قسط40 کیا جنات لگنے کی باتیں جھوٹ ہیں

کیا جنات لگنے کی باتیں جھوٹ ہیں؟

ماڈرن اور سیکولر طبقہ اس بات سے انکار کرتا ہے کہ جن انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں یا کسی قسم کا نقصان پہنچاتے ہیں۔ بلکہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو جنات کے وجود کا ہی منکر ہے، اس حوالے بحیثیت مسلمان ہمیں قرآن وسنت سے جو رہنمائی ملتی ہے وہ معلوم ہونی چاہیے۔

انسان کو جن لگنے کی قرآنی دلیل:

الَّذِینَ یَاکُلُونَ الرِّبَا لَا یَقُومُونَ ِلَّا کَمَا یَقُومُ الَّذِی یَتَخَبَّطُہُ الشَّیطَانُ مِنَ المَسِّ (سورة البقرة: 275)

ترجمہ: جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہ کھڑے ہوں گے مگر اس طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے۔

اس آیت میں صریح دلیل ہے کہ شیطان انسان کے بدن میں داخل ہوکر اسے خبط الحواس بنا دیتا ہے۔آئیے چند مشاہر علماءو مفسرین کی طرف رجوع کرتے ہیں جن سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ جن انسان کے بدن میں واقعتا داخل ہوجاتا ہے۔

(1) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: سود خور کو روز قیامت اس مجنوں کی طرح اٹھایا جائے گا جس کا گلا گھونٹا جا رہاہو۔(ابن ابی حاتم)

عوف بن مالک، سعید بن جبیر،سدی، ربیع بن انس، قتادہ اور مقاتل بن حیان سے اسی طرح مروی ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھیں تفسیر قرطبی)

(2) امام قرطبی فرماتے ہیں: اس آیت میں ان لوگوں کے خلاف دلیل ہے جو جنات کے لگنے کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس فعل کا تعلق طبیعت سے ہے، نیز شیطان انسان کے اندر نہ تو داخل ہوسکتا ہے، نہ لگ سکتاہے۔ (تفسیر قرطبی 3/255)

(3) حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں: آیت کریمہ (الذین یاکلون الربا،،،،،) کا مطلب یہ ہے کہ سود خور اس طرح کھڑے ہوں گے جس طرح وہ مریض کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان لگاہو اور اسے خبطی بنا دیاہو، یعنی وہ عجیب وغریب حالت میں کھڑا ہوتا ہے۔ (تفسیرابن کثیر1/326)

(4) امام طبری ؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ سود کھانے والے اس طرح حواس باختہ ہوکر اٹھیں گے جس طرح دنیا میں وہ شخص تھا جسے شیطان نے آسیب میں مبتلا کرکے مجنوں بنا دیاہو۔

(5) امام آلوسی فرماتے ہیں: جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ اس طرح کھڑے ہوں گے جس طرح دنیا میں جن زدہ شخص کھڑا ہوتا ہے۔

لفظ ”تخبط” تفعل کے وزن پر فعل (یعنی خبط) کے معنی میں ہے۔ اور اس کی اصل مختلف انداز کی مسلسل ضرب ہے۔ اور ارشاد الہی (من المس) کا مطلب جنون اور پاگل پن ہے۔ کہاجاتا ہے ”مس الرجل فھو ممسوس” یعنی وہ پاگل ہوگیا، اور مس کا اصل معنی ہاتھ سے چھونا ہے۔ (تفسیر قرطبی)

(6) امام شوکانی ؒ نے فتح القدیر میں لکھا ہے: یہ آیت ان لوگوں کے خلاف دلیل ہے جنہوں نے جن چڑھنے کا انکار کیا اور گمان کیا کہ اس فعل کا تعلق طبیعت سے ہے۔

(7) ابوالحسن اشعری نے اپنی کتاب ”مقالات اہل السنہ والجماعہ” میں ذکر کیا ہے: وہ کہتے ہیں کہ جن مصروع (آسیب زدہ) کے بدن میں داخل ہوتا ہے جیساکہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

