلاط کی ابتدائی ترکیب سے جو ترکیب جو رطوبت بنتی ہے اسے رطوبتِ ثانیہ کہتے ہیں۔ اسی رطوبت سے اعضاء بنتے ہیں۔جس طرح ارکان کی ابتدائی ترکیب سے نباتات و حیوانات بنتے ہیں جن کے کھانے سے کیلوس و کیموس کے بعد ارکان پیدا ہوتے ہیں۔اعضاء بناوٹ کے لحاظ سے دواقسام کے ہیں۔ 1۔ مفرد۔2۔ مرکب

تعریف مفرد اعضاء

مفرداعضاء وہ اعضاء ہیں کہ اگر ان کا کوئی ظاہری اور مھسوس حصہ لیاجائے۔تو وہ حصہ نام اور تعریف میں ان کا شریک ہو مثلاً ہڈی عضو مفردہے۔ اگر اس کاایک ٹکڑا لے کر اس کا نام دریافت کیا جائے تو اس کو بھی ہڈی کہیں گے۔ جو تعریف کل کی ہے وہی تعریف اس پر بھی صادق آئے گی۔ مگر ہاتھ یا پاؤں عضو مرکب ہیں کیونکہ ان کے ایک حصہ مثلاً انگلی کو ہاتھ نہیں کہا جا سکتا۔ مفرد اعضاء میں ہڈی ، کرّی، رباط، وتر، عصب، غشاء(جھلی)، چربی، وریدیں اور شرائین، جلد، شعر(بال)، ظفر(ناخن)شامل ہیں۔

عظم (ہڈی)

ایک سخت اور بے حس عضو ہے۔ جو جسمِ انسان کی بنیاد کاکام دیتا ہے۔ اس کی بناوٹ میں زیادہ تر چونے کے اجزاء پائے جاتے ہیں۔ جسم انسان میں 246ہڈیاں ہیں جن کی تفصیل یہ ہے۔

کرّی (غضروف)

ایک سفید عضو ہے۔ اس میں ہڈی کی نسبت لچک اور نرمی ہوتی ہے جو دبانے سے دب جاتی ہے مگر دباؤ ہٹ جانے پر اپنی لچک کی وجہ سے اپنی اصلی حالت پر آجاتی ہے۔ کرّی گویا ایک قسم کی نرم ہڈی ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ ہڈی کو نرم عضو مثلاً گوشت وغیرہ کے ساتھ اس طرح جوڑتی ہے کہ سخت عضو نرم عضوکو ایذا نہیں پہنچا سکتا ہے اور اس کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ بعض جگہ دوہڈیوں کوآپس میں جوڑنے کے کام آتی ہے جیسے کہ ریڑھ کے مہرے اور جوڑاور بعض جگہ ایسے عضو کاکام دیتی ہے جہاں نہ ہڈی کی سختی کام دے سکتی ہے اور نہ گوشت کی نرمی جیسے ہوا اورغذاکی نالی۔

اعصاب

وہ سفید اجسام ہیں جومڑنے میں لچکدار ہوتے ہیں اور ٹوٹنے میں سخت۔ ان کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان سے اعضاء کے اندر حس اور حرکت دینے کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ اعصاب دو اقسام میں منقسم ہیں۔1۔ دماغی ۔2۔ نخاعی۔

دماغی

جو دماغ سے اگتے ہیں ۔وہ سات جوڑے ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے حواسِ خمسہ ظاہری اور بعض اعضاء کو حس حاصل ہوتی ہے اور بعض اعضاء کو حرکت کےلئے تحریک ہوتی ہے۔

نخاعی (حرام مغز)

یہ اعصاب نخاع (حرام مغز) سے اُگتے ہیں۔ یہ کل 31جوڑے ہیں اور ایک عصب اکیلا ہے اس کا کوئی جوڑا نہیں ۔ ان اعصاب کا یہ فائدہ ہے کہ گردن سے نیچے کے اعضاء کی حس اور ان میں حرکت کی تحریک ان کے ذریعے ہوتی ہے۔

اوتار(نسیں)

یہ وہ اجسام ہیں جو بعض اعضاء کے سروں سے اُگتے ہیں اور رنگ و قوام میں پٹھوں کے مشابہ ہوتے ہیں یہ ان اعضاء سے ملے ہوتے ہیں جو حرکت کرتے ہیں یعنی عضلات۔ ان کا فائدہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ عضو متحرک کو اپنے انجذاب سے کھینچ لیتے ہیں اور دوسری مرتبہ مسترخی (ڈھیلے) ہو کر اس کو ڈھیلا چھوڑ دیتے ہیں۔

رباط(بندھن)

وہ اجسام ہیں جو رنگ و قوام میں پٹھوں کے مشابہ ہوتے ہیں۔ یہ ہڈی سے شروع ہوتے ہیں اور گوشت میں ختم ہوجاتے ہیں۔ ان کا فائدہ یہ ہے کہ جوڑوں کی ہڈیوں کے دونوں سروں کو یا دوسرے اعضاء کوباہم ملاتے اور باندھ دیتے ہیں۔

عضلات(گوشت کی مچھلیاں)

یہ خالص گوشت ہے البتہ ان کے اندر اعصاب ، اوتار اور رباطات گزرتے ہیں۔ ان کا فائدہ یہ ہے کہ ا ن سے جسم کی حرکت عمل میں آتی ہے۔ ہڈیوں کی پوشش بنتے ہیں اور حرارت غریزی اور رطوبتِ غریزی جسم میں محفوظ رکھتے ہیں۔

شرائین (عروقِ ضوارب)

ان کو کودنے والی رگیں کہتے ہیں۔ یہ دوہرے طبق سے بنی ہوتی ہیں۔ یہ قلب سے اُگتی ہیں۔ جو جوفدار ہوتی ہیں۔ ان کی بناوٹ عصباتی مادے سے ہے۔ ان میں بذاتِ خود حس و حرکت نہیں ہوتی بلکہ ان کی تڑپ اور حرکتِ قلب کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ان کے جوف میں سرخ رنگ کا خون اور (روح) نسیم ہوتی ہے۔ان کا فائدہ یہ ہے کہ ان کے ذریعہ سے قوتِ حیات اعضاء کو پہنچتی ہے۔

اوردہ (وریدیں)

ان کو عروقِ غیر ضوارب (ساکن رگیں ) بھی کہتے ہیں۔ ان کی بناوٹ بھی عصباتی مادے سے ہے۔ ان میں دوہرا طبق ہوتا ہے۔ یہ جگر سے اُگتی ہیں اور جوف دار ہوتی ہیں۔ ان میں بھی حس و حرکت نہیں ہوتی۔ ان کے اندر بمقابلہ شرائین کے خون میں سرخی اور روح کم اور دخان (کاربن) زیادہ ہوتا ہے۔ ان کا فائدہ یہ ہے کہ یہ جگر سے خون کو لا کر ان اعضاء کو پہنچاتی ہیں۔ جن کے لئے یہ مفید ہیں ۔ مثلاً عضلات اور پھیپھڑے وغیرہ۔

غشاء (جھلی)

یہ جسم بھی عصباتی ہے۔ شکل میں پتلا ہوتا ہے۔ اس میں قوتِ حرکت نہیں ہوتی۔ البتہ حس ضرور ہوتی ہے۔اس کا فائدہ یہ ہے کہ یہ اپنی ترشح سے اعضاء کی حفاظت کرتی ہے۔

شحم اور شمین(موٹی اور پتلی چربی)

یہ وہ جسم ہے جو سفید اور نہایت نرم ہوتے ہیں۔ خون کی مائیت اور چکناہٹ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کو سردی جما دیتی ہے یہ گرمی سے پگھل جاتے ہیں۔ ان کا فائدہ یہ ہے کہ اپنے اردگرد کے عضو کو نرم رکھتے ہیں۔

جلد (بدن کی کھال)

یہ عصباتی جسم ہے اس میں حس بہت زیادہ ہوتی ہے اس کا فائدہ اعضاء کو چھپانا ہے۔

شعر (بال)

بال جسم پر زینت کے علاوہ جسم کی حفاظت کرتے ہیں اور جسم کے گندے فضلات کو باہر خارج کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ زینت کی صورت میں سر کے بال خاص طور پر عورتوں کے لئے اور داڑھی مردوں کے لئے زینت ہیں۔ اسی طرح پلکوں اور بھوؤں کے بال زینت بھی ہیں اور جسم کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔ باقی جسم پر جن مقامات پر بال ہیں خاص طور پربغل اور زیرِ ناف ان سے جسم کے بعض فضلات اخراج پاتے ہیں۔

ظفر (ناخن)

یہ بھی جوہر عصباتی ہیں۔ یہ ہڈی کی نسبت نرم اور کرّی کی نسبت سخت ہوتے ہیں۔ ان کا فائدہ یہ ہے کہ انگلی کے پوروں کوسخت اور مضبوط بنا دیتے ہیں تاکہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے پکڑنے میں مدد گار ثابت ہوؔ۔
نوٹ: شیخ الرئیس کے زمانہ میں خوردبین ایجادنہیں ہوئی تھی ۔ اس لئے وہ اعضاء میں مفرد اور مرکب اعضاء کا صحیح تعین نہ کرسکے۔ اس لئے انہوں نے جزووکل میں مشابہت رکھنے والے اعضاء کو مفرد اعضاء کر دیا اور مختلف مشابہت رکھنے والے اعضاء کو مرکب کر دیا۔ اگر چہ شیخ الرئیس کے زمانہ میں اعصاب ، عضلات اور غدد کا صحیح تصور تھا اور انہوں نے بھی ان کو مفرد اعضاء میں ذکر کیا ہے لیکن ان کو انہوں نے بنیادی مفرد اعضاء میں نہیں لکھا۔ اس لئے وہ شریانوں اور وریدوں اور غشاء اور جلد کو بھی مفرد اعضاء میں لکھ رہے ہیں۔ لیکن حقیقت میں وہ مفرد اعضاء میں شریک نہیں ہیں بلکہ مرکب اعضاء ہیں کیونکہ ان میں اعصابی اور عضلاتی ریشے اور غشاء بھی پائی جاتی ہیں۔اعضاء کے متعلق ہماری کتاب “تشریح و افعال الاعضاء” ملاحظہ فرمائیں۔

تعریف مرکب اعضاء

وہ اعضاء ہیں جو مفرد اعضاء کی ترکیب پانے سے بنتے ہیں۔ یہ تین ترکیبوں سے ترتیب پاتے ہیں۔ پہلی ترکیب جیسے آنکھ، دوسری ترکیب جیسے چہرہ، تیسری ترکیب جیسے سر۔ پہلی ترکیب میں مفرداعضاء آپس میں مل کر ایک صورت بناتے ہیں۔ یعنی اس میں عضلات ، اعصاب اور غشاء وغیرہ ترکیب پاکرایک مرکب عضو بن جاتا ہے۔ جیسے آنکھ۔ دوسری ترکیب میں وہ مرکب عضو جو دوسرے اعضاء سے مل کر ایک نئی ترکیب بناتا ہے جیسے چہرہ کہ اس میں آنکھیں بھی موجود ہوتی ہیں ۔ اور تیسری ترکیب ایسی ہوتی ہے جس میں آنکھ اور چہرے کے علاوہ دیگر اعضاء بھی مل کرایک مرکب عضو کی شکل اختیار کرتے ہیں جیسے سر کہ اس میں چہرہ اور آنکھیں دونوں شامل ہیں۔

مرکب اعضاء

مرکب اعضاء میں دماغ جس پر عضلاتی اور اعصابی جھلیاں لپٹی ہوتی ہیں۔ آنکھیں جن میں سات پردے اور تین رطوبات ہیں۔ کان ، ناک ، لب، زبان، مری (غذاکی نالی) حنجرہ(ہواکی نالی)، لہات (کوا)، پھیپھڑے جو اپنی جھلیوں میں لپٹے ہوئے ہیں۔ قلب جو اپنے غشاء میں ملفوف ہے۔ معدہ و امعاء (انتڑیاں)، جگر جو مرارہ (پتہ) اعصاب اور جھلیوں سے مرکب ہے۔ دونوں گردے جن پر جھلیاں چڑھی ہوئی ہیں اور ان میں اعصاب بھی شامل ہیں۔ اسی طرح مثانہ، انیثین، قضیب، رحم وغیر ہ یہ مرکب اعضاء میں شریک ہیں۔

تقسیم اعضاء بلحاظِ مقام

مقام کے لحاظ سے اعضاء کی دو اقسام ہیں۔1۔ رئیسہ۔2۔غیر رئیسہ۔

اعضاء رئیسہ

وہ اعضاء جن پر بقا اور حیات کا دارومدار ہے۔ یہ تین ہیں۔ 1۔دل۔2۔جگر۔3۔دماغ۔ بعض حکماء اعضائے نسل کو بھی اعضائے رئیسہ میں شمار کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اعضائے نسلی بھی اعضائے رئیسہ سے مرکب ہے۔

غیر رئیسہ

اس کی دو اقسام ہیں۔1۔ خادم الرئیس۔2۔غیر خادم الرئیس۔

خادم الرئیس

خادم الرئیس تین ہیں۔1۔ دماغ کے لئے اعصاب۔2۔دل کے لئے شریانیں اور وریدیں۔3۔ جگر کے لئے جھلیاںاور غدد۔

غیر خادم الرئیس

اس کی دو اقسام ہیں۔1۔مروسہ۔2۔ غیر مروسہ۔

مروسہ

اس میں وہ مرکب اعضاء آجاتے ہیں جو اعضائے رئیسہ کی خدمت بلاواسطہ کرتے ہیں۔ جیسے معدہ ، مثانہ اور پھیپھڑے وغیرہ۔

غیر مروسہ
یہ وہ اعضاء ہیں جن سے مل کر مروسہ اعضاء بنتے ہیں۔ مثلاً ہڈیاں ، کرّیاں وغیرہ۔ان میں اپنی ذاتی قوت موجود ہوتی ہے جو ان کو قدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی ہوتی ہے۔ ان کی طرف اعضائے رئیسہ سے ظاہری طور پر کوئی قوت نہیں پہنچتی۔

