قسط39 انسانی ذہن پر جادو کرنے کی جدید شکل

انسانی ذہن پر جادو کرنے کی جدید شکل

جس طرح دنیا میں باقی چیزوں نے ترقی کی ہے ایسے ہی کسی دوسرے انسان پر اثر انداز ہونے یا اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے طریقوں نے بھی ترقی کی ہے۔ پہلے لوگ جانوروں پر سفر کرتے تھے اب گاڑیوں اور جہازوں پر سفر کرتے ہیں۔ یہ ارتقاءہے اور ارتقاءکا عمل ہر چیز میں جاری رہتا ہے۔ عالمی دجالی خفیہ تنظیموں نے انسانی ذہن کو کنٹرول کرنے کے لیے نت نئے طریقے ایجاد کرلیے ہیں اور ان طریقوں سے گویا کہ وہ لوگوں کے ذہن پر جادو کرکے اپنی مرضی کے مطابق بنا لیتے ہیں۔ انہیں طریقوں میںسے دو طریقے کافی مشہور ہیں: ایک ”بیک ٹریکنگ۔ اور دوسرا” شارٹ ویژن۔

نکتہ سید عبدالوہاب شیرازی

بیک ٹریکنگ

بیک ٹریکنگ موسیقی کی دھنوں کے ذریعے انسانی ذہن پر اثر انداز ہونے اور اسے مرضی کے مطابق ڈھالنے کا ایک طریقہ ہے۔خاص طور پر پاپ میوزک کی دھنیں جو ٹیکنالوجی کی مدد سے کمپیوٹر پر بیٹھ کر تیار کی جاتی ہیں، ان دھنوں کے اندر کچھ منفی پیغامات ڈال دیے جاتے ہیں، جب کوئی بار بار یہ موسیقی سنتا ہے تو یہ منفی پیغام اس کے دماغ میں پیوست ہو کر اس کی روح تک پہنچ جاتا ہے اور ایک دن وہ انسان وہی کام کرگزرتا ہے جو موسیقی کی دھن کے ذریعے اس کے دماغ میں غیر شعوری طور پر داخل کیا گیا تھا۔