الَّذِینَ یَاکُلُونَ الرِّبَا لَا یَقُومُونَ لَّا کَمَا یَقُومُ الَّذِی یَتَخَبَّطُہُ الشَّیطَانُ مِنَ المَسِّ (سورة البقرة: 275)

ترجمہ: سود خور لوگ نہ کھڑے ہوں گے مگر اس طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے۔ (مجموع الفتاوی 19/12)

(8) امام ابن حزمؒ فرماتے ہیں: اللہ کا قول” کالذی یتخبطہ الشیطان من المس” میں مصروع میں شیطان کی تاثیر کا ذکر ہے اور یہ چھونے سے ہوتا ہے۔

(9) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ لکھتے ہیں: جن کا انسان کے بدن میں داخل ہونا بھی اہل سنت و جماعت کے اتفاق سے ثابت ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

الَّذِینَ یَاکُلُونَ الرِّبَا لَا یَقُومُونَ ِلَّا کَمَا یَقُومُ الَّذِی یَتَخَبَّطُہُ الشَّیطَانُ مِنَ المَسِّ (سورة البقرة: 275)

ترجمہ: سود خور لوگ نہ کھڑے ہوں گے مگر اس طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے۔

اور نبی ﷺ کی حدیث سے صحیح ثابت ہے۔ ”شیطان اولاد آدم کے رگ و پے میں خون کی جگہ دوڑتا ہے۔ (مجموع الفتاوی 24/276)

اسی لئے شیخ الاسلامؒ فرماتے ہیں ہیں: ائمہ مسلمین میں کوئی ایسا نہیں جو مرگی والے انسان میں داخل ہونے کا انکار کرتا ہو۔ اور جس نے اس کا انکار کیا اور یہ دعوی کیا کہ شریعت بھی اس کو جھٹلاتی ہے، اس نے شرع پر جھوٹ بولا، اور شرعی دلائل میں کوئی ایسی دلیل نہیں جو اس کی نفی کرتی ہو۔ (مجموع الفتاوی 24/277)

یہ بھی پڑھیں: قسط نمبر 34: حساب کروانا

جن لگنے کے دلائل احادیث سے:

(1) ان الشیطان یجری من ابن آدم مجرم الدم (صحیح بخاری ح 2175)

ترجمہ: شیطان ابن آدم میں اس طرح گردش کرتا ہے جس طرح خون۔

اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ شیطان انسان کے خون میں گردش کرتا ہے اور خون بدن کے اندر رہتا ہے اسی لئے ابن حجر ہیثمی ؒ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں ان لوگوں کا رد ہے جو شیطان کے انسانی بدن میں دخول کا انکار کرتے ہیں۔

امام نوویؒ شرح مسلم میں لکھتے ہیں کہ قاضی وغیرہ نے کہا یہ اپنے حقیقی معنی پر محمول ہے۔ اللہ تعالی نے شیطان کو قوت و طاقت دی ہے جس سے انسان کے اندر خون کے راستے سے داخل ہوسکتا ہے۔

(2)ابن ماجہ کی ایک روایت ہے ،ترجمہ: عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا عامل مقرر کیا، تو مجھے نماز میں کچھ ادھر ادھر کا خیال آنے لگا یہاں تک کہ مجھے یہ یاد نہیں رہتا کہ میں کیا پڑھتا ہوں، جب میں نے یہ حالت دیکھی تو میں سفر کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا ابن ابی العاص ہو“؟، میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے سوال کیا: ”تم یہاں کیوں آئے ہو“؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے نماز میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں یہاں تک کہ مجھے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شیطان ہے، تم میرے قریب آو، میں آپ کے قریب ہوا، اور اپنے پاوں کی انگلیوں پر دو زانو بیٹھ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے میرا سینہ تھپتھپایا اور اپنے منہ کا لعاب میرے منہ میں ڈالا، اور (شیطان کو مخاطب کر کے) فرمایا: «اخرج عدو اللہ» ”اللہ کے دشمن! نکل جا“ یہ عمل آپ نے تین بار کیا، اس کے بعد مجھ سے فرمایا: ”اپنے کام پر جاو“ عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: قسم سے! مجھے نہیں معلوم کہ پھر کبھی شیطان میرے قریب پھٹکا ہو۔اس حدیث میں دلیل ہے کہ صحابی رسول کے بدن میں شیطان داخل ہوگیا تھا، اسی وجہ سے نبی ﷺ نے اس شیطان کو اندر سے نکلنے کا حکم دیا۔ اگر شیطان اندر نہیں ہوتا تو نکلنے کا حکم دینا لغو اور عبث ٹھہرتا۔ اور ہمارے نبی ﷺ نے کبھی کوئی لغو بات نہیں کی۔