5۔ ارواح

اگر چہ مذہب میں روح سے مراد نفسِ ناطقہ ہے مگر طب میں ہماری مراد “طبی روح” سے ہے۔ طب میں رُوحؔ ان لطیف بخارات کو کہتے ہیں جو اخلاط کے لطیف حصہ سے پیدا ہوں۔ جس طرح اعضاء اخلاط کے کثیف بخارات سے بنتے ہیں۔ چونکہ ارواح سے قوتوں کا اظہار ہوتا ہے اور یہ اظہار “نفسِ انسانی” کرتا ہے۔جس کے ذرائع قویٰ انسانی ہیں اس لئے قویٰ کی طرح ارواح کی بھی تین اقسام ہیں ۔1۔ روح حیوانی جس کا مقام دل ہے۔2۔ روحِ طبعی جس کا مقام جگر ہے۔3۔ روحِ نفسانی اس کا مقام دماغ ہے۔

نوٹ: فرنگی طب ان ارواح یا کسی ایک روح جو جسم ِ انسانی میں پائی جاتی ہے قائل نہیں ہے اور نہ اس امر کی قائل ہے کہ یہ ارواح جسمِ انسانی میں کچھ افعال سر انجام دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ کہ اس انکار کے برعکس وہ لطیف ارواح جن کو گیسز(Gases) کہتے ہیں، کے قائل ہیں۔ کہ وہ خون میں پائی جاتی ہیں۔اور یہ خون کے اندر اہم مقصد انجام دیتی ہیں۔ اس امر سے ثابت ہوا کہ فرنگی طب بھی بالواسطہ ان ارواح اور ان کے افعال سے پوری طرح متفق ہے۔ یہی گیسز(Gases)جب مختلف اعضاء میں جاکر اثرانداز ہوتی ہیں تو ان کے مختلف مقام اور افعال کی وجہ سے نام بدل جاتے ہیں۔ مثلاً جو گیسز دماغ اور اعصاب میں تحریک پیدا کرتی ہیں انہیں مینٹل فورس(Mental Force)روحِ نفسانی کہتے ہیں۔ جو دل یا عضلات میں اثرانداز ہوتی ہیں ان کو اینی مل فورس(Animal Force)یعنی روحِ حیوانی کہتے ہیں اور جو جگر اور غدد پر اثرانداز ہوتی ہیں ان کو فزیکل فورس(Physical Force)یعنی روحِ طبعی بھی کہتے ہیں۔

6۔ قویٰ

قویٰ ان قوتوں کو کہتے ہیں جن سے طبی روح کے افعال صادر ہوتے ہوں۔قویٰ کی تین اقسام ہیں۔

1۔ قوتِ طبعی۔2۔ قوتِ نفسانی۔3۔ قوتِ حیوانی۔

1۔ قوتِ طبعی

یہ وہ قوت ہے جس سے ایسی قوتوں کا اظہار ہوتا ہے جو زندگی کی بقا کے لئے تغیر وتصرف کرتی ہیں اس کا مقام جگر ہے۔اس کی دو اقسام ہیں۔1 ۔قوتِ تغیرو تصرف۔2۔قوت بقائے نسل۔

قوتِ تغیرو تصرف
ایسی قوت ہے جو جسم میں تغیر و تصرف کرے اور اس میں نشوارتقاء پیدا کرے۔اس کی بھی دو اقسام ہیں۔1۔غاذیہ۔2۔نامیہ۔

قوتِ غاذیہ

یہ وہ قوت ہے جو بدن کے ہر عضو کو غذا پہنچاتی ہے اور جزوِ بدن بناتی ہے۔ اس کے چار خدام ہیں۔

1۔ جاذبہ۔2۔ماسکہ۔3۔ ہاضمہ۔4۔ دافعہ۔

ان کی قوتیں اس طرح عمل میں آتی ہیں کہ اول قوتِ جاذبہ غذاکو جسم میں جذب کرتی ہے پھر قوتِ ماسکہ غذا کو اس وقت تک جسم میں قابو رکھتی ہے جب تک قوتِ ہاضمہ اس کو ہضم نہ کرلے اور پھر قوتِ دافعہ باقی فضلات اور غیر نافع چیزوں کو جسم سے خارج کردیتی ہے۔

قوتِ نامیہ

یہ ایسی قوت ہے جس جسم میں نوع و نسل کے اقتضیٰ کے مطابق تینوں قطروں میں جسم کی نشوونما کرے۔

قوت بقائے نسل

ایسی قوت جو ایک جسم کے لئے اپنی مثل جسم پیدا کرے۔ اس کی دو اقسام ہیں۔1۔ مولدہ۔2۔مصورہ۔

قوتِ مولدہ

یہ وہ قوت ہے جو اخلاط اور رطوباتِ بدن سے جوہرِ منی الگ کرتی ہے اور اس کے ہر جزو کو خاص عضو بننے کے لئے تیار کرتی ہے۔

قوتِ مصورہ

یہ وہ قوت ہے جو حسبِ امرِ خداوندی منی کے ہر جزو کو اس کے اقتضیٰ کے مطابق خط و خال اور جوف وغیرہ بخشتی ہے۔ جو جسم میں منی سے پیدا ہوتی ہے یا کوئی ایسی شکل اختیار کرتی ہے جو اس نوع کے قریب ہو۔

2۔ قوتِ نفسانی

یہ ایک ایسی قوت ہے جو جسمِ انسان میں احساس اور ادراک پیدا کرتی ہے اور ضرورت کے وقت حرکت کے لئے تحریک کرتی ہے اور اس کی ضرورت اس لئے ہے کہ حیوان اور انسان مضر چیزوں سے بھاگ سکے اورنفع بخش چیزوں کے قریب آسکے یہ ظاہر ہے کہ ان تحریکات کے لئے مفید و مضر باتوں کا احساس و ادراک ضروری ہے۔ اس کی دو اقسام ہیں۔ 1۔ قوتِ محرکہ(تحریک دینے والی قوت)۔2۔ قوتِ مدرکہ(ادراک کرنے والی)۔

1۔ قوتِ محرکہ

اس کی بھی دو اقسام ہیں۔

ا۔قوتِ شوقیہ
تحریک کا سبب بننے والی ۔اس کی دو خادم قوتیں ہیں

1۔ شہوانیہ : چیزوں کے حصول کا شوق رکھے۔

2۔ غضبانیہ: جو کسی خوفناک چیز سے دوربھاگنے کی کوشش کرے یا نفرت کا اظہار کرے یا جس سے طبیعت میں انقباض پیدا ہو۔

2۔ قوتِ فاعلہ

یہ وہ قوت ہے جو حرکت کے فعل کو تحریک دے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ یہ قوت عضلات کو سکیڑنے کا احساس پیدا کرتی ہے۔ جس سے وتر کھنچ جاتا ہے یا عضلات کو ڈھیلا کر دیتی ہے جس سے وتر دراز ہوجاتا ہے اور عضو پھیل جاتا ہے۔

نوٹ: یہ دونوں قوتیں اس طرح یکے بعد دیگرے اپنا فعل انجام دیتی ہیں کہ ان میں امتیاز کرنا ذرا مشکل ہو جاتا ہے یعنی جس وقت دماغ میں کسی ناپسندیدہ چیز کی ضرورت پیدا ہوتی ہےتو قوتِ شہوانیہ اس کے وصول کی سعی کرتی ہے یاقوتِ غضبیہ اس کے رفع کرنے کے لئے آمادہ ہوتی ہے۔اس طرح قوتِ شوقیہ قوتِ فاعلہ کو تحریک پر آمادہ کردیتی ہے لیکن ان افعال میں اس انسان یا حیوان کو قطعاً اس امر کا علم نہیں ہوتا کہ اس وقت کس عضلہ کو حرکت میں لایا جائے مگر پھر بھی وہ بغیر علم اور ارادے کے اسی عضلہ کو متحرک کرتا ہے جس کی اس وقت تحریکِ عضو کےلئے ضرورت ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قسط ۔10 نزلہ زکام وبائی

2۔ قوتِ مدرکہ

اس کی دو اقسام ہیں ۔1۔ مدرکہ ظاہری۔2۔ مدرکہ باطنی۔ مدرکہ ظاہری کی پانچ اقسام ہیں۔ان کو حواسِ خمسہ ظاہری بھی کہتے ہیں۔ان کا کام یہ ہے کہ یہ باہر کی معلومات دماغ کی اندرونی قوتوں تک پہنچانے ہیں۔ حواسِ خمسہ ظاہری حسبِ ذیل ہیں۔

1۔ قوتِ باصری: دیکھنے کی قوت۔

2۔قوتِ سامعہ: سننے کی قوت۔

3۔قوتِ شامہ:سونگھنےکی قوت۔

4۔قوتِ ذائقہ:چھکنے کی قوت۔

5۔ قوتِ لامسہ: چھونے کی قوت۔

مدرکہ باطنی

اس کو حواسِ خمسہ باطنی بھی کہتے ہیں۔ ایسی قوت ہے جو حواسِ خمسہ ظاہری کے احساسات اور ایسے تاثرات کا ادراک کرتی ہے۔ جن کو حواسِ خمسہ ظاہری احساس نہیں کر سکتے ۔ ان کی اقسام درج ذیل ہیں۔

1۔ حسِ مشترک

وہ قوتِ باطنی جو حواسِ خمسہ ظاہری کی احساس کی ہوئی چیزوں کو ضرورت کے وقت دوبارہ بغیر اس چیز کی موجودگی کے محسوس کرتی ہے اور تصور کرتی ہے۔ اس کا مقام مقدم دماغ کا پہلا (اگلا حصہ) ہے۔

2۔ قوتِ خیال

3۔ قوتِ متصرفہ

اس کو متخیلہ اور مفکرہ بھی کہتے ہیں۔ ایسی قوت ہے کہ اگر وہ حسِ مشترک کے احساسات کا اظہار کرے تو اس کومتخیلہ کہتے ہیں اور اگر قوتِ واہمہ کے ادراکات کا اظہار کرے تو اس کوقوتِ مفکرہ کہتے ہیں۔ اس کا مقام دماغ کا درمیانی حصہ ہے۔

4۔ قوتِ واہمہ

وہ قوت ہے جو اُن معانی کا ادراک کرتی ہے جن کاحواسِ خمسہ ظاہری ادراک نہیں کرسکتے۔ مثلاً کسی لفظ کے معانی کاجاننا جیسے اللہ کے معنی خدا یا کسی شخص کے متعلق یہ گمان کرنا کہ وہ میرا دوست ہے یا دشمن۔ اس کا مقام موخر دماغ کا مقدم حصہ ہے۔

5۔ قوتِ حافظہ

وہ قوت ہے جو وہم کے ادراکات کو محفوظ کرتی ہے اور ضرورت کے وقت ان کا ادراک کرتی ہے۔ اس کا مقام دماغ کے بطن مقدم کا آخری حصہ ہے۔

3۔ قوتِ حیوانی

قوتِ حیوانی ایسی قوت ہے جواعضاء کونفسیاتی قوت کے قبول کرنے پرآمادہ کرتی ہے اور اس کو حرکت کرنے کے قابل بنادیتی ہے۔ فی الحقیقت یہی قوت بدن کو حیات بخشتی اور زندہ رکھتی ہے۔ روح حیوانی اسی کی حامل اور حرارتِ غریزی اس سے قائم ہے۔

نوٹ:1۔اس قوتِ حیوانی کا قوتِ نفسانی سے جدا ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی عضو مفلوج ہوجاتا ہے تو اس میں کبھی حس باقی رہتی ہے اور کبھی حرکت۔جب حرکت قائم رہتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ قوتِ حیوانی قائم ہے اور جب حس قائم ہوتی ہے اور حرکت مفقود ہوجاتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ قوتِ حیوانی قائم نہیں مگر قوتِ نفسانی قائم ہے۔

2۔ یہ امر حقیقت پر مبنی ہے کہ دنیا کی ہر طاقت کا منبع حرکت ہے۔ اس حرکت سے دوسری طاقت ، حرارت پیدا ہوتی ہے اور تیسری طاقت سے غذائیت کا ظہور عمل میں آتا ہے۔ ان طاقتوں کو سائنس میں بالترتیب۔(Force, Heat, Energy)کہتے ہیں۔ اس سے ثابت ہواکہ دنیا میں تین قسم کی طاقتیں پائی جاتی ہیں۔

3۔ انسان کے اندر جو قوتِ اصلاح و تدبیر اور نظام میں مصروف رہتی ہے اس کو قوتِ مدبرہ بدن کہتے ہیں انگریزی میں اس کو (Vital Force)کہتے ہیں۔ یہ وائٹل فورس جسمِ انسان میں تین مخصوص کام کرتی ہے جن کا تعلق اعضائے رئیسہ کے ساتھ ہوتا ہے جو قوتِ مدبرہ بدن کے فرائض انجام دیتے ہیں ان کے نام اور اوصاف حسبِ ذیل ہیں۔

1۔ قوتِ طبعی
جو قوت جسم میں غذا اور نشوونما کاکام انجام دیتی ہے اس کو قوتِ طبعی(Natural Force)کہتے ہیں ۔ اس کا مقام جگر ہے۔

2۔ قوتِ نفسانی
جوقوت جسم میں احساسات اور تحریکات کا باعث ہوتی ہے اس کو قوتِ نفسانی(Mental Force)کہتے ہیں ۔ اس کامقام دماغ ہے۔

3۔قوتِ حیوانی
جو قوت جسم میں حرکات و افعال قائم رکھتی ہے اسے قوتِ حیوانی(Animal Force)کہتے ہیں۔ اس کا مقام دل ہے۔

دراصل یہ تینوں قوتیں ایک ہی قوت کے تین مظہر ہیں لیکن افعال کی مناسبت سے ان کی تقسیم کردی گئی ہے۔ کیونکہ قدرت نے ہر عضوکے افعال میں اس کی ایک جبلت پیدا کردی ہے جس پر وہ رواں دواں ہے۔