جیسے ہم کسی عمارت میں جاتے ہیں وہاں اسکینر لگے ہوتے ہیں، سیکورٹی گارڈ کھڑے ہوتے ہیں وہ ہمیں چیک کرتے ہیں، ہماری آئی ڈنٹٹی دیکھتے ہیں، اور پھر فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا یہ آدمی اس عمارت سے متعلقہ ہے یا نہیں۔ اگر وہ اس عمارت سے متعلقہ ہو تو سیکورٹی گارڈ اسے اندر داخل ہونے کا سگنل دیتے ہیں اور وہ اندر داخل ہو جاتا ہے، لیکن اگر کوئی غیر متعلقہ شخص ہو تو گارڈ اسے اندر داخل نہیں ہونے دیتے واپس کردیتے ہیں، لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کوئی شخص غلط نیت سے نقصان پہنچانے کے لیے اندر جاناچاہتا ہے تو اسے بھیس بدلنا پڑتا ہے یا جعلی کارڈ وغیرہ بنانا پڑتا ہے الغرض وہ چکما دے کر اندر داخل ہو جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہیں ہمارے دماغ کے دو حصے ہیں ،بائیاں حصہ کسی عمارت کے گیٹ کی طرح ہے وہاں چیکنگ اور سکیننگ ہوتی ہے ، جب بھی کانوں کے ذریعے کوئی آواز آتی ہے وہ پہلے بائیں حصے میں پہنچتی ہے وہاں اس کی اسکینگ ہوتی ہے آیا اس پیغام کو دائیں حصے میں بھیجنا چاہیے یا نہیں، اس بات کا فیصلہ ہر آدمی کی اپنی تعلیم، عقیدے، نظریے اور سوچ کے مطابق ہوتا ہے۔ اگر آنے والا پیغام اس کے مطابق ہو تو اسے بائیں طرف سے دماغ کے دائیں حصے میں داخل ہونے کا سگنل مل جاتا ہے اور وہ پیغام دائیں طرف داخل ہو جاتا ہے۔ ابھی کسی اچھی سوچ، اچھے نظریے والے کے دماغ میں غلط سوچ اور غلط نظریہ یا پیغام داخل کرنے کے لیے بیک ٹریکنگ کی تکنیک استعمال کی جاتی ہے۔ یعنی جس چور کو داخل کرنا ہے اس کا حلیہ تبدیل کیا جاتا ہے، اس کی بظاہر شکل ایسی بنائی جاتی ہے جو دماغ کے سیکورٹی گارڈ اور سکینر کو چکما دے کر اندر داخل کر سکے۔چنانچہ اگر کسی کو کہا جائے (اپنی ماں کو مارو) تو کوئی بھی اس پیغام کو روح تک نہیں پہنچنے دیتا اور رد کرتے ہوئے کہتا ہے استغفراللہ کیسی بات کرتے ہو، یہ نہیں ہوسکتا آئندہ ایسی بات میرے سامنے نہ کرنا۔لہذا اس پیغام کو اندر داخل کرنے کے لیے دجالی ذہنیت کے لوگ ان الفاظ یعنی اپنی (ماں کو مارو) ان الفاظ کا کیموفلاج کرکے، ان کی شناخت اور مفہوم کو ڈیپ کرکے موسیقی کی دھنوں میں ڈال دیتے ہیں، اور جب آدمی وہ موسیقی بار بار سنتا ہے یہ پیغام دماغ کے گیٹ پر پہنچتا ہے، سکیننگ ہوتی ہے لیکن پکڑا نہیں جاتا اور اگلا گیٹ کھل جاتا ہے اور یہ پیغام دائیں حصہ میں داخل ہوجاتا اور اور باربار سننے سے روح کا حصہ بن جاتا ہے اور ایک دن واقعی وہ آدمی اپنی ماں کو مارنا بھی شروع کردیتا ہے۔

یہ پاپ میوزک پہلے صرف انگلش میں ہوتا تھا لیکن اب اردو، پنجابی، پشتو سمیت ہر زبان میں آگیا ہے۔ مقامی میوزک بنانے والے خود میوزک تیار نہیں کرتے بلکہ دجالی لوگوں کے تیارکردہ میوزک سے کمپیوٹرپر مقامی گانے تیار کرتے ہیں، حالانکہ دجالی میوزک میں کئی عجیب و غریب اور کفریہ الفاظ بیک ٹریک کیے ہوتے ہیں۔ ہمارے بچے یہ موسیقی سنتے ہیں اور باربار سنتے ہیں تو وہ پیغامات ان کے دماغ میں رچ بس جاتے ہیں اور پھر وہ اسی طرح کی زندگی گزارتے ہیں جیسے پیغامات دماغ میں داخل کردیے گئے ہیں، اور ہم شکایت کررہے ہوتے ہیں ماں باپ تو اتنے نیک ہیں بچہ پتا نہیں اسے کیا ہوگیا ہے۔دنیا میں کئی ایسے واقعات دجالی لوگوں نے کروائے ہیں بلکہ آپ حیران ہوں گے موسیقی کی دھنوں میں ایک نظریہ دیا گیا، پھر اسے گانے کو پورے یورپ میں ہٹ کیا گیا اس طرح وہ نظریہ ہزاروں نوجوانوں کے دماغ میں داخل ہوا، اور پھر اسی ذہن سازی سے ایک تحریک کھڑی کی گئی اور وہ تحریک غالب بھی آئی۔