علامہ البانی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صریح دلیل ہے کہ کبھی شیطان انسان کی شکل اختیار کرتا ہے اور اس میں داخل ہوجاتا ہے، گرچہ مومن اور صالح آدمی ہی کیوں نہ ہو۔ (دیکھیں: سلسلہ الاحادیث الصحیحہ 2918)

(3) عن یعلی بن مرة رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: انہ اتتہ مراة ببن لہا قد اصابہ لمم- ای طرف من الجنون, فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: ”اخرج عدو اللہ انا رسول اللہ ”. قال فبرافاہدت لہ کبشین و شیئا من قط و سمن فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: یایعلی خذ القط والسمن و خذ احد الکبشین ورد علیہا الآخر(سلسلة الاحادیث الصحیحة 1/874)

ترجمہ: یعلی بن مرہ سے روایت ہے کہ کہ نبی ﷺ کے پاس ایک عورت اپنے بچے کے ساتھ آئی جسے جنون ہوگیا تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اے اللہ کے دشمن نکل جامیں اللہ کا رسول ہوں ”۔ وہ کہتے ہیں کہ بچہ ٹھیک ہوگیا تو اس عورت نے آپ کو دومینڈھا، کچھ دودھ اور گھی ہدیہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے یعلی دودھ، گھی اور ایک مینڈھا لے لو اور ایک مینڈھا اسے واپس کردو۔

یہ حدیث بہت سارے طرق سے مروی ہے۔اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے شیطان کو مخاطب کیا جو بچہ میں داخل ہوکر اس کی عقل میں فتور پیدا کردیا تھا جب شیطان کو نبی ﷺ نے رسول ہونے کا واسطہ دے کربچے کے اندرسے نکلنے کا حکم دیا تو بچہ درست ہوگیا۔

(4) عن عم خارجة بن الصلت التمیمی رضی اللہ عنہ -: (انہ اتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاسلم، ثم اقبل راجعا من عندہ، فمر علی قوم عندہم رجل مجنون موثق بالحدید، فقال اہلہ: نا حدثنا ان صاحبکم ہذا، قد جاءبخیر، فہل عندک شیءتداویہ؟ فرقیتہ بفاتحة الکتاب، فبرافاعطونی مائة شاة، فاتیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاخبرتہ، فقال: (ہل لا ہذا) وقال مسدد فی موضع آخر: (ہل قلت غیر ہذا)؟ قلت: لا! قال: (خذہا، فلعمری لمن اکل برقیة باطل، لقد اکلت برقیة حق)(السلسلة الصحیحة – 2027)

ترجمہ: خارجہ بن صلت تمیمی رضی اللہ عنہ کے چچا سے مروی ہے: وہ نبی ﷺ کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا۔ پھر آپ ﷺ کے پاس سے واپس لوٹ گئے۔ ان کا گذر ایک قوم کے پاس سے ہوا جن کے پاس ایک آدمی جنوں کی وجہ سے لوہے سے بندھا تھا۔ ان لوگوں نے کہا کہ بتلایا گیا ہے کہ تمہارے ساتھی (نبی ﷺ) نے بھلائی لایاہے۔ تو کیا آپ کے پاس کچھ ہے جس کے ذریعہ آپ اس کا علاج کرسکیں؟ تو میں نے اس پرسورہ فاتحہ کے ذریعہ دم کردیا۔ پس ٹھیک ہوگیاتو انہوں نے مجھے ایک سو بکریاں دی۔ میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو خبر دی۔ پس آپ نے کہا: کیا یہی تھا۔ مسدد نے کہا دوسری جگہ ہے: کیا اس کے علاوہ بھی پڑھا تھا؟ تو میں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: اسے لے لو۔ میری عمر کی قسم! جس نے باطل دم کے ذریعہ کھایا(اس کا بوجھ اور گناہ اس پر ہے)، تو نے تو صحیح دم کے ذریعہ کھایا(تم پر کوئی گناہ نہیں)۔