7۔ افعال

افعال فعل کی جمع ہے فعل وہ قوت ہے جو کسی عضو سے سرزد ہوتی ہے یعنی وہ سکون سے حرکت میں آئے اوراپنے مقررہ افعال انجام دے۔ اس کی دو اقسام ہیں۔1۔افعال مفرد۔ 2۔افعال مرکب۔

افعال مفرد

مفرد افعال وہ ہیں جو ایک ہی قوت سے صادر ہوں جیسے حس، احساس یا حرکت یا جذب اور دفع کے افعال۔

افعال مرکب

جو ایک سے زیادہ قوتوں سے سرزد ہوں جیسے مکھی کا اُڑانا۔ مکھی جسم پر ے اُڑانے میں حس اور حرکت دونوں کام کرتی ہیں یا غذاکا ہضم ہونا۔ کیونکہ غذاکے ہضم ہونے میں معدے کے عضلات، اعصاب اور رطوبات کی جھلیاں تمام کام کرتی ہیں۔

حالاتِ بدن

حالاتِ بدن معلوم کرنے کےلئے انسانی اعضاء کے افعال کامطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ دو صورتوں سے خالی نہیں ہوتے۔ 

1۔ افعال اعضاء صحیح طور پر انجام پا رہے ہوتے ہیں جس طرح ایک تندرست انسان میں دیکھے جاتے ہیں۔ 

2۔ افعال اعضاء درست اور صحیح حالات پر نہیں ہوتے ۔ یہ دوسری حالتِ صحت کے مخالف ہے ۔ اس کا نام مرض رکھا جاتا ہے۔
نوٹ: بعض اطباء نے حالتِ ثالثہ بھی لکھی ہے۔ یعنی لاصحت و لا مرض۔ لیکن یہ حالت صحیح نہیں ہوتی۔ کیونکہ جب انسان کے کسی عضو میں بھی مرض ہوگا اس کا اثر بالواسطہ یا بلاواسطہ تمام جسم ِ انسانی پر پڑے گا۔ مثلاً کسی ایک مقام کا درد تمام جسم کے اعصاب کو متاثر کردیتا ہے۔ اسی طرح کسی حصہ جسم کی سوزش اور حرارت بھی تمام جسمِ انسان کو متاثر کردیتی ہے۔

تعریف مرض

مرض بدن کی اس حالت کا نام ہے جب اعضائے بدن اور مجاری (راستے) اپنے افعال صحیح طورپر انجام نہ دیں۔ اعضاء اور مجاری تمام جسم کے صحیح حالات پر نہ ہوں یا ایک عضو کے بہرحال اس کو مرض کا نام دیا جاتا ہے۔مرض کی دو اقسام ہیں۔

1۔ مفرد۔ 2۔ مرکب۔

مفرد مرض کی اقسام

اعضاء کے افعال میں جب خرابی وارد ہوتی ہے تو اس کی تین ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔تغیر: جس میں اعضاء اور اس کے افعال کی طبعی حالت بدل جاتی ہے۔ نقصان: جس میں اعضاء اور اس کے افعال میں کمی یا خرابی واقع ہو جاتی ہے۔بطلان: جس میں اعضاء اور ان کے افعال بالکل باطل یا رک جاتے ہیں۔ پہلی حالت کا نام سوءِ مزاج ، دوسری حالت کا نام مرضِ ترکیب اور تیسری حالت کا نام تفرقِ اتصال ہے۔

1 ۔ سوءِ مزاج کی اقسام

اس کی دو اقسام ہیں ۔1۔ سادہ ۔ 2۔ مادی سوءِ مزاج سادہ ۔

یہ وہ مرض ہے جس میں صرف اعضاء کے اندر کیفیات میں کمی بیشی واقع ہوجائے۔ یعنی گرمی، سردی یا خشکی تری کا اعتدال سے بڑھ جانا۔

سوءِ مزاج مادی
یہ وہ مرض ہے جس میں کیفیات کے علاوہ اخلاط کی زیادتی کی وجہ سے مزاج میں تبدیلی واقع ہو جائے۔ جیسے اخلاط کی کمی بیشی۔

2۔ مرض ترکیب کی اقسام

اس کی چار اقسام ہیں۔1۔ مرضِ خلقت۔2۔مرض مقدار۔3۔ مرض عدد۔4۔ مرض وضع

1۔ مرضِ خلقت

یہ ایسا مرض ہے جس میں کسی عضو یا اعضاء کی شکل و صورت اپنی حالت پر قائم نہ رہے۔ مثلاً کسی سیدھے عضو کا ٹیڑھا ہوجانا یا ٹیڑھے عضو کا سیدھا ہوجانا۔اس کی بھی چار اقسام ہیِں۔1۔امراضِ شکل۔2۔ امراضِ مجاری۔3۔امراضِ مجادیف۔4۔ امراضِ سطح۔

1۔امراضِ شکل

ایسی حالت کانام ہے کہ کسی عضو کی حالت میں اس طرح تغیر ہو کہ اس کی شکل میں خلل پیدا ہوجائے۔ جیسے سر کاچپٹا ہونا وغیرہ۔

2۔ امراضِ مجاری
مرض کی ایسی حالت کا نام ہے جس میں اعضاء کے راستے خراب ہو جائیں مثلاً کسی مجاری کا تنگ یا ڈھیلا ہوجانا وغیرہ۔ مجاری: عضو کے اُن راستوں کو کہتے ہیں جس میں سے کوئی چیز گزرے۔ جیسے شریانیں ، وریدیں اور امعاء وغیرہ۔

3۔ امراضِ مجادیف

مرض کی اس حالت کا نام ہے جس میں مجادیف (جمع جوف) ضرورت سے زیادہ بڑے یا وسیع ہوجائیں یا تنگ یا چھوٹے ہو جائیں یا بالکل بندہو جائیں (بھر کربند ہوجائیں یا ویسے ہی بند ہوجائیں)۔ جوف: عضو کی اس اندرونی وسعت کو کہتے ہیں جس کے اندر کوئی چیز ٹھہرے جیسے خصیے۔

4۔ امراضِ سطح

مرض کی اس حالت کا نام ہے جس میں کسی عضو یا تمام جسم کی سطح خراب ہوجائے۔

2۔ امراضِ مقدار

مرض کی اس حالت کا نام ہے جس میں کوئی عضو یا تمام جسم اپنی مناسب مقدار سے زیادہ ہوجائے یا کم ہو جائے۔ جیسے جسم کا موٹایا دبلا ہونا یا کسی ایک بازوکا موٹا یا دبلا ہونا،

3۔ امراض عدد

مرض کی اس حالت کا نام ہے جس میں کسی عضو میں عدد کے لحاظ سے اضافہ یا کمی ہوجائے۔ مثلاً ہاتھ کی انگشت میں کمی یا زیادتی ہوجائے۔ اس کی دو اقسام ہیں۔ 1۔ طبعی: جو پیدائشی ہو۔2۔ غیر طبعی : جو بعد میں کسی مرض سے پیدا ہوجائے۔

4۔ امراضِ وضع

مرض کی ایسی حالت کا نام ہے جس میں کوئی عضو اپنے موضوع یا مقام سے دور ہوجائے یا اُکھڑ جائے یا کسی ساکن عضو میں حرکت پیدا ہوجائے یا متحرک عضو ساکن ہو جائے۔

2۔ امراض مرکب

مرض کی اس حالت کا نام ہے جس میں کسی ایک عضو کے امراض اکٹھے ہوجائیں۔ جیسے سل یا ورم۔

وجہ تسمیہ

امراض کے نام عام طورپر کسی حالت یا سبب یا علامت یا ان کے مجموعوں کو مدنظر رکھ کر رکھے جاتے ہیں۔ ،مثلاً صرع جس کے معنی ہیں گرنا یا فالج جس کے معنی ہیں نصف نصف ہونا۔

اوقاتِ مرض

بعض اوقات مرض میں اس امر کا خیال رکھنا چاہیے کہ مرض جس زمانے میں ہوا اس کے مطابق علاج کو مدنظر رکھیں۔ مثلاً اگر مرض ابتدائی حالت میں ہوتو رادع (لوٹانے والی) ادویہ استعمال کریں اور اگر مرض درمیانی حالت میں ہوتو رادع اور محلل ادویہ سے علاج کریں اور اگر انتہائی حالت میں ہوتو اس میں محلات اور مقویات کا استعمال کریں۔

نوٹ: مقویات کا استعمال ہمیشہ مرض کے اختتام پر کرنا چاہیے۔ اگر مرض کے دوران مقویات کا استعمال کیا گیا تو وہ ادویہ مرض کو تقویت دیں گی اور مرض بجائے کم ہونے کے زیادہ ہوجائے گا۔

منافع الاعضاء

جاننا چاہیے کہ انسان کی پیدائش مرد اور عورت کے نطفے سے ہوتی ہے ان نطفوں کا جب امتزاج ہوتاہے تو ایک جان بننے کے بعد وہ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد اس کی شکل شہتوت کی طرح اور پھر جونک کی صورت اختیار کر لیتا ہے اس کے بعد وہ تین حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ 1۔ ایک حصہ ہڈی، کرّی، دل اور گوشت بن جاتا ہے۔2۔ دوسرے حصے سے جگر، گردے اور دیگر غدد اور غشاء اور نالیوں کے استر وغیرہ بنتے ہیں۔3۔ تیسرے حصے سے دماغ، اعصاب اور جلد کا کچھ حصہ تیار ہوتا ہے۔ پھر یہ نو سے دس ماہ تک عورت کے رحم میں تکمیل پا کر عدم سے وجود میں آتاہے۔ اس جسم کے اندر قدرت نے چار نظام قائم کئے ہیں جن سے اس کے لئے بدلِ مایتحلل (یعنی خون) تیار ہوتا ہے، دوسرے خون صاف ہوتا ہے۔ اور تیسرے اس میں حرارت قائم رہتی ہے اور وہ نشوونما پاتا ہے۔ وہ چار نظام حسبِ ذیل ہیں۔1۔ نظامِ غذائیہ۔ 2۔نظامِ ہوائیہ۔ 3۔ نظامِ دمویہ۔ 4۔ نظامِ بولیہ۔

1۔ نظامِ غذائیہ

یہ نظام منہ سے شروع ہوتا ہے اور مقعد تک چلا جاتا ہے۔ اس میں منہ، مری، معدہ، امعاء، جگر، طحال اور لبلبہ شریک ہیں۔ اس نظام کا فعل یہ ہے کہ جو غذاکھائی جاتی ہے وہ پہلے منہ میں دانتوں کے ذریعے چبائی جاتی ہے جس میں منہ کا لعاب بھی شریک ہوتا ہے اس کے بعد مری کے ذریعہ معدہ میں پہنچتی ہے جہاں پر معدہ کی رطوبت سے ہضم ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس کا ایک حصہ مجریٰ الصدر کے ذریعے خون میں شریک ہوجاتا ہے اور باقی پھر امعاء کی طرف چلا جاتا ہے جہاں پر اس کو جگر کی طرف سے صفرا اور لبلبے کی رطوبات اور امعاء کی دیگر رطوبات ہضم کرتی ہیں پھر ماساریقا کے ذریعے اس کا جوہر کھنچ کر جگر میں چلا جاتا ہے جیسا کہ اخلاط کے بیان میں ذکر ہوچکا ہے اورباقی فضلہ مقعد کے ذریعے خارج ہوجاتاہے اس طرح یہ نظام اپنے افعال انجام دیتا ہے۔

یادداشت: جب مریض کے ہاضمہ میں خلل واقع ہو جس کی خاص علامات بھوک کا نہ لگنایابھوک زیادہ لگنا، قبض ہوجانا یا اسہال آناہیں یا اس نظام میں کسی جگہ درد یا ورم پیدا ہوجائے تو مریض کے اس تمام نظام کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ کس مقام پر خرابی واقع ہوئی ہے اور کونسا عضو اپنے افعال صحیح طورپرانجام نہیں دے رہاہے تاکہ علاج کرنے میں سہولت ہو۔

2۔ نظامِ ہوائیہ

اس نظام میں نتھنے، ہواکی نالی ، پھیپھڑےاور اس کی نالیاں شامل ہیں۔ اس نظام کے افعال یہ ہیں کہ وہ سانس کے ذریعہ ہوا میں سے نسیم (آکسیجن) حاصل کرتا ہے اور دخان (کاربانک ایسڈ گیس) خارج کرتا ہے۔اور یہ نسیم کا حصول اور دخان کا اخراج پھیپھڑوں کے اندر عمل میں آتا ہے۔جبکہ جسم کا خون پھیپھڑوں میں صاف ہونے کے لئے جسم سے بھیجا جاتا ہے۔ اس نظام میں جب خرابی پیدا ہوتی ہے تو اس میں عام طورپرکھانسی، نزلہ، زکام، سانس کی تنگی اور بلغم وغیرہ کی علامات پیداہوجاتی ہیں۔ ان امراض کےعلاج میں بھی تمام نظام کوغور سے دیکھنا چاہیے کہ تکلیف کس مقام پر ہے۔

3۔ نظامِ دمویہ

اس نظام میں دل، شرائین، اوردہ اور جلد شریک ہے۔ اس نظام کا فعل یہ ہے کہ یہ تمام جسم میں خون شرائین کے ذریعہ پہنچاتا ہے۔ اور اوردہ کے ذریعہ واپس دل کی طرف صاف ہونے کے لئے لاتا ہے جہاں سے وہ پھیپھڑوں میں صاف ہونے کے لئے جاتا ہے اور وہاں سے واپس دل میں آ جاتا ہے۔ اس نظام کا فضلہ جلد کے راستے خارج ہوتا ہے۔ اس نظام کا فائدہ یہ ہے کہ یہ جسم میں حرارت غریزی کو قائم رکھتا ہے اور خون کے تصفیہ میں اس کو بہت زیادہ دخل ہےجب یہ نظام بگڑ جاتا ہے تو جسم میں بخار، خون کی خرابی اور تمام جسم میں درد وغیرہ پیدا ہوجاتے ہیں۔