یہ بھی پڑھیں:  قسط نمبر26: ٹیلی پیتھی  قسط نمبر20: موکل ہمزاد قابو کرنے کا چلہ

شاید آپ میں سے کوئی یہ کہے میں تو عرصے سے میوزک سن رہا ہوں مجھے تو کچھ نہیںہوا۔تو جناب جیسے کوئی میڈیسن کسی پر فورا اثر انداز ہوتی ہے اور کسی پر اس کی پندرہ خوراکیں اثر انداز ہوتی ہیں ایسے ہی اس کا معاملہ بھی ہے۔ جو لوگ پہلے سے ہی دین سے دوری، گندی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، ان پر اثر جلدی ہوتا ہے اور جو دین ، قرآن وسنت سے جڑے ہوتے ہیں ان پر اتنا جلدی اثر نہیں ہوتا۔

شارٹ ویژن

انسانی دماغ کو کنٹرول کرنے اور پھر اپنی مرضی سے کام لینے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ شارٹ ویژن بھی ہے۔ جیسے بیک ٹریکنگ میں موسیقی کی دھنوں میں پیغامات چھپائے جاتے ہیں اور پھر لاشعوری طور پر موسیقی کے ساتھ انسانی دماغ میں داخل کیے جاتے ہیں ایسے ہی شارٹ ویژن میں ویڈیوز کے فریمز میں تصویری پیغامات ڈال کر لاشعوری طور پر انسان کے دماغ میں داخل کیے جاتے ہیں۔

ویڈیو بھی اصل میں تصاویر ہی ہوتی ہیں، یعنی ایک سیکنڈ کی ویڈیو میں پچیس سے پچاس ساٹھ تصاویر ہوتی ہیںجو ایک سیکنڈ میں تیزی کے ساتھ ساتھ گزرتی ہیں تو ہمیں متحرک نظر آتی ہیں۔ایک سیکنڈ میں ہماری نظروں کے سامنے سے جو پچیس یا تیس یا پچاس تصاویر گزرتی ہیں ان میں ایک تصویر اپنی مرضی کی داخل کردی جاتی ہے یعنی جو پیغام دماغ میں داخل کرنا ہے اس طرح کی ایک تصویر ویڈیو کے ایک فریم میں لگا دی جاتی ہے۔ اب ہمیں دیکھتے ہوئے وہ تصویر واضح طور پر نظر نہیں آتی لیکن ہمارا دماغ اسے کیپچر کر لیتا ہے، چونکہ وہ پچاس تصویروں میں سے ایک ہوتی ہے اس لیے دماغ کا بائیں طرف والا حصہ جہاں آنے والے پیغامات کو چیک کیا جاتا ہے اور سکیننگ کے بعد دوسرے حصے میں داخل ہونے کی اجازت ملنی ہوتی ہے وہاں رش کی وجہ سے وہ ایک تصویری پیغام چپکے سے داخل ہو جاتا ہے۔ جیسے کسی عمارت میں اگر ایک سیکنڈ میں پچاس آدمیوں کو داخل کرنا ضروری ہو جائے تو لامحالہ کوئی غیر متعلقہ شخص بھی ان پچاس کے ساتھ سیکورٹی والوں سے بچ کر داخل ہو جائے گا۔کیونکہ ایک سیکنڈ میں پچاس آدمیوں کی شناخت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک سیکنڈ میں پچاس تصویروں کے ساتھ ایک غیرمتعلقہ تصویری پیغام دماغ میں داخل کردیا جاتا ہے اور پھر وہ دماغ میں داخل ہوکر ذہنی کیفیت اور سوچ کو اپنی مرضی کے ساتھ ڈھال دیتا ہے۔

چنانچہ ایک بار کسی سینما حال میں اس کا تجربہ اس طرح کیا گیا کہ دکھائی جانے والی فلم کے فریمز میں کوکا کولا کی بوتل باربار دکھائی گئی، جو لوگوں کو فلم میں نظر تو نہیں آئی لیکن فلم کے دیگر تصویری فریمز کے ساتھ دماغ میں غیرشعوری طور پر داخل ہوگئی، پھر جب وقفہ ہوا تو اس وقفے میں زیادہ تر لوگوں نے دوسری بوتلوں کے بجائے کوکا کولا کی ہی ڈیمانڈ کی۔