یہاں ایک آدمی کا ذکر ہے جسے جنون ہوگیا تھا جو آسیب (جن سوارہونے) کی وجہ سے تھا۔ جب اس پر فاتحہ کے ذریعہ دم کیا گیا تو درست ہوگیا۔

(5) اللَّہُمَّ ِنِّی اَعُوذُ بِکَ مِنَ الہَدمِ، وَاَعُوذُ بِکَ مِنَ التَّرَدِّی، وَاَعُوذُ بِکَ مِنَ الغَرَقِ، وَالحَرَقِ، وَالہَرَمِ، وَاَعُوذُ بِکَ اَنیَتَخَبَّطَنِیَ الشَّیطَانُ عِندَ المَوتِ، وَاَعُوذُ بِکَ اَناَمُوتَ فِی سَبِیلِکَ مُدبِرًا، وَاَعُوذُ بِکَ اَناَمُوتَ لَدِیغًا۔(صحیح سنن ابی داود، 5/ 275و صححہ الالبانی فی صحیح النسائی، 3/1123،)

ترجمہ: اے اللہ میں گرنے، ڈوبنے، جلنے، بڑھاپےسے تیری پناہ مانگتاہوں۔ اور تیری پناہ مانگتاہوں کہ مجھے شیطان موت کےوقت خبطی نہ بنادے، اور تیری پناہ طلب کرتاہوں کہ راہ جہاد سے پیٹھ پھیرتے ہوئے مارا جاں، اور میں تیری پناہ چاہتاہوں اس بات سے کہ ڈنسنے سے مارا جاں۔

 ابن اثیر کہتے ہیں کہ ” وَاَعُوذُ بِکَ اَنیَتَخَبَّطَنِیَ الشَّیطَانُ” یعنی شیطان مجھے پچھاڑدے اور میرے ساتھ کھیلے۔ (النہایة فی غریب الحدیث 2/8)

مناوی نے اپنی کتاب فیض (ج2ص148) میں عبارت کی شرح میں کہا ہے (اور میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ شیطان مجھے موت کے وقت خبطی کردے) کہ وہ مجھ سے چمٹ جائے اور میرے ساتھ کھیلنا شروع کردے اور میرے دین یا عقل میں فساد بپا کردے۔ (موت کے وقت) یعنی نزع کے وقت جس وقت پاں ڈگمگا جاتے اور عقلیں کام کرنا چھوڑ دیتی اور حواس جواب دے جاتے ہیں۔ اور بعض اوقات شیطان انسان پر دنیا کو چھوڑتے وقت غلبہ پالیتا ہے تو اسے گمراہ کردیتا یا پھر اسے توبہ سے روک دیتا ہے۔۔۔) الخ

(6) عَناَنَسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ: ”اللَّہُمَّ ِنِّی اَعُوذُ بِکَ مِنالجُنُونِ، وَالجُذَامِ، وَالبَرَصِ، وَسَیِّئِ الاَسقَامِ ”(صحیح ابو داد)

ترجمہ: انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کہتے تھے: ” اے اللہ! جنون (پاگل پن)، جذام، برص اور برے امراض سے تیری پناہ مانگتا ہوں ”۔

٭ امام قرطبی ؒ کہتے ہیں: کہ مس ہی جنون ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن 3/230)

(7) عن ابی سعید – رضی اللہ عنہ – قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:( ذا تثائب احدکم فلیضع یدہ علی فیہ، فن الشیطان یدخل مع التثاب) (صحیح ابو داوود 1375 و صحیح الجامع 426)