4۔ نظامِ بولیہ

اس نظام میں گردے، ہالبین، مثانہ اور پیشاب کی نالی شریک ہیں۔ اس نظام کو حصہ خون سے خاص قسم کے فضلات کو پیشاب کی شکل میں خارج کرتا ہے۔ اس نظام کی خرابی میں پیشاب میں کمی بیشی، یا کسی مقام پر پتھری اور ریگ کا پیدا ہوجانا یا درد کا ظاہر ہوناہے۔ اس نظام میں اگر کوئی تکلیف ہوتو اس میں بھی تمام نظام پر غور کرنا چاہیے کہ خرابی کہاں واقع ہے جس کے دفع کرنے سے نظام اپنی صحیح حالت پرکام کرنا شروع کردے۔

یہ چار نظام بقائے حیاتِ انسانی، اس کی نشووارتقاء اور تصفیہ و تغذیہ کے لئے ہیں۔ ان پر انسان کی زندگی کا دارومدار ہے۔ اگر ان میں سے ایک نظام بھی باطل ہوجائے تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ ان کے علاوہ ایک نظام اور بھی ہے جس کا انسان کی زندگی میں دخل تو نہیں مگر اس کا تعلق بقائے نسل ِ انسانی کے ساتھ ہے ۔ اس نظام کو نظامِ بقائے نسلِ انسانی کہتے ہیں۔

نظام بقائے نسلِ انسانی

1۔ اس میں عضوِ مخصوص ، خصیے اور منی کی نالیاں شامل ہیں۔ اس کے افعال یہ ہیں کہ یہاں پرخون سے منی تیار ہوتی ہے اور ضرورت کے وقت عورت کے رحم میں ڈال دی جاتی ہے جب اس نظام میں خرابی پیداہوتی ہے تو اس سے بہت بڑی خرابی انتشار میں نقص، رقتِ منی یا غلظتِ منی اور اخراج کی بے قاعدگی واقع ہوجاتی ہے۔اس کے علاج میں بھی باقی تمام نظام کے ایک ایک عضو کا مطالعہ کرنا چاہیے

2۔ جس طرح بقائے نسل کا نظام مردوں کے لئے ہے۔ اسی طرح بالکل ایک نظام عوتوں کے لئے بھی ہے۔ جس میں رحم، خصیۃالرحم، قاذفین اور بنظر شامل ہیں۔ اس نظام میں دوصورتیں قائم رہتی ہیں۔ اول یہ کہ تمام بالغ عورتوں کو ہر ماہ خون کا اخراج ہوتا ہے اور جب حاملہ ہوجاتی ہیں تو یہی خون بچے کی غذامیں صرف ہوتا ہے۔دوم اس نظام کے تحت عورت کا رحم مرد کا نطفہ قبول کرتا ہے اور اس کو رحم میں اسی خون سے پرورش کرتا ہے۔ اس نظام میں جب خرابی واقع ہوتی ہے تو ماہواری میں بے قاعدگی واقع ہو جاتی ہے ۔ کبھی ماہواری بند تو کبھی زیادہ اور کبھی تکلیف سے آتی ہے۔ اس کے علاوہ کبھی سیلان الرحم کی صور پیداہوجاتی ہے۔ ان امراض کے علاج کے لئے لازمی ہے کہ عورت کے اس تمام نظام کا بغور مطالعہ کیا جائے۔

3۔ عورتوں میں نظام ِ تناسل کے ساتھ ساتھ ایک تیسرا نظام بھی کام کرتا ہے جو دراصل اس نظام کی مدد کرتا ہے۔ یہ ہے نظامِ لبن۔ یعنی عورت کے وہ اعضاء جو خون میں سے دودھ کو تیار کرتے ہیں جو نومولود کی غذا بنتا ہے۔ اس نظام میں پستان اور اس کی نالیاں شامل ہیں ۔ یہ نظام اس وقت اپنا کام شروع کرتا ہے جب بچے کی پیدائش عمل میں آتی ہے اور تقریباًدو تین سال تک یہ نظام دودھ پیداکرتا رہتا ہے۔ طبی نکتہ نگاہ سے بچے کو دو سال دودھ ضرور پلانا چاہیے۔ اس نظام میں جو خرابی عام طور پر واقع ہوتی ہے۔ وہ دودھ میں انتہائی قلت یا اس میں زیادتی کا واقع ہوجانا ہے اور گاہے گاہے بچے کا سر شدت سے پستان کے ساتھ لگ جانے پر وہاں ورم کی صورت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات یہی ورم پک کر زخم کی صورت بھی اختیار کرلیتا ہے۔ ان تمام چیزوں کے علاج میں بڑی احتیاط کے ساتھ ان تمام اعضاء کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔

پیدائشِ امراض

سب سے پہلے یہ بات مدِنظر رکھیں کہ جس قدر بھی نظام اوپر بیان کئے گئے ہیں ان میں سے بعض آزاد ، بعض نیم آزاد اور بعض بعض کے ماتحت ہیں۔ ان میں نظامِ غذائیہ باکل آزاد نظام ہے جو جسم سے خود خوراک لیتا ہے اور اس کے فضلات کو خود خارج کرتا ہے اس پر دیگر تمام نظامات کا بہت کم اثر پڑتا ہے۔ نظامِ ہوائیہ نیم آزاد ہے یہ ایک طرف سے سانس کے ساتھ ہوا اندر جذب کرتا ہے اور گندی ہوا کو باہر خارج کرتا ہے لیکن اس پر نظامِ غذائیہ کا بہت گہرا اثر ہے جب نظامِ غذائیہ بگڑجاتا ہے تو اس کو بھی متاثر کرتا ہے۔ نظامِ دمویہ اور بولیہ اور نظامِ بقائے نسلِ انسانی یہ سب نظامِ غذائیہ اور ہوائیہ کے ماتحت ہیں کیونکہ یہ خود باہر سے کوئی چیز حاصل نہیں کرتے بلکہ نظامِ غذائیہ اور ہوائیہ جو کچھ غذااور ہوا سے حاصل کرتے ہیں۔ یہ ان کی صفائی اور تقویتِ جسم میں مصروف رہتےہیں۔

پیدائشِ امراض کی صورت

پیدائشِ امراض کی صورت اس طرح عمل میں آتی ہے کہ جب متذکرہ بالا نظامات میں سے کوئی ایک اپنا فعل انجام دینے میں کسی وجہ سے کمزور ہوجاتا ہے تو قوتِ مدبرہ بدن ان فضلات کو جو پورے طورپر اس نظام کے تحت اخراج نہیں پا سکتے ان کو پھر خون میں شریک کرکے دوسرے اعضاء کی طرف خارج کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ چونکہ یہ فضلات طبعی راستے کی بجائے غیر طبعی راستوں پر چلے جاتے ہیں ۔ اس لئے وہاں پر باعثِ مرض بن جاتے ہیں۔ جیسے قبض کی صورت میں طبیعت ان فضلات اور موادکو جو پائخانے کے راستے خارج ہوتا رہتا ہے۔ کبھی گردوں کی طرف روانہ کر دیتی ہے۔ کبھی پھیپھڑوں کی طرف اور کبھی جلد کی طرف وغیرہ وغیرہ۔ جب وہ گردوں کی طرف اپنے مواد اور فضلات کا اخراج کرے گی تو نظامِ بولیہ میں غیر طبعی مواد کی وجہ سے خرابی واقع ہوگی اور وہاں پر وہ امراض پیداہو جائیں گے جن کا ذکر اس نظام کے تحت کیا گیا ہے۔ اسی طرح جب یہ مواد نظامِ ہوائیہ اور دمویہ کی طرف رجوع کرے گا تو وہاں بھی امراض کا باعث ہوگا۔ اس لئے علاج کے دوران میں اول یہ ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ جو نظام خراب ہے یہ اس کی اپنی ذاتی خرابی ہے یا کسی دوسرے نظام کی خرابی کا اثر اس پر پڑرہا ہے۔ اگر وہ نظام بذاتِ خود خراب ہے تو صرف اسی کی اصلاح کردی جائے اور اگر کسی دوسرے نظام کی خرابی کا اثر پڑ رہاہے تو اول اس کی اصلاح کرنی چاہیے اور پھر اس کے بعد اس نظام میں خرابی باقی رہ جائے تو اس کی اصلاح کردی جائے ۔ اس طرح ہم امراض کی صحیح حقیقت اور ان کے علاج میں صحیح طورپر کامیاب ہو سکیں گے۔

علم الاسباب

تعریف اسباب

ایسے قوانین اور صورتیں جن سے زندگی اور کائنات کی تعمیر و تخریب کی صورتوں پر روشنی پڑتی ہے اور اُن کی وجہ سے احوالِ بدنِ انسانِ میں کوئی سی حالتِ صحت و مرض نمودارہوجائے یا پیدا ہوجائے یا پہلے پائے جاتے ہیں۔ اس کی دو اقسام ہیں۔اول وہ اسباب جو زندگی اور کائنات کی تعمیر و ارتقاء میں ممدومعاون ہوتے ہیں اور دوسرے ایسے اسباب جو ان کی تخریب کا باعث بنتے ہیں۔ اول اسبابِ ضروریہ اور دوم اسبابِ ممرضہ کہلاتے ہیں۔اسبابِ ضروریہ کی چھ اقسام ہیں۔اس لئے ان کو اسبابِ ستہ ضروریہ بھی کہتے ہیں۔ یہ ایسے اسباب ہیں کہ اگر ان میں سے ایک کی بھی نفی فرض کرلیں تو زندگی اور کائنات دونوں میں خلل واقع ہوجاتا ہے گویا یہ بدنِ انسان کے حالات میں تغیر پیدا کرنے والے یا ان حالات کی حفاظت کرنے والے ہیں۔اقسام کچھ اس طرح ہیں۔

1۔ ہوا

ہوا ہمارے اجسام کوہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ کیونکہ انسانی جسم کو اس کی ضرورت دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ ہے۔ ہر لمحہ سانس کے ذریعے جسم کے اندرجاتی اور باہرآتی ہے۔ جب اندرجاتی ہے تو روح کو معتدل بناتی ہے۔ اس مقصد کے لئے اپنے ساتھ نسیم لے جاتی ہے یعنی لطیف اور صاف ہوا جب باہر آتی ہے تو روح کے فضلات خارج کرتی ہے جس کی شکل مثلِ دخان کے ہے یعنی ثقیل اور گندی ہوا۔ صحت کے لئے لطیف اور صاف ہوا کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اس لطیف اور صاف ہوا کو نیستاں کی زمین، گڑھوں کا گندھا پانی، ردی ترکاریاں ، مضر درختوں کے بخارات، مُردوں کی بدبو، متواتر گردوغبار یا دھواں وغیرہ خراب کر دیتے ہیں لیکن جب ہوا کا مزاج اپنے اعتدال سے منحرف ہو جائے تو اس کے متعلق حکم متذکرہ بھی متغیر ہوجاتا ہے۔ ہوا کے تغیرات کی دو صورتیں ہیں۔1۔ طبعی۔2۔غیر طبعی

طبعی تغیرات

ایسے تغیرات جو طبعی طور پر ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ جیسے ۔1۔موسمی تغیرات۔2۔ مختلف سمتوں کی ہوائیں۔3۔ پہاڑوں اور سمندروں کا قرب۔ 4۔ زمین کا تغیر۔

موسمی تغیرات اور ان کا مزاج
کل چار موسم ہیں۔

1۔ ربیع : یعنی موسمِ بہار جو سردیوں کے بعد آتا ہے اس کا مزاج معتدل ہوتا ہے۔

2۔ صیف : موسمِ گرما، گرم خشک ہے۔ 

3۔ خریف: موسمِ خزاں جو گرمیوں کے بعد اور سردیوں سے پہلےآتا ہے، اس کا مزاج سرد خشک ہے۔ 

4۔ شتاء: موسمِ سرما اس کا مزاج سرد تر ہے۔

موسمی امراض

تمام موسم اپنے مزاج کے مطابق امراض پیدا کر تے ہیں اور مزاج کے خلاف امراض کو دور کرتے ہیں یا دور کرنے میں مدد کرتے ہیں اور اکثر دور کر دیتے ہیں۔

1۔ موسمِ گرما کے امراض

موسمِ گرما کا مزاج گرم خشک ہے۔ اس سے جسم میں صفرا زیادہ پیدا ہوتا ہے اور اس میں تیزی آ جاتی ہےجس سے جسم میں بے چینی اور حدت بڑھ جاتی ہے، دل گھبراتا ہے، صفراوی بخار اور سوزشی امراض پیدا ہوجاتے ہیں اور خشکی جسم میں نمایاں ہو جاتی ہے۔ اس سے البتہ موسمِ سرما کے امراض مثلاً نزلہ، زکام، نمونیہ اور ہر قسم کی بلغم خشک ہوجاتی ہے۔

2۔ موسمِ خریف کے امراض

چونکہ یہ موسم گرمی کے بعد آتا ہے۔ اس لئے اس موسم میں گرمی تو ختم ہو جاتی ہے البتہ خشکی قائم ؔرہتی ہے۔ اس طرح اس موسم کامزاج سرد خشک بن جاتا ہے۔ اس موسم میں جسم میں سودا بڑھ جاتا ہے جس سے ہاضمہ کی خرابی، ریاحی امراض کی زیادتی، بدن میں درد وغیرہ پیدا ہو جاتے ہیں۔ البتہ بھوک کی زیادتی اور صفراکی حدت میں کمی اور خون میں غلظت پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

نوٹ: قانونِ فطرت یہی ہے کہ دونوں کیفیات اکٹھی نہ بدلی جائیں بلکہ باری باری ایک ایک کیفیت کو دور کیاجائے مثلاً گرمی خشکی کے علاج میں پہلے گرم کیفیت کو دور کیا جائےاور بعد میں خشک کیفیت کو رفع کیا جائے۔ اسی طرح سرد خشک کیفیت میں پہلے خشک کیفیت کودور کیا جائے اور پھر سردی کو رفع کیا جائے۔ سردی تری کے علاج میں پہلے سردی اور اس کے بعد تری کا علاج کیاجائے۔ اسی طرح گرمی تری میں اول گرمی اور بعدمیں تری کو رفع کیا جائے ۔ جس طرح فطرت موسموں کے تغیرات سے سبق دیتی ہے۔