ٹی وی کے اس طرح کے اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے برین واشنگ کے ایک ماہر تھیوڈ ایڈورڈ نے کہا کہ ٹیلی ویڑن کی صورت میں انسانی دل و دماغ اور جذبات پر مکمل کنٹرول کرنے کا ایک زبردست وسیلہ ہمارے ہاتھ آگیا ہے۔جس کا ہم خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ٹی وی آپ کے سامنے ایسی چیز پیش کرتا ہے ک آپ چاہیں یا نہ چاہیں انکو پسند کرنے پر خود کو مجبور پائیں گے۔ اور اس کے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں۔

دماغی تطہیر کے ایک ماہر فیڈرک ایمرے نے ٹی وی کی تصویروں کے گہرے اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ اس درجے موثر اور سحر انگیز ہوتی ہیں کہ دیکھنے والے کی تمام تر توجہ اپنے جانب کھینچ لیتی ہے۔ ٹی وی آنکھوں اور دماغ کو غیر معمولی حد تک متاثر کرتاہے۔ وہ اس طرح کے آنکھ ، آواز اور تصویر اور سابقہ معلومات کے درمیان ربطہ ہم آہنگی کا کام بڑی تیزی سے انجام دیتی ہے۔ ایسی صورت میں دماغ جسکا کام واقعات کا تجزیہ اور خبروں اور تصویروں کو مسلسل دیکھنا اور نتائج نکالنا ہے اپنا کام اس لیے انجام دینے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ ہر لمحہ مناظر بدلتے رہتے ہیں اس لیے تیزی سے بدلتے ہوئے مناظر و مشاہدات کا تجزیہ کسی صورت کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ اس لیے کہ ایسی صورت میں دماغ کے خلئے تیزی سے بدلتے مناظر کو کسی تجزیے اور کسی نتیجے تک پہنچے بغیر ہی جوں کا توں قبول کر لیتا ہے۔

تھیوڈ ایڈورڈ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ میڈیا کے ذریعے لوگوں کو عقلی پسماندگی پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ ٹی وی دیکھنے والوں کے بارے میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا کہ پوری دنیا کے پچاسی فیصد لوگوں نے ٹی وی کی وجہ سے اپنے کھانے پینے، سونے لکھنے پڑھنے اور کام کے پروگرام بدل دیے ہیں۔ انکی قوتِ فیصلہ پر ٹی وی اثر انداز ہو گیا ہے۔ وہ آزادانہ طریقے سے فیصلے کرنے کے قابل نہیں رہے۔ شعوری اور غیر شعوری طور پر وہ ٹی وی اور دوسرے ذرائع ابلاغ کے پروگراموں سے متاثر ہوتے ہیں۔ دراصل ذہنوں کو برقیاتی لہروں کے ذریعہ کنڑول کیا جاتا ہے جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ برقیاتی لہریں اور موسیقی لہریں انسانی ذہن پر بے شمار اثرات مرتب کرتی ہے۔۔ ہر لہر اور دھن کی تاثیر الگ ہوتی ہے۔ یہودی جادوگر ان لہروں کی تاثیر کے بارے میں کافی معلومات (تجربات) حاصل کر چکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کس لہر کے کیا اثرات ہوتے ہیں۔ اس کا مشاہدہ آپ موسیقی سننے والوں کی حالت دیکھ کر کر سکتے ہیں۔۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی وی دیکھنے والے مرد و خواتین ذہنی پریشانیوں نفسیاتی بیماریوں اور اعصاب کے کھچاﺅ کے شکار نظر آتے ہیں۔

فہرست پر جانے کے لیے یہاں کلک کریں۔

Leave a ReplyCancel reply

Exit mobile version