ترجمہ: ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا نبی ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لیا کرو کیونکہ شیطان جمائی کے ساتھ اندر داخل ہوجاتاہے۔

حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں اس کے تحت لکھا ہے کہ یہاں دخول حقیقی معنی پر محمول ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ دخول سے تمکن مراد ہو۔ (فتح الباری 10/628)

(8) عن عطاءبن رباح قال: قال لی ابن عباس – رضی اللہ عنہ –: (الا اریک امراة من اہل الجنة؟ قلت: بلی، قال ہذہ المراة السوداءاتت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقالت: نی اصرع ونی اتکشف فادع اللہ لی، قال: ن شئت صبرت ولک الجنة، ون شئت دعوت اللہ ان یعافیک؟ فقالت: اصبر، فقالت: نی اتکشف فادع اللہ لی ان لا اتکشف، فدعا لہا) (صحیح البخاری ح 5652)

ترجمہ: عطاءبن رباح سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا، مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تم کو جنت کی ایک عورت نہ دکھاں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں۔ تو انہوں نے کہا، یہ کالی عورت نبی ﷺ کے پاس آئی اور کہی: میں پچھاڑدی جاتی ہوں اور میں ننگی ہوجاتی ہوں پس آپ میرے لئے اللہ سے دعا کر دیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم صبر کروگی تو تمہارے لئے جنت ہے، اور اگر تم چاہوں میں اللہ سے دعا کردوں تاکہ ٹھیک ہوجاوتو اس عورت نے کہا: میں صبر کروں گی، کہی: میں ننگی ہوجاتی ہوں میرے لئے اللہ سے دعا کیجئے تاکہ ننگی نہ ہوسکوں، تو نبی ﷺ نے اس کے لئے دعا کی۔

٭اس حدیث میں صراع کا لفظ ہے جو آسیب کے لئے استعمال ہوتاہے۔بعض روایات میں ذکر ہے عورت کہتی ہے میں خبیث سے ڈرتی ہوں اور خبیث کی صراحت شیطان ملتی ہے۔ (فتح الباری 10/115)٭ ابن عبدالبرؒ نے الاستیعاب میں اور ابن الاثیر ؒ نے اسدالغابہ میں ام زفر کی سوانح میں لکھا ہے کہ یہ وہی عورت ہے جسے جن نے چھوا تھا۔٭ابن القیم ؒ نے لکھا ہے یہ کالی عورت خبیث روح کی جانب سے پچھاڑی گئی تھی۔ اس حدیث میں عورت کے اندر جن کے دخول کا واضح ثبوت موجود ہے۔

جن لگنے کی عقلی دلیل:

(1) شیخ محمد حامد کہتے ہیں: جب جنات لطیف اجسام ہیں تو انسان کے جسم میں ان کا جاری و ساری ہونا عقلا وشرعا محال نہیں، کیونکہ باریک چیز موٹی چیز کے اندر سرایت کر جاتی ہے مثلا ہواہمارے جسم میں داخل ہوجاتی ہے، آگ انگارے میں گھس جاتی ہے اور بجلی تار کے اندر چلی جاتی ہے۔(بحوالہ جادواور آسیب کا کامیاب علاج ص50)

(2) ایک جگہ غازی عزیرصاحب لکھتے ہیں: چونکہ یہ مخلوق جسم لطیف کی مالک ہیں لہذا ہم مادی طور پر نہ انہیں دیکھ پاتے ہیں اور نہ ہی محسوس کر پاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جنات اور شیاطین انسانوں کے بدن میں داخل ہوکر بالکل جذب ہوجاتے ہیں۔ اس بات کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ جس طرح جلتے ہوئے کوئلہ میں آگ، یاگیلی ریت، یا کپڑے میں، یابجلی کے تاروں، یا مقناطیس میں برقی، اور مقناطیسی لہریں، یادودھ میں پانی، یاپانی میں نمک اور شکر، یا ہوا میں خوشبو اور بدبو وغیرہ مکمل طور پر جذب ہوجاتی ہے اسی طرح جن اور شیاطین بھی انسان کے جسم میں داخل ہوکر جذب ہوجاتے ہیں۔ (جادو کی حقیقت کتاب وسنت کی روشنی میں ازغازی عزیرص 165)