3۔ موسمِ سرما کے امراض

اس موسم میں گزشتہ موسم خریف کی سردی کے ساتھ رطوبت کا بھی اضافہ ہوجاتاہے اور اس موسم کا مزاج سرد تر بن جاتا ہے۔ اس موسم میں بدن بلغم کی زیادتی ہوجاتی ہے جس کے ساتھ بلغمی امرض مثلاً نزلہ، زکام، سردی کا لگ جانااور نمونیا وغیرہ اکثر پایا جاتا ہے۔البتہ اس سے صفراوی امراض دور ہوجاتے ہیں۔ خون کی حدت رفع ہوجاتی ہے۔

4۔ موسمِ بہار(ربیع) کے امراض

اس موسم میں گزشتہ موسم کی رطوبت تو باقی رہتی ہے البتہ اس میں گرمی کا اضافہ ہوجاتا ہے اور اس موسم کا مزاج گرم تر بن جاتا ہے۔ اس موسم میں سردی کی وجہ سے رکے ہوئے مواد گرمی کی وجہ سے تحلیل ہوکر بہہ نکلتے ہیں یا حدت ان پر اثر کرکے ان کو پکا کرپھوڑے پھنسیوں کی شکل میں خارج کردیتی ہے۔ اس لئے اس موسم میں عام طورپر اسہال، قے اور ہیضہ کے امراض زیادہ ہوتے ہیں۔

2۔ مختلف سمتوں کی ہوائیں

جنوب اور جنوبی ہواگرمی تری پیداکرتی ہے۔ شمال اور شمالی ہوا سردی خشکی پیدا کرتی ہے۔ مشرق اورمغرب کی سمتوں کی ہوائیں اعتدال کے قریب ہیں۔

3۔ پہاڑوں اور سمندروں کا قرب

اگر پہاڑشہرسے دکھن کی طرف ہوگا تو اس شہرکی ہوا نسبتاً سرد ہوگی۔ اور شمال کی طرف ہوگا تو اس شہر کی ہوا نسبتاً گرم ہو گی۔ اگر سمندر شہر سے دکھن کی طرف ہوگا تو شہرکی ہوا نسبتاً گرم ہوگی اور شمال کی طرف ہوگا تو نسبتاً سرد ہوگی۔ ان وجوہات یہ ہیں کہ پہاڑ سورج کی شعاعوں کو شہر کی طرف آنے میں رکاوٹ ڈالتاہے۔ اسی طرح سمندر کی مرطوب ہوائیں بھی گرمی اور سردی کے اثرمیں رکاوٹ کا باعث ہوتی ہیں۔

4۔ زمین کاتغیر

زمین کے تغیر سے عام طورپر پتھریلی زمین خشکی پیدا کرتی ہےلیکن جسم کو مضبوط بناتی ہے۔ خاکی اور تر زمین ہواکو مرطوب کرتی اور ریگستانی زمین گرمی خشکی پیداکرتی ہے۔ میدانی زمین گرمی اور تری پیدا کرتی ہے۔عام طورپر ٹھنڈی ہوا بدن کومضبوط اور قوائے ہضم کو تیز اور رنگ کو صاف کرتی ہے۔ گرم ہوا جسم کو ڈھیلا اور قوائے ہضم کو ضعیف اور رنگ کو سیاہ کر دیتی ہے۔

وباء
مسموم ہوا فاسد ہو کر زہریلی ہوجاتی ہے اور کثر ہلاکت کاموجب ہوتی ہے۔

ہواکے غیر طبعی تغیرات

اس کی دو اقسام ہیں۔

1۔ اول وہ طبعیت کے مخالف نہیں ہوتے جیسے اسبابِ سماوی اور ارضی۔ اسبابِ سماوی افلاک سے متعلق ہیں۔ چنانچہ کبھی آفتاب کے ساتھ بہت سے روشن ستارے جمع ہوجاتے ہیں اور موسمِ سرما میں گرمی پیدا کردیتے ہیں یا سورج گہن کے وقت موسمِ گرما میں یکایک سردی پیدا ہوجاتی ہے۔ ارضی کا تعلق زمین سے ہوتا ہے جیسے مختلف مقامات کی وجہ سے ہوا مختلف ہوجاتی ہے۔ دوسرے ویسے غیر طبعی تغیرات جو طبیعت کے مخالف ہوتے ہیں جیسے وباءجو عام طورپر بڑی بڑی جنگوں کے دوران لاشوں کے متعفن ہونے سے ہوا میں زہریلے اثرات نفوذ کرجاتے ہیں جس سے وہ مسموم ہوجاتی ہے اور وبائی صورت اختیار کرلیتی ہے۔

2۔ ماکولات و مشروبات

ماکول ومشروب میں وہ سب چیزیں شامل ہیں جو کھانے پینے میں آتی ہیں اور منہ کے ذریعہ جسم میں پہنچائی جا سکتی ہیں ان کی چھ صورتیں ہیں۔ 1۔ غذائے مطلق۔2۔ دوائے مطلق۔3۔ سمِ مطلق۔4۔ غذائے دوائی۔5۔ دوائے غذائی۔6۔ دوائے سمی۔

1۔ غذائے مطلق

یہ وہ خالص غذاہے جی جب بدن میں وارد ہوتی ہے تو بدن سے متاثر ہوکر متغیر ہوجاتی ہے لیکن بدن میں کوئی تغیر پیدا نہیں کرتی بلکہ خود جزوِ بدن ہوکر بدن کے مشابہ ہوجاتی ہے۔ مثلاً روٹی، گوشت اور دودھ وغیرہ۔

2۔ دوائے مطلق

دوائے مطلق وہ ہے جو بدن سے متاثر ہوکربدن میں تغیر پیدا کردے اور آخر کا جزوِ بدن ہوئے بغیر بدن سے خارج ہوجائے۔

3۔ سمِ مطلق

یہ خالص زہر ہے جو خود تو بدن ست متغیر و متاثر نہیں ہولیکن بدن میں اپنا اثر وتغیر پیداکرکے فساد کا باعث ہومثلاً سنکھیا اور سانپ کا زہر وغیرہ۔

4۔ غذائے دوائی

غذائے دوائی وہ ہے جو بدن سے متاثر ہوکرمتغیر ہوجائےاور اس کے بعد خود بدن کو متاثر و متغیر کردے اور اس کا زیادہ حصہ جزوِ بدن بنے اور کچھ حصہ بغیر جزوِ بدن بنے جسم سے خارج ہوجائے مثلاً پھل وغیرہ۔

5۔ دوائے غذائی

وہ ہے جو بدن سے متاثر ہوکر متغیر ہوجائے اور اس کے بعد بدن کو متاثر و متغیر کردے اور اس کا کچھ حصہ جزوِ بدن بنے اور زیادہ حصہ بغیر جزوِ بدن بنے جسم سے خارج ہوجائے مثلاً میوہ جات اور پھل وغیرہ۔

6۔ دوائے سمی

وہ ہے جو بدن سے کم متاثر ہواور بدن کو زیادہ متغیر کرے اور نقصان پہنچائے۔مثلاً کچلہ، دارچکنا وغیرہ۔

ماکول و مشروب کے اثر کرنے کی صورتیں

ماکول و مشروب کے اثر کرنے کی صورتیں یہ ہیں کہ اگر فقط مادے سے اثرانداز ہو تو اسے غذا، اگر صرف کیفیت سے اثر کرےتو دوا ہے۔ اگر اس کا اثر مادہ اور کیفیت دونوں کے لحاظ سے ہوتواگر مادہ زیادہ ہے تو غذائے دوائی اور اگرکیفیت زیادہ ہے تو دوائے غذائی کہتے ہیں ۔ اگر صرف اپنی صورتِ نوعیہ سے اثرکرےاُسے ذوالخاصہ کہتے ہیں۔جس کی دو صورتیں ہیں۔اول ذوالخاصہ مواقفہ (تریاق) اور دوسرے ذوالخاصہ مخالفہ جیسے زہر اگر مادے اور صورتِ نوعیہ سے اثر کرے توغذائے ذوالخاصہ اور اگرکیفیت اور صورتِ نوعیہ سے اثر کرے تو اس کو دوائے ذوالخاصہ کہتے ہیں۔

غذاکی دو اقسام ہیں۔ 

1۔لطیف۔2۔ کثیف

غذائےلطیف
ایسی ہلکی غذا جس سے رقیق خون پیدا ہو جیسے آبِ انار۔

غذائے کثیف
ایسی بھدی غذا جس سے غلیظ (گاڑھا) خون پیدا ہومثلاً گائے کا گوشت۔ پھر ہر ایک کی دو صورتیں ہیں۔ 1، صالح الکیموس یا فاسد الکیموس۔2۔ کثیر الغزایا قلیل الغزا۔

صالح الکیموس
ایسی غذا جس سے جسم کے لئے بہترین خلط پیدا ہو۔ جیسے بھیڑکا گوشت، ابلا ہوا انڈہ وغیرہ۔

فاسد الکیموس
وہ غذا ہے جس سے ایسی خلط پیدا ہوجو بدن کےلئے مفید نہ ہوجیسے مولی یا نمکین سوکھی مچھلی۔ کیموس کا مطلب خلط ہے۔

کثیر الغزا
یہ وہ غذا ہے جس کا اکثر حصہ خون بن جائے جیسے نیم برشٹ انڈے کی زردی۔

قلیل الغزا
ایسی غذا جس کابہت تھوڑا حصہ خون بنےجیسے پالک کا سالن۔

غذائے لطیف، کثیر الغزا اور صالح الکیموس کی مثال انڈے کی زردی، نیم برشٹ انڈہ اور ماء اللحم(یخنی) ہے۔ غذائے کثیف قلیل الغزا اور فاسدالکیموس کی مثال خشک گوشت، بینگن، مسور اور باقلا ہیں۔

پانی

پانی چونکہ ایک بسیطؔ رکن ہے۔ اس لئے بدن کی غذا نہیں بنتا بلکہ غذا کا بدر قہ بنتا ہے۔ یعنی غذا کو پتلا بنا کرباریک ، تنگ راستوں میں پہنچانے کا کام کرتا ہے۔

ؔنوٹ: یہ یاد رہے کہ موجودہ پانی جوہمارے گردوپیش ہےیہ وہ بسیط پانی نہیں ہے جیسا کہ ارکان کے بیان میں لکھاجاچکا ہے بلکہ یہ مرکب پانی ہے اور کئی چیزوں سے مرکب ہے۔ یہ پیٹ میں جاکرپھٹ جاتا ہے اور اس میں سے خالص (رکن) پانی جسم میں اپنے فرائض انجام دیتا ہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔

بہترین پانی

چشموں کا پانی سب سے بہتر ہوتا ہےاورچشموں میں سے بہترین چشمہ وہ ہے جس کی زمین طبنی(خاکی) ہواور اس کی صفت یہ ہوکہ اس کا پانی شیریں ہو، مشرق کی طرف بہتا ہواس کا سرچشمہ دور ہو، بلندی سے پستی کی طرف آئے اور اس پر آفتاب کی روشنی پوری طرح پڑتی رہے۔

دوسرے درجہ کا پانی

چشموں کے پانی کےبعد بارش کا پانی کا درجہ ہے۔ لیکن اس میں بھی بہترین پانی وہ ہے جو پتھریلے گڑھے میں جمع ہو گیا ہو اور اس پرخوب دھوپ پڑتی ہو اور اس کے ساتھ شمال مشرق کی ہواؤں کے تھپیڑے لگتے ہوں ان پانیوں کے علاوہ دوسرےسب پانی تیسرے درجہ کے ہیں۔ جیسے دریاؤں ، نہروں اور ندی نالوں کا پانی وؔغیرہ۔

نوٹ:آج کل شہروں میں پمپنگ اور ڈسٹلنگ کا انتظام ہےیعنی پانی کو مشینوں کے ذریعے کھینچ کراس کی تقطیر کی جاتی ہےجو انسانی ضرورت کے لئے ایک اچھی قسم کا پانی بن جاتا ہے لیکن یہ پانی بھی چشموں اور بارش کے پانی جو اپنی صفات میں مکمل ہوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

3۔ نیند و بیداری

سونا جاگنا ضروریاتِ زندگی کے لئے نہایت اہم ہے۔ اس میں کمی بیشی صحت کے بگاڑ کا موجب بن جاتی ہے۔ نیند ظاہر بدن کو سرد اور اندرنی بدن کو گرم کرتی ہے۔ اگر نیند کمی کے ساتھ ہوتو تری پیدا کرتی ہے اور زیادتی کے ساتھ سردی خشکی پیدا کرتی ہے۔ نیند کو سکون سے زیادہ مناسبت ہے۔ نیند میں روح اندر کو دھنس جاتی ہے اور اسی وجہ سے بیرونی بدن ٹھنڈاہوجاتا ہے اور اکثر کپڑا اوڑھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ زیادہ سونا بدن میں بہت زیادہ رطوبت پیدا کرتا ہے اورپھر اس میں سردی کی زیادتی سردی خشکی پیدا کردیتی ہے جس سے خون میں غلظت اور سوداویت (گاڑھا اور سیاہ خون) پیدا ہوجاتی ہے۔ گویا خون اور دماغ دونوں پر بُرا اثرکرتا ہے۔ نیند غذاکو ہضم کرتی ہےجس سے بدن میں گرمی پیدا ہوتی ہے۔ اور جب بدن میں غذا نہیں ہوتی تو روح اور جسم کو تحلیل کرکے ٹھنڈا کر دیتی ہے۔ دن میں سونا بُراہے اس سے جسم کا رنگ خراب ہوجاتا ہے۔ تلی (طحال) میں نقص پڑ جاتا ہے جس سے خون کو اچھی طرح صاف نہیں کرسکتی۔ منہ میں بدبُو پیدا ہوجاتی ہے۔ تمام جسمانی قوتیں سست ہوجاتی ہیں۔ ذہن کُند ہوجاتا ہے۔ اس لئے دن کے وقت سونے کی عادت کو آہستہ آہستہ چھوڑدینا چاہیے البتہ جو لوگ رات کو جاگتے ہیں یا عبادت گزار ہیں یا دماغی محنت کرتے ہیں اُن کے لئے قیلولہ کرنا بہت ضروری اور مفیدہے۔ کیونکہ رات کو تھوڑی نیند سے اُن کی غذا پوری طرح ہضم نہیں ہوتی اس لئے قیلولہ سے یہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔

بیداری کا اثر تمام باتوں میں نیند کے بر عکس ہوتا ہےیعنی بیداری کی مشابہت حرکت سے ہے اور اس سے جسم میں حرارت پیدا ہوتی ہے۔ بد خوابی(ایسی حالت جس میں پوری طرح نیند نہ آئے بلکہ کبھی نینداور کبھی بیداری کبھی دونوں کی درمیانی حالت) میں نیند چونکہ حرارت کو بدن کے اندر کی طرف لے جاتی ہےاور بیداری باہر کی طرف تو اس کشمکش میں طبیعت گھبراجاتی ہے اور ساتھ ہی کیونکہ وہ پوری طرح اندر کی طرف متوجہ ہوکر غذاکو ہضم نہیں کرسکتی اور نہ ہی باہرکی طرف پوری طرح رجوع کرکے فضلات کا اخراج کر سکتی ہے اس لئے غذافاسد ہو جاتی ہے اور شکم میں نفخ، ریاح اور قراقر پیدا ہوجاتے ہیں۔نیند کے متعلق صحیح صورت یہ ہے کہ جوانی میں دن رات کا چوتھائی یعنی (چھ گھنٹے) کافی ہے البتہ بچوں، بوڑھوں اور مریضوں کو زیادہ سونا چاہیے۔

4۔ حرکت و سکونِ بدنی

حرکت ایسی صورت کا نام ہے۔جب کوئی شے(جسم)کسی خاص وضع (سکون یا قیام) سے فعل میں آئے۔ درحقیقت اس دنیا میں سکون مطلق کا وجود نہیں ہے۔ البتہ جب اس کا ذکرکیا جاتا ہے تو اس سے مراد حرکت و سکون نسبتی ہوتی ہے۔ یعنی جب کوئی جسم بلحاظ دوسرے جسم کے کسی خاص وضع یا خاص حالت پر قائم رہتا ہےتو اس کو ساکن ہونا کہتے ہیں اور جب اس کی وضع یا حالت فعل میں آجاتی ہے تو اس کو حرکت کہتے ہیں۔ حرکت جسم میں گرمی پیدا کرتی ہے اور اس کی زیادتی جسم کی تحلیل کرتی ہے۔ سکون سردی پیدا کرتا ہے اور جسم میں رطوبت کو زیادہ کرتا ہے۔ البتہ حرکت و سکون دونوں کی انتہائی زیادتی جسم میں خشکی پیدا کرتی ہے۔ معتدل حرکت و سکون غذاکو ہضم کرنے اور جسم کو صحت مند رکھنے میں ممدومعاون ہے۔ حرکت و سکون دونوں کی انتہائی زیادتی جسم میں سردی پیدا کردیتی ہے کیونکہ زیادتی حرکت اور زیادتی سکون میں اول الذکر جسم کوتحلیل کرکے سردی کاباعث ہوتی ہے۔

5۔ حرکت و سکون نفسانی

حرکت و سکون نفسانی ، نفس کی حرکت کا نام ہے اور جو ضرورت کے وقت کبھی جسم کے اندر کبھی جسم کے باہر حرکت کرتا ہے جس کے ساتھ حرارت جسم بھی کبھی اندر کی طرف چلی جاتی ہے اور کبھی باہر کی طرف نمایاں طورپر ظاہر ہوتی ہے۔ پھر ان کی دو صورتیں ہیں۔1۔ حرکت کا دفعۃً اور یکلخت اندر یا باہر کی طرف جانا۔2۔ آہستہ آہستہ اندر اور باہر کی طرف رجوع کرنا۔ اسی طرح ایک تیسری صورت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ جس میں یہ نفس بیک وقت کبھی اندر کبھی باہر حرکت کرتا ہے۔ جاننا چاہیے کہ نفس جس طرف حرکت کرتا ہے وہاں دورانِ خون تیز ہو کرحرارت پیدا کردیتا ہے اور جس مقام سے حرکت کرکے جاتا ہے وہاں دورانِ خون کی کمی ہوکر سردی پیداہو جاتی ہے۔

جسم انسان پر نفسیاتی اثرات

جسمِ انسانی پر نفسیاتی اثرات کی تین بالمقابل صورتوں کے چھ جذبات یہ ہیں۔

1۔ مسرت۔2۔غم۔3۔خوف۔4۔ غصہ۔5۔ لذت۔6۔ شرمندگی۔

غصہ: غصہ کی حالت میں جذبے کا اظہار باہر کی طرف یک بارگی ہوتاہے۔ خوف: خوف کی حالت میں جذبے کا رجوع یک بارگی اندر کی طرف ہوتا ہے۔ خوشی: خوشی کی حالت میں کسی جذبے کا رجوع رفتہ رفتہ باہر کی طرف ہوتا ہے۔ غم: غم کی صورت میں کسی جذبے کا رجوع رفتہ رفتہ اندر کی طرف ہوتا ہے۔ شرمندگی: شرمندگی کی حالت میں نفس یک بارگی کبھی اندر اور کبھی باہر جاتا ہے۔ لذت: اس حالت میں نفس آہستہ آہستہ کبھی اندر اور کبھی باہرجاتا ہےؔ۔

نوٹ:حرکت وسکونِ نفسانی: دراصل نفس کی حرکت و سکون نہیں۔ کیونکہ نفس اپنا مقام نہیں بدلتا۔ ایسا مجازاً کیا جاتاہے۔ البتہ نفس کے انفعالات اور تاثرات خون اور روح میں ضرور حرکت پیدا کردیتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر یہ انفعالات و تاثرات دراصل باعث حرکت میں ان کا عدم سکونِ روح اور خون ہے۔ یہ حرکت وسکونِ نفسانی بدن کے لئے ویسا ہی ضروری ہے جیسا حرکت وسکونِ بدنی۔ کیونکہ بدنی حرکات کا دارومدار خواہشات و جذبات ِ نفسانیہ پر بھی ہےمثلاً شوق کے وقت طلب کی حرکت، نفرت کے وقت فرار کی صورت، غصے کے وقت مقابلے کی حالت اور اسی طرح خوف کے وقت چہرے کا سفید ہوجانا اور غصے کے وقت چہرے کا سرخ ہوجانا یہ سب کچھ خون اور روح کے زیرِاثر ہے۔ اس کے برعکس نفسیاتی سکون کی ضرورت اس لئے ہے کہ روح اور خون کو نسبتاً آرام حاصل ہوتاکہ وہ زیادہ تحلیل نہ ہوجائے۔

جاننا چاہیے کہ نفس جب کسی مناسب یا مخالف شے کا ادراک اور احساس کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ مناسب کو حاصل کرنا اور مخالف سے بچنا چاہتا ہےتو اس وقت اپنی نفسانی قوتوں کو حرکت میں لاتا ہےاور یہ مسلمہ امر ہے کہ یہ نفسیاتی قوتیں ارواح کے تابع ہیں جن کا حامل خون ہے گویا ارواح خون کی حرکت کے بغیر اور خون نفسانی قوتوں کے بغیر عمل نہیں کر سکتا۔ اسی عمل کا نام نفسانی حرکت و سکون ہے ۔ نفسیاتی جذبات کو سمجھانے کےلئے اور سہولت کی خاطر ہم نے ان کو اعضائے رئیسہ کے مطابق تین حصوں میں تقسیم کردیا ہے اور ہرعضو کے لئے دو جذبے مخصوص کر دئیے جائیں۔ ان دو جذبوں میں ایک اس عضو میں انبساط پیدا کرتا ہے اور دوسرا انقباض۔ ان کی ترتیب یہ ہے۔1۔ دل: دل پر مسرت سے انبساط پیدا ہوتا ہے اور غم سے انقباض۔2۔ دماغ: دماغ میں لذت سے انبساط اور خوف سے انقباض۔3۔ جگر : جگر میں ندامت سے انبساط پیدا ہوتا ہے اور غصے میں انقباض۔

لیکن یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ جب دل ، دماغ اور جگر کسی ایک میں کسی خاص قسم کی تحریک ہوگی تو باقی دو اعضاءمیں بھی کوئی نہ کوئی حالت پائی جائے گی۔ مثلا: اگر اعصاب میں تحریک ہوگی تو یہ ضروری بات ہے کہ جگر میں تحلیل (انبساط) اور دل میں سکون(سردی) پائی جائے گی۔ گویا اس امر کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ جب کسی جذبے کے ماتحت کسی عضو کامطالعہ مقصود ہوتو باقی اعضاء کو بھی نظراندازنہ کیا جائے۔

یہ ملے جُلے جذبات دراصل دو جذبوں سے مرکب ہوتے ہیں ۔ جیسے شرمندگی خوف اور غصے سے مرکب ہے ۔ اس لئے خوف کی حالت میں نفس یک بارگی اندر کی طرف رجوع کرتا ہے اور غصے میں یک بارگی باہر کی طرف یعنی اس شخص کو جسے شرمندگی ہوتی ہے اُسے بیک وقت خوف کے ساتھ غصہ بھی آتا رہتا ہے۔یہ غصہ دراصل خوف کے جذبے کو دور کرنے کی جدوجہد ہوتی ہےیا ردِ عمل ہوتا ہے۔ ایسے ہی لذت بھی مسرت اور غم سے مرکب ہے۔ ان کی حقیقت یہ ہے کہ خوشی اور غصہ کی حالت میں قلب پر ایسا اثر پڑتا ہے جس سے اس کی حرکت تیز ہو جاتی ہے اور خون زیادہ مقدار میں شریانوں کی طرف روانہ ہوجاتا ہے اور تمام اعضاء میں زیادہ پہنچتا ہے اس لئے بیرونی اعضاء میں خون کی گرمی اور جوش معلوم ہوتا ہے اس کے برعکس خوف اور غم کی حالت میں قلب پر ایسا اثر پڑتا ہےکہ اس کی حرکت سست ہونی شروع ہوجاتی ہےاور خون بیرونی جسم کی طرف مقدار میں کم ہونا شروع ہوجاتا ہے اور اسی وجہ سے تمام اعضاء میں کم پہنچتا ہے جس سے جسم ٹھنڈا اور سست ہوجاتا ہے۔

احتباس و استفراغ

استفراغ کے معنی ہیں مواد و فضلات کابدن سے اخراج پانا اور احتباس کے معنی ہیں غذائی اجزاء اور فضلات کا جسم میں رکنا۔فضلات دراصل اضافی لفظ ہے ۔ حقیقت میں فضلات کوئی شے نہیں ہے کیونکہ جن مواد کی کسی جسم کے لئے ضرورت نہیں ہوتی وہ اس کے لئے فضلا ت بن جاتا ہے۔ کیونکہ اکثرایسا بھی ہوتا ہے کہ جسم کے اندر غیر ضروری غذائی اجزاء یا مفید مواد، جب ان کو طبیعت قبول نہیں کرتی یا طبیعت کو ان کی ضرورت نہیں ہوتی تو وہ سب فضلات میں شامل ہیں۔ فضلات سے مراد ہے فاضل چیز یا فالتو شےؔ۔

نوٹ: جو غذا کھائی جاتی ہے تندرستی کی حالت میں جسم اس کا ایک خاص حصہ جذب کرکے جزوِ بدن بنا دیتا ہے اور باقی کو فضلات کو شکل میں خارج کردیتا ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ فضلات میں جسمِ انسان کے لئے غذائیت باقی نہیں رہی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جس قدر صحت اچھی ہوتی ہے اور اعضاء مضبوط ہوتے ہیں اُسی قدر زیادہ غذائی اجزاء جذب اور جزوِ بدن بنتے ہیں اور فضلات کم خارج ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مریض اور کمزور اعضاء والے جتنی زیادہ سے زیادہ غذاکھائیں ان کے اندر اتنی طاقت اور خون کی مقدار پیدا نہیں ہوتی۔ سوال غذاکی قلت و کثرت اور اعلیٰ و ادنیٰ کا نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کی صحت اور مضبوط اعضاء کا ہے اگر یہ ہے کہ تو خود بخود زیادہ غذاہضم ہوتی اور جزوِ بدن بنتی ہے اور زیادہ سے زیادہ طاقت اور خون پیدا ہوتا ہے۔

اسبابِ احتباس

احتباس مندرجہ ذیل اسباب ہوتا ہے۔

1۔ قوتِ ماسکہ کی سختی۔

2۔ قوتِ ہاضمہ۔

3۔ قوتِ دافعہ کی کمزوری۔

4۔ مجاری کی تنگی۔

5۔ سدّوں کا پڑ جانا۔

6۔ مادے کی غلظت یا لزوجیت(لیس)۔

7۔ طبیعتؔ کا کسی دوسری طرف متوجہ ہونا اور دفع کرنے کی حاجت کا احساس زائل ہوجانا۔

نوٹ:جب مادے کا اخراج پسینے کے ذریعے زیادہ ہوتا ہے تو پیشاب اور پاخانہ کم ہوجاتے ہیں یا بند ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح جب مادے کا اخراج بذریعہ قارورہ(پیشاب) زیادہ ہوتا ہےتو پسینہ اور پاخانہ میں کمی ہوجاتی ہے یا بند ہوجاتا ہے اور اسی طرح جب پاخانے میں زیادتی ہوتو قارورہ اور پسینے پر اثر پڑتا ہے۔