جن لگنے سے متعلق چندعلماءکے بیانات و فتاوے

(1) عبد اللہ بن امام احمد بن حنبل ؒ بیان کرتے ہیں کہ ” میں نے اپنے والد سے کہا، بہت سے لوگ ایسا کہتے ہیں کہ کوئی جن کسی مصروع (جس پر جن سوار ہو) کے بدن میں داخل نہیں ہوسکتا توآپ نے فرمایا: اے بیٹے! وہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں، اصلا یہ شیطان ہی ہے جو ان کی زبان سے (یہ جھوٹ) بولتا ہے۔ (مجموع الفتاوی 24/277، رسالة الجن /8)

(2) شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے فرمایا: انسان کے جسم میں جنات کا داخل ہونا باتفاق اہل سنت ثابت ہے اور یہ بات غور وفکر کرنے والے کے مشاہدے میں ہے۔ جن مریض کے جسم میں داخل ہوتا ہے اور ایسی بات بولتا ہے جسے مریض نہیں جانتا بلکہ اسے اس کے بولنے کا پتہ نہیں ہوتا۔ (مختصر الفتاوی 584)

(3) حسن بصریؒ کا قول ہے: کہ اللہ تعالی جس پر چاہے انہیں مسلط کردیتاہے اور جس پر نہ چاہے اس پر مسلط نہیں کرتا اور وہ اللہ کے حکم کے بغیر کسی پر طاقت نہیں رکھتے۔

(4)ابن القیم ؒ کہتے ہیں: جاہل، گھٹیا اور نچلے درجے کے اطباءاور زندیقیت پر یقین رکھنے والے، روحوں کے جنوں کا انکار کرتے ہیں اور اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ روحیں مجنوں کے جسم پر اثر انداز ہوسکتی ہیں اور ان کا یہ انکار جہالت کی وجہ سے ہے کیونکہ فن طب میں بھی اسکی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے اور پھر حس اور وجود اس کے شاہد عدل ہیں۔ (زادالمعاد4/67)

(5) ابوالحسن اشعری ؒ کہتے ہیں کہ اہل السنہ والجماعہ کا کہنا ہے کہ جن مصروع (آسیب زدہ) کے بدن میں داخل ہوتا ہے۔

(6) علامہ محمود آلوسی ؒ لکھتے ہیں: بعض اجسام میں ایک بدبو داخل ہوتی ہے۔ اور اس کے مناسب ایک خبیث روح اس پر قابو پالیتی ہے اور انسان پر مکمل جنون طاری ہو جاتا ہے۔ بسااوقات یہ بخارات انسان کے حواس پر غالب ہوکر حواس معطل کردیتے ہیں اور وہ خبیث روح انسان روح کے جسم پر تصرف کرتی ہے او اس کے اعضائسے کلام کرتی ہے۔ چیزوں کو پکڑتی ہے اور دوڑتی ہے حالانکہ اس شخص کو بالکل پتہ نہیں چلتا اور یہ بات عام مشاہدات سے ہے جس کا انکار کوئی ضدی شخص ہی کر سکتا ہے۔ (روح المعانی، ج ۳، ص 28)

(7) شیخ البانی ؒ لکھتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم جن کا انسان پر تسلط قائم کرنے کا انکار نہیں کرتے کیونکہ سنت سے ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے بعض ایسے لوگوں کا علاج کیا جن کو جن نے چھوا تھا۔ (شریط:518)

(8) دائمی کمیٹی کے فتوی سے (انسانیجسم میں کسی جن کے داخل ہونے کے مسئلہ کے بارے میں بیان نمبر: 21518)”جن کے انسان میں داخل ہونے کے جواز پر شرعی دلائل اور علماءاہل سنت کے اجماع کا ہم نے جو ذکر کیا ہے اس سے قارئین پر اس کے انکار کرنے والوں کے اقوال کا غلط و باطل ہونا واضح ہوجاتا ہے ”۔(علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی)