استفراغ

بدن کا وجود اور اس کا دارومدار غذاپر ہے۔ غذا کوئی بھی ایسی نہیں جو ساری کی ساری جزوِ بدن ہوجائے اور اس کا فضلہ نہ بنے پھر یہ فضلہ اگر باقی رہےاور اس کا اخراج نہ ہوتو بدن میں فاسد مادے اکٹھے ہوجاتے ہیں اس کے لئے استفراغ کی انتہائی ضرورت ہے اور احتباس کی ضرورت اس لئے ہے کہ غذا کچھ عرصہ جسم میں رہے تاکہ اس کا جوہر طبیعت حاصل کرلے۔

استفراغ اور احتباس کا اعتدال صحت و طاقت کے لئے نہایت ضروری اور مفیدہے۔ استفراغ کی زیادتی بدن میں خشکی اور سردی پیدا کرتی ہے۔ البتہ اگر جسم میں سردی یاخشک مواد کی زیادتی ہوتو گرمی خشکی بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ احتباس کی زیادتی سے جسم بوجھل ہوجاتا ہے، بھوک کم ہوجاتی ہے یا رک جاتی ہے۔ اکثر سدے پیداہوجاتے ہیں۔

2۔ اسبابِ ممرضہ

تعریف: ایسے اسباب (صورتیں اور حالتیں) جن کے عمل میں آنے سے جسم ِ انسانی کسی نہ کسی مرض میں گرفتار ہوجات ہے اور جب تک رفع نہ ہوں مرض قائم رہتا ہے۔اس کی تین اقسام ہیں۔

1۔ اسبابِ بادیہ۔2۔ اسبابِ سابقہ۔3۔ اسبابِ واصلہ۔

1۔ اسبابِ بادیہ

ایسے اسباب جو ظاہری صورت میں ہمارے گردونواح میں پائے جائیں جن کے اثرات میں مادی چیزوں کا دخل نہ ہوبلکہ وہ کیفیاتی (گرمی، سردی، خشکی، تری) ہوں یا نفسیاتی (غصہ، غم وغیرۃ) تفصیل ان کی یہ ہے کہ وہ اسباب نہ خلطی ہوں اور نہ ہی ترکیبی بلکہ اُن کا تعلق کارجی چیزوں سے ہومثلاً گرم ہوایا سردہوا اور نفسیاتی صورت میں غصہ اورخوف وغیرہ ۔

2۔ اسبابِ سابقہ

ایسے اسباب جن کا اثر ہمارے جسم پر ان کے مادے کی وجہ سے ظاہر ہویعنی کسی شے کے کھانے پینے کے بعد جواثرات پائے جائیں اور انہی کا نتیجہ ہوں گے۔

نوٹ: اسبابِ بادیہ اور اسبابِ سابقہ ایسے اسباب ہیں کہ ان کے اورمرض کے درمیان واسطہ ہوتا ہے یعنی وہ براہِ راست مرض پیدا نہیں کرتے بلکہ ایسی حالت پیدا کرتے ہیں جو مرض کا موجب بن جاتی ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ بعض اطباء نے صرف اسباب سابقہ ہی کو بالواسطہ مرض کا موجب تسلیم کیا ہے اور بادیہ کو اس سے خارج کردیا۔ لیکن ہم نے دونوں کو شریک کردیا کیونکہ اسبابِ بادیہ اور سابقہ دونوں اقسام واصلہ نہیں ہوتے۔

3۔ اسبابِ واصلہ

ایسے اسباب جن کے بعد معاً مرض نمودار ہوتاہے یعنی مرض اور سبب میں کوئی فرق یا دوری نہیں پائی جاتی یا دوسرے الفاظ میں ان کے اور مرض کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہوتا بلکہ وہ براہِ راست مرض پیدا کردیتے ہیں۔ کسی دوسری حالت کا اُن کو انتظار نہیں ہوتا۔جس کی بہترین مثال امتلاء (مواد کا اجتماع) ہے جو بخار کا موجب ہوتا ہےجو بخار کا موجب ہوتا ہے۔ گویا امتلاء بلاواسطہ بخارپیدا نہیں کرتا بلکہ اس کے اور بخار کے درمیان عفونت واسطہ بنتی ہے۔ امتلاء سے ابتداً عفونت لاحق ہوتی ہے اور پھر عفونت سے بخار ہوتا ہے اس صورت میں عفونت سبب واصلہ ہے جس کے ہوتے ہی بخارآجاتا ہے اور امتلاء سبب سابقہ کہلائے گا۔

نوٹ: دراصل اسبابِ واصلہ اسبابِ بادیہ اور اسبابِ سابقہ سے الگ نہیں ہیں بلکہ ان دونوںمیں سے جو بھی مرض کاباعث ہوجاتا ہے اسے اسبابِ واصلہ کہہ دیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھئے کہ جب یہی اسبابِ بادیہ و سابقہ اپنی شدت اختیارکر لیتے ہیں اور جس کے بعد مرض پیدا ہوجاتا ہےتو یہی اسبابِ واصلہ کہلاتے ہیں۔ گویا ہم ان کو “واصلہ” کا نام اس وقت دیں گے جب ان کے بعد معاً مرض پیدا ہو۔ اُن اسبابِ واصلہ کو اسبابِ شرکی بھی کہا جاسکتا ہے یعنی جن کی شرکت مرض کے ساتھ پائی جائے۔

مختلف طبوں کے اسبابِ فاعلہ(واصلہ)

جاننا چاہیے کہ طبِ یونانی کا سبب فاعلہ(واصلہ) مزاج اور اخلاط کی خرابی اور ان کی کمی بیشی اور ان کاجل جانا ہے۔ آیورویدک میں دوشوں کا خراب ہوجانا، ان کی کمی بیشی یا ان کا مقام بدل لینا ہے۔ ایلوپیتھی میں جراثیم اور زہریلے مواد کا اور کمزوری کاپایا جانا ۔ہومیوپیتھی میں روح کا بیمار ہوجانا۔ بایوکیمک میں جسم میں نمکیات کی کمی یا خرابی کا پیداہوجاناہے۔ کرموپیتھی میں خون کے اندر رنگوں میں کمی بیشی یا خرابی واقع ہوجانا ہے۔ سائیکوپیتھی میں انسانی جذبات میں خرابی واقع ہوجانا اور ان میں کمی بیشی کا ہوجانا اور ان کا غلط تربیت پاجاناہے۔ فزیوپیتھی میں اعضاء میں اس قسم کی خرابیاں واقع ہوجانا ہے کہ جن سے ان کے افعال میں افراط و تفریط واقع ہوجائے۔

واضح رہے کہ فزیوپیتھی کے علاوہ بای جملہ طریقہ ہائے علاج جن اسبابِ واصلہ کوتسلیم کرتے ہیں وہ سب تمام اسبابِ بادیہ یا سابقہ ہیں۔ وہ “واصلہ” اس وقت تک نہیں بن سکتے جب تک کسی عضو کے فعل میں تغیر واقع نہ ہو۔ مثلاً اگر جراثیم جسم کے اندر اثرا انداز ہوں تو وہ کسی عضو کے فعل ہی کوخراب کریں گےیا اگر جسم کے اندر جراثیم کی پیدائش بڑھ جائے تو بھی اس وقت تک مرض ناممکن ہے۔جب تک جسم کے کسی عضو میں خرابی واقع نہ ہو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صحیح طریقہ علاج میں اعضاء کے افعال کا جاننا بہت ضروری ہےاور یہی بات اور اصول شیخ الرئیس نے تعریفِ مرض میں بیان کیا ہے۔ لیکن اس امر سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اعضاء کی خرابی کے ساتھ ساتھ خون کے اندرجو کیمیائی خرابی اور تغیر پیداہوتا ہے اس کا علم بھی نہایت ضروری ہےکیونکہ اگر اعضاء کی خرابی سبب واصلہ ہے تو خون کے اندر کیمیائی تغیرات سبب بادیہ اور سابقہ کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اس لئے تشخیص میں اعضاء کی خرابی اور خون کی کیمیائی خرابی دونوں کا علم ہونا ضروری اور اہم ہے۔

اسبابِ جزوی

تعریف: ایسی صورتوں اور حالات کا اظہار جن سے گزشتہ تینوں اسبابِ ممرضہ ظہور میں آتے ہیں۔ جزوی اسباب دراصل کوئی جداگانہ اسباب نہیں بلکہ ان صورتوں اور حالتوں کی تشریح ہے جن سے اسبابِ ممرضہ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ تین قسم کے ہیں۔1۔ سوءِ مزاج۔2۔ مرض ترکیب۔3۔ تفرق اتصال۔

اسباب سوءِ مزاج

ان میں کیفیات، قویٰ اور عفونت کی تفسیر ہے۔

1۔ سوءِ مزاج گرم کے اسباب
1۔ حرکت جو اعتدال سے تجاوز کر جائے یہ حرکت یا تو بدنی ہوتی جیسے ریاضت کی کثرت یانفسانی جیسے غصہ۔2۔ حرارت بالفعل کی ملاقات کی علامات جیسے دھوپ یا آگ کی گرمی سے جسم میں گرمی پیدا ہوجائے۔3۔ حرارت بالقوۃ کی ملاقات مثلاً گرم دواؤں یا غذاؤں کا کھانا یا گرم ضمادوں کا لگانا حرارت بالقوۃ کا مقصد وہ گرمی ہے تو بالفعل گرم تو محسوس نہ ہولیکن اُس کی تاثیر سے بدن گرم ہوجائے جبکہ حرارت بالفعل سے مقصد یہ ہے کہ وہ بحالت موجودہ گرم محسوس ہو۔4۔ مساماتِ بدن کا کثیف ہوجانا، مسامات بدن کے کثیف ہوجانے سے حرارت کا اخراج نہیں ہوتا بلکہ اندرونی بدن میں جمع ہوکرگرمی پیدا ہوجاتی ہے اور مساماتِ بدن کو کثیف کرنے والی یہ چیزیں بالفعل سرد ہوں جیسے برف اور یخ یا بالقوۃ ہوں جیسے پھٹکڑی اور مازوہ وغیرہ۔5۔ عفونت یعنی مواد کا سڑ جانا جس سے بخار پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ ہر متعفن مقام پر گرم بخارات اُٹھنا شروع ہوجاتے ہیں جو جسم یا ماحول میں حرارت کا باعث ہوتے ہیں۔

2۔ اسبابِ سوءِ مزاج سرد
1۔ برودت (سردی) بالفعل کی ملاقات۔2۔ برودت بالقوۃ کی ملاقات۔3۔ کھانے کی بے حد کمی ، کم کھانے سے خون کم پیداہوگااور حرارتِ غریزی کو کم تقویت ملے گی۔4۔ کھانے کی بے حد زیادتی، بے حد زیادہ کھانے سے اخلاط نامکمل (کچے) رہ جاتے ہیں جس سے تخمہ و بدہضمی پیدا ہوتی ہے جو بدن کی حرارت کم کردیتی ہے۔5۔ مسامات کا بہت زیادہ کثیف و بند ہوجانا۔6۔ حرکت کی زیادتی ، حرکت کی زیادتی سے تحلیل کی زیادتی ہوجاتی ہے جو بالآخر سردی پیدا کر دیتی ہے۔7۔ سکون کی زیادتی، جس سے رطوبت کااخراج رک جاتا ہے اور حرارتِ غریزی سرد پڑ جاتی ہے۔8۔ مسامات کا کشادہ ہونا، اس سے حرارتِ غریزی کے بکثرتِ تحلیل ہونے سے سردی پیدا ہوجاتی ہے۔

3۔ سوءِ مزاج خشک کے اسباب
1۔ بالفعل خشک چیز کی ملاقات اس سے مراد گرم خشک اور سرد خشک کیفیات کی زیادتی اور نفسیاتی طور پر غصہ اور خوف کا پیدا ہونا ہے۔ 2۔ بالقوۃ خشک چیزوں کی ملاقات۔3۔ کھانے پینے کی کمی ، جس سے کم رطوبت پیدا ہوتی ہےجو بدلِ مایتحلل کے لئے کافی نہیں ہوتی۔4۔ حرکت کی زیادتی، جس سے رطوبت بکثرت تحلیل ہوتی اور خشکی کا باعث ہوتی ہے۔

4۔ سوءِ مزاج رطب کے اسباب
1۔ بالفعل تر چیزوں کی ملاقات جیسے تر ہوا ور شیریں پانی سے حمام کرنا۔2۔ بالقوۃ تر چیزوں کی ملاقات۔3۔ کھانے کی کثرت جس سے جسم میں بکثرت رطوبت اورچربی پیدا ہوتی ہے۔4۔ سکون کی زیادتی ، جس سے رطوبت کم تحلیل ہوتی ہے یا بالکل نہیں ہوتی۔

2۔ اسبابِ مرض ترکیب
ان میں فسادِ شکل، تغیر بدن او ر مجاری کی خرابیوں کی تفسیر ہے۔

1۔ اسباب فسادِ شکل

1۔ قوتِ مصورہ کا قصورجس سے مراد اس کے فعل کا ناقص ہونا ہے جس سے اعضاء کی مخصوص شکل نہیں بن سکتی۔2۔ قوتِ مغیرہ ( پھیلانے والی) کا قصور، اس سے مراد اس قوت کامادۂ تولید سے پوری طرح کام نہ لینا اور تیار نہ کرناہے۔3۔ ولادتِ غیرطبعی، اس سے مراد وہ باتیں ہیں جو رحم سے بچہ کے نکلتے وقت واقع ہوں جب کہ بچہ طبعی طورپر نہ نکل سکے۔4۔ تکمید(پٹی باندھنا) پٹی کے شدت سے باندھنے یا دیر تک قائم رکھنے میں اعضاء کی شکل عام طورپر بگڑ جاتی ہے۔5۔ سکتہ و ضربہ(گڑپڑنااور چوٹ لگنا) یا اعضاء کے سخت ہونے سے قبل چلنا پھرنا یا اُن پر دباؤ ڈالنایا کھینچنا۔