(9) شیخ محمد بن صالح المنجدنے محمد حمود النجدی کے حوالے سے لکھا ہے: جن کا انسان کے بدن میں داخل ہونا یقینی طور پر کتاب وسنت اور بااتفاق اہل وسنت والجماعت اور حسی اور مشاہداتی طور پر ثابت ہے اور اس معاملہ میں سوائے معتزلہ کے جنہوں نے اپنے عقلی دلائل کو کتاب وسنت پر مقدم کیا ہے کسی اور نے اختلاف نہیں کیا۔ (الاسلام سوال و جواب فتوی نمبر 1819)

(10) شیخ ابوبکر الجزائری مدرس حرم نبوی نے ایک واقعہ ذکر کیا ہے۔ مختصرا عرض ہے کہ ان کی بڑی بہن سعدیہ ایک دن چھت سے زمین پر گر پڑی، جس جگہ گری تھی وہاں کوئی جن تھا۔ اس سبب وہ جن اس پر سوار ہوکر طرح طرح سے اسے ستانے لگا۔ متعدد بار ان کی زبان سے صراحت کے ساتھ اس جن نے یہ بات کہلوائی کہ میں ایسا اس لئے کرتا ہوں کہ فلاں دن، فلاں جگہ اس نے مجھے تکلیف پہنچائی۔ اذیت کا سلسلہ تقریبا دس سال تک چلتا رہا یہاں تک کہ اسی نتیجے میں ایک دن موت واقع ہوگئی۔(جادو کی حقیقت کتاب وسنت کی روشنی میں ازغازی عزیر) اناللہ واناالیہ راجعون

(11) شیخ ابن عثیمین ؒ کا قول ہے: اور ایسے ہی بعض اوقات جن انسان کے بدن میں داخل ہوجاتاہےیا تو عشق کی بنا پریا پھر تکلیف دینے کے لئے یا کسی اور سبب کی بنا پر۔(مجموع فتاوی از ابن عثیمین 1/288)

(11)احمد رضا ؒ بریلوی فتاوی افریقہ میں لکھتے ہیں کہ حاضرات(شریر جنات مختلف روپ میں آکر مسلمانوں کو ستاتے ہیں۔ بلکہ بسااوقات تو انسانی جسم میں ظاہر ہو کر کسی بزرگ کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور پھر لوگوں کے سوالات کے الٹے سیدھے جوابات دیتے ہیں، بیماریوں کا علاج بتاتے ہیں وغیرہ۔ اسی کو فی زمانہ حاضری کا نام دیا جاتا ہے) کر کے موکلاں جن سے پوچھتے ہیں فلاں مقدمہ میں کیا ہوگا؟ فلاں کام کا انجام کیا ہوگا؟ یہ حرام ہے۔ (تو اب جن غیب سے نرے جاہل ہیں ان سے آئندہ کی بات پوچھنی عقلاً حماقت اور شرعاً حرام اور ان (جنات) کی غیب دانی کا اعتقاد ہوتو کفر۔ (فتاویٰ افریقہ، ص 177)

مذکورہ کلام کی روشنی میں جن کا انسان کے بدن میں داخل ہونا واضح ہوجاتاہے، ان سارے ناقابل تردید دلائل وحقائق کے بعد انکار کی جرات کرنا نری جہالت اور حماقت ہے، دراصل کتاب وسنت سے ثابت شدہ ایک واضح دینی امر کا کھلا انکار کرنا ہے۔ اور جو حق واضح ہوجانے کے باوجود عنادوتکبر میں پڑا رہے تو ایسے لوگوں کے لئے میری زبان حال وقال سے یہ دعا نکلتی ہے۔

اللہم اہد قومی فنہم لا یعلمون

فہرست پر جانے کے لیے یہاں کلک کریں۔

Leave a ReplyCancel reply

Discover more from Nukta Guidance Articles

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Exit mobile version