2۔ اسباب اتساع(کشادگی)مجاری
1۔ قوتِ ماسکہ کی کمزوری: جس سے مجاری کے ریشے ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔2۔ قوتِ دافعہ کی شدیدحرکت جس کے دباؤ سے راستے کھل جائیں۔3 ۔ادویاتِ مفتح: راستوں کو کھول دینے والی ادویہ مثلاً گرم تر اندرونی اور بیرونی ادویہ۔4۔ ادویاتِ مرخیہ: (ڈھیلا کردینے والی دوائیں) جن سے مجاری کے ریشے ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔

3۔ اسبابِ ضیق مجاری
ایسے اسباب جن سے مجاری تنگ ہوجاتی ہیں جو اکثر اس قسم کے اسباب ہوتے ہیں جو اسبابِ اتساع مجاری کے برعکس ہوں۔

4۔ اسبابِ سدہ
1۔ کوئی بیرونی چیز مجاری میں پھنس جائے ۔2۔ مجاری کا م منفذ (سوراخ) کسی زخم کے بھرنے کے باعث بند ہوجائے۔3۔ کسی مجریٰ (نالی) کے قریب کوئی ایسا ورم پیدا ہوجائے جس کے دباؤ سے وہ مجریٰ بند ہوجائے۔4۔ زیادہ سردی کے باعث سکیڑ پید ا ہوجائے۔5۔ قوتِ ماسکہ کا فعل زیادہ سختی کے ساتھ عمل کرے۔

5۔ اسبابِ خشونت
ایسے اسباب جن سے اعضاء کی سطح کھردری ہوجائے، اس کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ داخلی و خارجی و مہملی صورت میں کسی مادے کا گرنا اور خارجی صورت میں گردوغبار اوار دھوئیں کا اثراندازہونا۔

6۔ اسبابِ ملاثت
ایسے اسباب جن سے اعضاء کی سطح چکنی ہوجائے۔اس کی بھی دوہی صورتیں ہیں۔ داخلی و خارجی۔ داخلی صورت میں کوئی لیسدار خلط عضو پر گر کر اس کی سطح کو چکنا کردیتی ہے اور خارجی طور پرایسے موم روغن کسی عضو کی سطح پر لگایا جائے۔

7۔ مقداراور عدد کی زیادتی کے اسباب
1۔ مادے کی کثرت خواہ مادہ اچھاہو یا خراب۔2۔ قوتِ جاذبہ کی شدت جس سےاعضاء کے اندر بکثرت مواد جذب ہوجاتا ہے۔

8۔ مقدار اور عدد کی کثرت کے اسباب
1۔ مادے کی کمی۔2۔ قوتِ جاذبہ کی کمزوری۔3۔ قوتِ مصورہ کی غلطی۔

9۔ اسبابِ فساد وضع
ایسے اسباب جن سے کوئی عضو ضرورت کے خلاف دوسرے عضوسے قریب یادور ہوجائے یہ درج ذیل ہیں۔1۔ کوئی مادہ تشنجہ (کھنچنے والا)۔2۔ کوئی مادہ مرخیہ(ڈھیلا کرنے والا)۔3۔ قرح (زخم) کا اثر۔4۔ کسی خلط کی خشکی۔5۔ تحجرِ خلط: کسی خلط کا سخت ہوجانا ۔ 6۔ حرکت (غیر طبعی) کی زیادتی۔

3۔ تفرق اتصال
یہ ایسے اسباب ہیں جن سے جسم کے اندر ٹوٹ پھوٹ واقع ہو۔ اس کی دوصورتیں ہیں۔ داخلی و خارجی۔ داخلی صورت میں کوئی اکال (کھاجانے والی) خلط اس کو گلا سڑاکر کھا جائے یا کوئی محرق( جلانے والی) خلط عضوکو جلادے یا کوئی لاذع (کاٹنےوالی) یا صادع (پھاڑنے والی) جسم پر اثرانداز ہو کر نقصان پہنچائے۔ خارجی صورت میں تلوارسے کٹنا یا گولی سے سوراخ ہوجانا۔ رسی سے باندھ کر جھٹکا دے دینا یا آگ سے جلنا وغیرہ۔

علم العلامات

تعریف: علامات ایسے نشانات کو کہتے ہیں جن سے حالتِ صحت یا حالتِ مرض کا پتا چلتا ہے۔ یہ علامات گاہے مرض ہوتی ہیں اور گاہے عرض۔

اقسام

علامات کی تین اقسام ہیں جو تین زمانوں کے مطابق پائی جاتی ہیں۔1۔ماضی۔2۔حال۔3۔ مستقبل

علاماتِ ماضی

یہ عام طورپر اسبابِ بادیہ یا سابقہ پر روشنی ڈالتی ہیں جن سے اکثر ایک معالج ہی فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔جب وہ ان کا اظہار کرتا ہےتو یہ اس کی فضلیت اور قابلیت پر دلالت کرتا ہے۔ معالج کے لئے ان کا ہمیشہ ذہن میں رکھنا باعثِ عزت ہے۔ ایسی علامات کو مذاکرہ کہتےہیں۔

علامات حال

ان کی دوصورتیں ہیں۔ اول وہ جومریض بیان کرتا ہے دوسرے وہ جن کااظہار معالج کرتاہے۔ مریض ان کو بیان نہیں کرسکتا لیکن ان کے اثرات سمجھتا ضرور ہے۔ یہ علامات جو مریض بیان کرتاہے”شرکی” ہوتی ہیں۔ اورجو معالج بیان کرتا ہے”سبب واصلہ” ہوتی ہیں اور یہی تشخیص اور حقیقتِ مرض پرروشنی ڈالتی ہیں۔ ان کو علاماتِ حال کہتے ہیں۔

علاماتِ مستقبل

ایسی علامات جن سے مرض کے نیک وبد کاپتہ چلتا ہے۔کہ مرض خیر و خوبی سے انجام پائے گایا مریض ختم ہوجائے گا۔ ایسی علامات کے بیان سے معالج کی حذاقت اور حدث کا سکہ مریض پر بیٹھ جاتاہے۔ ان سے مریض بھی مستفید ہوتا ہے اور معالج کی شہرت اور عزت بڑھتی ہے۔ ان علامات کو “تقدم معرفت” کہتے ہیں۔ علاج کے دوران ان تینوں قسم کی علامات کا ذہن نشین رکھنا حاذق طبیب کے لئے انتہائی ضروری ہے۔یہ تینوں قسم کی علامتیں یا تو مزاجوں پر دلالت کرتی ہیں یا مشینی و کیمیائی ترکیب پر۔

اجناس علامات

یہ تمام علامات دس جنسوں میں تقسیم کی گئی ہیں۔

1۔ ملمس

چھوکر معلوم کرنا: اگر ملمس چھوکرگرمی محسوس کرے تو یہ حرارت کی علامت ہوگی، اگر سردی محسوس کرے تو برووت پر دلالت کرے گا، اگر نرمی محسوس ہوتو رطوبت پر اور سختی محسوس کرے تو خشکی کو ظاہر کرے گا۔ لیکن یہ یاد رہے کہ چھونے والے شخص کا مزاج معتدل ہونا چاہیے۔ اگر مزاج معتدل نہ ہوگا تو نتیجہ تسلی بخش نہیں آئےگا۔

2۔ لحم و شحم

گوشت وچربی: گوشت کی کثرت حرارت و رطوبت پر، چربی کی زیادتی کثرتِ برودت رطوبت پراور ان کی کمی رطوبت کی کمی پردلالت کرتی ہے سرخ رنگ کا گوشت اکثر بکثرت ہوتو ایسا جسم ٹھوس ہواکرتا ہے اس سرخ رنگ کا گوشت تھوڑا ہواور اس کے ساتھ چربی کی کمی ہوتو گرمی خشکی کی علامت ہے۔ چربی دو قسم کی ہوتی ہے۔ شحم (جمی سخت چربی)، اور سمین (پتلی چربی) کی زیادتی سے جسم ڈھیلا ہوجاتا ہے اور سردی غالب رہتی ہے۔

3۔ بال

بال اگر جلد اُگیں تو خشکی کی علامت ہے، بالوں کی کثرت گرمی پردلالت کرتی ہے اور قلت، رطوبت پر۔ اُن کی غلظت (موٹاپن)بخارات دخانیہ کی کثرت پر اور باریک ہونا بخاراتِ دخانیہ کی قلت پر دلالت کرتا ہے۔ بالوں کا گھنگھریالہ ہونا گرمی خشکی پر اور سیدھا ہونا سردی تری پر دلالت کرتا ہے۔ رنگت کے لحاظ سے بالوں کی سیاہی گرمی پر صہوبت (پیازی رنگ) سردی پر اور شقرت (زردی مائل سرخی)، حمرت (سرخی) دونوں اعتدال کے قریب ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ بالوں کی سفیدی سردی پر جس کے ساتھ کبھی تری کبھی خشکی ہوتی ہے۔

4۔ بدن کی رنگت

رنگت کی سفیدی حرارت کی کمی پر، سیاہی خشکی کی کثرت پر، سرخی خون کی زیادتی پر، زردی اور سرخی حرارت کی کثرت پر بینگنی رنگت سردی اور خشکی پر دلالت کرتی ہے۔ سفید رنگ بلغم کی علامت ہے۔اور رساسی ( سیسے کی مانند) رنگ سردی اور تری پر دلالت کرتا ہے۔

5۔ اخلاط

1۔ خون کی زیادتی کی علامات

1۔ سرکی گرانی، انگڑائی، جمائی، اونگھ، حواس کی کدورت، ذہن کی کندی، ذائقے کی شیرینی، بدن اور زبان کا سرخ ہونا، پھوڑے پھنسیوں کا نکلنا ، بہ آسا نی پھٹ جانے والے مقامات سے خون کا نکلنا۔ خون کی زیادتی کی علامت ہے۔

2۔بلغم کی زیادتی کی علامات

1۔ بدن کی رنگت کا سفید ہونا، بدن کا ڈھیلا ہونا، بدن کا ملائم اور سرد ہونا، لعابِ دہن کا بکثرت بہنا، پیاس کی کمی ( لیکن جب بلغم کے ساتھ صفرا ملا ہوا ہوتا ہے تو پیاس زیادہ لگتی ہے، کھاری(بُھس) ڈکاریں، نیند کی زیادتی ، بلغم کی علامات ہیں۔

صفراکی زیادتی کی علامات

1۔ بدن اور آنکھ کی زردی، ذائقہ کی تلخی، زبان کا کھردرا ہونا، منہ اور نتھوں کی خشکی، پیاس کی زیادتی، ضعفِ اشتہاء، متلی اور پھریری (کپکپی) یہ سب صفراکی زیادتی کی علامات ہیں۔

سودا کی زیادتی کی علامات

1۔ جسم کی لاغری اور نیلا ہونا، خون کی سیاہی اور گاڑھا ہونا، غوروفکر کی زیادتی، معدے کی جلن ، ترش ڈکاریں ، اشتہائے کاذب، قارورہ کا نیلا یا سیاہ ہونااور اکثر سرخ و غلیظ رہنا، بدن کی رنگت میں سیاہی اور بالوں کا زیادہ ہونا ، سودا کی علامات ہیں۔

6۔ اعضاء کی ساخت

ہاتھ پاؤں کابڑا سینہ اور رگوں کا کشادہ اور ابھرا ہونا، جوڑوں کا ظاہر ہونا یہ سب حرارت کی علامات ہیں اور ان کے برعکس سردی کی علامات ہوں گی۔

7۔ طبعی افعال

صحیح اور کامل افعال اعتدال کی علامات ہیں اور ناقص اور باطل افعال سردی پر دلالت کرتے ہیں۔ کاموں میں چستی اور چلاکی گرمی اور اس کے برعکس سستی اور غبی پن سردی کی علامات ہیں۔ پریشان، بے ترتیب اور بے قاعدہ افعال حرارت کی زیادتی کی علامات ہیں۔

8۔ نیند و بیداری

معتدل نیندو بیداری اعتدال مزاج کی دلیل ہے، بیداری کی کثرت گرمی خشکی کی علامت ہے اور نیند کی کثرت سردی تری کی دال ہے۔ نیند میں جو انسان خواب دیکھتا ہے اس میں بعض چیزیں مزاج پر دلالت کرتی ہیں جیسے خواب میں آگ اور شعلوں اور دیگر زرد سرخی مائل چیزوں کو دیکھنا صفرا کی زیادتی پر دلالت کرتا ہے۔ بارش، اولے، بادل، نہر و دریا، پانی وغیرہ اور سفید چیزوں کے خواب آنا بلغم کی علامت ہے۔ سرخ چیزوں ، بہتا ہواخون، جنگ و جدل کا دیکھنا غلبہ خون کی دلیل ہے۔ سیاہ اور خوفناک چیزوں مثلاً دھواں، سیاہ گائے، بھینس اور ریچھ وغیرہ کا دیکھنا سودا کی علامت ہے۔

9۔ انفعالاتِ انسانی

تیزمزاجی، کلام کی کثرت، سرعت اور تسلسل یہ سب حرارت پر دلالت کرتے ہیں۔ بے حیائی، طیش، جرات، یہ شدتِ حرارت کی دلالت کرتے ہیں اور ان کی برقراری یبوست پر اور فوری زائل ہوجانا رطوبت کی علامت ہے۔ بزدلی، خوف سردی کی علامات ہیں۔ غم ، غصہ اور مسرت حرارت کی علامات ہیں۔ حیا اور وقار کی زیادتی گرمی اور رطوبت پر دلالت کرتی ہیں۔

10۔ فضلات

فضلات کی زیادتی ، ان میں بو، رنگت میں پختگی حرارت کی دلیل ہیں اور اس کے برعکس سردی کی علامات ہیں۔

Download PDF

Qanoon Mufrad Aza, Tibb e Sabir, Hakeem Sabir Multani, Health, قانون مفرد اعضاء, حکیم صابر ملتانی, طب و صحت, طب صابر,

Leave a ReplyCancel reply

Exit mobile version